پروفیسر غازی علم الدین سے ہم بالواسطہ بہت کچھ سیکھ رہے ہیں۔ اس طرح وہ ہمارے استاد ہوئے جس کی خبر اُن کو نہیں ہوئی۔ پچھلے شمارے میں انہوں نے ’’اشکوں کا سیلاب‘‘ کے بارے میں لکھا ہے کہ اصل میں یہ سیل آب کا مرکب ہے جس کا معنی ہے پانی کا ریلا۔ اشکوں کا سیلاب کی جگہ سیلِ اشک ہونا چاہیے تھا‘‘۔ بات بالکل درست ہے، لیکن ہمیں استاد سے تھوڑا سا اختلاف ہے۔ دراصل ’سیلاب‘ الگ سے ایک اصطلاح بن گیا ہے جس میں پانی نہیں ہے۔ اس کی دلیل حضرتِ امیر خسرو کے اس شعر سے ملتی ہے:۔
اے آتش فراقت دل ہا کباب کردہ
سیلابِ اشتیاقت جاں ہا خراب کردہ
امیر خسرو نے سیلابِ اشتیاق باندھا ہے، سیلِ اشتیاق نہیں۔ ان سے بڑھ کر کیا دلیل ہوگی کہ اہلِ فارس بھی اُن کی فارسی دانی کے قائل تھے۔ امیر خسرو نے اپنے مرشد شیخ نظام الدین تاج الاولیا سے ملاقات کی غرض سے یہ شعر لکھ کر انہیں بھجوایا تھا۔ شیخ نظام الدین بھی فارسی سے خوب واقف تھے، انہوں نے شعر پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ چنانچہ ’سیلاب‘ ایک الگ ترکیب بن گئی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس میں ’سیل‘ عربی کا اور ’آب‘ فارسی کا ہے۔ دو مختلف زبانوں کے الفاظ یکجا کرکے نئی ترکیب بنا لینا عام ہے۔ عربی میں سیلِ نور روشنی کے سیل کو کہتے ہیں۔ اردو میں سیلِ رنگ و نور مستعمل ہے۔
’اہل‘ کے بارے میں جناب غازی علم الدین نے وضاحت کی ہے کہ ’اہل‘ میں ازخود جمع کا مفہوم شامل ہے۔ ہم بھی اس کے بارے میں لکھ چکے ہیں کہ اس کی جمع ’’اہلیان‘‘ غلط ہے، لیکن ’’کون سنتا ہے فغانِ درویش‘‘۔ ہم ’توتی کی صدا‘ تو نہیں کہہ سکتے جسے بعض لوگ ’’طوطی‘‘ لکھتے اور بولتے ہیں۔ سنڈے میگزین کے تازہ شمارے (5 جولائی تا 11 جولائی) میں سید منور حسن کے بارے میں ایک تعزیتی مضمون ’’ایک ستارہ تھا میں، کہکشاں ہوگیا‘‘ کی مصنفہ نے جو بہت اچھی قلم کار ہیں، ’’اہالیانِ کراچی‘‘ لکھا ہے۔ کل کوئی اہل و عیال کو بھی اہالیان و عیالان لکھ ڈالے گا۔ کبھی کبھار لغت دیکھ لینے میں کوئی ہرج نہیں ہے، خاص طور پر مضمون نگاروں اور صاحبانِ علم کو۔ اہل کے ساتھ کئی تراکیب ہیں مثلاً ’اہلِ علم‘۔ یہ جمع کے لیے مخصوص ہے، یعنی یہ نہ کہیں گے کہ فلاں شخص اہلِ علم یا اہلِ قلم ہے۔ بلکہ یہ کہیں گے فلاں شخص اہلِ علم میں سے یا اہلِ قلم میں سے ہے۔ ایک بار ہم سے بھی یہ غلطی سرزد ہوئی تھی۔ کسی کے توجہ دلانے پر ہم نے تو تصحیح کرلی۔ اہل کا مطلب ہے: لایق، مناسبت اور صلاحیت رکھنے والا۔ ذرا غور کریں، کوئی اہل اللہ یا اہلِ بیت کو تو اہالیان نہیں لکھے گا۔ لیکن اہالیانِ شہر، اہالیانِ محلہ وغیرہ بڑے مزے سے لکھا جارہا ہے۔ پروفیسر غازی علم الدین نے ایک بار پھر اس طرف توجہ دلائی ہے۔
