کسی بھارتی کو شاید تاریخ میں پہلی بار اقوام متحدہ کی قراردادوں کی یاد بھی بڑی شدت سے آئی ہے
وزیراعظم عمران خان نے جب سے دیامر بھاشا ڈیم کا افتتاح کیا ہے، بھارت میں بالی ووڈ طرز کی فلم ’’چیخیں‘‘ باکس آفس پر ہٹ ہورہی ہے۔ بھارتی حکومت اور میڈیا کی چیخ وپکار ہر طرف سنائی دے رہی ہے۔ انہیں اندازہ ہی نہیں کہ گلوان وادی میں خاردار ڈنڈوں نے ان کے فوجیوں پر جو قیامت بپا کی تھی وہ ہاتھ کی صفائی تھی۔ اُدھر خودسر اور آمادۂ فساد بھارت کو گلوان کے پہاڑوں کے پرے قید کرلیا گیا تو اِدھر پاکستان نے ایک ایسے منصوبے کا افتتاح کرلیا جس کی منصوبہ بندی جن فائلوں میں درج تھی پچاس سال کے انتظار نے ان فائلوں کو ہی کرم خوردگی کا شکار بنادیا تھا، اور جس پر کام کی منظوری کو بھی دس برس کا عرصہ گزر چکا تھا، اور قریب تھا کہ کالاباغ ڈیم کی طرح یہ منصوبہ یونہی فائلوں میں پڑے پڑے ناکام ہوجائے۔ عمران خان کے مطابق اس ڈیم کی تعمیرکا فیصلہ پچاس سال قبل ہوا تھا اور مشترکہ مفادات کی کونسل نے 2010ء میں اس منصوبے پر عمل درآمد کی باقاعدہ منظوری دی تھی۔ اس منصوبے کی راہ میں واحد مزاحم قوت بھارت کا یہ اعتراض تھا کہ ڈیم اُس علاقے میں تعمیر ہونا ہے جس پر بھارت کا دعویٰ ہے۔ جب بھی ڈیم کی تعمیر کی طرف پیش رفت ہوتی، بھارت ڈیم کی تعمیر میں معاون بین الاقوامی ایجنسیوں کو ڈرا دھمکا کر، منت ترلے کرکے، یا رشوت دے کر پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیتا، اور یوں بھارت ایک طرف علاقے پر اپنے دعوے کو مضبوط تر کرتا، تو دوسری طرف پاکستان کو توانائی کے ایک اہم منصوبے سے محروم رکھ کر اس کی تاریکیوں کو بڑھاتا چلا جاتا۔
گلوان میں خاردار ڈنڈوں کا پہلا اور فوری کمال یہ تھا کہ عمران خان دیامر بھاشا ڈیم کا افتتاح کرنے گلگت بلتستان پہنچ گئے اور انہوں نے اسے پاکستان میں ذخیرۂ آب کا سب سے بڑا منصوبہ کہا۔ اس منصوبے سے پینتالیس سو میگا واٹ بجلی پیدا ہوگی اور سولہ ہزار افراد کو روزگار میسر آئے گا۔ اس ڈیم کی تعمیر کے لیے 442 ملین ڈالر چین فراہم کررہا ہے۔
اب کے بھارت نے اس منصوبے پر خوب چیخ وپکار کی اور اسے اپنی خودمختاری پر حملہ قرار دیا، مگر اس مؤقف کو پذیرائی حاصل نہ ہوسکی۔ شاید آج کی مخالفت میں پہلے کا سا زور اور دم موجود نہ تھا، اور اس کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ گلوان میں اس کے مزاج کے سارے پیچ وخم نکل کر رہ گئے تھے۔ فلم ’’چیخیں‘‘ کا ایک اسکرپٹ بھارتی صحافی مسٹر پرابھاش دتہ کا ’’پاکستانی کشمیر میں چین کا بڑھتا ہوا مفاد‘‘ کے عنوان سے انڈیا ٹوڈے میں لکھا گیا مضمون ہے، جس میں کسی بھارتی کو شاید تاریخ میں پہلی بار اقوام متحدہ کی قراردادوں کی یاد بھی بڑی شدت سے آئی ہے۔ یہ وہی قراردادیں ہیں جنہیں بھارت نے نہ صرف یہ کہ ہمیشہ غیر ضروری سمجھا بلکہ عملی طور پر ردی بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ پاکستان ان قراردادوں کے تقدس کی دہائی دیتا رہا، مگر بھارت اس چیخ وپکار کو شانِ بے نیازی سے نظرانداز کرتا رہا۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی یاد دلانے والی پرابھاش دتہ صاحب کی یہ رودادِ غم بہت مزیدار اور چٹخارے دار ہے۔ ان کا پہلا اعتراض ہی یہ ہے کہ دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر بھارت کی قومی خودمختاری پر حملہ تو تھا ہی مگر یہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی بھی خلاف ورزی ہے، کیونکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کو پاکستان کا حصہ قرار نہیں دیا گیا بلکہ اس علاقے کو متنازع کہا اور رکھا گیا ہے۔ چین اور پاکستان ایک ایسی سرزمین کے بارے میں معاہدات کررہے ہیں جو ان کا حصہ ہی نہیں۔ دتہ جی سے کون پوچھے کہ بھارت پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تقدس کا راز کب کھلا، گلوان سے پہلے یا گلوان کے بعد؟ صاف ظاہر ہے کہ گلوان کے بعد۔ پرابھاش دتہ لکھتے ہیں کہ دیامر بھاشا آزاد جموں وکشمیر کی سرزمین پر تعمیر ہونے والا تیسرا ڈیم ہے۔ کوہالہ اور آزادپتن ڈیم بھی چین کے تعاون سے تعمیر ہورہے ہیں۔ مجموعی طور پر چین اس علاقے میں پانچ ڈیموں پر کام کررہا ہے اور یہ چین پاک اقتصادی راہداری کا حصہ ہے۔ ان میں ماہل،کروٹ اور چکوٹھی ہٹیاں ڈیم شامل ہیں۔ مضمون نگار یہ دور کی کوڑی لائے ہیں کہ مقامی لوگ چین کی مداخلت کو پسند نہیں کرتے اور وہ دریا بچائو کے نام سے اس کے خلاف تحریک چلاتے رہے ہیں۔ دریا بچائو کی طرح گزشتہ برس نوسہری سے بھارتی فائرنگ کے باعث نکالے جانے والے چینی کارکنوں کو حقیقت میں پیپلز لبریشن آرمی کے جوان کہا گیا ہے جو اپنے کارکنوں کی حفاظت کے لیے وہاں مامور تھے۔ مضمون نگار کا دعویٰ ہے کہ چین کی آزادکشمیر میں موجودگی ہمیشہ رہی ہے مگر کچھ عرصے سے موجودگی بڑھ گئی ہے۔ پاکستان نے 1962ء میں سرحدی سمجھوتے کے نام پر شکسگام ویلی چین کو تحفے میں دے کر حقیقت میں چین کو علاقے میں پیر رکھنے کی جگہ فراہم کی۔ گلوان کی حالیہ کشیدگی میں بھی علاقے میں چین کی فضائی موجودگی بھرپور رہی۔ چینی جہاز اسکردو ائرپورٹ پر اُترتے رہے جسے گزشتہ برس توسیع اور مرمت کے عمل سے گزارا گیا تھا۔ چین کا ایک تیل بردار فضائی جہاز ابھی بھی اسکردو ائرپورٹ پر موجود ہے۔
مضمون نگار آخر میں اپنا اصل دکھڑا یوں بیان کررہے ہیں: گلگت بلتستان کا علاقہ پاکستان کو چین سے زمینی طور پر ملانے اور بھارت کو زمینی طور پر افغانستان سے کاٹنے کا واحد ذریعہ ہے۔ اس علاقے کے بغیر چین اور پاکستان کے پاس رابطے کا کوئی ذریعہ نہیں۔ اس علاقے میں چین اور پاکستان کی سرگرمیوں کا مقصد اپنے اس کنٹرول کو مستحکم کرنا ہے جسے بھارت تسلیم ہی نہیں کرتا۔
یہ صرف ایک یا چند مضمون نگاروں کی بات نہیں جو گلوان کے بعد آزادکشمیر کے بارے میں ’’انگور کھٹے ہیں‘‘ کا رویہ اپنا رہے ہیں۔ گلوان کے سبق کے کچھ ہی عرصے بعد بھارت کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے بھی یہ کہہ کر کہ ’’ہم کشمیرکو اتنی ترقی دیں گے کہ آزادکشمیر کے لوگ خود ہم سے ملنے کا مطالبہ کریں گے‘‘ درحقیقت آزاد کشمیر کے لیے انگورکھٹے ہیں کا رویہ اپنالیا تھا۔ اب حالات پر کڑھنے اور دل جلانے کے سوا شاید بھارت کے ہاتھ میں کچھ بھی باقی نہیں رہا۔