قحط، معاشی انہدام، جھلسا دینے والا سورج، بدلتا موسم کیسی تباہی مچاسکتا ہے؟ یہ ہمارے خدشات سے بڑھ کر سنگین اور قریب ہے۔ کوسٹاریکا کے جنگلات میں، جہاں عام طور پر فضا میں نمی کی شرح نوے فیصد سے زائد رہتی ہے، یہ اگر 105 ڈگری فارن ہائیٹ کی لپیٹ میں آجائے، جان لیوا ہوجائے گی۔ اس کا اثربہت تیزی سے ہوگا، چند گھنٹوں کے اندر ایک انسانی جسم جھلس کرختم ہوجائے گا۔
یقین جانیے، یہ آپ کے گمان سے زیادہ خطرناک ہے۔ اگر آپ محض یہ سوچ کر پریشان ہورہے ہیں کہ موسم کی تبدیلی سے سمندروں کی سطح بلند ہوجائے گی، توآپ محض سرسری طور پر ہی اُن خدشات پر نظر کررہے ہیں، کہ جن کہ اصل دہشت ناکی ناقابلِ تصور ہے، اور یہ تصور آج کے نوجوان کی زندگی میں ہی حقیقت کا روپ دھار سکتا ہے۔ اور اب جب کہ بلند ہوتے سمندر، اور وہ شہر جو اُن میں ڈوب جائیں گے، عالمی حدت کے منظرنامے پر تیزی سے نمایاں ہورہے ہیں، موسم کی تبدیلی پر ہماری قوتِ فہم اور اہلیت واضح کررہے ہیں۔ یہاں تک کہ اس خطرے کے متوازی اُن خطرات پر ہماری نظر ہی نہیں جارہی، جو نسبتاً ہم سے زیادہ قریب ہیں۔ یقیناً سراٹھاتے سمندر خطرناک بات ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ انسانی بستیوں کا ساحلی پٹیوں سے پیچھے ہٹنا کافی نہ ہوگا۔
اس صدی کے آخر تک زمین کے بڑے حصے ناقابلِ بودو باش ہوجائیں گے، اور دیگر بہت سے حصے ہولناک حد تک ناقابلِ آبادکاری ہوجائیں گے۔ جب ہم بدلتے موسم پر نظر دوڑاتے ہیں تو یہ سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں کہ صورت حال کیا رُخ اختیار کرے گی۔
آرکٹک کی زیر سطح منجمد زمین میں 1.8 کھرب ٹن کاربن سماچکی ہے، یہ زمین کی فضا پر چھائی کاربن کی دُگنی مقدار سے بھی زائد ہے۔ جب یہ خارج ہوگی، شاید میتھین کی صورت میں بخارات بن جائے، جوگرین ہاؤس گیسز کی اُس حدت کا چونتیس گُنا ہوگی کہ جس کا تخمینہ پوری صدی کے ٹائم اسکیل پر لگایا گیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں کہا جائے تو ہم آرکٹک زیر سطح منجمد زمین کی صورت، فضائی کاربن ڈائی آکسائیڈ کی نسبت دُگنی مصیبت میں پھنسے ہوئے ہیں، اور اس کے اخراج کا وقت ٹک ٹک کرکے قریب سے قریب تر ہورہا ہے۔ جزوی طور پر یہ گیس کی صورت میں ہے، جو اپنی قوتِ حدت 86 بار ضرب دے چکی ہے۔ عالمی حدت کے اثرات پر مبنی خبریں اب آئے دن کی خبر ہے۔ جیسے انٹارکٹیکا کی ایک برفانی تہ میں صرف چھے روز کے اندر گیارہ میل لمبی دراڑ آئی، جوآگے بڑھتی چلی گئی، اور جب یہ پانی میں قطرہ بن کر گرے گی، تو بہت بڑا بھونچال لے آئے گی۔
اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کس قدر معلومات رکھتے ہیں، آپ درحقیقت خطرے کی سنگینی کا درست اندازہ نہیں لگارہے۔ لگتا یوں ہے کہ ہماری گزشتہ دہائیاں، ہماری ثقافت ’زومبی موویز‘کے ساتھ جیسے الہامی حالت میں گزری ہو، اور Mad Max کے مصائب کی سی صورت میں وقوع پذیر ہوئی ہو، یہ شاید ماحولیاتی خوف کی بھٹکتی ہوئی کوئی حالت ہے، اور جب ہم حقیقت کی دنیا میں حدت کے خطرات کا جائزہ لیتے ہیں تو تصورکی بھرپور ناکامی سے سامنا ہوتا ہے۔ اس کی کئی واضح وجوہات ہیں: سائنسی اگر مگر کی ڈری ڈری زبان، جسے ماہر ماحولیات جیمس ہینسن ’’سائنسی سکوت‘‘ پکارتے ہیں، دوسری وجہ وہ ٹیکنوکریٹس ہیں جو حکومتوں پرقابض ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ ہر مسئلہ آسانی سے حل کیا جاسکتا ہے، اور سمجھتے ہیں کہ عالمی حدت کا موضوع قابلِ توجہ ہی نہیں ہے۔ جس طور موسمی تبدیلی سے انکار کیا جارہا ہے، اس سے سائنس دان مزید محتاط ہوگئے ہیں، اور خدشات ظاہر کرنے سے گریز کررہے ہیں۔ بدلتے موسم کی سست روی نے بے یقینی سی بے یقینی پیدا کردی ہے۔ معروف ماہر ماحولیات نومی اوریسکس کہتی ہیں کہ اس رویّے نے کسی بھی قسم کی پیشگی تیاری سے روک رکھا ہے۔ ایسا سادہ خوف بھی ایک وجہ ہے جو عملی طور پرکچھ زیادہ کرنے سے باز رکھتا ہے، یہ بھی حالتِ انکار ہی ہے۔
سائنس، سائنس فکشن اور’’سائنسی سکوت‘‘ کے درمیان پھنس کر رہ گئی ہے۔ یہ مضمون ماہرینِ ماحولیات سے درجنوں انٹرویوز اور تبادلہ خیالات کا نتیجہ ہے، اور ماحولیات پر سیکڑوں سائنسی مقالات منعکس کرتا ہے۔ اس سے آگے پیش گوئیوں کا سلسلہ نہیں ہے کہ آیا کیا ہونے جارہا ہے، کیونکہ جوکچھ ہوگا اُس کے بہت بڑے حصے کی سائنسی پیش بینی تقریباً ناممکن ہے۔ جوکچھ بھی اس مضمون اور اس سے باہر بیان کیا جارہا ہے، وہ اس ضمن میں محض ہماری بہتر سے بہتر قوتِ فہم کا حاصل ہے۔ اس کا امکان مشکل ہے کہ ’’عالمی حدت‘‘ کے ممکنہ منظرناموں تک انسان کی نظر رسائی پاسکے، اس کی بہت بڑی وجہ وہ’’اہلیت‘‘ہے، جو ہم میں موجود نہیں، اور یقیناً یہ ممکنہ تباہ کاری ہماری ’’علمی‘‘ خود فریبی تہ و بالا کردے گی۔ مگر اس پر مستزاد یہ کہ میسر منظرنامہ اور موجودہ ماحولیاتی صورت حال بھی خطِ آغاز نہیں ہے۔ درحقیقت یہ محض ہمارے اندازے ہیں۔
بدلتے موسم کا موجودہ دور، کہ جس میں ہم اپنے مستقبل کی تباہی کا سامان کرچکے ہیں، خاصا ہولناک ہے۔ اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ میامی اور بنگلہ دیش کی بقاء کا امکان ہے، اکثر سائنس دان کہ جن سے میری بات ہوئی، قیاس کرتے ہیں کہ یہ دونوں مقامات صدی بھرمیں ڈوب جائیں گے، خواہ ہم اگلی پوری دہائی میں قدرتی ایندھن جلانے سے باز ہی کیوں نہ آجائیں۔
