اسرائیلیوں کو ڈر ہے کہ اگر جو بائیڈن برسراقتدار آگئے توجوہری تنصیبات کے معائنے تک ایران کے خلاف پابندیاں معطل ہوجائیں گی
حضرت ِراحت اندوری کہتے ہیں:۔
سرحدوں پر بہت تنائو ہے کیا
کچھ پتا تو کرو چنائو ہے کیا
یہ شعر پاک ہند روایتی رقابت کے تناظر میں کہا گیا ہے کہ نااہلی و ناکامی چھپانے کے لیے ’’کچل دو‘‘ اور ’’نشانِ عبرت بنادو‘‘ دِلّی و اسلام آباد کے حکمرانوں کا مجرب نسخہ ہے۔ تاہم انتخاب جیتنے کے لیے نفرت و قوم پرستی کی آگ کو ہوا دینا برصغیر تک محدود نہیں، بلکہ دنیا بھر کے بے رحم سیاسی رہنما دھمکیوں اور جھوٹے قومی افتخار کا علَم بلند کرکے اپنا اُلّو سیدھا کرتے ہیں۔ آج کل امریکہ انتخابات کی آزمائش سے گزر رہا ہے۔ اِس بار کورونا کی وبا نے سیاست دانوں کو باہمی الزام تراشی کی نئی جہت عطا کردی ہے، لیکن روایتی ہتھکنڈوں کا استعمال بھی جاری ہے۔
برصغیر کے رہنمائوں کی طرح امریکہ کو گھر کی دہلیز پر دشمن میسر نہیں، اس لیے بیچاروں کو سات سمندر پار چاند ماری کرنی پڑتی ہے۔ امریکہ کے دشمن بھی ایک سے زیادہ ہیں، چنانچہ ایک چومکھی معرکہ درپیش ہے۔ چومکھی اس لیے بھی کہ امریکہ نے چار ملکوں یعنی روس، چین، شمالی کوریا اور ایران کو سرکاری طور پر اپنا دشمن نامزد کررکھا ہے۔
صدر ٹرمپ کے اقتدار میں آنے سے پہلے امریکہ چین تعلقات بظاہر خوشگوار تھے، شمالی کوریا کو صدر اوباما نے نظرانداز کررکھا تھا، ایران سے جوہری معاہدے کے بعد باہمی تعلقات معمول کی طرف بڑھتے نظر آرہے تھے۔ صرف روس سے کشیدگی نمایاں تھی۔کریمیا پر کریملن کے قبضے اور یوکرین میں مداخلت کی بنا پر امریکہ کے ساتھ نیٹو اور یورپی یونین سے بھی روس کے تعلقات میں تنائو بڑا واضح تھا۔
ایران کے بارے میں 2016ء کی انتخابی مہم کے دوران صدر ٹرمپ کا رویہ خاصا تلخ تھا۔ ایران سے امریکہ کو براہِ راست کوئی ڈر نہیں، اور ان تحفظات کی وجہ ایران کے جوہری پروگرام سے اسرائیل کو ممکنہ خطرات ہیں۔ سچ پوچھیں تو یہ خدشہ و امکان نہیں بلکہ داخلی سیاست کے تیشے سے تراشا مفروضہ ہے۔ اسرائیل کی مکمل و غیر مشروط حمایت صدر ٹرمپ کے منشور کا سب سے اہم نکتہ تھا۔ اسرائیل کی حمایت اور اُس کے تحفظ کو صدر ٹرمپ اپنا اخلاقی و مذہی فرض سمجھتے ہیں۔ وہ انتخابی مہم کے دوران ایران جوہری معاہدے کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔ اپنے خطابات اور سیاسی مباحثوں میں انھوں نے تہران کے جوہری پروگرام کو اسرائیل کی سلامتی کے لیے شدید خطرہ قرار دیا تھا۔ ان کا خیال ہے کہ ’ایرانی ملّائوں‘ نے صدر اوباما کو بے وقوف بناکر اپنا جوہری پروگرام جاری رکھا ہوا ہے۔ اقوام متحدہ سربراہی اجلاس میں بھی انھوں نے ایران جوہری معاہدے کو امریکہ کے لیے شرمناک قرار دیا۔
