پروفیسر عنایت علی خان کی وفات سے اردو شاعری خصوصاً مزاح نگاری کو شدید جھٹکا لگا ہے،انور مسعود
دورِ حاضر کے ممتاز ترین مزاحیہ شاعر جناب انور مسعود نے اپنے ہم عصر پروفیسر عنایت علی خان کی وفات پر اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر عنایت علی خان ہمارے بہت پیارے دوست تھے، ان کی وفات کی خبر ملی تو میں نے تعزیت کے لیے ان کے گھر فون کیا اور مرحوم کے بیٹے سے بات کی۔ پروفیسر صاحب کی وفات سے روایتی الفاظ ہی کی حد تک نہیں فی الحقیقت اردو شاعری میں بہت بڑا خلا پیدا ہوگیا ہے، وہ بہت دبنگ اور بڑے آدمی تھے، سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ بڑے اللہ والے تھے، جماعت اسلامی سے باقاعدہ رکنیت کا تعلق رکھتے تھے جس سے ان کے صاف ستھرے نظریے اور دین سے محبت کی عکاسی ہوتی ہے۔ شاعری میں اس دور کے مزاح نگار شعرا میں ان کا مقام بہت بلند تھا، نہ صرف مزاحیہ بلکہ سنجیدہ شاعری میں ان کی خدمات بہت قابلِ قدر ہیں، بالخصوص ان کی نعتیں بہت بلند پایہ اور محبتِ رسولؐ کے جذبات سے لبریز ہیں۔ ان کا ایک شعر تو ضرب المثل کی حیثیت حاصل کر چکا ہے ؎۔
حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر
اللہ تعالیٰ عنایت علی خان مرحوم کی مغفرت فرمائے، انہوں نے ایسی زندگی گزاری جو خیر کے بہت قریب تھی، وہ ہمیشہ دنیا میں خیر پھیلانے کے لیے کوشاں رہے، اس حوالے سے ان کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔ رب رحیم و کریم ان پر اپنی بے پایاں رحمتیں نازل فرمائے، ان کے نیک اعمال قبول فرماتے ہوئے ان کی لغزشوں سے درگزر فرمائے۔ ایسے لوگ مرتے نہیں بلکہ مر کر امر ہوجاتے ہیں ؎۔
ہر گز نہ میرد آنکہ دلش زندہ شدبہ عشق
ثبت است برجریدۂ عالم دمام ما
پروفیسر عنایت علی خان کی وفات سے اردو زبان خاص طور پر مزاح نگاری کو زبردست دھچکا لگا ہے، گزشتہ دنوں مزاح نگاری کا ایک بڑا نام ’’جیدی‘‘ ہم سے جدا ہوگیا جو بہت بڑے صدمے کا باعث بنا، اور خود پروفیسر عنایت علی خان نے ان کی وفات پر تعزیتی کالم میں جیدی کو زبردست خراجِ عقیدت پیش کیا، اب پروفیسر صاحب بھی ہم سے جدا ہوگئے، جو بڑا درد انگیز سانحہ ہے۔ ایک ہنسانے والا شاعر اپنے چاہنے والوں کو رلا کر چلا گیا۔
مجھے کئی دفعہ نہ صرف پاکستان بلکہ بیرونِ ملک بھی خصوصاً خلیجی ممالک میں ان کے ہمراہ سفر کرنے کا موقع ملا، اس دوران میں نے ان میں ایک بات بہت نمایاں محسوس کی کہ ہر وہ چیز انہیں سخت ناگوار گزرتی تھی جو شریعتِ اسلامیہ میں ناپسندیدہ قرار دی گئی ہے، ان کی شخصیت کا یہ پہلو نہایت دلآویز تھا کہ انہوں نے ہر طرح کے ماحول میں ایک پاک صاف زندگی گزاری اور دوسروں کو بھی اس کی دعوت دیتے اور تلقین کرتے رہے۔ مجھے ان کے ساتھ لاہور، کراچی، اسلام آباد، حیدرآباد اور کئی دیگر شہروں میں مشاعرے پڑھنے کا موقع ملا، ان کا شمار مقبول ترین شعرا میں ہوتا تھا اور سامعین انہیں دل کھول کر داد دیتے تھے، تاہم یہ داد فخر و تکبر کے بجائے ان کے انکسار میں اضافہ کرتی اور وہ اس پر اپنے رب کے حضور ہمیشہ شکر کے جذبات کا اظہار کرتے۔
