جانوروں کی زبان سمجھنا

حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ایک آدمی نے درخواست کی کہ اسے جانوروں کی زبان سکھا دیں تاکہ وہ ان کی باہمی گفتگو سمجھ سکے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: ’’اس بات کو چھوڑ دے، کیونکہ اس میں کئی خطرات پوشیدہ ہوتے ہیں‘‘۔ قاعدہ ہے کہ جس بات سے منع کیا جائے، اُس کی طرف رغبت اور بڑھتی ہے۔ عرض کرنے لگاؒ: ’’سرکار آپ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے نائب ہیں، میری استدعا قبول فرمائیں‘‘۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: ’’یہ نہ ہو کہ کل تُو پچھتائے، کیونکہ تُو یہ نہیں جانتا کہ تیرے لیے کون سی چیز بہتر ہے اور کون سی چیز مضر…‘‘
بارگاہِ الٰہی سے حکم آیا: اے موسیٰ علیہ السلام اس کی تمنا پوری کردے۔ اس شخص نے کہا: ’’اچھا سارے جانوروں کی زبان نہ سہی صرف میرے گھریلو پالتو جانور کتے اور مرغ کی زبان سکھادیں‘‘۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: ’’جا آج سے ان دونوں جانوروں کی بولی پر تجھ کو قدرت حاصل ہوگی‘‘۔
وہ شخص یہ سن کر خوش خوش اپنے گھر چلا گیا۔ صبح ہوئی تو خادمہ نے دسترخوان جھاڑا، اس میں سے رات کا بچا ہوا روٹی کا ٹکڑا زمین پر گرا۔ مرغ وہ ٹکڑا اٹھا کر لے گیا۔ کتے نے کہا ’’دوست تُو تو دانہ دنکا کھا کر بھی اپنا پیٹ بھر لے گا۔ اگر روٹی کا ٹکڑا مجھے دے دے تو میرا گزارا چل جائے گا‘‘۔ مرغ نے کہا: ’’میاں صبر کر، خدا تجھے بھی دے گا۔ کل ہمارے مالک کا گھوڑا مر جائے گا، تُو پیٹ بھر کر کھائیو‘‘۔ وہ شخص ان دونوں کی گفتگو سن رہا تھا، فوراً اٹھا، اس نے گھوڑا کھولا اور جاکر منڈی میں بیچ آیا اور نقصان سے اپنے آپ کو بچالیا۔
دوسرے دن بھی روٹی کا ٹکڑا مرغ لے اڑا۔ کتے نے غصے میں آکر مرغ سے کہا: ’’اے فریبی یہ دروغ گوئی کب تک چلے گی! تُو جھوٹا ہے، ارے اندھے نجومی تُو سچائی سے محروم ہے‘‘۔ مرغ نے جواب دیا:’’وہ گھوڑا دوسری جگہ مر گیا، مالک نے نقصان سے بچنے کے لیے گھوڑا بیچ ڈالا تھا۔ فکر نہ کر، کل اس کا اونٹ مر جائے گا اور تُو خوب پیٹ بھر کر کھانا‘‘۔
یہ سن کر مالک اٹھا اور اونٹ بھی بیچ آیا۔ اس طرح اُس نے اس کے مرنے کے غم اور نقصان سے اپنی جان بچالی۔ تیسرے دن پھر ایسا ہی واقعہ پیش آیا تو کتے نے مرغ سے کہا: ’’ارے کمبخت تُو تو جھوٹوں کا بادشاہ ہے۔ آخر کب تک تُو مجھے فریب دیتا جائے گا!‘‘
مرغ نے کہا: ’’بھائی اس میں میرا کوئی قصور نہیں، مالک نے اونٹ بیچ ڈالا اور اپنے آپ کو نقصان سے بچالیا‘‘۔ مرغ نے کتے کو تسلی دیتے ہوئے کہا: ’’فکر نہ کر، کل اس کا خچر مر جائے گا۔ اسے صرف کتے ہی کھا سکتے ہیں، تم بھی جی بھر کر کھانا‘‘۔ مالک نے جب یہ سنا تو اس نے خچر بھی فروخت کردیا۔
مالک اپنی ہوشیاری پر بے حد خوش تھا کہ وہ یکے بعد دیگرے تین حادثوں سے بچ گیا اور کہنے لگا: ’’جب سے میں نے مرغ اور کتے کی زبان سیکھی ہے قضا و قدر کا رخ پھیر دیا ہے‘‘۔
چوتھے دن کتے نے مرغ سے کہا: ’’اے مرغ تیری پیشن گوئیاں کیا ہوئیں، یہ تیری مکاری اور جھوٹ کب تک چلے گا؟‘‘ مرغ نے کہا: ’’توبہ توبہ یہ غیر ممکن ہے کہ میں یا میرا کوئی ہم جنس جھوٹ بولے، ہماری قوم تو موذن کی طرح راست گو ہے۔ ہم اگر غلطی سے بے وقت اذان دے بیٹھیں تو مارے جائیں۔ مالک نے اپنا مال تو بچالیا، لیکن اس نے اپنا خون کرلیا۔ ایک نقصان سو نقصان کو دفع کرتا ہے۔ جسم اور مال کا نقصان جان کا صدقہ بن جاتا ہے۔
بادشاہوں کی عدالت سے سزا ملے تو مال کا جرمانہ ادا کرکے جان بچ جاتی ہے، لیکن قضائے الٰہی کے بھید سے بے خبر ہوتے ہوئے بھی جو آدمی اپنا مال بچاتا ہے وہ محض نادان ہے۔ اگر وہی مال اس پر سے صدقہ ہوجاتا تو شاید اس سے بلا ٹل جاتی۔ اب کل یقیناً مالک خود مر جائے گا۔ اس کے وارث اس کی وفات پر گائے ذبح کریں گے، بس پھر تمہارے وارے نیارے ہیں۔ گھوڑے، اونٹ اور خچر کی موت اس نادان کی جان کا صدقہ تھا، وہ مال کے نقصان سے تو بچ گیا لیکن اپنی جان گنوا بیٹھا‘‘۔
مالک مرغ کی باتیں غور سے سن رہا تھا۔ جب اس نے اپنی موت کی پیشن گوئی سنی تو مارے خوف کے تھرتھر کانپنے لگا۔ گرتا پڑتا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور روتے ہوئے عرض کیا کہ اے خدا کے پیغمبر علیہ السلام میری دستگیری فرمایئے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے سن کر فرمایا: ”میں نے تجھے کہا تھا کہ اس ہوس کو چھوڑ دے کیونکہ اس میں کئی خطرات پوشیدہ ہیں۔ مگر تُو نہ جانا۔
اے عزیزم اب تیر کمان سے نکل چکا ہے۔ اس کا لوٹ کر آنا فطرت کے خلاف ہے۔ اب میں تیرے لیے سلامتی ایمان کی دعا کرسکتا ہوں“۔ یہ سن کر اس نوجوان کی طبیعت دفعتاً بگڑ گئی اور وہ قے کرنے لگا۔ اس کی یہ قے موت کی علامت تھی۔ اس کو گھر لے جایا گیا، گھر پہنچتے ہی وہ مر گیا۔
درسِ حیات: انسان کو کسی بیماری میں نہ مایوس ہونا چاہیے اور نہ ہی کسی مادی نقصان پر زیادہ غم کرنا چاہیے۔ ہر بیماری اور نقصان میں کوئی بھید ہوتا ہے۔ جسم کی بیماری یا مال کا نقصان کسی بڑی مصیبت کا صدقہ بن جاتا ہے اور اس کو ٹال دیتا ہے۔