اسلام کا بیٹا: ضیاء الرحمٰن

ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمٰن اعظمی کی رحلت پر ایک تاثراتی تحریر

گزشتہ کچھ دنوں سے اساطینِ علم کی رحلت کی مسلسل موصول ہونے والی خبروں میں آج ایک دل دوز خبر کا اضافہ ہوگیا کہ مشہور محدث، مسجد نبوی میں حدیث کا درس دینے والے، حدیث کے ایک بڑے اور اہم پروجکٹ کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے والے اور سرزمینِ ہند کے سپوت ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمٰن اعظمی بدھ 30 جولائی 2020ء کو ظہر کے وقت اللہ کو پیارے ہوگئے۔ ان کی ایک انفرادیت یہ تھی کہ وہ پیدائشی مسلمان نہ تھے، بلکہ ان کا تعلق ضلع اعظم گڑھ کے قصبہ بلریا گنج کی ہندو فیملی سے تھا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں ہدایت دی، اس کے بعد انھوں نے اعلیٰ دینی تعلیم حاصل کرکے علم حدیث کے میدان میں درس و تدریس اور تصنیف و تالیف کی زبردست خدمت انجام دی۔ انھوں نے تنِ تنہا اتنا عظیم الشان کام انجام دیا جو وافر سہولیات اور محققین کی بڑی ٹیم کے ساتھ اکیڈمیوں کے کرنے کا ہوتا ہے۔
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا تعلق ایران کے ایک مجوسی خاندان سے تھا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد ان کی قدر و منزلت کا یہ عالم تھا کہ غزوئۂ خندق کے موقع پر مہاجرین کہتے تھے کہ سلمان ہمارے ایک فرد ہیں، انصار کہتے تھے کہ سلمان ہم میں سے ہیں۔ اس موقع پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سلمان تو ہمارے گھر کے آدمی ہیں“(الجامع الصغیر للسیوطی :4680)
علامہ حافظ أبونعيم الأصبہانی نے اپنی کتاب ”معرفة الصحابة“ (9/ 283) میں لکھا ہے: ”سلمان فارسی کی نسبت اسلام کی طرف تھی۔ وہ اسلام کے بیٹے تھے“۔ اِسی طرح آج کے زمانے میں جب خاندانی نسبتوں پر فخر کیا جاتا ہے اور انہیں عظمت کی نشانی سمجھا جاتا ہے، ہم فخر کرسکتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کا تعلق ہمارے ملک ہندوستان سے تھا اور چاہے ان کے حقیقی باپ کا نام معلوم نہ ہو، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، کیوں کہ وہ اسلام کے بیٹے تھے۔
ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمٰن کی ولادت 1943ء میں ہندوستان کی ریاست اترپردیش کے معروف ضلع اعظم گڑھ کے قصبہ بلریا گنج میں ایک ہندو گھرانے میں ہوئی۔ والدین نے ان کا نام بانکے رام رکھا۔ شبلی کالج اعظم گڑھ میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران میں وہ بعض شخصیات کے رابطے میں آئے، جس کے نتیجے میں اسلام کی نعمت سے مالامال ہوئے۔ دینی تعلیم کے حصول کے لیے جنوبی ہند کی مشہور درس گاہ جامعہ دارالسلام عمر آباد چلے گئے، جہاں سے عالمیت اور فضیلت کی اسناد حاصل کیں۔ اس کے بعد سعودی عرب تشریف لے گئے، جہاں الجامعۃ الاسلامیۃ المدینۃ المنورۃ سے گریجویشن اور جامعۃ الملک عبد العزیز مکۃ المکرمۃ (موجودہ نام: جامعۃ أم القریٰ) سے پوسٹ گریجویشن کیا۔ پی ایچ ڈی کی ڈگری جامع ازہر مصر سے حاصل کی۔ تعلیم سے فراغت کے بعد ان کی پوری زندگی سعودی عرب میں گزری۔ ابتدا میں رابطہ عالمِ اسلامی مکہ مکرمہ میں مختلف مناصب پر فائز رہنے کے بعد انچارج ہیڈ آفس جنرل سیکرٹری رابطۃ العالم الاسلامی رہے ۔ 1399ھ/ 1979ء میں کلیۃ الحدیث، جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں بطور پروفیسر متعین ہوئے۔ آپ نے عرصے تک مسجدِ نبوی میں صحیح بخاری اور صحیح مسلم کا درس دیا۔ درس و تدریس کے علاوہ آپ کا تصنیف و تالیف کا کام بھی بڑا قابلِ قدر ہے۔ آپ کی چند اہم کتابوں کے نام درج ذیل ہیں:
(1) أبوھریرة في ضوء مرویاته (2) أقضیة رسول الله ﷺ (3) دراسات في الجرح والتعدیل (4) المدخل إلی السنن الکبری للبیهقي (5) دراسات في الیهودیة والنصرانیة(6) فصول في أدیان الهند (7) معجم مصطلحات الحديث (8) المنة الکبری شرح وتخریج السنن الصغری للبیہقی (9) التمسک بالسنة في العقائد والأحکام (10) تحفة المتقین في ما صح من الأذکار والرقی والطب عن سید المرسلین ان کتابوں کو کئی ناشرین نے چھاپا ہے اور ان کے کئی ایڈیشن طبع ہوئے ہیں ۔آپ کا سب سے عظیم کارنامہ آپ کی تالیف ”الجامع الکامل فی الحدیث الصحیح الشامل“ ہے۔ اس میں تمام صحیح احادیث کو مختلف کتبِ احادیث مثلاً مؤطات، مصنفات، مسانید، جوامع، صحاح، سنن، معاجم، مستخرجات، أجزاء اور أمالی سے جمع کیا گیا ہے۔ ہر حدیث کی تخریج کے بعد اس کے صحیح اور حسن کا درجہ بھی بیان کردیا گیا ہے۔ قارئین کی سہولت کے لیے اس کتاب کو فقہی ابواب پر مرتب کیا گیا ہے۔ اس کا پہلا ایڈیشن دارالسلام سعودی عرب سے 2016ء میں 12 جلدوں میں شائع ہوا تھا۔ دوسرا ایڈیشن 2019ء میں دار ابن بشیر، پاکستان سے 19 جلدوں میں طبع ہوا ہے۔ (ان میں سے ایک جلد فھارس کی ہے) یہ کتاب سولہ ہزار پانچ سو (16500) صحیح حدیثوں پر مشتمل ہے۔
آپ کی متعدد کتابیں ہندی زبان میں ہیں، جن میں ”قرآن کی شیتل چھایا“ اور ”قرآن مجید کی انسائیکلوپیڈیا“ بہت مشہور ہیں اور ان کے بہت سے ایڈیشن منظرِعام پر آئے ہیں۔
میری سعادت ہے کہ مجھے تقریباً تین برس قبل ڈاکٹر صاحب کے دولت کدے پر حاضری دینے، ان سے ملاقات کرنے اور کچھ دیر ان کی صحبت میں بیٹھنے کا موقع ملا۔ اس کی تقریب یوں ہوئی کہ 2017ء کے اواخر میں مجھے اور میرے ہم زلف مولانا جبریل امین صدیقی فلاحی کو اپنی اپنی فیملی کے ساتھ عمرہ کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ میں نے پوری رازداری برتی کہ احباب کو میرے سفر کا علم نہ ہوپائے، تاکہ حرمین میں پورے سکون کے ساتھ زیادہ سے زیادہ عبادت کرنے کا موقع مل سکے۔ مکہ مکرمہ کی حد تک تو میں کامیاب رہا، لیکن مدینہ منورہ میں میرے عزیز دوست مولانا انس فلاحی سنبھلی کو، جو خود کو میرا شاگرد بتاتے ہیں، خبر لگ گئی۔ وہ اُن دنوں جامعہ اسلامیہ کے طالب علم تھے۔ وہ ایک ہفتہ مسلسل سائے کی طرح میرے ساتھ لگے رہے، مقاماتِ مقدسہ اور تاریخی آثار کی زیارت کروائی، تحریکی افراد اور غیر تحریکی شخصیات سے ملاقاتیں کروائیں۔ انھوں نے ڈاکٹر ضیاء الرحمٰن سے بھی میری ملاقات کا اہتمام کیا، ان سے وقت لیا، مجھے ان کی رہائش گاہ تک پہنچایا اور برابر میرے ساتھ رہے۔