ایران جوہری معاہدے کے نام سے مشہور اس دستاویز کا سرکاری نام Joint Comprehensive Plan of Action یا JCPOA ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچوں ارکان اور جرمنی و یورپی یونین پر مشتمل مذاکراتی کمیٹی نے دوسال کے طویل اعصاب شکن مذاکرات کے بعد ایران کو پابندیاں ہٹانے کے عوض یورینیم کی افزودگی کو ایک خاص مقام تک منجمد کرنے پر راضی کرلیا اور 14 جولائی 2015ء کو معاہدے کے متن پر دستخط ہوگئے۔ معاہدے کے تحت تمام دستخط کنندہ ہر چھے ماہ بعد عالمی جوہری توانائی کمیشن یا IAECکی اطمینان بخش جانچ پڑتال کے بعد معاہدے کی توثیق کرتے ہیں۔ دستخط کے بعد سے 2018ء تک ایرانی تنصیبات کا 8 بار تفصیلی معائنہ ہوچکا ہے اور IAECنے ہر بار اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ایران کے اخلاص کی تعریف کی، چنانچہ کسی بھی فریق کو معاہدے کی توثیق میں کوئی مشکل پیش نہ آئی۔
اس معاہدے کی اسرائیل نے شدید مخالفت کی۔ اُس وقت تک ڈونلڈ ٹرمپ اپنی انتخابی مہم شروع کرچکے تھے۔ انھوں نے معاہدے کو امریکہ اور اسرائیل کے لیے سخت نقصان دہ قرار دیا۔ جناب ٹرمپ نے وعدہ کیا کہ حکومت سنبھالتے ہی وہ امریکہ کو اس معاہدے سے علیحدہ کرکے ایران پر شدید ترین پابندیاں عائد کردیں گے۔
اپنے انتخابی وعدے کی پاس داری کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے8 مئی 2018ء کو قوم سے اپنے خطاب میں معاہدے کی توثیق سے انکار کردیا، جسے قانونی اصطلاح میں Decertificationکہتے ہیں۔ قانونی اعتبار سے عدم توثیق تنسیخ نہیں بلکہ امریکہ کی جانب سے اس بات کا اظہار ہے کہ ایران معاہدے پر اس کی روح کے مطابق عمل نہیں کررہا لہٰذا امریکہ تہران پر دوبارہ پابندیاں عائد کرسکتا ہے۔ یہ پابندیاں اُس وقت تک برقرار رہیں گی جب تک ایران کے طرزِعمل اور اقدامات سے یہ ثابت نہ ہوجائے کہ وہ معاہدے پر عمل درآمد میں مخلص ہے۔
چین سے صدر ٹرمپ کو شکوہ تھا کہ بیجنگ نے مصنوعی طور پر اپنی کرنسی کی قدر کم رکھی ہوئی ہے جس کی وجہ سے اس کی برآمدی مصنوعات کی قیمت بہت کم ہے۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران صدر ٹرمپ مسلسل یہ کہتے رہے کہ ہماری صنعتی تباہی کا بنیادی سبب چین کی جارحانہ پالیسی ہے۔ کم قیمت مصنوعات کے علاوہ صدر ٹرمپ نے چین پر امریکی املاکِ دانش کی چوری کا بھی الزام لگایا۔ ان کا کہنا تھا کہ بیجنگ نے ایسے قوانین بنا رکھے ہیں جن کے تحت وہاں فروخت ہونے والی مصنوعات کے ڈیزائن کی ساری تفصیلات تقسیم کنندہ کو دینا ضروری ہے، اور مشارکہ کی صورت میں اُن مصنوعات کی تفصیلات کی فراہمی پر بھی اصرار کیا جاتا ہے جو چین میں فروخت بھی نہیں ہوتیں۔ صدر ٹرمپ نے World Trade Organization (WTO)کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ WTO امریکہ کی تباہی کا عالمی معاہدہ ہے۔
