ایک تہذیبی گھرانے (خانوادۂ ناطقؔ لکھنوی) سے تعلق رکھنے والے بڑے وضع دار جمیلؔ ادیب سید نہ صرف معروف اہلِ قلم میں سے ہیں بلکہ ایک کہنہ مشق خطاط و مصور بھی ہیں جو گزشتہ نصف صدی سے ادبی منظرنامے میں موجود ہیں۔ علمی، ادبی تقاریب میں گاہِ بگاہ نیاز حاصل ہوتا رہتا ہے۔ احوالِ دل یوں بیان کرتے ہیں: ۔
’’ناظرؔ بدایونی کے گھر سے پندرہ روزہ شعری نشستوں میں فطری سماعتی شوق کی بدولت بارہ سال کی عمر میں شریک ہونے کا شرف حاصل ہوا جوکہ اگرچہ ہمارے باقاعدہ استادِ محترم تو نہیں لیکن دل میں ان کا احترام ایک استاد جیسا ہی ہے، اگر وہ ڈانٹ کر منع کردیتے تو ہماری شاعرانہ سوچ دم توڑ دیتی۔ لیکن اس ادبی ماحول کے اثرات مرتب ہونے پر جب ’’تک بندی‘‘ شروع ہوئی تو انہوں نے حوصلہ افزائی کی۔ غزل کہنے پر عبور حاصل ہونے کے بعد ناظرؔ صاحب کے علاوہ مقامی ادبی تنظیموں کی شعری نشستوں میں شریک ہوتا رہا۔ اس سلسلے میں ایک ادبی تنظیم ’’بزم شعر و ادب‘‘ بھی قائم کی، جس کے تحت 35 سال تک مشاعرے ہوتے رہے۔‘‘
ان امور کی گواہی محترم سرور جاوید نے یوں دی: ۔
’’ان کی شاعری میں دو تخلیقی لہریں متوازی طور پر چلتی ہیں، ایک وہ لہر جو ان سے وہ لکھواتی ہے جو ان پر گزرتی ہے، اور ایسی تمام غزلیں انہوں نے جب بھی کسی مشاعرے میں سنائی ہیں ہمیشہ داد و تحسین حاصل کی ہے۔ دوسری وہ لہر ہے جو شاعری کو فریضہ سمجھتی ہے جسے ہم پرانی تنقیدی لغت میں ’’آورد‘‘ کہتے ہیں۔ ایسی غزلوں میں مشکل مقام آتے ضرور ہیں، تاہم جمیل ادیب سید ان مشکلات سے بآسانی گزر جاتے ہیں‘‘۔
شاعری میرا جنوں ہے یوں ہے
گویا حرفوں کا فسوں ہے یوں ہے
اس کو بھی ہجر کا افسوس نہیں
میرے دل کو بھی سکوں ہے یوں ہے
جمیل ادیب سید پختہ شاعر ہونے کے ساتھ نہ صرف ایک اچھے افسانہ نگار بلکہ خطاط و مصور بھی ہیں، جس کے عکس ان کے اشعار میں نمایاں دکھائی دیتے ہیں:۔
ہوا پہ منظر بنا رہا ہوں
حسین پیکر بنا رہا ہوں
تراشنے ہیں مجھے وہ چہرے
جنہیں میں اندر بنا رہا ہوں
جنہیں سجایا تھا میں نے دل میں
وہ خواب اکثر بنا رہا ہوں
کہیں پہ ہے خضر کا تصور
کہیں سکندر بنا رہا ہوں
جمیلؔ چن چن کے کنکروں کو
میں آج گوہر بنا رہا ہوں
نصف صدی پہ محیط یہ سفر ابھی جاری ہے، گوکہ یہ ان کا طبع ہونے والا پہلا مجموعہ ہے، مگر گزشتہ دہائیوں میں پانچ مجموعے کتابت کے مراحل طے کرنے کے باوجود معاشی مجبوریوں اور ملازمت کے مسائل کی وجہ سے طبع نہ ہوسکے مگر ان کا ابلاغ مشاعروں، شعری نشستوں میں ہوتا رہا۔ وہ حالات سے دل برداشتہ ہوئے مگر حکایت ِدل رقم کرتے رہے۔ یہ کرب اس مجموعہ میں بھی عیاں ہے:۔
بات چلتی نظر نہیں آتی
رُت بدلتی نظر نہیں آتی
روشنی پہ لپکنے والوں کو
شمع جلتی نظر نہیں آتی
جانے ٹہری ہوئی کہاں ہے نظر
رات ڈھلتی نظر نہیں آتی
تم طبیعت سنبھال لیتے تھے
اب سنبھلتی نظر نہیں آتی
ہجر دیوار آہنی ہے جمیلؔ
جو کہ ڈھلتی نظر نہیں آتی
زمانے کے گرم و سرد سے نبرد آزما جمیلؔ آج بھی حکایتِ دل کے ساتھ حکایت ِدوراں لکھ رہے ہیں:۔
کسی بھی قوم کی زندہ نشانی
کہانی در کہانی در کہانی
ذرا سی بات کا افسانہ گڑھنا
زمانے کی ہے یہ عادت پرانی
مری ناراضگی بس اوپری ہے
تُو مجھ کو جانتا ہے یارِ جانی
بہت کچھ زندگی میں پا لیا ہے
ہمیں ہے یاد عمرِ رائیگانی
سنائے جا جو دل میں آ رہا ہے
ہمیں بھاتی ہے تیری گل فشانی
جمیلؔ اس آس پر ہم جی رہے ہیں
ہمیں مل جائے حرفِ جاودانی
جمیلؔ خوش نصیب ہیں کہ انہیں ’’اگر‘‘ کی صورت حرفِ جاودانی مل گئے اور اہلِ ادب تک ان کا پیغام پہنچ گیا۔
کوئی پیغام گر نہ پہنچے جمیلؔ
شعر گوئی کا فائدہ کیا ہے
160 صفحات پر عمدہ طباعت کے حامل اس مجموعے میں حمد و نعت کے علاوہ 70 غزلیں اور 10نظمیں شامل ہیں۔ خوب صورت سرورق کے ساتھ اس مجموعے کی قیمت 300 روپے ہے۔ سرورق سید کاشف مظفر زیدی نے خوب بنایا ہے۔