عیبوں پرنظر

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم

حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کسی بندے نے اللہ تعالیٰ کے نزدیک غصہ کے گھونٹ سے بڑھ کر کوئی گھونٹ نہیں پیا جس کو وہ اللہ تعالیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کے لیے پی جاتا ہے‘‘۔ (احمد)۔

٭دوسروں کے عیبوں کے بجائے اپنے عیبوں پر گہری نظر رکھنا
بندۂ مومن کی ایک خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ دوسروں کے عیبوں کو دیکھنے کے بجائے اپنے عیبوں پر گہری نظر رکھتا ہے۔ خود احتسابی اور اندر میں ڈوبتے رہنے کی وجہ سے اس کے دل کے آئینے میں نفس کے لگے ہوئے سارے زنگ اسے دکھائی دینے لگتے ہیں، وہ ان زنگوں کی صفائی کے کام کو سب سے اوّلین کام سمجھتا ہے۔ اس کام سے اسے زندگی بھر فرصت ہی نہیں ملتی۔
٭ شہرت سے ڈرتے رہنا اور اسے آفت سمجھنا
اس کی دوسری خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ لوگوں میں مقبولیت اور شہرت سے ڈرتا رہتا ہے۔ وہ شہرت کو اپنے لیے سب سے بڑی آفت سمجھتا ہے۔ اس کی تمنا ہوتی ہے کہ کاش لوگ اسے نہ پہچانیں۔ وہ اپنے آپ کو پامال کرتا رہتا ہے۔ اس سلسلے میں اس کے سامنے حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کا یہ قول ہوتا ہے کہ اگر علم کی پخ نہ لگی ہوتی تو اپنے آپ کو ایسا مٹاتا کہ کوئی نہ پہچانتا۔
٭اپنے اعمالِ صالحہ کے بارے میں خوف زدہ ہونا
بندۂ مومن کی تیسری خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ ڈرتا رہتا ہے کہ معلوم نہیں موت تک اس کی ایمانی حالت اور اس کے اعمالِ صالحہ کی زندگی قائم بھی رہے گی یا نہیں۔ یہ خوف اسے اپنی اصلاح سے آخر وقت تک غافل ہونے نہیں دیتا۔ یہ خوف اس میں عاجزی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ اسے دعویٰ کی طرف جانے سے روکتا رہتا ہے۔
٭اپنے دعوتی کاموں کی داد و تحسین سے بے نیاز ہونا
اس کی چوتھی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے دعوتی، علمی اور سماجی خدمت کے کاموں کی داد و تحسین نہیں چاہتا، اور نہ اس کی خواہش و آرزو رکھتا ہے۔ اس کی چاہت صرف یہ ہوتی ہے کہ اس کے اس کام کو اللہ کے ہاں قبولیت کا شرف حاصل ہو۔
٭سب کی بھلائی چاہنے کی نفسیات کا پختہ ہونا
اس کی ایک ادا یہ ہوتی ہے کہ وہ سب کی بھلائی چاہتا ہے اور سب سے حُسنِ ظن رکھتا ہے، اس کا دل کسی سے بھی میلا نہیں ہوتا۔
٭ذکر سے طبعی مناسبت کا ہونا
اس کی چھٹی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ ذکر سے اس کی طبعی مناسبت پیدا ہوجاتی ہے۔ ذکر کے بغیر وہ رہ نہیں سکتا۔ معاشی تگ و دو کے لیے اس کے پاس زیادہ وقت نہیں ہوتا، اس لیے کہ ذکر کا استغراق اور ذکر کا غلبہ اسے مادی سرگرمیوں کو محدود سے محدود تر کرنے پر مجبور کرتا ہے۔
٭معاش کے سلسلے میں اپنی توقعات اللہ سے وابستہ کرنا
اس کی ساتویں خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ معاش کے سلسلے میں وہ اپنی توقعات اللہ سے وابستہ کرچکا ہوتا ہے۔ ظاہری مادی اسباب کو کسی حد تک استعمال کرنے کے بعد وہ اپنے معاشی معاملات اللہ کے سپرد کردیتا ہے۔ اللہ اس کی ضروریات کے لیے کافی ثابت ہوتا ہے اور وہ اسے صبر، شکر اور قناعت کی دولت ِ عظمیٰ عطا فرماتا ہے۔