مارچ 2019ء میں انھوں نے چین کے خلاف تجارتی جنگ یا Trade War کا طبل بجا دیا اور املاکِ دانش کی چوری کا الزام لگاکر امریکی صدر نے چینی مصنوعات کی درآمد پر 50 ارب ڈالر کے اضافی محصولات عائد کردیے۔ امریکہ نے فولاد اور ایلمونیم کو نشانہ بنایا جس پر بالترتیب 25 اور 10 فیصد ڈیوٹی لگادی گئی۔ اس اعلان سے چین کو نقصان پہنچنے سے پہلے نیویارک کا بازارِ حصص صرف چند گھنٹوں میں 700 پوائنٹ نیچے گرگیا اور چشم زدن میں سرمایہ کاروں کے اربوں ڈالر ڈوب گئے۔ بوئنگ، لاک ہیڈ مارٹن، ایپل سمیت اُن تمام اداروں کے حصص زمین پر آرہے جو چین سے کاروبار کرتے ہیں۔
دوہفتے بعد چین نے امریکہ سے خریدی جانے والی زرعی پیداوار، سبزی، پھل، جانوروں کے گوشت اور شراب پر بھاری محصولات عائد کرکے نہلے پہ دہلا جمادیا۔ اعلان کے تحت اب امریکہ سے آنے والے سور کے گوشت پر 25 فیصد، گائے کے گوشت پر 20 فیصد، پھل، مچھلی، سبزی اور غذائی اجناس پر 15 فیصد درآمدی ڈیوٹی عائد کردی گئی۔ چینیوں کے جوابی قدم سے دیہی امریکہ میں صفِ ماتم بچھ گئی جو صدر ٹرمپ کی ری پبلکن پارٹی کا سیاسی قلعہ ہے۔
بیجنگ کے جوابی وار سے تجارتی جنگ (Trade War) میں شدت آگئی جس کا امریکی تاجروں کو خوف تھا۔ امریکی درآمد کنندگان کا کہنا تھا کہ محصولات میں اضافے کے بعد بھی چینی مصنوعات مقامی اشیا سے سستی ہیں۔ ٹیکس کی شکل میں امریکی حکومت کی آمدنی تو بڑھی لیکن یہ عوام کی جیب پر ڈاکے کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ جنگ کے آغاز سے ہی چین کا پلڑا بھاری تھا، چنانچہ جلد ہی بات چیت کا پانی ڈال کرآگ کو ٹھنڈا کردیا گیا۔
اسی دوران ہانگ کانگ میں ایک قانونی مسودے پر ہنگامے شروع ہوگئے جس کے مطابق ہانگ کانگ میں گرفتار قیدیوں کو چین کے مطالبے پر بیجنگ کے حوالے کیا جاسکے گا۔ زبردست مظاہرے کی بنا پر ہانگ کانگ کی انتظامیہ نے بل پر بحث روک دی، لیکن ہنگامے جاری رہے۔ اس دوران ہانگ کانگ کی چین سے مکمل آزادی کے نعرے گونجے اور کئی مقامات پر صدر ٹرمپ کی تصویریں اٹھائے مظاہرین نے سرکاری عمارتوں پر امریکی پرچم لہرا دیے۔ صورت حال قابو سے باہر ہوتے دیکھ کر چین کی عوامی اسمبلی نے سیکورٹی بل منظور کرکے ہانگ کانگ کو براہِ راست بیجنگ کے زیر انتظام کرلیا۔ حالانکہ 1997ء میں برطانیہ نے ہانگ کانگ کو اس ضمانت کے بعد ہی چین کے حوالے کیا تھاکہ اس کی آزاد حیثیت برقرار رہے گی۔ اسی بنا پر یہ اسپیشل ایڈمنسٹریٹو ریجن قرار پایا اور اس کے لیے ONE COUNTRY TWO SYSTEM کی اصطلاح وضع کی گئی۔ یعنی ہانگ کی شہری آزادی اور عدلیہ برقرار رہے گی۔ چین کے اس فیصلے نے امریکہ اور چین کے درمیان اختلافات کی خلیج کو مزید گہرا کردیا۔
