آہ ! علم و ادب کا …..ایک اور چراغ بجھ گیا … پروفیسر عنایت علی خان بھی ،داغِ مفارقت دے گئے،نوجوان ابھرتے ہوئے شاعر برادر آفتاب عالم قریشی نے درست کہا کہ
سن دو ہزار بیس نے کتنے دیئے ہیں دکھ
اہلِ ادب پہ کتنے ہی صدمے گزر گئے
لو چل بسے جنابِ عنایت علی بھی آج
کس دل سے ہم کہیں ، وہ ہم میں نہیں رہے
اور انگریزی روزنامہ ”ڈان“ میں تو رؤف پاریکھ صاحب نے لکھ دیا کہ” عنایت علی خان اکبر الہ آبادی کی فوج کے آخری توپچی تھے“ یعنی پروفیسر عنایت علی خان کے ارتحال پہ یہ صادق آتا ہے کہ ، ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہوں جسے ،عنایت صاحب کراچی کے مقامی قبرستان میں منوں مٹی تلے دفنا دیئے گئے ہیں لیکن ان کے افکار ، خیالات اور اشعار ہمیشہ ان کی یا د دلائیں گے –
پروفیسر عنایت علی خان صاحب کو مجھے قریب سے دیکھنے ، سننے اور سمجھنے کا موقع ملا ،نامساعد حالات میں بھی وہ مسکراتے رہے، ہر غم سینے میں چھپاتے رہے ، معاشرے کا عکس اپنے منظوم انداز میں اور پراثر خطابات میں دکھاتے رہے ، حکمرانوں کو توجہ دلاتے رہے اور قوم کو سیدھا رستہ دکھاتے رہے وہ انتہائی ایماندار ، وضع دار ، پروقار شخصیت کے مالک اور سچے عاشقِ رسولؐ تھے ان کی لکھی حمد و نعتؐ ، نظمیں و غزلیں سدا بہار رہیں گی وہ معاشرے کی بہترین عکاسی اپنی کاٹ دار مزاحیہ شاعری میں کرتے اور ہر محفل کو زعفران بنادیتے بلکہ لوٹ لیتے آج ان کے دنیا بھر میں مداح و پرستار غم زدہ اور ساتھ ہی دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ عنایت علی خان کو اپنی جوارِ رحمت اور جنت الفردوس میں جگہ مرحمت فرمائے ، آمین
راقم نے2007ء میں ان کی شخصی زندگی کو سامنے رکھ کر درج ذیل کالم ”عنایتیں کیا کیا“لکھا جو برادر افضال عظیم اور برادر عبداللطیف انصاری کی مرتب کردہ کتاب،، عنایت علی خان ، شخصیت اور فن ،کے صفحہ نمبر111پر شائع ہوا ،ملاحظہ ہو-
بندئہ رحمن …….پروفیسر عنایت علی خان ……نیک دل انسان …..شرافت ان کی پہچان……معتدل ان کی اڑان ….باطل کے سامنے چٹان …..ذات کے ہیں یہ پٹھان …..پیدائش ان کی ٹونک راجستھان……چھوڑ آئے ہندوستان…..کہتے ہیں دل دل پاکستان ……جماعت اسلامی ان کی جان…….اسلامی جمعیت طلبہ سے ہو ئی ان کی اٹھان……تقریر بھی اچھی ہو تی ہے اور دیتے ہیں پراثر درس ہائے حدیث و قرآن ……خالی نہیں چھوڑا کوئی بھی میدان ……علم و ادب میں پایا ہے کیا خوب مقام……اخباری کالم بھی لکھ لیتے ہیں ……اور کرتے ہیں بچوں کی دلچسپی کے اچھے اچھے پروگرام ….ملکی و غیر ملکی مشاعروںمیں ….خوب خوب پیدا کیا ہے نام ……طنز و مزاح کے ایسے تیر چلاتے ہیں …….جہاں بھی جاتے ہیں وہاں چھا جاتے ہیں ……..مذاق ہی مذاق میں ……بہت سوں کا باجا بجا جاتے ہیں ……مکھن لگانے کا ہنر کوئی ان سے سیکھ لے……روٹھے ہوئے کا …..جب چاہے دل جیت لے ۔