٭نفس کی طرف سے پریشان کردہ صورتِ حال کی اللہ سے فریاد کرتے رہنا
اس کی ایک ادا یہ ہوتی ہے کہ نفس کو پامال کرنے کے لیے اس کا، مجاہدوں کا سلسلہ لگاتار جاری رہتا ہے۔ اس دوران اسے ایک ہی شکایت ہوتی ہے کہ نفس اسے وسوسوں کی صورت میں پریشان کرتا رہتا ہے، اس سلسلے میں وہ نفس کو انتباہات بھی دیتا رہتا ہے، اسے کوستا رہتا ہے اور ساتھ ساتھ نفس کی اس حالت کی شکایت اور فریاد وہ اللہ محبوب سے بھی کرتا رہتا ہے۔
٭حکمت کی بات کو اخذ کرنے سے بخل کا نہ ہونا
اس کی ایک ادا یہ ہوتی ہے کہ اسے حکمت کی بات جہاں سے بھی ملتی ہے، وہ وہاں سے لے لیتا ہے، چاہے بچے سے ملے یا علم کے کورے فرد سے۔ وہ حکمت کی بات اخذ کرنے میں بخل سے کام نہیں لیتا۔ اس معاملے میں اس کے سامنے وہ حدیثِ رسولؐ ہوتی ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ حکمت مومن کی میراث ہے، اسے وہ جہاں سے بھی ملے، لے لیتا ہے۔
٭اس کی نیت کا اس کے عمل سے بہتر ہونا
اس کی ایک خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اس کی نیت اس کے عمل سے زیادہ بہتر ہوتی ہے، یعنی اس کے عمل کے پیچھے پاکیزہ جذبات اور محبوبِ حقیقی کی رضامندی کے والہانہ احساسات کی دنیا کار فرما ہوتی ہے، جو اس کے عمل کو بہت زیادہ قیمتی بنا دیتی ہے۔ اس کا دل اخلاص، للہیت اور بے نفسی سے سرشار ہوتا ہے۔
٭دنیاوی آسائشوں اور راحتوں سے بچتے رہنا
بندۂ مومن دنیاوی سہولتوں سے استفادہ ضرور کرتا ہے، لیکن وہ دنیاوی آسائشوں و راحتوں سے متمتع ہونے سے بچنے کے لیے کوشاں ہوتا ہے، اس لیے کہ راحتوں اور آسائشوں کی زندگی اسے دنیاداروں کی سی زندگی کی راہ اختیار کرنے پر گامزن کرنے کا موجب بن سکتی ہے۔ قرآن نے دنیاوی زندگی کو لہو و لعب یعنی کھیل تماشے سے تشبیہ دی ہے۔ بندۂ مومن کھیل تماشے میں زندگی کے قیمتی لمحات ضائع کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
٭زندگی کی حلاوت کا ذکر و اطاعت سے وابستہ ہونا
بندۂ مومن کی زندگی کی حلاوت ذکر و فکر، عبادت اور اللہ و رسولﷺ کی اطاعت سے وابستہ ہے۔ زندگی کے ہر معاملے میں اللہ کے رسولﷺ کی اطاعت ہی اس کا دستور العمل ہوتی ہے۔
٭صحت و بیماری وغیرہ کا اس کے لیے نافع ہونا
بندۂ مومن حالت ِصحت میں ہو یا بیماری میں، معاشی طور پر فراخی کی حالت میں ہو یا تنگی کی حالت میں، وہ ہر صورت میں فائدے ہی فائدے میں رہتا ہے۔ صحت کی حالت میں وہ اللہ کی خوب عبادت کرتا ہے، اور ذکر و فکر کے مجاہدوں سے کام لیتا ہے، اللہ و رسولؐ کی اطاعت میں چستی سے کام لیتا ہے۔ بیماری کی حالت میں وہ صبر سے کام لیتا ہے اور اللہ کے سامنے اپنی بے بسی کا اظہار کرتا ہے، عبادت اور ذکر و فکر میں کمی و کوتاہی پر دکھ و غم کا اظہار کرتا ہے۔ اس طرح صحت کے دوران اس کی طرف سے ہونے والے سارے مجاہدے بیماری کی صورت میں اس کے نامہ اعمال میں لکھے جاتے ہیں۔ معاشی طور پر فراخی کی صورت میں وہ اللہ کی راہ میں اور اشاعت ِدین کے لیے خوب خرچ کرتا رہتا ہے۔ افلاس کی حالت میں وہ اللہ سے ہی مانگتا رہتا ہے، اس طرح ہر صورت میں اپنے مولا سے اس کے تعلق میں اضافہ ہی ہوتا رہتا ہے۔