صدر ٹرمپ کورونا وائرس کے پھیلائو کا الزام بھی چین پر لگا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مرض پھوٹ پڑنے کے بہت دن بعد چین نے دنیا کو اس کی سنگینی سے مطلع کیا۔ اگر بیجنگ اس معاملے میں شفاف رویہ اختیار کرتا تو چین سے باہر اس کے نقصانات کو کم کیا جاسکتا تھا۔
انتخابات کے قریب آتے آتے چین کے بارے میں صدر ٹرمپ کا لہجہ سخت ہوتا جارہا ہے۔ دوسری طرف جوبائیڈن صدر ٹرمپ کو ’صدر ژی کا دوست‘ قرار دے کر انھیں عار دلا رہے ہیں، اور اشتعال کے نتیجے میں چین کے حوالے سے صدر ٹرمپ کا لہجہ مزید سخت ہوگیا ہے۔ دوسری طرف ایران کے بارے میں بھی صدر ٹرمپ نے پچھلے ماہ پابندیاں مزید سخت کردی ہیں جس کی وجہ سے تہران کے لیے کورونا وائرس سے نبٹنا مشکل ہورہا ہے۔ ایران سے تعاون ختم کرنے کے لیے دِلّی پر بھی شدید دبائو ہے۔
ایران امریکہ کشیدگی کا بنیادی کردار اسرائیل ہے۔ امریکی سیاست پر نظر رکھنے والے اسرائیلی ماہرین کا خیال ہے کہ آئندہ انتخابات میں صدر ٹرمپ کی شکست خارج ازامکان نہیں، بلکہ اسرائیل کے صحافتی حلقوں میں یہ افواہ گرم ہے کہ اسرائیلی خفیہ ادارے وزیراعظم نیتن یاہو کو جوبائیڈن سے تعلقات بہتر بنانے کا مشورہ دے رہے ہیں۔
اسی پس منظر میں یہ خبر بھی گرم ہے کہ صدر ٹرمپ کی ممکنہ شکست کو بھانپتے ہوئے اسرائیل نے ایران کے خلاف اقدامات کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ اسرائیلی محکمہ سراغ رسانی کے ایک سابق عہدیدار اور یورپی یونین کے ایک انٹیلی جنس افسر نے نام افشا نہ کرنے کی شرط پر قابلِ اعتماد صحافیوں کو بتایا کہ امریکی انتخابات سے پہلے ایران کے خلاف بڑی اسرائیلی مہم کا خطرہ بڑھتا جارہا ہے۔ وزیراعظم نیتن یاہو چاہتے ہیں کہ امریکی انتخابات سے پہلے صدر ٹرمپ کی سیاسی و سفارتی پشت پناہی میں کارروائی کرڈالی جائے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے ایران کی دفاعی تنصیبات ’مشکوک‘ حملوں کا نشانہ بنی ہوئی ہیں۔ 22جون کو میزائل تیار کرنے کی ایک فیکٹری میں دھماکہ، 2 جولائی کو اصفہان کے شہر نطنز میں واقع یورینیم افزودگی مرکز پر حملہ، جس کے دودن بعد خلیج فارس کے ساحلی شہر اور تیل و گیس کے ٹرمینل بوشہر پر میزائل گرنے سے بھاری نقصان ہوا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ نطنز پر حملے سے ایران کی جوہری صلاحیت کو شدید دھچکہ لگا ہے۔ اسی کے ساتھ ایران کے مختلف علاقوں میں پراسرار آتش زدگی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ دو ہفتے پہلے اسرائیلی وزیر خارجہ گیبی اشکینازی نے ایران میں ہونے والے واقعات پر ایک مبہم سا بیان دیا کہ ’’ہم ایسی کارروائیاں کرتے ہیں جن کی تفصیلات جاری کرنا ممکن نہیں‘‘۔ جناب اشکنازی اسرائیلی فوج کے جنرل چیف آف اسٹاف رہ چکے ہیں۔ ان کارروائیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے اسرائیلی انٹیلی جنس کے ایک افسر نے کہا کہ ان کارروائیوں کا مقصد ایرانیوں کو چکرا کر رکھنا ہے۔
اسرائیلیوں کو ڈر ہے کہ اگر جو بائیڈن برسراقتدار آگئے تو وہ JCPOAکی توثیق کردیں گے اور جوہری تنصیبات کے معائنے تک ایران کے خلاف پابندیاں معطل ہوجائیں گی جو امریکہ کے سوا تمام کے تمام دستخط کنندگان کا مؤقف ہے۔
دوسری طرف دشمن کا دشمن دوست کے اصول پر ایران اور چین کے درمیان قربت بڑھ رہی ہے۔ کھربوں ڈالر کے زرمبادلہ کے ساتھ چین ساری دنیا میں سرمایہ کاری کے مواقع تلاش کررہا ہے، دوسری طرف امریکی پابندیوں نے ایران کو سفارتی و تجارتی تنہائی میں مبتلا کردیا ہے۔ یعنی ’’اس طرف ہے گرم خوں اور ان کو عاشق کی تلاش‘‘، چنانچہ دونوں ملک قریب آگئے۔کچھ عرصہ پہلے تہران نے بیجنگ سے معاشی اور سیکورٹی شراکت داری کے منصوبے پر اتفاق کیا ہے جس کی مدت 25 سال ہے۔ اب تک اس معاہدے کی تفصیلات جاری نہیں ہوئیں، لیکن کہا جارہا ہے کہ مشترکہ منصوبوں پر ایران اپنے حصے کے اخراجات چین کو تیل کی رعایتی قیمت پر فروخت کی شکل میں ادا کرے گا۔ یعنی جہاں چین کو سستا ایندھن میسر ہوگا وہیں ایران کو تیل کا ایک مستقل خریدار مل جائے گا۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ چین کے اشارے پر ایران نے چابہار(Chabahar) پروجیکٹ سے ہندوستان کو علیحدہ کردینے کا عندیہ دیا ہے۔ یہ منصوبہ ہیئت، حکمت اور وسعت کے اعتبار سے سی پیک (CPEC) شمالی کہا جاسکتا ہے جس کا بنیادی ہدف ایران کو افغانستان اور اس سے آگے وسط ایشیا تک رسائی دینا ہے۔ اس کے لیےخلیج اومان کی ایرانی بندرگاہ چابہار کی ترقی اور اس کے بعد وہاں سے زاہدان اور اس کے آگے افغانستان تک سڑک اور ریلوے ٹریک بچھانے کا پروگرام بنایا گیا ہے۔ ایران سے افغانستان تک سڑک کا کام ہندوستان نے مکمل کرلیا ہے اور اب چابہار سے زاہدان اور افغانستان تک 628 کلومیٹر ریل کی پٹری ڈالنے کا مرحلہ درپیش ہے جس کے لیے ہندوستان نے ایک ارب 60 کروڑ ڈالر خرچ کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ ایران کے وزیر ٹرانسپورٹ محمد اسلامی کے مطابق یہ منصوبہ مارچ 2022ء میں مکمل ہونا ہے لیکن اب تک ہندوستان نے کام کے لیے کوئی رقم جاری نہیں کی۔ ایرانیوں کا کہنا ہے کہ تہران اب یہ کام اپنے وسائل سے کرے گا۔ خیال ہے کہ اب چابہار سے افغانستان تک ریل و روڈ پروجیکٹ چین کے Belt and Road Initiative یا B&Rکا حصہ بن جائے گا۔
