گوگل کا جی میل میں بڑی تبدیلیوں کا اعلان

گوگل نے اپنی مقبول ترین سروس جی میل ری ڈیزائن کرنے کا اعلان کیا ہے جس کا مقصد اسے سلیک اور مائیکرو سافٹ ٹیمز کے مقابلے پر لانا ہے۔ اس ری ڈیزائن کے بعد ای میل ای میل سروس کے ساتھ ساتھ دفتری ساتھیوں سے چیٹ اور دیگر کاموں میں مدد فراہم کرسکے گی۔ اس مقصد کے لیے گوگل کی دیگر سروسز جیسے گوگل ڈاکس، ڈرائیو اور کلینڈر کو ایک ہی جگہ اکٹھا کیا جائے گا، جبکہ نئے جی میل ڈیزائن میں صارف کے سامنے 4 ٹیبز ہوں گے جن میں میل، چیٹ، میٹ فار ویڈیو کالنگ اور رومز شامل ہوں گے۔ جی میل کا یہ نیا فیچر رومز سلیک رومز سے ملتا جلتا ہے، جہاں ایک دفتر کے لوگ رئیل ٹائم میں اکٹھے کام کرسکیں گے۔ گوگل کے ورژن میں لوگ چیٹ، فائل سوائپ اور گوگل ڈاکس کو ٹیبز سوئچ کیے بغیر ایڈٹ کرسکیں گے۔ جی میل میں یہ بڑی تبدیلیاں اس وقت کی جارہی ہیں جب دنیا بھر میں کاروباری ادارے کورونا وائرس کی وبا کے باعث گھروں سے کام پر توجہ دے رہے ہیں۔ کمپنیاں اپنے دفاتر بند کرکے مختلف سافٹ ویئر پر انحصار کررہی ہیں تاکہ ملازمین گھروں میں رہ کر بھی اکٹھے کام کرسکیں۔ گوگل نے اپریل میں جی میل میں میٹ بٹن کا اضافہ کیا تھا تاکہ لوگ ویڈیو کانفرنس سروس کو مفت استعمال کرسکیں، اور ایسا کرنے سے صرف اپریل میں روزانہ 30 لاکھ نئے صارفین اس سروس کا حصہ بنے۔ جی میل میں اپ ڈیٹ کے بعد چند دیگر فیچر جیسے اسنوزنگ نوٹیفکیشنز، اسائننگ ٹاسکس اور ڈو ناٹ ڈسٹرب فلٹر بھی متعارف کرائے جائیں گے۔ فی الحال گوگل کی جانب سے ری ڈیزائن کو چند کمپنیوں میں آزمایا گیا اور اب اس سروس کو اگلے ماہ متعارف کرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

سبزموتیا کو ختم کرنے والے پیوند کے حوصلہ افزا نتائج

امریکہ میں ایک امپلانٹ کے انسانوں پر تجربات کیے گئے ہیں جس کے حیرت انگیز نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ اس پیوند کی بدولت سبز موتیا کی ایک قسم اوپن اینگل گلوکوما (اوکیولر ہائپرٹینشن) کے 30 فیصد مریضوں نے افاقہ محسوس کیا ہے۔ کلونجی کے دانے سے بھی بہت چھوٹا پیوند امریکی کمپنی الرجن نے بنایا ہے، جس کا نام ڈیورسٹا رکھا گیا ہے۔ یہ آنکھ کے جوف میں جاکر دوا خارج کرتا رہتا ہے تاکہ اندرونی دباؤ کو کم کرکے اسے معمول پر رکھا جاسکے۔ اس دوا کی ضرورت ایک عرصے سے محسوس کی جارہی تھی کیونکہ آنکھ کے اس حصے تک دوا کو پہنچانا محال ہوتا ہے۔ پیوند کی بدولت 30 فیصد مریضوں نے اپنی آنکھ کے دباؤ اور مجموعی کیفیت میں افاقے کا اعتراف کیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سبزموتیا کے علاج میں یہ طریقہ روشنی کی ایک اہم کرن ثابت ہوسکتا ہے۔.پوری دنیا کی طرح پاکستان میں سبزموتیا کا مرض بہت عام ہے۔ اس کیفیت میں آنکھ میں موجود خون کی شریانوں پر دباؤ بڑھ جاتا ہے، بصری حصے میں مائع جمع ہونا شروع ہوجاتا ہے اور مریض دھیرے دھیرے بصارت کھو بیٹھتا ہے۔ اگرچہ بہت حد تک یہ مرض ناقابلِ علاج ہے لیکن اس نقصان کو کم ضرور کیا جاسکتا ہے اور یہ امپلانٹ اسی مقصد کے تحت بنایا گیا ہے۔