ڈاکٹر ضیاء الرحمٰن سے میری یہ ملاقات بہت یادگار رہی۔ اس ملاقات میں مولانا جبریل امین صدیقی، مولانا طاہر مدنی کے صاحب زادے عزیزی عبدالرحمٰن اور عزیزی سعود اختر اعظمی فلاحی بھی ساتھ تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے ہمارا پُرتپاک استقبال کیا اور ہمیں اپنے ڈرائنگ روم میں بٹھایا، جسے ڈرائنگ روم کے بجائے لائبریری کہنا زیادہ موزوں ہوگا، کیوں کہ اس میں بڑی بڑی الماریوں میں حدیثی مصادر و مراجع کے نئے نئے ایڈیشن بہت سلیقے سے رکھے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر صاحب سے دیر تک باتیں ہوتی رہیں۔ ان کی موجودہ مصروفیات کے بارے میں دریافت کیا تو انھوں نے اپنی متعدد تالیفات دکھائیں۔ ان کی ”الجامع الکامل“ کا تذکرہ نکلا تو انھوں نے بتایا کہ دارالسلام والوں نے اسے 12 جلدوں میں شائع کیا ہے۔ اس پر نظرثانی کا کام کرلیا ہے۔ اگلا ایڈیشن 18 جلدوں میں شائع ہونے کی توقع ہے۔ یہ جان کر خوش گوار حیرت ہوئی کہ ان کی بعض کتابیں ہندی زبان میں شائع ہوئی ہیں، جو بڑی مقبول ہیں۔ انھوں نے ہندی میں قرآن انسائیکلوپیڈیا کا تذکرہ کیا، جسے کئی ناشرین نے چھاپا ہے، اور اس کے بہت سے ایڈیشن منظرعام پر آئے ہیں۔ میں نے ان سے تذکرہ کیا کہ بعض سائٹس پر آپ کو پاکستانی بتایا گیا ہے، تو انھوں نے تعجب کا اظہار کیا۔ جماعت اسلامی ہند کی سرگرمیوں کے بارے میں انھوں نے جاننا چاہا۔ میں نے کچھ تفصیل بتائی تو اس پر بہت خوشی کا اظہار کیا۔ انھوں نے فرمایا کہ ہندوستان میں غیر مسلموں کے درمیان کام کرنے اور ہندو مسلم منافرت کے بڑھتے رجحان پر قابو پانے کی سخت ضرورت ہے۔
گفتگو کا سلسلہ بہت دیر تک جاری رہا، اس میں وقت کا اندازہ ہی نہیں ہوا۔ سوچا کہ مزید زحمت دینا مناسب نہیں ہے، اس لیے اجازت لینے کا ارادہ کیا۔ مجھے اس پر حیرت ہورہی تھی کہ اتنی دیر رہنے کے باوجود ڈاکٹر صاحب نے کچھ کھلانے پلانے کا اشارہ تک نہیں کیا۔ قریب تھا کہ ہم لوگ رخصت ہونے کی اجازت لیں کہ اندر سے لذّتِ کام و دہن کے سامان برآمد ہونا شروع ہوئے۔ ڈاکٹر صاحب نے ہم لوگوں کی ضیافت کے لیے خاصا انتظام کروایا تھا۔ ہم نے جی بھر کر کھایا، انھوں نے اصرار کرکے مزید کھلایا۔
آج ڈاکٹر ضیاء الرحمٰن اعظمی کی وفات کی خبر سن کر بہت صدمہ ہوا۔ بڑی بڑی علمی شخصیات جس تیزی سے اٹھ رہی ہیں وہ بڑی تشویش کی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان کی خدمات کو قبول فرمائے، امت کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے، ان کی مغفرت فرمائے، انھیں جنت الفردوس میں جگہ دے اور پس ماندگان کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین!۔