آج پچیس سال بعد کشمیر نریندر مودی جیسے سیاہ فام ’’ملازوچ‘‘ کے نرغے میں ہے
وزیراعظم عمران خان نے ایک ٹویٹ میں خدشہ ظاہر کیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں آٹھ لاکھ بھارتی فوج محصور کشمیریوں کے ساتھ بوسنیا کی تاریخ دہرا سکتی ہے۔ عالمی برادری کو ایسے کسی واقعے کو دہرانے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ وزیراعظم نے یہ ٹویٹ بوسنیا کے شہر سربرینیکا میں سرب فوج اور غنڈوں کے ہاتھوں آٹھ ہزار مسلمانوں کے اجتماعی قتلِ عام کے پچیس سال مکمل ہونے کے موقع پر کیا۔ اس واقعے میں درندگی کو ایک نیا نام اور مفہوم ملا تھا۔ نفرت سے بھرے ہوئے غنڈوں نے مسلم خواتین کی آبروریزی کرنے کے ساتھ ساتھ ہر ظلم ڈھایا تھا، اور پھر ان لاشوں کو گڑھوں میں پھینک دیا گیا تھا بلکہ تڑپتے ہوئے زندہ انسانوں پر مٹی ڈال دی گئی تھی۔ دنیا نے جس بے بسی اور بے حسی کے ساتھ اس ظلم کا نظارہ کیا تھا وہ بھی ایک شرمناک داستان ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے اسی واقعے کی پچیسویں برسی کے موقع کو آج کے کشمیر کے حالات سے جوڑا ہے۔ مجموعی طور پر دنیا اس دن کو فراموش کرچکی ہے، اور اس کی وجہ بھی یہ ہے کہ ظلم کا شکار ہونے والی آبادی مسلمان تھی، اور انسانیت کا دامن تار تار کرنے والے سرب غیر مسلم تھے۔ دنیا بہت سے مسائل میں اسی پیمانے کی وجہ سے پھنس کر رہ گئی ہے۔ ظالم اور مظلوم مسلمان کے لیے ایک معیار، اور غیر مسلم مظلوم اور ظالم کے لیے قطعی الگ پیمانہ ہے۔ یہ تضادات عالمی اور تہذیبی سطح پر پائے جانے والے بحران کو مزید گہرا کرتے ہیں۔
عمران خان نے سربرینیکا کی خون آشام تاریخ کو ہی یاد نہیں کیا بلکہ عالمی قوتوں کی منافقانہ روش کی یاد بھی دلائی ہے، اور انہوں نے بجا طور پر یہ توجہ دلائی کہ اب کسی اور مسلمان علاقے اور آبادی کے معاملے میں یہ منافقانہ خاموشی اختیار نہیں کی جانی چاہیے۔
بلاشبہ اس وقت مقبوضہ کشمیر میں جو حالات ہیں وہ کسی بڑے انسانی المیے کا رخ اختیار کرسکتے ہیں۔ بھارت نے پانچ اگست کے بعد پوری وادی کو اپنی مٹھی میں بند کرنے کی ریہرسل کرکے یہاں کچھ بھی کر گزرنے کی صلاحیت حاصل کرلی ہے۔ بھارتی فوج کو بے رحمی سے استعمال کرکے آبادی کو مکمل بے یار ومددگار بنادیا گیا ہے، ہزاروں افراد کو جیلوں میں ڈال کر گلی محلے کی سطح پر لیڈرشپ کا بحران پیدا کردیا گیا ہے، اور اب بھارتی فوج آپریشنوں کے نام پر ٹین ایجر لڑکوں کو مارکر بہادری کے جھنڈے گاڑ رہی ہے۔ یہ حالات کسی بڑی تباہی کا پیش خیمہ ہوسکتے ہیں۔ پانچ اگست کے بعد کشمیر پر گرفت سخت کرنے کی کوششوں پر دنیا نے کھلے بندوں ناپسندیدگی کا اظہار نہیں کیا۔ ایسا بھی نہیں کہ بھارت ہر قسم کے دبائو سے آزاد رہا، مگر عوامی سطح پر وہ دبائو نظر نہیں آیا۔ امریکہ، یورپ، چین سمیت دنیا کے بہت سے ملکوں نے کشمیر میں ذرائع ابلاغ پر پابندیاں کم کرنے اور انٹرنیٹ بحال کرنے کے لیے درپردہ دبائو جاری رکھا۔ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ نے بھی آزادیِ اظہار پر پابندیوں کے خلاف کسی حد تک آواز بلند کی، جس کی وجہ سے بھارت ان پابندیوں میں نرمی کرنے پر مجبور ہوا۔ مگر پابندیوں میں نرمی عام کشمیری کا مسئلہ نہیں، بلکہ اس کا مسئلہ پانچ اگست کے بعد پیدا ہونے والی مخصوص صورتِ حال ہے جس میں آنے والے کئی حادثات اور واقعات پنہاں ہیں۔ ایک سال کی پیہم کوششوں کے بعد جس آبادی کو بھارت نے اپنی مٹھی میں بند کرنے کا تجربہ حاصل کرلیا ہے، مٹھی کو مزید دباکر وہ اس آبادی کو دم گھونٹ کر فنا کے گھاٹ بھی اتار سکتا ہے، اور یہی خوف اور خدشہ عمران خان کے ٹویٹ میں جھلکتا ہے۔
بوسنیا کے مسلمانوں کے بہت سے المیوں میں سے ایک یہ بھی تھا کہ اس کی قربت اور ہمسائیگی میں کوئی پاکستان نہیں تھا، اورکوئی پاکستان سربرینیکا کی آبادی کے ساتھ عہد و پیماں اور ربط وتعلق کے رشتوں میں بندھا نہیں تھا۔ وہ یورپ کے قلب میں گھری اور پھنسی ہوئی آبادی تھی جو ہمسایوں کو ناگوار تھی اور جس کا کوئی پرسانِِ حال نہیں تھا۔ اس صورتِ حال کا فائدہ اُٹھا کر سربوں نے اُس وقت کے ’’سفید فام مودی‘‘ ملازوچ کی سربراہی میں بوسنیا کے مسلمانوں پر ظلم وجبر کی انتہا کردی ۔ آج پچیس سال بعد کشمیر نریندر مودی جیسے سیاہ فام ’’ملازوچ‘‘ کے نرغے میں ہے۔ دونوں میں فرق صرف رنگ اور چمڑی کا ہے، جبکہ حقیقت میں دونوں کا مائنڈسیٹ اور طریقہ کار ایک ہے۔ دونوں کے ذہن نفرت سے بھرے ہوئے ہیں۔ نسل پرستی اور مذہبی جنونیت کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ دونوں دنیا کو اپنے منجمد اور بند تصورات کی خوردبین سے دیکھ رہے ہیں۔ اور جب ذہن اس قدر تنگ ہوجائیں تو پھر المناک اور روح فرسا واقعات جنم لیتے ہیں۔ حیرت تو یہ ہے کہ پچیس برس بعد بھی دنیا بے حسی کے اسی’’اعلیٰ‘‘ مقام اور درجے پر فائز ہے۔ اس سب کے باوجود کشمیر میں سربرینیکا کی تاریخ نہیں دہرانی جانی چاہیے، کیونکہ پاکستان کشمیریوں کے ساتھ بہت سے عہد و پیماں میں بندھا ہے۔ اس کے بہترین ہتھیار بقول چودھری شجاعت حسین شب برات کے لیے جمع اور تیار نہیں کیے گئے۔ پاکستان کو ایک لکیر کھینچنا ہوگی، اگر بھارت نے طاقت کے ذریعے آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی کوشش کی تو وہ ایک فریق کے طور پر اپنا کردار صرف الرٹ جاری کرنے اور ٹویٹر کے ذریعے خطرے کی گھنٹیاں بجانے تک محدود نہیں رکھے گا۔ سربرینیکا کی تاریخ آج کشمیر کے کسی علاقے میں دہرائی جا سکتی ہے تو اس کا اگلا ہدف پاکستان کے شہر ودیہات ہوسکتے ہیں، کیونکہ جو مائنڈسیٹ بھارت کو چمٹ گیا ہے اُس کی سوچ اور فکر، اُس کے دکھ اور ملال بہت پرانے اور تاریخ میں دور تک جڑیں رکھتے ہیں۔