پیٹربرینن نے کتاب The Ends of the Worldمیں ’’فنا‘‘ (extinction)کے بڑے واقعات بیان کیے ہیں، کہ جب سمندر سیکڑوں فٹ بلند ہوگئے تھے۔ زمین ’’معدومیت‘‘ کے پانچ بڑے تجربے کرچکی ہے۔ یہ اس قدر مکمل اور ہولناک تھے کہ زمین کواپنی گھڑی کا وقت ازسرنو ترتیب دینا پڑا تھا۔ یہ واقعات وہ تجربہ ہیں کہ جن کی روشنی میں مستقبل کی ماحولیاتی صورت حال کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ان میں سب سے خطرناک تجربہ وہ تھا کہ جب 252ملین سال قبل کاربن کی وجہ سے حدت پانچ ڈگری بڑھ گئی تھی، آرکٹک میں میتھین گیس کی بہت بڑی مقدار کا اخراج ہوا تھا، اور زمین پر موجود 97 فیصد زندگی کا خاتمہ ہوگیا تھا۔ ہم اس وقت زیادہ تیز رفتاری سے کاربن فضا میں شامل کررہے ہیں۔ اکثر اعدادو شمار کہتے ہیں کہ یہ دس گنا تیز رفتاری سے ہورہا ہے۔ غالباً اسی صورت حال کوذہن میں رکھ کر اسٹیفن ہاکنگ نے کہا تھا کہ زمین کی انواع کواگلی صدی تک بقا کے لیے دیگر سیاروں میں کالونیاں بسانے کی ضرورت پیش آجائے گی۔ معروف انجینئر ایلون مسک نے چالیس سے سوسال میں ایک مریخ نما مسکن بنانے کا منصوبہ پیش کیا ہے۔ یقیناً یہ لوگ ماہرین نہیں ہیں، بلکہ ہماری طرح نامعقول رجحانات ظاہر کرتے ہیں۔ میں نے بہت سے سنجیدہ سائنس دانوں اور ماہرین سے انٹرویوز کیے ہیں، اور وہ خطرے کی گھنٹی بجارہے ہیں، اور کہہ رہے ہیں کہ اب محض آلودگی کے اخراج میں کمی سے بھی ’’موسمی تباہی‘‘ ٹالی نہیں جاسکتی۔
گزشتہ چند دہائیوں میں، “Anthropocene”(بشری عہد)کی اصطلاح اکادمی مباحث میں بہت استعمال ہوئی ہے، یہ وہ جغرافیائی دور کہلاتا ہے، جس میں ہم جی رہے ہیں، اور اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ نیا دور ہے، اور پوری تاریخ میں اس کی وضاحت ’’انسانی مداخلت‘‘ سے عبارت ہے۔ اس اصطلاح کے ساتھ ایک مسئلہ یہ ہے کہ ’’فطرت پر انسانی فتح‘‘ کے طور پر سامنے آتی ہے۔ یوں یہ واضح کرتی ہے کہ ہم نے قدرتی دنیا میں کیا کچھ غارت گری کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے نظام فطرت میں اشتعال انگیزی کی ہے۔ لاعلمی اور غفلت پر مبنی انجینئرنگ کی ہے، اور پھر ماحولیاتی تبدیلی کا انکار کیا ہے، جو اب ہم سے عالمی جنگ لڑنے جارہا ہے۔ یہ جنگ شاید صدیوں جاری رہے کہ جب تک ہمیں نیست و نابود نہ کردے۔ جیسا کہ ویلس اسمتھ بروئیکر، جس نے ’’عالمی حدت‘‘ کی اصطلاح وضع کی تھی، زمین کو ’’غضب ناک درندہ‘‘ پکارا۔ آپ اسے جنگی مشین بھی کہہ سکتے ہیں، کہ جسے ہم آئے دن خود ہتھیار مہیا کررہے ہیں۔(ترجمہ: ناصر فاروق)۔
(جاری ہے)