مسجد آیا صوفیہ کا قضیہ

ترکی کی عدالتِ عالیہ نے آیاصوفیہ کی عمارت کو مسجد میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کردیا ہے، جس کے بعد اب اس کے میناروں سے اذان کی صدائیں بلند ہونے لگی ہیں۔ اس فیصلے پر مخالفت اور موافقت دونوں طرح کی آرا عالمی سطح پر سامنے آرہی ہیں اور ان کی بازگشت ہندوستان میں بھی سنائی دے رہی ہے، چنانچہ جہاں ایک طرف اس فیصلے کا پُرجوش استقبال کیا جارہا ہے تو دوسری طرف بعض دانش وروں کی جانب سے اس پر نکیر کی جارہی ہے اور کہا جارہا ہے کہ آیاصوفیہ کے چرچ کو مسجد میں تبدیل کیے جانے کی تائید ہندوستان میں بابری مسجد کو مندر میں تبدیل کیے جانے کی تائید کے مثل ہے۔ ایک جانب ہندوستان میں مسجد کو مندر میں تبدیل کیے جانے کی مخالفت کی جائے اور دوسری طرف ترکی میں چرچ کو مسجد میں تبدیل کیے جانے کی تائید کی جائے، یہ تو متضاد رویّہ ہے۔ جہاں تک اس موضوع پر شرعی موقف کا سوال ہے تو اس سلسلے میں کتبِ فقہ میں مفصل بحثیں ملتی ہیں، جن کا خلاصہ یہ ہے کہ بعض ممالک صلح سے فتح ہوئے ہیں اور بعض بزور قوت۔ صلح کے ذریعے فتح حاصل ہونے کی صورت میں اسلامی ریاست پابند تھی کہ شرائطِ صلح پر عمل کیا جائے، چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں بیت المقدس صلح کے ذریعے فتح ہوا، جس میں یہ شرط بھی تھی کہ تمام مسیحی مقدّسات باقی رکھے جائیں گے، چنانچہ حضرت عمر نے اس معاہدۂ صلح کی پاس داری کی۔ جو ممالک بزورِ قوت فتح ہوئے ان کے بارے میں فقہا کی دونوں طرح کی آرا ہیں: بعض کہتے ہیں کہ ان میں بھی دیگر مذاہب کی عبادت گاہیں ان کے پیروکاروں کے تصرف میں رہیں گی، اور بعض کہتے ہیں کہ ان میں مسلم حکمرانوں کو تصرف کرنے کا اختیار ہوگا۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ بزورِ قوت فتح کیے جانے والے ممالک میں حکمران کو اختیار ہوگا کہ وہ بتقاضائے مصلحت قدیم عبادت گاہوں کو باقی رکھ سکتا ہے، جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ خیبر کے ساتھ معاملہ کیا تھا، اور خلفائے راشدین نے اپنے مفتوحہ ممالک میں کیا تھا۔ جہاں تک قسطنطنیہ(موجودہ استنبول) کا معاملہ ہے، اسے سلطان محمد الفاتح (م1481ء) نے 1453ء میں بزورِ قوت فتح کیا تھا۔ آیاصوفیہ قسطنطنیہ کا مشہور چرچ تھا۔ اسے آرتھوڈوکس کلیسا کے عالمی مرکز کی حیثیت حاصل تھی۔ اس کی بنیاد چوتھی صدی عیسوی میں رومی بادشاہ قسطنطین نے ڈالی تھی۔ ایک ہزار برس تک یہ عمارت عیسائیوں کے مذہبی و روحانی مرکز کے طور پر استعمال ہوتی رہی تھی۔ قسطنطنیہ کو بزور قوت فتح کرلینے کے بعد مسلم حکمران کو شرعی طور پر اس میں تصرف کرلینے اور اسے اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرنے کا اختیار حاصل تھا، اور یہ چیز اُس وقت کے بین الاقوامی قوانین اور حکمرانوں کے تسلیم شدہ رویّوں کے خلاف بھی نہیں تھی۔ اس سے قبل مسیحی حکمران اندلس کے مختلف شہروں پر قبضہ کرنے کے بعد بڑی بڑی مساجد کو چرچوں میں تبدیل کرچکے تھے۔ لیکن سلطان فاتح نے زبردستی آیاصوفیہ پر قبضہ کرکے اسے مسجد میں تبدیل نہیں کیا، بلکہ خطیر مال صرف کرکے اسے مسیحیوں سے خریدا (سوشل میڈیا پر وہ دستاویزات عام ہوگئی ہیں جن میں خرید و فروخت کی تفصیلات مذکور ہیں)۔ اس کے بعد چرچ میں جو تصاویر اور مجسمے موجود تھے ان میں سے کچھ کو مٹا دیا گیا اور کچھ کو چھپا دیا گیا، اور اس کے میناروں میں بھی اضافہ کیا گیا۔ اُس وقت سے سلطنتِ عثمانیہ کے خاتمے تک یہ عمارت ”مسجد آیاصوفیہ“ کے نام سے مشہور اور مستعمل رہی۔ کمال اتاترک نے جب خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے کا اعلان کیا تو اس نے 1931ء میں مسجد میں تالا ڈلوا دیا۔ 4 برس کے بعد 1935ء میں اسے دوبارہ کھولا تو گیا، لیکن میوزیم کی شکل میں۔ اس موضوع پر کئی پہلوؤں سے غور کرنے کی ضرورت ہے: عیسائیوں کے یہاں اپنے چرچوں کو فروخت کردینا عام بات ہے۔ اس کا اب بھی رواج ہے۔ اچھی قیمت ملنے پر اپنی عبادت گاہوں کو فروخت کردینا ان کے نزدیک کوئی عیب نہیں۔ چنانچہ یورپ کے بہت سے چرچ شراب خانوں اور مالز میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ اگر اس معاملے میں قصور بنتا ہے تو اُن مسیحی مذہبی رہنماؤں کا جنھوں نے اپنی مرضی سے اپنی مذہبی عبادت گاہ کا سودا کرلیا۔ اس وقت معاملہ یہ نہیں ہے کہ ترکی حکومت نے کسی چرچ کو تبدیل کرکے مسجد بنانے کا فیصلہ کیا ہو، بلکہ اس وقت معاملہ یہ تھا کہ ایک مسجد کو ، جس میں 478 برس سے باقاعدہ نماز پڑھی جارہی تھی، 1935ء میں میوزیم میں تبدیل کردیا گیا تھا، عدالتِ عالیہ نے اس کی سابقہ مسجد کی حیثیت بحال کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور حکومت نے عدالت کے فیصلے کو نافذ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ قابلِ مذمت یہ رویہ ہے کہ کہیں ظالمانہ طریقے سے کسی عبادت گاہ پر قبضہ کرلیا جائے اور اس کی حیثیت کو تبدیل کردیا جائے۔ یہ ظالمانہ طریقہ پہلے بھی اختیار کیا جاتا رہا ہے، چنانچہ اندلس کی بے شمار مساجد چرچوں میں تبدیل کردی گئیں اور اب بھی اس رویّے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے، چنانچہ مسجد اقصیٰ کی حیثیت کو تبدیل کرنے کی مجرمانہ کوششیں کی جارہی ہیں۔ لیکن اس ظلم و جبر اور صریح دھاندلی پر عالمی ضمیر پہلے بھی خاموش تھا اور اب بھی اس کی طرف سے کوئی آواز نہیں اٹھ رہی ہے، لیکن مسجد آیاصوفیہ کے معاملے میں، جہاں ظلم و زیادتی کا کوئی ثبوت نہیں ہے، اس کے خلاف وہ خوب شور و غوغا بلند کررہا ہے، یاللعجب!