۔ 19 غیر منتخب کابینہ ارکان میں 4 معاونینِ خصوصی دہری شہریت کے حامل ہیں
قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس جاری ہیں۔ حالیہ سیشن صرف اس لیے ہورہے ہیں کہ قومی اسمبلی کے سالانہ ایام پورے کرنے ہیں۔ رولز کے مطابق قومی اسمبلی کے ایک سال میں ایک سو بیس روز سیشن ہونا ضروری ہے۔ حالیہ پارلیمانی سال چونکہ اگست میں مکمل ہونا ہے اور اس کے طے شدہ ایک سو بیس روز مکمل کیے جارہے ہیں۔ حالیہ سیشن کا اگر کسی کو فائدہ ہے تو وہ صرف ارکانِ اسمبلی ہیں جنہیں ٹی اے ڈی اے مل جائے گا۔ اجلاسوں میں دلچسپی پیدا کرنے کے لیے کبھی حکومت اور کبھی اپوزیشن شوشے چھوڑ دیتی ہے جو اخبارات کی شہ سرخیاں بن جاتے ہیں۔ ان دنوں عزیر بلوچ ایسا ہی شوشا ہے۔ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی عزیر بلوچ جیسے جرائم پیشہ افراد پر بحث کررہے ہیں اور خوب رونق لگی ہوئی ہے۔ اس وقت دونوں ہی جماعتیں دعویدار بنی ہوئی ہیں کہ چوروں اور لٹیروں کو بے نقاب کرتی رہیں گی۔ یوں قومی اسمبلی کے ایام مکمل کیے جارہے ہیں، اس کے سوا اسمبلی سیشن کا کوئی مقصد نہیں ہے۔ تاہم پس منظر میں بہت کچھ ہورہا ہے۔ اس میں سب سے اہم بات آئین میں ترمیم سے متعلق ہے۔ حکومت اس وقت تلوار نیام سے باہر نکال کر اٹھارویں ترمیم سے چھیڑ چھاڑ کو تیار ہوچکی ہے۔ وفاق اور صوبوں کے مابین وسائل کی تقسیم کی بابت 2010ء سے قومی مالیاتی کمیشن کی بدولت جو بندوبست قائم تھا اس سے گریز کے ارادے باندھ لیے گئے ہیں۔ سینیٹ کے اجلاس میں اٹھارویں ترمیم کے بارے میں حکومت کا ارادہ افشا ہوا ہے، متحدہ کے سینیٹر بیرسٹر محمد علی سیف کے ذریعے کشتی دریا میں اتاری گئی ہے۔ محمد علی سیف نے سینیٹ میں نجی کارروائی کے روز ایک قانون متعارف کروانا چاہا ہے۔ پارلیمنٹ میں ہفتے میں ایک روز نجی کارروائی کے لیے مختص ہوتا ہے، اس دوران کوئی رکن پارلیمنٹ ذاتی حیثیت میں قانون سازی کے لیے بل کا مسودہ ایوان میں پیش کرسکتا ہے، اسی لیے محمد علی سیف نے بھی مسودے کے لیے نجی کارروائی کا دن ہی چنا، جو محض ایک سادہ قانون نہیں بلکہ آئین میں ترمیم کا طلب گار تھا۔ان کی خواہش تھی کہ آئین کے آرٹیکل160کی ضمنی شق (3-A)کو ختم کردیا جائے۔ اس شق کے مطابق یہ طے کردیا گیا ہے کہ کسی مالیاتی سال کے دوران صوبوں کے لیے رقوم مختص کرتے وقت اس امر کو یقینی بنایا جائے گا کہ گزشتہ برس صوبوں کے لیے جو حصہ مختص کیا گیا تھا اس میں کسی صورت کمی نہیں ہوگی۔ ایوان میں پیش کیے جانے والے مسودے میں ارادہ ظاہر کیا گیاکہ اس شق کو ختم کردیا جائے۔ اس مسودے میں دراصل فقط اٹھارویں ترمیم سے نجات ہی ہدف نہیں، یہ خواہش بھی بیدار ہورہی ہے کہ پارلیمانی نظام سے جان چھڑائی جائے، کیونکہ اچھی حکومت صرف ماہرین کے ذریعے ہی قائم کی جاسکتی ہے۔ اس بحث کا آغاز ہوتے ہی اسلام آباد میں سابق بیوروکریٹس کی بڑی اکثریت اپنی شیروانیاں تیار کرا رہی ہے۔ انہیں بھی یقین ہے کہ ملک کے مسائل صرف غیر ملکی یونیورسٹیوں سے اعلیٰ تعلیم یافتہ ٹیکنوکریٹ ہی حل کرسکتے ہیں۔ اگر یہ معاملہ صرف سینیٹ کے لیے ہے تو ایک کارِ بے سود ہے۔ آئین میں کسی بھی ترمیم کے لیے دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہے، حکومت کے پاس یہ اکثریت قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں ایوانوں میں نہیں ہے۔ سینیٹ میں تو اپوزیشن کا پلڑا بھاری ہے، ہوسکتا ہے کہ نجی کارروائی کے روز مسودہ پیش کرکے فضا بنانا مقصود ہو۔ مسلم لیگ(ن) کے شاہد خاقان عباسی اٹھارویں ترمیم پر بات کرنے پر آمادہ دکھائی دیتے ہیں، پیپلزپارٹی بھی کسی حد تک راضی ہے۔ سینیٹ اور قومی اسمبلی میں جے یو آئی اپوزیشن کی ایک بڑی جماعت ہے، سینیٹر عطا الرحمٰن نے اس ترمیم کی مزاحمت کا اعلان کیا ہے، جس کے بعد تحریک انصاف کی پارلیمانی جماعت اور متحدہ مل کر بھی قانون کا مسودہ سینیٹ کمیٹی کے روبرو بھیج دینے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ اپوزیشن شاداں ہے کہ اس نے آئین سے چھیڑ چھاڑ کی کوشش ناکام بنادی ہے، تاہم وہ خوف زدہ بھی ہے کہ کہیں ملک میں صدارتی نظام تو متعارف نہیں کرایا جارہا! یہ نظام قائم ہوگیا تو عمران خان وزارتِ عظمیٰ چھوڑ کر ایوانِ صدر جاسکتے ہیں، پھر وہ ہر شعبے کے ماہرین پر مشتمل ایک کابینہ تشکیل دیں گے جو نئے نظام کی بنیاد رکھے گی۔ کیونکہ بلی تھیلے سے باہر آچکی ہے، اٹھارویں ترمیم کے تحت قائم ہونے والے بندوبست پر ٹھوس سوالات اٹھا دیے گئے ہیں۔ یہ سوالات بہت سوچ بچار کے بعد اٹھائے گئے ہیں۔ ان کے حل کے لیے کوئی منصوبہ بھی بن چکا ہوگا۔ اپوزیشن ضرور چاہے گی کہ وہ اس پلان کے نمایاں خدوخال کو ڈھونڈے۔
ایک اور اہم اور حساس معاملہ سامنے آیا ہے کہ 19 غیر منتخب کابینہ ارکان میں 4 معاونینِ خصوصی دہری شہریت کے حامل ہیں۔ کابینہ ڈویژن نے ان افراد کی فہرست اور تمام تفصیلات افشا کر دی ہیں۔ اس پر اپوزیشن کا ردعمل بھی آچکا ہے کہ دہری شہریت کا حامل شخص رکنِ پارلیمان نہیں بن سکتا۔ دہری شہریت والوں کو کابینہ کا حصہ کیوں اور کس قانون کے تحت بنایا گیا؟ کیونکہ عمران خان ماضی میں دہری شہریت کے حامل ارکان کی سخت مخالفت کرتے تھے، سوال یہ ہے کہ وزیراعظم نے معلومات کے باوجود دہری شہریت رکھنے والوں کو آئینی فورم کا کیوں حصہ بنایا؟ کیا دہری شہریت کے لوگ نیا پاکستان بنا رہے ہیں؟ اگر وزیراعظم کو معلوم نہیں تھا تو یہ مزید تشویش کی بات ہے۔ وزیراعظم کو نیا پاکستان کی تعمیر کے لیے بیرونِ ملک سے کاریگر درآمد کرنے پڑے ہیں۔ مشیروں کے اثاثے باہر لانے کا مقصد انہیں فارغ کرنا ہے، اور یہ کام حکومت نے نہیں کیا بلکہ جنہوں نے کیا ہے ان کا ذکر نہیں کیا جاسکتا۔ مشیروں کے لیے تو پیش رفت ہوئی ہے مگر وفاقی کیبنٹ سیکرٹری سمیت اس وقت ملک میں کم و بیش چوبیس ہزار سرکاری ملازمین ہیں، جن کے پاس دہری شہریت ہے، یہ لوگ اُن ملکوں سے وفاداری کا حلف اٹھائے ہوئے ہیں جن ملکوں کی شہریت لے رکھی ہے۔ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 5 میں واضح لکھا ہے کہ ہر شہری ریاست کا وفادار ہوگا، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ کسی دوسرے ملک کی شہریت نہ لے۔ آئین میں یہ پابندی ہے کہ جس نے ریاست سے وفاداری کا حلف نہیں لیا وہ ریاست کے کسی فیصلہ ساز فورم میں نہیں بیٹھ سکتا۔ وفاقی کابینہ فیصلہ ساز فورم ہے، کابینہ کی ورکنگ اس طرح ہوتی ہے کہ اس میں صرف وہی بیٹھ سکتا ہے جس نے حلف اٹھایا ہوا ہو۔ سرکاری ملازم، مشیر یا وزیر مملکت اُس وقت بیٹھتے ہیں جب ان سے متعلق کوئی نکتہ زیر بحث ہو، اپنی بات کرکے یا بریفنگ کے بعد یہ لوگ کابینہ سے اٹھ جاتے ہیں۔ مگر اِس بار یہ ہورہا ہے کہ اس بات کی پابندی نہیں کی جارہی تھی، اس لیے یہ حساس معاملہ اٹھایا گیا ہے اور اب متعدد مشیر فارغ ہوجائیں گے۔
پی ٹی وی فیس میں اضافہ
حکومت نے صارفین سے بجلی کے بلوں کے ساتھ ایک سو روپے پی ٹی وی فیس وصول کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بجلی کے بلوں کے ساتھ پی ٹی وی فیس وصول کرنے کا پالیسی فیصلہ سابق سیکرٹری اطلاعات و نشریات سید انور محمود نے کیا تھا۔ ملک میں نجی ٹی وی چینلز اور اخباری مالکان کو ٹی وی چینلز کے لائسنس دینے اور چیک اینڈ بیلنس کا نظام کمزور رکھنے کا فیصلہ بھی انہی کے دور میں ہوا۔ بجلی کے بلوں کے ساتھ پی ٹی وی فیس وصول کرنے سے رقم کا کچھ حصہ بینک اور واپڈا لے جاتے ہیں، اور یوں سو میں سے اسّی روپے پی ٹی وی کو ملیں گے۔
اس وقت ملک میں بجلی کے صارفین کی تعداد 13.9 ملین ہے، پی ٹی وی بجلی کے ہر بل کے ذریعے 25 روپے معمولی ماہانہ فیس اکٹھا کرکے سالانہ 4.1 بلین روپے کماتا تھا۔ اب یہی رقم چار گنا بڑھ کر تقریباً 16 بلین سالانہ ہوجائے گی۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا پی ٹی وی کا سالانہ خرچ سولہ بلین ہے؟ ملک میں پی ٹی وی کے ناظرین کی تعداد کیا ہے؟ یہ دیکھا جاتا ہے یا نہیں دیکھا جاتا؟ اب یہ ایک بے مقصد بحث ہوگی، کیونکہ پی ٹی وی تو بجلی کے ہر بل کے ذریعے پیسے کمائے گا، جیسے جیسے بجلی کے صارفین کی تعداد بڑھے گی ویسے ویسے اس کی آمدنی بڑھتی چلی جائے گی۔ جس وقت پی ٹی وی کی فیس پچیس روپے تھی اُس وقت ملک میں سات ملین ٹیلی ویژن لائسنس ہولڈر تھے، اور 2 ارب 11 کروڑ روپے کی آمدنی ہوتی تھی۔ بجلی کے بلوں کے ذریعے پی ٹی وی فیس اکٹھی کرنے کا خیال اصل میں ترکی سے لیا گیا تھا۔ اتفاق سے جنرل پرویزمشرف ترکی کے بہت قریب تھے اور سید انور محمود جنرل پرویزمشرف کے انتہائی قابلِ اعتماد بیوروکریٹ افسر تھے۔ لہٰذا بجلی کے بلوں کے ذریعے فیس اکٹھی کرنے کا فیصلہ ہوا۔ اس سے قبل پرویز خٹک (وزیر دفاع) کے خاندان کے پاس پی ٹی وی کی فیس اکٹھی کرنے کا ٹھیکہ تھا، ان کے بھائی طارق خٹک کی ایک فرم یہ کام کرتی تھی۔
پی ٹی وی کے خسارے کی ابتدا کی بہت سی وجوہات ہیں… مثلاً پسند اور ناپسند کی بنیاد پر بھرتیاں، نااہل مینجمنٹ، پرانے ڈرامے دکھانے کی پالیسی، حکومتوں کے لیے یک طرفہ پروپیگنڈا ٹول بن جانا۔ اس وقت سوائے ارتغرل کے باقی سب ڈرامے وہی ہیں جو نجی چینلز کے ذریعے پہلے دکھائے جاچکے ہیں، لہٰذا یہ ڈرامے اشتہارات کے ذریعے آمدنی کا باعث نہیں بن رہے۔ پندرہ بیس سال قبل پی ٹی وی ہی الیکٹرانک میڈیا کے طور پر مارکیٹ میں تھا، مگر اب نجی برقی میڈیا آجانے سے اس کی آمدنی کم ہوگئی ہے، لہٰذا اس کی انتظامیہ نے محنت کرنے کے بجائے بجلی کے بلوں کے ذریعے فیس بڑھاکر وصول کرنے کی پالیسی اپنا لی ہے اور جبراً یہ کام ہورہا ہے۔ یہ فیس نہیں بلکہ جبری بھتہ ہے۔ پاکستان ٹیلی ویژن کو ماضی میں تمباکو سے متعلق اشتہارات کے ذریعے سالانہ 2 کروڑ 80 لاکھ روپے کی مستقل آمدنی ہوتی تھی، یہ اشتہار بند ہوجانے سے آمدنی کا در بند ہوچکا ہے۔ آمدنی میں ہونے والے اس نقصان کی تلافی کرنے کے لیے اب بجلی کے صارفین پر تلوار چلائی گئی ہے۔
2003-4ء میں پی ٹی وی کا خسارہ 350 ملین تھا، یہ وہی وقت تھا جب فیس بجلی کے بلوں کے ساتھ وصول کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اُس وقت پی ٹی وی کے سالانہ اخراجات تقریباً 3 ارب روپے تھے۔ بجلی کے بلوں کے ذریعے لائسنس کی فیس جمع کرنے کے فیصلے سے پی ٹی وی انتظامیہ ٹھیکیدار کو دی جانے والی رقم سے بھی بچ گئی۔ بجلی کے بل کے ذریعے لائسنس فیس وصول کرنے کا خیال مینجمنٹ کے ذہن میں تھا، لیکن ارشد خان نے انور محمود کے ذریعے یہ فیصلہ جنرل پرویزمشرف سے منوا لیا۔ واپڈا کے ذریعے یہ فیس وصول کرنے کا ایک قانونی پہلو بھی ہے جو سختی کے ساتھ نظرانداز کردیا گیا کہ کیا یہ محکمہ حکومتی اداروں کے لیے یا حکومت کے لیے محاصل جمع کرنے کا اختیار رکھتا ہے؟ یہ نکتہ عدالت میں چلا گیا تو حکومت کا یہ فیصلہ غیرقانونی قرار پاسکتا ہے۔