عنایت علی خان کے جانے سے اردو ادب میں سنجیدہ مزاح کا باب بند ہوگیا ہے،خالد مسعود
مزاحیہ شاعری اور کالم نگاری میں نمایاں مقام کے حامل جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے شاعر و قلم کار خالد مسعود نے پروفیسر عنایت علی خان کی وفات پر دل گرفتگی کے عالم میں کہا کہ وہ میرے بڑے بھائیوں کی طرح تھے، مزاحیہ شاعری کے حوالے سے وہ ہماری برادری کے سرخیل اور نظریاتی وابستگی کے لحاظ سے ہمارے قائد تھے، ان کا شمار اُن گنے چنے لوگوں میں ہوتا تھا جو مزاحیہ شاعری محض مزاح کی خاطر تخلیق نہیں کرتے تھے بلکہ وہ مزاح برائے اصلاح کے قائل اور داعی تھے۔ وہ قادر الکلام شاعر تھے، انہوں نے نہایت عمدہ سنجیدہ شاعری بھی کی، مگر ہمارے معاشرے کا یہ عجب معاملہ ہے کہ مزاحیہ شاعری کے سامنے سنجیدہ بات کو اہمیت حاصل نہیں ہوپاتی۔ انور مسعود نے بہت اعلیٰ سطح کی سنجیدہ شاعری کی ہے مگر اس کا چراغ مزاح کے سامنے روشن نہیں ہوسکا اور ان کی شخصیت کے حوالے سے مزاحیہ شاعر ہی کو غلبہ حاصل رہا ہے، اسی طرح پروفیسر عنایت علی خان نے بھی مزاح کے علاوہ سنجیدہ شاعری میں بھی کمال کے اشعار کہے ہیں، مگر عام آدمی زیادہ تر ان سے ناآشنا ہے۔ ان کی شاعری مزاحیہ ہو یا سنجیدہ، بہرحال مقصدیت اس میں نمایاں نظر آتی ہے، وہ بطور ایک مسلمان اور پاکستانی کے، معاشرے کی تعمیر اور بہتری کے جس مشن کے لیے کوشاں رہے، ان کی شاعری میں بھی اس کا پیغام واضح محسوس کیا جا سکتا ہے۔ مقصدیت اور مزاح دونوں کو ایک ساتھ لے کر چلنا بہت مشکل کام ہے اور گنتی کے چند لوگ ایسے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے یہ خوبی اور کمال عطا فرمایا ہے۔ مزاح کو عموماً نمکین شاعری کہا جاتا ہے، نمک اگرچہ سالن میں بہت کم مقدار میں ہوتا ہے مگر ذائقہ اسی سے بنتا ہے، یہ ایک مشکل صنفِ سخن ہے، مگر بامقصد مزاحیہ شاعری مشکل ترین ہے، جسے عنایت علی خان نے اختیار کیا اور مزاح میں اصلاح اور بنائو کا پیغام دیا۔ اس میدان میں پھکڑ پن اور مزاح کے درمیان بہت باریک لکیر ہے، ہمارے ذرائع ابلاغ نے اس لکیر اور فرق کو بڑی حد تک ختم کردیا ہے، تاہم پروفیسر عنایت علی خان اس کا بخوبی احساس اور خیال رکھتے تھے۔
پروفیسر صاحب کی شاعری میں ایسا تنوع ہے کہ حیرانی ہوتی ہے۔ انہوں نے بچوں کے لیے بھی خاصی نظمیں لکھی ہیں جن میں ’’بول میری مچھلی‘‘ کے سلسلے کو مقبولیت حاصل ہوئی۔ انہوں نے بچوں کے معصوم ذہنوں کی استعداد کے مطابق بچوں کی سطح پر جاکر نظمیں لکھیں، تاکہ معصوم ذہن ان کو سمجھ بھی سکیں اور ان سے لطف اندوز بھی ہوں۔
مجھے ان کے ساتھ اکٹھے بیرون ملک خصوصاً متحدہ عرب امارات جانے اور واپس آنے کا موقع ملا، ہمارا وہاں قیام بھی اکٹھے رہا۔ وہ بڑے خوشگوار بزرگ تھے، ڈانٹ پھٹکار ان کا شیوہ نہیں تھا، آخری عمر میں وہ بے مقصد مزاحیہ شاعری پر نالاں رہتے تھے، مگر اس سبب سے انہوں نے اپنی شخصیت کو بوجھل نہیں ہونے دیا۔
