۔(یہ تحقیقاتی مضمون The Uninhabitable Earthکا ترجمہ ہے۔ نیویارک میگزین کی تاریخ میں یہ سب سے زیادہ پڑھا جانے والا مضمون ہے۔ اپنی اشاعت کے دوگھنٹوں میں ہی یہ اخبارات، رسائل، بلاگز، اور ٹوئٹر پر تبصروں کا موضوع بن چکا تھا۔ ریسرچ صحافی ڈیوڈ ویلس ویلز نے یہ مضمون درجنوں سائنس دانوں اورماہرین کے مفصل انٹرویوز اور آراء سے کشید کیا ہے۔ مترجم)۔
…٭…٭…٭…
انسان، ممالیہ انواع کی مانند گرم انجن ہیں، ان کی بقاء مسلسل حرارت کی کمی میں ہے۔ اسے مسلسل ٹھنڈک کی فراہمی ناگزیر ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ درجہ حرارت کافی کم ہو، تاکہ ہوا ٹھنڈا رکھنے والے refrigerantکی مانند کام کرے، گرمی کم کرے، تاکہ انجن ٹھیک سے کام کرسکے۔ اگرحدت سات درجے پر چلی جائے تو کرۂ ارض کے خط استوا پر، خاص طور پرمنطقہ حارہ (گرم خطوں) میں زندگی ناقابلِ بسر ہوجائے گی۔
بدلتے موسم کو شک کی نگاہ سے دیکھنے والے کہتے ہیں کہ زمین پہلے بھی کئی بار گرم و سرد سے گزر چکی ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ ان تغیرات کے دوران انسانی زندگی کی بقاء بہ مشکل ہی ممکن ہوئی ہے۔ یہی کرۂ ارض کی ماحولیاتی تاریخ کی سچائی بھی ہے۔ گیارہ سے بارہ درجے گرمی میں، دنیا کی آدھی سے زائد آبادی براہِ راست شدتِ حدت سے ہی مرجائے گی۔ تاہم حالات کہتے ہیں کہ یہ صدی اس حد تک گرم نہیں ہوگی۔ اگرچہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کا مسلسل اخراج خطرے کی تیز ٹک ٹک سُنا رہا ہے۔ اکیسویں صدی میں، خاص طور پر گرم خطوں میں، سات درجہ گرمی پڑنے سے پہلے ہی خاصی تکلیف دہ صورت حال پیدا ہوچکی ہوگی۔ موجودہ صورت حال یہ ہے کہ اکثر خطوں میں حرارت پیما (wet-bulb) 26 سے 27 ڈگری سیلسیس پر ہیں، اور قابلِ بودو باش زندگی کی سرخ لکیر35 ڈگری سیلسیس ہے، جسے ’’حدت کی شدت‘‘ کہا جاتا ہے، اور جو ہمارے سروں پرآچکی ہے۔
دراصل ہم اُس مرحلے میں پہلے ہی داخل ہوچکے ہیں۔ سن 1980ء سے زمین کئی مقامات پر پچاس گنا زیادہ حدت کا تجربہ کرچکی ہے، اس میں بڑا اضافہ ہونے والا ہے۔ سن1500ء کے بعد یورپ کے پانچوں گرم ترین موسم 2002ء کے بعد سامنے آئے ہیں، اور بہت جلد جیسا کہ آئی پی پی سی سی خبردار کرچکی ہے، گرمیوں میں زمین کے اکثر حصوں میں کھلی فضا میں زندگی مضر صحت ہوجائے گی۔ یہاں تک کہ اگر ہم آئی پی سی سی کا دودرجہ ہدف پورا بھی کرلیں، کراچی اور کولکتہ جیسے شہر ناقابلِ بودوباش ہوجائیں گے۔ سالانہ مہلک ’’گرمی کی لہروں‘‘ سے سامنا رہے گا، جیسا کہ سال2015ء میں دیکھا گیا۔ درجہ چار پر، 2003ء کے یورپ میں خطرناک ہیٹ ویو چلی تھی، یومیہ دوہزار افراد لقمہ اجل بنے تھے، یہ آئندہ معمول کا موسم ہوجائے گا۔ چھے درجے پر، نیشنل اوشنک اینڈ ایٹموسفرک ایڈمنسٹریشن کے مطابق امریکہ کی مسسپی وادی میں گرمیوں کے دوران ہر طرح کی محنت مزدوری ناممکن ہوجائے گی۔ جیسا کہ جوزف روم نے اپنی معروف کتاب Climate Change: What Everyone Needs to Knowمیں لکھا ہے کہ نیویارک سٹی میں گرمی کی شدت آج کے بحرین کی گرمی جیسی ہوجائے گی، اور بحرین زمین کے گرم ترین خطوں میں سے ایک ہے، یہاں کا درجہ حرارت سوتے ہوئے انسان کے جسم کا درجہ حرارت تک بڑھا دیتا ہے۔ اس صدی کے آخر تک ورلڈ بینک کے تخمینے کے مطابق جنوبی امریکہ، افریقا، اور بحرالکاہل کے سب سے ٹھنڈے موسم ، بیسویں صدی کے آخری گرم موسموں سے بھی زیادہ گرم ہوجائیں گے۔ ائیر کنڈیشنگ مددگار ہوگی مگر کاربن کے مزید مسائل پیدا کردے گی۔ عرب امارات کے ائیر کنڈیشنڈ مالز اُس پر مستزاد ہوں گے، دنیا کے ہرگرم خطے تک ائیرکنڈیشنگ کے اطلاق کا خیال بظاہر معقولیت پسندی نظر نہیں آتا۔ جبکہ بہت سے خطے غریب ترین بھی ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ اور خلیج فارس میں صورت حال بہت ڈرامائی ہوجائے گی، جہاں سال2015ء میں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت163ڈگری فارن ہائیٹ ریکارڈ کیا گیا تھا۔ زیادہ سے زیادہ چند دہائیوں میں حج کی ادائیگی بہ یک وقت بیس لاکھ افراد کے لیے جسمانی طور پر ناممکن ہوجائے گی۔ بات صرف حج تک محدود نہیں، اور نہ مکہ پر ختم ہے، گرمی ہمیں پہلے ہی ہر جانب جھلسا رہی ہے۔
ال سلواڈور میں گنے کی کھیتیاں، جہاں آبادی کا پانچواں حصہ گردے کی بیماریوں میں مبتلا ہے، ان میں ایک تہائی سے زائد مردوں پر مشتمل ہے، یہ کاشت کاری کے دوران ڈی ہائیڈریشن (جسم میں پانی کی کمی)کا نتیجہ ہے۔ یہ وہ زرعی زمینیں ہیں جہاں دو دہائیوں پہلے یہی مریض صحت بخش ماحول میں سہولت سے کام کیا کرتے تھے، آج وہ مہنگی ڈائیلاسز کے ساتھ مشکل زندگی بسر کررہے ہیں، اس زندگی کی عمر پانچ سال سے زائد متوقع نہیں ہے، اور اگر یہ سہولت بھی نہ ہو تو یہ زندگی چند ہفتوں میں ختم ہوجائے۔ یقیناً ’حدت کی شدت‘ ہمیں گردوں کے علاوہ بھی کئی جسمانی عارضوں میں مبتلا کرسکتی ہے، کررہی ہے۔
(ترجمہ: ناصر فاروق)
(جاری ہے)