حالیہ دہلی فسادات، اقلیتوں سمیت مسلمانوں کو پولیس کی سرپرستی میں چن چن کر قتل کیا گیا
بھارتی سیاست میں اس وقت مسلم دشمنی بہت گہری نظر آتی ہے۔ بھارتی سیکولر چہرہ بھی خاصا داغ دار ہوگیا ہے۔ بھارت دنیا میں خود کو ایک پُرامن، مضبوط جمہوری ریاست یا ملک کے طور پر پیش کرتا ہے۔ لیکن اب عالمی رائے عامہ بھی تسلیم کررہی ہے کہ بھارت اقلیتوں کے لیے ایک غیر محفوظ ملک مودی، آر ایس ایس کا باہمی گٹھ جوڑ اس وقت مسلم دشمنی کی بنیاد پر اپنی انتہا پسندی میں بہت آگے تک چلا گیا ہے۔ بھارت میں موجود اعتدال پسند طبقہ بھی مودی کی ہندوتوا یا انتہا پسندی پر مبنی سیاست کو بڑی شدت کے ساتھ چیلنج کررہا ہے۔
مودی اور آر ایس ایس کے باہمی گٹھ جوڑ نے ’’گھر واپسی‘‘ کے نام پر ایک ایسی تحریک شروع کردی ہے جس کے تحت بھارت میں موجود مسلمانوں پر تشدد کی مدد سے اپنا مذہب چھوڑکر ہندومذہب اختیار کرنے کے لیے دبائو ڈالا جارہا ہے۔ اس تحریک کو کامیاب بنانے میں مودی کی انتہا پسند حکومت کو وشواہندو پریشد)وی ایچ پی)، راشٹریہ سیوک سنگھ (آرایس ایس) اور ہندو مکال نامی تنظیموں کی مدد حاصل ہیں۔ حال ہی میں کورونا وبا کے معاملے پر بھارت کی انتہا پسند حکومت اپنی ذہنی پس ماندگی میں اس حد تک آگے گئی کہ اس نے کورونا پھیلانے کا الزام مسلمانوں پر عائد کیا اورکہا کہ ہم کورونا اور مسلم دونوں کو ختم کرکے دم لیں گے۔ اس وقت تمام اقلیتیں بالخصوص مسلمانوں ایک بڑا طبقہ خود کو بھارت میں غیر محفوظ سمجھتا ہے۔
حالیہ دہلی فسادات میں مسلمانوں کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ دہلی اقلیتی کمیشن کے سربراہ ظفرالاسلام خان کے بقول دہلی فسادات میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے میں پولیس نے مدد کی اور پچاس سے زیادہ مسلم ہلاکتیں ہوئیں، اقلیتوں کو چن چن کر بڑی بے دردی سے مارا گیا اور ان کی املاک کو جلایا گیا۔ جو ہندو انتہا پسند تھے ان کو پولیس نے روکنے کے بجائے ان کی معاونت کی، اور ان راہنمائوں کی اشتعال انگیز تقریروں نے مسلم دشمنی کے جذبات کو بھڑکایا۔ ملک کی 72معزز شخصیتوں نے صدرِ جمہوریہ رام ناتھ کوویند کو مکتوب لکھا ہے اور دہلی فسادات کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا ہے اور دہلی پولیس کی تفتیش پر سوالات اٹھائے ہیں۔ ان افراد میں سابق بیوروکریٹ، انسانی حقوق کے کارکنوں سمیت کئی اہم افراد شامل ہیں۔
اسی طرح عالمی سطح پر آزادیِ مذہب پر نظر رکھنے والے امریکی کمیشن’’یو ایس سی آئی آر ایف‘‘نے اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارت میں مذہب کے نام پر استحصال کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ شہریت کے متنازع قانون سی اے اے اور این آر سی کی مخالفت میں پورے ملک میں ہونے والے احتجاج کا ذکر شامل ہے اور اسے بھی مذہب کے نام پر ہونے والی تفریق کی مثال کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق این آر سی مسلمانوں کے ساتھ تفریق کے لیے بنایا گیا قانون ہے۔ واضح رہے کہ ریاست آسام میں این آر سی کی آخری فہرست جاری کی گئی ہے جس کے بعد 19 لاکھ لوگوں کی شہریت پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ اس قانون کے تحت پاکستان، بنگلہ دیش اورافغانستان کی اقلیتوں کو شہریت دی جائے گی۔ اس رپورٹ کے مطابق بھارت میں آزادیِ مذہب اور اظہارِ رائے کی آزادی متاثر ہوئی ہے۔ اس ادارے نے امریکی حکومت سے دو مطالبے کیے ہیں: (1) وفد کو بھارت جانے کی اجازت دی جائے تاکہ وہ وہاں جاکر حالات کا جائزہ لے سکے، اور اس کو یقینی بنانے کے لیے بھارتی حکومت پر دبائو ڈالا جائے۔ (2) بھارت میں اقلیتوں کے خلاف ہونے والے جرائم سے نمٹنے کے لیے پالیسی سازی کے لیے مودی حکومت کے ساتھ مل کر کام کیا جائے۔
بی بی سی نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں بیان کیا ہے کہ گزشتہ چند مہینوں کے دوران بھارت کے مختلف حصوں سے لاک ڈائون کے دوران مسلمانوں کے سماجی و اقتصادی بائیکاٹ اور ان پر تشدد کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ ان واقعات کی وجہ سے بھارت میں موجود مسلمانوں میں خوف بیٹھ گیا ہے، اور ان میں زیادہ تر مزدور اور چھوٹے کاروبار کرنے والے لوگ شامل ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق مدھیہ پردیش کے ایک گائوں میں مسلمان کاروباری افراد کے حوالے سے ایک پوسٹر لگایا گیا تھا جس میں لکھا تھا ’’مسلمان کاروباریوں کا گائوں میں داخلہ ممنوع ہے‘‘۔ اسی طرح کے پوسٹر ہمیں دہلی میں بھی دیکھنے کو ملے ہیں۔ جبکہ بعض مقامات پر مسلم سبزی فروشوں کو اپنا مسلم نام تبدیل کرکے سبزی فروخت کرنا پڑی۔ اسی طرح سے سینٹر فار ایکوٹی اسٹڈیز (سی ای ایس)کی ایک تازہ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق مسلم مزدوروں کا کہنا ہے کہ لاک ڈائون ختم ہونے کے بعد ان کو دوبارہ کام پر لوٹنے میں اپنی مذہبی شناخت کی وجہ سے پریشانی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ بھارت کی 9 ریاستوں کے 1045مزدوروں کے ساتھ کی گئی اس اسٹڈی کے مطابق 43 فیصد مزدوروں کا کہنا ہے کہ وہ یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ لاک ڈائون کے خاتمے کے بعد ان کو نوکری مل سکتی ہے۔ اسی رپورٹ کے مطابق یہ سب کچھ میڈیا کی منفی مہم کا نتیجہ تھا جس میں کورونا پازیٹو معاملات کو مسلمانوں اور تبلیغی جماعت کے اراکین اور اجتماع سے جوڑ کر دکھایا گیا ہے، جو بھارت میں موجود انتہا پسندی کے رجحانات کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔
بھارت کی معروف صحافی اور انڈیا ٹوڈے گروپ کی پالیسی ایڈیٹر پرسنا موہنتی کا کہنا ہے کہ مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کسی ملک کی معاشرتی ہم آہنگی اور جمہوری نظام کو ڈی ریل کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی معیشت کو بھی نقصان پہنچانے کی استعداد رکھتا ہے۔ اس لیے مسلمانوں کو مدد پہنچانے کی ضرورت ہے، نہ کہ انہیں الگ تھلگ کرنے کی۔ اس رپورٹ میں یہ انکشاف بھی شامل ہے کہ آنے والے دن مسلمان مزدوروں اور کاروباری افراد کے لیے مشکل ثابت ہوں گے اور غربت مسلمانوں کو بری طرح متاثر کرے گی جو ہماری اپنی معیشت کے لیے بڑا دھچکہ ہوگا۔
مقبوضہ کشمیر کی صورتِ حال کو ہی دیکھ لیں۔ بھارت نے کشمیری مسلمانوں کے حقوق سے متعلق رائج ایکٹ 370 اور 35-Aکو ختم کردیا۔اسی طرح بھارت میں مسلمانوں کی شناخت کا سوال بھی اٹھادیا،اور بھارتی پارلیمنٹ سے سٹیزن ترمیمی ایکٹ2019کو پاس کرواکر بھارتی مسلمانوں پر ایک تلوار لٹکادی ہے۔اسی طرح مودی حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر اثرانداز ہوکر ہندوئوں کے مؤقف کی تائید میں بابری مسجد کا جو فیصلہ کروایا اس سے بھی ان کی مسلم دشمنی کی جھلک نمایاں نظر آتی ہے۔بھارت کا ایجنڈا محض پاکستان یامسلم دشمنی تک ہی محدود نہیں بلکہ و ہ پاکستان سمیت بنگلہ دیش، نیپال، سری لنکااور خطے کے بعض ممالک کو بھی اپنے زیرتسلط لانا چاہتا ہے۔لائن آف کنٹرول کے اس پار آئے روز بمباری، نیپال کے ساتھ سرحدی کشیدگی اور لداخ میں چین کے علاقے پر تسلط قائم کرنے کی خواہش سے اس کے سیاسی، جنگی اور انتہا پسندی پر مبنی عزائم نمایاں ہوتے ہیں۔بھارت کی انسانی حقوق کی معروف راہنما اورعالمی شہرت یافتہ دانشور ارون دھتی رائے بھی برملا مودی حکومت کی مسلم دشمنی کے ایجنڈے کو چیلنج کررہی ہیں، اوران کے بقول اس وقت مودی کا آر ایس ایس سے گٹھ جوڑ اور ریاستی اداروں کا بے دریغ استعمال مسلم کمیونٹی کے لیے بڑا خطرہ بن گیا ہے۔
یہ ساری صورتِ حال ظاہر کرتی ہے کہ اس وقت بھارت کی مجموعی سیاست اور حکمران طبقات کا ایجنڈا پاکستان اور مسلم دشمنی کی بنیاد پر کھڑا ہے جو بھارت میں موجود اعتدال پسند عناصر سمیت پاکستان کے لیے بھی بے شمار خطرات کو نمایاں کرتا ہے۔ ہمیں بھارت کے اس ایجنڈے کے سامنے خود کو داخلی سطح پر بھی مضبوط بنانا ہے۔ ہمیں بھارت کی مسلم اور پاکستان دشمنی کے مقابلے میں امن اور برداشت کو فروغ دینا ہوگا اور تنازعات کو منصفانہ بنیادوں پر بات چیت کی مدد سے یا سیاسی انداز میں حل کرنے پر بھی زور دینا ہوگا۔ ہمیں سفارتی محاذ پرعملاً یہ کرنا ہوگا کہ ہم بھارت کے حالیہ جنگی اور مذہبی جنون کے خلاف دنیا کی رائے عامہ، میڈیا اور معروف تھنک ٹینکس سمیت عالمی راہنمائوں کے سامنے خطے بشمول پاکستان مخالف بھارتی ایجنڈے کو شواہد کی بنیاد پر پیش کریں۔ اسی طرح موجودہ بھارتی طرزعمل پر ہمیں پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کرکے جو چیلنج بھارت کے تناظر میں درپیش ہیں، اسے سیاسی اتفاق رائے کے لیے پیش کرنا ہوگا تاکہ ہم بہتر طور پر صورت حال سے نمٹنے کے لیے اپنی حکمت عملی وضع کرسکیں۔