جماعت اسلامی سے ان کا نظریاتی تعلق بہت مضبوط تھا جسے انہوں نے عملاً نبھایا اور اپنے بچوں کو افغان جہاد کا عملاً حصہ بنایا۔ وہ بہت صابر اور بلند حوصلہ شخصیت کے مالک تھے، ان کی ضعیف العمری میں ان کا جواں سال بیٹا فوت ہوگیا تو اس صدمے کو جس ہمت اور حوصلے سے انہوں نے برداشت کیا وہ بلاشبہ ہم جیسے لوگوں کے لیے قابلِ رشک تھا۔ اللہ تعالیٰ اپنے اس بندے کے درجات بلند فرمائے کہ اس کے جانے سے اردو ادب میں سنجیدہ مزاح کا باب بند ہوگیا ہے۔
وہ اپنے کلام کے ذریعے اردو شاعری کی تاریخ میں زندہ رہیں گے، جاوید انور
چیئرمین ریلوے کے منصب سے ریٹائر ہونے والے بیوروکریٹ، شاعر اور افسانہ نویس، نصف درجن کے قریب شعری اور افسانوی مجموعوں کے مصنف جاوید انور نے پروفیسر عنایت علی خان کی وفات پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مرحوم اردو ادب کا بیش قیمت اثاثہ تھے، وہ قادرالکلام شاعر اور خوبصورت نثر نگار تھے، وہ اردو شاعری کا ایک معتبر حوالہ تھے، ان کا سنجیدہ کلام اور ظرافت سے بھرپور شاعری، دونوں بے مثال تھے۔ ان کی نعتیہ شاعری بھی اخلاص کا مرقع ہے جس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور اطاعت کے جذبات امڈے چلے آتے ہیں، اسی طرح ان کی بچوں کے لیے شاعری ان کی ذہنی سطح کے مطابق نہایت سادہ، سلیس اور رواں ہے، سبق آموزی اور درسِ اخلاق جس کے اضافی مگر لازمی اوصاف ہیں۔ وہ معصوم ذہنوں کو اس طور پروان چڑھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ جب وہ عملی زندگی میں قدم رکھیں تو ایک سچے پاکستانی اور پکے مسلمان کا کردار اپنائیں، اس کے ساتھ ان کی ذہنی و جسمانی صلاحیتیں بھی اس طور پروان چڑھیں کہ وہ ہر لحظہ بدلتی دنیا میں جدید سائنسی حقائق کو بخوبی سمجھ سکیں۔ بطور استاد بھی ان کا کردار مثالی تھا، اپنے طلبہ کو ہمیشہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت، ملک و قوم کی خدمت اور اپنی تعلیمی صلاحیتوں کو محنت سے نکھارنے کا درس دیتے، ان کے حالات سے باخبر رہتے اور حتی الامکان طلبہ کے مسائل کے حل میں سنجیدہ کوشش کرتے اور اپنی ذاتی جیب کو بھی کام میں لاتے۔
مجھے ان کو سننے اور ان کے مزاحیہ کلام میں زبان و بیان کی لطافتوں سے لطف اندوز ہونے کے تو وافر مواقع میسر آئے، مگر ان کے ساتھ کسی مشاعرے میں پڑھنے کا موقع نہ مل سکا۔ ذاتی حیثیت میں وہ بہت نفیس شخصیت کے مالک تھے اور ایک ہمدرد بزرگ کے طور پر پیار محبت سے دل کے اندر گھر کر جانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ ایسی یگانہ روزگار شخصیت کا رخصت ہوجانا اردو ادب کا یقیناً بہت بڑا نقصان ہے۔ ان کی وفات سے پیدا ہونے والا خلا پُر ہونا آسان نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ انہیں غریقِ رحمت کرے، وہ اپنے کلام کے ذریعے اردو شاعری کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