چابہار زاہدان ریلوے کے بعد ہندوستان کو فرزاد بی گیس کے ترقیاتی منصوبے سے بھی الگ کیا جارہا ہے۔ خلیج فارس میں فرزاد بی گیس کا میدان 2012ء میں دریافت ہوا تھا۔ دنیا کے سب سے بڑے گیس میدان پارس شمالی کے مشرق میں واقع فرزاد میں موجود گیس کے ذخیرے کا تخمینہ 217 ہزار ارب مکعب فٹ ہے۔2013ء سے پیداوار کا آغا ز ہوا اور ان کنوؤں سے 1.1ارب مکعب فٹ گیس روزانہ نکالی جارہی ہے۔ ہندوستان کی ONGC ودیش لمیٹڈ (OVL) نے میدان کی ترقی، نئی تنصیبات اور ترقیاتی کنوؤں کی کھدائی کے لیے 6 ارب ڈالر لگانے کا وعدہ کیا تھا، لیکن آج تک OVL نے اس منصوبے پر صرف 10کروڑ ڈالر خرچ کیے ہیں۔
گزشتہ ہفتے ایران کی قومی تیل کمپنی NIOCکے سربراہ مسعود کرباسیان نے کہا کہ ایران فرزاد بی میدان کی ترقی کے لیے پُرعزم ہے اور ان کی کمپنی اب اپنے وسائل سے کام کرے گی۔ مغربی سفارتی حلقوں کا خیال ہے کہ عنقریب چین کی CNPC ہندوستانی OVLکی جگہ لے لے گی۔
چابہار ریلوے سے ہندوستان کی علیحدگی کا اعلان بھی ایسے ہی شگفتہ سفارتی انداز میں کیا گیا تھا۔ علمائے سیاست کے خیال میں چچا سام کے دبائو پر ہندوستان نے چابہار ریلوے اور فرزادبی گیس منصوبے سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا ہے، لیکن اس خیال سے کہ کہیں آبگینوں کو ٹھیس نہ لگ جائے، دہلی نے دامن جھاڑ دینے کے بجائے مالی پریشانیوں کا بہانہ بناکر ہاتھ کھینچ لیا۔ ایرانی بھی سفارت کاری میں خاصے منجھے ہوئے ہیں، چنانچہ انھوں نے ہندوستان سے خود ہی معذرت کرلی، یاں یوں کہیے کہ تم روٹھے ہم چھوٹے۔
بیجنگ اور تہران کے بڑھتے ہوئے قرب سے امریکہ بہادر خاصے پریشان ہیں۔ افواہ گرم ہے کہ واشنگٹن نے تہران کو ایک سندیسہ بھجوایا ہے جس میں جوہری تنازعے سمیت تمام معاملات پر غیر مشروط مذاکرات کی پیشکش کی گئی ہے۔ مہر و محبت کے اشاروں سے چین بھی محروم نہیں۔ ناکام تجارتی مذاکرات اور ہانگ کانگ کے حوالے سے متنازع قانون سازی پر آتشیں بیانات کے ساتھ سفارتی سطح پر دونوں ملکوں کے تعلقات معمول کے مطابق ہیں اور کورونا وائرس کے باعث وطن واپس بلائے گئے 100 سفارت کاروں اور ان کے اہلِ خانہ کوگزشتہ ہفتے چین واپس بھیج دیا گیا، اور اگلے چند ہفتوں میں باقی اہلکاروں کی واپسی متوقع ہے۔