جانور ذبح کرتے وقت کی دُعا
”بِسْمِ اللهِ اَللهُ اَکْبَرُ، اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضَ حَنِیْفًا وَّمَا
اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ، اِنَّ صَلَااتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ ِللهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔“
ترجمہ:… ”میں نے متوجہ کیا اپنے منہ کو اسی کی طرف جس نے بنائے آسمان اور زمین سب سے یکسو ہوکر، اور میں نہیں ہوں شرک کرنے والوں میں سے، بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور مرنا اللہ ہی کے لئے ہے، جو پالنے والاسارے جہان کا ہے۔“
آگ کے وسیع و عریض الائو کی لپٹیں آسمان سے باتیں کررہی تھیں۔ تماش بینوں کے مجمع میں ایک عجیب سی سنسنی کی کیفیت تھی۔ بادشاہ اور اس کے مصاحبین بذات ِخود تماشہ دیکھنے کے لیے موجود تھے۔ بادشاہ کی موجودگی کی وجہ سے مجمع جذبات سے لبریز تھا۔ ہر شخص کی خواہش تھی کہ اس الائو میں کچھ نہ کچھ ایندھن ڈال کر وہ بھی ایک طرف الائو کو بڑھانے میں مدد دے اور دوسری طرف بادشاہِ وقت کی نظروں میں اپنی وفاداری کو کسی شک و شبہ سے بالاتر کرلے۔
ایسا کیوں نہ ہوتا، آخر بادشاہِ وقت نے اپنے دشمن اور رب کائنات کے مقرب کو آگ میں جلا کر بھسم کرنے کا ارادہ جو کیا ہوا تھا۔ مجمع بادشاہ کے اس خیال سے متفق تھا کہ آج کے بعد اللہ تعالیٰ کا یہ نبی اس دنیا سے ختم ہوجائے گا اور مجمع کے خیال سے دنیا کا امن، چین اور سکون بحال ہوجائے گا۔
جب اس برگزیدہ ہستی کو آگ کے اس الائو میں ڈالا جانے لگا تو اس کے چہرے پر کوئی پریشانی اور فکر نہ تھی۔ یہ کوئی عام انسان نہیں بلکہ وہ شخصیت تھی جس کو سارا جہاں آج بھی اللہ کے دوست کی حیثیت سے پہچانتا ہے۔ اس کو معلوم تھا کہ اللہ کی راہ میں جب بھی ضرورت ہو تو دل کی گہرائیوں سے صرف ایک ہی صدا آنی چاہیے ’’لبیک اللّٰھم لبیک‘‘
منظر ذرا بدلتا ہے، ایک قریبی مقام میں موجود پانی کے کنارے سے ایک چھوٹی سی چڑیا منہ میں پانی کا قطرہ لے کر اڑتی ہے اور عین الائو کے اوپر فضا میں پہنچ کر وہ پانی کا قطرہ الائو کے اوپر ٹپکادیتی ہے اور واپس پانی پر پہنچ جاتی ہے اور دوسرا قطرہ بھی لاکر آگ پر ڈال دیتی ہے۔ مجمع کی خوشیوں سے بھری نعرہ بازی کے شور میں اس چڑیا کے دل سے نکلنے والی صدا لبیک اللّٰھم لبیککو کون سن سکتا تھا!۔
جب کسی نے چڑیا سے استفہامیہ انداز میں پوچھا کہ آگ کے اتنے بڑے الائو کو تمہارا ڈالا ہوا پانی کا قطرہ کیا بجھائے گا، بلکہ شاید یہ تو آگ پر پہنچنے سے پہلے ہی بخارات بن کر اُڑ جائے! چڑیا بولی: ممکن ہے تمہارا کہنا صحیح ہو۔ لیکن میں اپنی بساط بھر کوشش کرکے آگ بھڑکانے والوں کے بجائے آگ کو ٹھنڈا کرنے والوں کی صف میں کھڑا ہونا پسند کروں گی۔ دراصل چڑیا کو یہ معلوم تھا کو اگرچہ اس کی ذات چھوٹی سی ہے مگر ذمہ داری بہت بڑی۔ جب بھی معرکۂ حق وباطل بپا ہو، دل سے ایک ہی آواز آنی چاہیے ’’لبیک اللّٰھم لبیک‘‘
ایک اور معرکۂ حق و باطل تیار ہے۔ رب کائنات کی سنت کے عین مطابق باطل کے مقابلے میں حق کے پروانوں کی تعداد ظاہری طور پر مختصر ہے۔ مسلمانوں کی فوج کے لیے سپاہیانِ حق کے انتخاب کا انتظام چل رہا ہے۔ ہر مسلمان مرد کی خواہش ہے کہ ہادیٔ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے منتخب کردہ فوج کے سپاہیوں میں اس کا بھی شمار ہو۔ سپہ سالارِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کی صف میں موجود امیدواروں میں مجاہدوں کا انتخاب کرتے جارہے ہیں۔ ان کی نظر دوکم سن مگر بلند حوصلہ لڑکوں پر پڑی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو کم عمر کہہ کر آرام کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ ان میں سے ایک فوراً پنجوں کے بل کھڑا ہوجاتا ہے اور کہتا ہے کہ اب میرا قد اس مجاہد کے برابر ہوگیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکراکر اس کے جذبے کی قدر کرتے ہوئے اسے فوج میں شمولیت کی اجازت دے دیتے ہیں۔ دوسرا کم سن مجاہد کس طرح پیچھے رہ سکتا تھا! وہ کہتا ہے کہ میرا اور اس کا مقابلہ کروالیں، اگر میں اسے پچھاڑ لوں تو مجھ کو فوج میں شامل کرلیا جائے۔ محسنِ انسانیتؐ کی اجازت کے بعد دونوں کم سن مجاہدین میں کشتی کا مقابلہ کروایا جاتا ہے اور نتیجہ دونوں کی فوج میں شمولیت کی اجازت کی صورت میں نکلتا ہے۔
اگرچہ دونوں مجاہد کم سن تھے اور فاتح عالم کی طرف سے کم عمری کے سرٹیفکیٹ کی صورت میں عذرِ شرعی بھی موجود تھا، لیکن ان کو معلوم تھا کہ معرکۂ حق وباطل میں انسان کو ہر کوشش جس چیز کی کرنی چاہیے، وہ ہے’ ’لبیک اللّٰھم لبیک‘‘
تنازع زمین کے ٹکڑے کا ہے۔ مسلمان کہہ رہے ہیں کہ یہ مسجدکی جگہ ہے، ہندوئوں کے خیال میں یہ مندر کی جگہ ہے۔ ایک فساد سر پر کھڑا ہے۔ فیصلہ ہوتا ہے کہ جو فیصلہ عدالت کرے وہ سب کو منظور ہوگا۔ واقعہ شہر لاہور کا ہے جہاں مسلمانوں کی کثیر تعداد ہے، مگر حکومت تو انگریز کی ہے۔ لہٰذا ہندوئوں کو اطمینان کہ فیصلہ ان کے حق میں ہوجائے گا، جبکہ مسلمانوں میں بے چینی پھیلی ہوئی ہے۔ صرف ایک رات کا فاصلہ ہے، اگلے دن قطعہ اراضی ہندوئوں کے نام ہوجائے گا۔ اتنے میں ایک معتبر شخص مسلمانوں کو مشورہ دیتا ہے کہ عدالت میں مقدمہ تو کل سنا جائے گا، ہمارے پاس پوری رات موجود ہے، یہ بہت وقت ہے اگر ہم اس دوران مسجد کی تعمیر مکمل کرلیں تو اگر جج اسٹے آرڈر بھی دے گا تو مسجد مکمل ہوچکی ہوگی، قانون کے مطابق اس کو توڑا نہیں جاسکے گا۔ جس جس مسلمان نے یہ بات سنی اس کا دل بے اختیار پکار اٹھا ’’لبیک اللّٰھم لبیک‘‘اور پھر چشم فلک نے وہ نظارہ دیکھا کہ ’’شب بھر‘‘ میں وہ مسجد بنیاد سے شروع ہوکر تکمیل کے مراحل سے گزری اور پہلی ہی صبح مسجد سے ’’الصلوٰۃ خیرمن النوم‘‘ کی صدا ابھر رہی تھی جو آج بھی شہر لاہور میں ’’مسجد شب بھر‘‘کے نام سے موجود ہے۔
مسجد تو بنادی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے، برسوں میں نمازی بن نہ سکا
اس نے کہا: ’’دوست ہو یا دشمن؟‘‘
ہم نے کہا: ’’دوست بلکہ خادم‘‘
اس نے کہا: ’’راستہ دو‘‘
ہم نے کہا: ’’راستہ تو کیا اڈے بھی لو‘‘
اس نے کہا: ’’ہمارے مجرم دو‘‘
ہم نے کہا: ’’مجرم تو کیا تم تو ہمارے دوست کا سفیر بھی لے لو‘‘۔
اس نے کہا: ’’ہم کو تمہارے سائنس دان کھٹکتے ہیں‘‘
ہم نے کہا: ’’بڑی بات کی تم نے، لو ہم ان کو ٹی وی پر بلا کر رسوا کردیتے ہیں‘‘۔
اس نے کہا: ’’حدود آرڈی نینس ختم کرو‘‘
ہم نے کہا: ’’آرڈی نینس تو کیا، ہم حدود ہی ختم کردیتے ہیں‘‘۔
اس نے کہا: ’’اب حدود آرڈی نینس کے تحت ہمارا قاتل شہری رہا کرو‘‘۔
ہم نے کہا: ’’کوئی بڑا کام کہو، ہم تو تمھارا آدمی تمھارے گھر تک پہنچادیتے ہیں‘‘۔
اس نے کہا: ’’چند ڈالر لے لو اور اپنی ماں کو ہمارے ہاتھ بیچ دو‘‘۔
ہم نے کہا: ’’ماں تو ضعیف ہوتی ہے، اس کا کیا کروگے؟ ہماری بیٹی لے لو۔‘‘
وہ عیدِ قربان کے دن مسلمانوں پر بم برسا رہا تھا اور ہم ٹی وی پر بڑے خشوع و خضوع سے وہ منظر دیکھ رہے تھے جس میں لاکھوں افراد کی طوافِ کعبہ کے دوران صدا بلند ہورہی تھی: ۔
’’لبیک اللّٰھم لبیک‘‘ ’’لبیک اللّٰھم لبیک‘‘