آئی ایم ناٹ روبوٹ باکسز کس طرح کام کرتے ہیں؟۔

انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کو اکثر کسی سائٹ پر لاگ ان یا سرفنگ کے دوران ایک میسج نظر آتا ہے جو ایک باکس کے اندر ہوتا ہے، جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ آپ خود کو روبوٹ کے بجائے انسان ثابت کریں۔
یعنی ایک باکس میں آئی ایم ناٹ روبوٹ کو کلک کرنا ہوتا ہے۔ ویسے تو ماؤس سے یہ ایک کلک بہت آسان عمل ہے، مگر اس کے پیچھے جو میکنزم چھپا ہے وہ بہت دلچسپ اور چونکا دینے والا ہے۔
سائبر سیکورٹی کمپنی Proven Data کے سی ای او وکٹر کونگینوٹی نے آئی ایم ناٹ روبوٹ باکسز کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ اس سے صارف کے پیٹرن اور رجحانات کو شناخت کرکے یقینی بنایا جاتا ہے کہ اکاؤنٹ میں لاگ ان ہونے والا انسان ہی ہے کوئی روبوٹ یا بوٹ نہیں۔ انہوں نے کہا ”یہ باکسز ماؤس کی سمت کی حرکت کو شناخت کرتے ہیں، جو صرف کمپیوٹر استعمال کرنے والا ایک انسان ہی کرسکتا ہے، لوگ ماؤس کے کرسر کو ہرجگہ گھمانے کے عادی ہوتے ہیں مگر بوٹس اکثر مثالی جیومیٹرک شیپ بناتے ہیں اور انسانی حرکات کی نقل کرنا ان کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ ایک اور سائبر سیکیورٹی کمپنی ایمسی سافٹ کے سی آر او فیبین ووسر نے بتایا کہ یہ باکس صارف کی آن لائن سرگرمی کو بھی دیکھتے ہیں۔ ان کے بقول آپ نے حال ہی میں ان باکسز پر بہت زیادہ کلک کیا ہو یا نہیں، مگر بہت کم ڈیٹا سے شناخت کرنا ممکن ہوتا ہے کہ ایک انسان ہی باکس پر کلک کررہا ہے۔ آج کل ان باکسز کے ساتھ اکثر تصویری پزل بھی ہوتے ہیں۔ ان میں صارف سے ٹریفک لائٹس، پل یا گاڑیوں پر کلک کرنے کا کہا جاتا ہے، اس کے پیچھے 2 وجوہات چھپی ہوتی ہیں۔سائبر سیکیورٹی ماہر جیمی کیمبل کے مطابق پہلی وجہ تو یہی ہے کہ بوٹس کے لیے دھندلی تصاویر کو شناخت کرنا مشکل ہوتا ہے جبکہ دوسری وجہ گوگل سے جڑی ہے۔
گوگل حقیقی تصاویر کو گوگل میپس اور دیگر مصنوعات کو بہتر بنانے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ڈریکسل یونیورسٹی کے پروفیسر جیمز گوئیپل کے مطابق یہ باکسز اے آئی انجنز کو ٹریننگ بھی دیتے ہیں، یعنی جب آپ خود کو انسان ثابت کرتے ہیں، تو اس سے ٹیکنالوجی کو بوٹس اور لوگوں کے درمیان فرق کو سمجھنے کی تربیت بھی ملتی ہے۔(بشکریہ ڈان)۔