مکھن لگاؤ بھیا ! مکھن سے کام ہو گا
اعلیٰ سے اعلیٰ افسر ادنیٰ غلام ہو گا
بالائے بام طائر یوں زیرِ د ام ہو گا
دے دے کہ جب دلائل ایک شخص ہار جائے
مایوس ہو نہ ہرگز مکھن کو آزمائے
ماتحت افسروں کو مکھن لگا رہے ہیں
تعریف کررہے ہیں پانی چڑھا رہے ہیں
بیو ی اگر خفا ہو مکھن لگا کر دیکھو
دو ایک حاشیے پھر ان پر چڑھا کر دیکھو
جو کام بن پائے وہ لا کلام ہوگا
کیسا ہی سنگ دل ہو مکھن سے رام ہو گا
مکھن لگاؤ بھیا ! مکھن سے کام ہو گا
اگلا کسی طرح سے قابو میں ہی نہ آئے
ہم سے رہی جو اس کا ہر کام بن نہ جائے
مکھن لگا لگا کر الو بنا رہے ہیں
افسر پھسل پھسل کر شیشے میں آرہے ہیں
فرضی محاسن اس کے دو اک گنا کر دیکھو
جھٹ مسکرا پڑے نہ تم آزما کر دیکھو
عنایت علی خان کا کلام ……ظریفانہ بھی ہے اور حکیمانہ بھی ……رنجیدہ بھی ہے سنجیدہ بھی……اس میں دعوتِ فکر بھی ہے…..اور گرد و پیش کا ذکر بھی …….حمد ہو ……یا نعتؐ…….غزلیں ہو ……..یا منظومات ……سب میں گہری و گیرائی نظر آتی ہے …….کہتے ہیں …..جمہوریت جو پہلے ہی ہلکان تھی مگر……ایجنسیوں کی چوٹ سے بے جان ہو گئی ……………..
حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا!
لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر
تمہاری کشتِ ملت میں ………عدو یہ خار ہو تا ہے ………تمہیں تقسیم کرتا ہے ……..قبیلو ں اور زبانو ں میں ……خدارا ہوش میں آؤ ………مرے اہل وطن ورنہ ………تمہاری داستان تک بھی ……..داستانوں میں ..
یار دکھلاؤ شام کا اخبار!۔
کون زخمی ہیں کون مردہ ہیں؟
شکر ہے ان میں اپنا نام نہیں! ۔
گویا ہم آج تک تو زندہ ہیں؟
دا ہری لٹیروں نے عصر نو کے طوفان میں …………
دہریت کے ساحل پر ……..
نسل ِ نو کی دانش کے….
قافلے کو جل دے کہ……..
مکر وفن کے حیلوں سے ………
نفرتوں کے محبس میں ……..
قید کر ڈالا ہے ……..
فکر کی توانائی ……
حوصلوں کی جولانی …….
ذہن کے الا ؤ کے بے لگام شعلوں میں ………
اس طرح سے جلتی ہے ……
جیسے بجھ نہ پائے گی…..
راکھ ہو کے مانے گی! …….
جو بھی ابنِ قاسم کی جراتوں کے وارث ہیں …….
وقت کا تقاضا ہے !……
ان کو آگے بڑھنا ہے …..
بے حسی کے صحرا کی …….
کاہلی کی وادی کی ………..
راہ مختصر کر کے …….
ان کو آگے بڑھنا ہے ………
آج ایک نیا دیبل منتظر ہے ان کا………
ان کو آگے بڑھنا ہے ……….
منجیق فن لے کر …….
منجیق کے پتھر…….
عزم و الفت ایماں …….
پھر سے جمع کرنے ہیں …….
پتھروں کی بارش سے ………
دیبل تعصب کا……
نفرتوں کے معبد کا ……….
ہر نشان گِرانا ہے ……
فکر ِنو کی دانش کو……..
داہری ٹھکانوں سے………
تنگ قید خانوں سے …….
بازیاب کرانا ہے-
دیبل جدید ………..عنایتیں کیا کیا …….. آزاد نظم ……..دعوتِ فکر ہے ……….مسلمانوں ……خصوصاً ملت کے جوانوں کے لیے ……….وہ آگے بڑھیں ……….قوم منتظر ہے ،ایک محمد بن قاسم کی ۔