ایک شیر، ایک لومڑی اور ایک گدھا… تینوں میں اتفاق سے ایک دن یہ عہد و پیمان ہوا کہ آج جو شکار ہو اُس کے تین حصے برابر کرلیں۔ ایک ہرن سب کی کوشش سے شکار ہوا۔ گدھے کو حصہ بانٹنے کے لیے پنچ مقرر کیا گیا۔ گدھے نے انصاف سے برابر کے تین حصے کرکے شیر سے کہا: ’’جو حصہ آپ کو پسند ہو اٹھا لیجیے‘‘۔
شیر نے حصوں کی طرف نظر کی اور کہا: ’’اے بے ایمان یہ کیسے چھوٹے بڑے حصے تُو نے لگا دیئے! اگر میں چھوٹا حصہ لوں تو اپنا نقصان کروں، اور بڑا لوں تو دوسروں کا حق ماروں۔ تُو بڑا بدذات ہے اور تیرا مار ڈالنا بڑے ثواب کی بات ہے‘‘۔
یہ کہہ کر گدھے کو پچھاڑ ڈالا۔ پھر لومڑی سے کہا: ’’تیری عقل و دیانت کی بڑی شہرت ہے۔ تُو بے شک دانائی اور انصاف کے ساتھ برابر حصے کرسکتی ہے‘‘۔
لومڑی نے تمام گوشت تو ایک حصے میں رکھا اور کھال، سینگ اور ہڈیاں دوسرے حصوں میں۔ اور گوشت والا حصہ شیر کی طرف سرکا دیا۔ شیر بہت خوش ہوا اور کہنے لگا: ’’واقعی تُو بڑی دانش مند اور ایمان دار ہے۔ تُو نے ٹھیک برابر کے دو حصے کیے ہیں۔ بھلا یہ تو بتا یہ انصاف اور سلیقہ تُو نے کس سے سیکھا؟‘‘
لومڑی نے جواب دیا: ’’حضور اِسی وقت گدھے کی موت سے‘‘۔
حاصل: دوسروں کو مبتلائے آفت دیکھ کر ہم کو نصیحت پکڑنی چاہیے۔
(”منتخب الحکایات“…نذیر احمد دہلوی)
بہادر شاہ ظفر
اکبر شاہ ثانی کے بیٹے اور مغلیہ سلطنت کے آخری فرماں روا، ابوظفر سراج الدین بہادر شاہ ظفر 24 اکتوبر 1775ء کو پیدا ہوئے۔ والدہ کا نام لال بائی تھا۔ فارسی کے عالم اور اردو کے فصیح شاعر تھے۔ خطاطی میں خطِ نسخ کے استادِ کامل تھے۔ شاعری میں ذوق دہلوی سے تلمذ تھا اور ظفرؔ تخلص کرتے تھے۔ ان کے چاروں مطبوعہ دیوان ”کلیاتِ ظفر“ کے عنوان سے یکجا شائع ہوچکے ہیں۔ ”بیاضِ ظفر“ کے نام سے ان کا غیر مطبوعہ کلام بھی شائع ہوچکا ہے۔ 28 مئی 1837ء کو اپنے باپ کے بجائے تخت نشین ہوئے۔ 1857ء کے ہنگامہ آزادی (غدر) میں دہلی کا پایہ تخت انہی کے قبضے میں تھا۔ ان پر بغاوت میں ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا۔ اکتوبر 1858ء میں ان کو قید کرکے رنگون بھیج دیا گیا، جہاں 7 نومبر 1862ء کو ان کی وفات ہوئی اور وہیں پر تدفین ہوئی۔
(پروفیسر عبدالجبار شاکر)
ساجھے کی سوئی سینگرا پر چلے
ساجھے یا شرکت کے کام میں بہت پریشانیاں ہوتی ہیں۔ یہ کہاوت اُس وقت کہی جاتی ہے جب کسی ساجھے کے کام میں دقت پیش آئے اور پھر بھی وہ کام ٹھیک سے نہ ہوسکے۔ اس کہاوت کے بارے میں ایک حکایت اس طرح بیان کی جاتی ہے:
کسی گائوں میں دو دوست رہتے تھے۔ ایک روز وہ دونوں کسی شہر میں گئے۔ وہاں انہوں نے ساجھے میں ایک سوئی خریدی۔ جب وہ لوگ اپنے گائوں کی طرف چلے تو سوئی ایک دوست کے پاس تھی۔ تھوڑی دور چلنے کے بعد اس دوست نے سوچا: سوئی تو ساجھے میں خریدی گئی ہے، میں ہی اسے اکیلا لے کر کیوں چلوں! اس نے دوسرے دوست سے کہا: ’’یار! یہ سوئی ہم دونوں کے ساجھے کی ہے، میں اسے یہاں تک اکیلے اٹھا کر لایا ہوں، اب اسے تم لے کر چلو‘‘۔
دوسرے دوست نے جواب دیا: ’’جب یہ سوئی ہم دونوں کے ساجھے کی ہے تو دونوں لوگ اسے لے کر چلیں گے۔ میں اکیلے کیوں اٹھا کر چلوں؟‘‘
اب کیا تھا، رتی بھر وزن کی سوئی کو لے کر جانے کے لیے ایک بڑا سا بانس لایا گیا جس کے بیچ میں سوئی باندھی گئی۔ بانس کے ایک سرے کو ایک دوست نے اپنے کندھے پر رکھا اور دوسرے دوست نے دوسرے سرے کو اپنے کندھے پر رکھا۔ اس طرح دونوں دوست سوئی کو لے کر اپنے گائوں کی طرف چل پڑے۔ (اس طرح کے ڈھونے کے کام میں لائے جانے والے بانس یا لکڑی کو ’’سانک‘‘ یا سینگرا کہتے ہیں)۔
(ماہنامہ چشم بیدار۔نومبر 2019ء)
نعمت
٭دو نعمتیں ہیں کہ ان میں اکثر لوگ نقصان اٹھاتے ہیں۔ ایک تندرستی، دوسرے کاروبار سے فراغت۔ (حضور پاکؐ)۔
٭جس نعمت میں کفران ہے اس کو بقا نہیں ہے۔ جس نعمت میں شکر ہے اس کو زوال نہیں ہے۔
٭اللہ کی بہترین نعمت مخلص دوست ہے۔ (اقلیدس)۔
٭ خدا کی بے انتہا نعمتوں اور اس کے احسانات کا شکریہ انسانی طاقت سے باہر ہے۔ (حضرت ادریس)۔