غازی علم الدین نے اس پر بھی توجہ دلائی ہے کہ جب کسی کو مخاطب کیا جائے تو نون غنہ نہیں آئے گا مثلاً لوگو، انسانو، آدمیو، عورتو وغیرہ۔ لیکن جسارت کے ایک پرانے کالم نگار، جنہوں نے تجدید کی ہے یعنی دوبارہ لکھنا شروع کیا ہے، وہ اس کلیے پر عمل نہیں کرتے۔ 6 جولائی کے جسارت کے ادارتی صفحہ پر جنرل ضیا الحق کی پہلی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں ’’عزیز ہم وطنوں‘‘۔ جنرل ضیا الحق نے ’ہم وطنو‘ کہا تھا۔ اس تقریر کا چرچا برسوں ہوتا رہا اور ہر جگہ ’ہم وطنو‘ ہی لکھا گیا۔ اس مضمون میں آگے چل کر پھر یہ غلطی دہرائی گئی ’’بھائیوں آپ کی ساری باتیں…‘‘ یہاں بھی نون غنہ کی ضرورت نہیں۔ اسی طرح عربی میں ’’اللہ الجمیل‘‘ لکھا ہے، جب کہ یہ ’’اللہ جمیل‘‘ ہے، اس میں ’ال‘ نہیں آئے گا۔
اس سے پہلے کہ محترم غازی علم الدین سے مزید استفادہ کریں، ہمارے ممدوح عبدالمتین منیری کے توسط سے ممبئی سے آنے والے ایک خط کا ذکر۔ معاذ لکھتے ہیں:۔
’’بندہ ممبئی انڈیا سے عرض کر رہا ہے، آٹھ دس سال سے بی بی سی نیوز اردو مستقل دیکھتا رہتا ہوں پچھلے ایک ڈیڑھ سال سے رسم الخط کی غلطیاں بکثرت ہونے لگی ہیں، مثال کے طور پر سراج الدولہ پر ایک مضمون کسی ریحان فضل کا شائع ہوا ہے، اس میں ’’گھمایا‘‘ کو ’’گھومایا‘‘ اور ’’بٹھایا‘‘ کو ’’بیٹھایا‘‘ لکھا گیا ہے، حالانکہ لازم فعل کو جب متعدی بنایا جاتا ہے تو اس میں موجود وائو الف یاء اکثر گر جاتے ہیں جیسے دیکھنا دکھانا، بھاگنا بھگانا، سونا سلانا وغیرہ۔ یہ ایک مثال ہے، ورنہ اس سے بھیانک اور فحش غلطیاں نظر سے گزرتی رہی ہیں، جب کہ پہلے ایسا نہیں تھا۔ ہم نے شکایات کے کالم میں اپنی یہ شکایت بھی درج کروائی، تاہم کچھ فرق محسوس نہیں ہوا۔ آپ کا فرائیڈے اسپیشل ’’علم و کتاب‘‘ گروپ میں محترم منیر صاحب زید لطفہ کے توسط سے نظر نواز ہوتا رہتا ہے، اور ایک بڑا حلقہ اس سے ادب کے ذائقے کے ساتھ زبان کی اصلاح کا کام بھی لیتا ہے۔ آنجناب سے التماس ہے کہ بی بی سی نیوز اردو میں درآنے والی اس قسم کی اغلاط پر بھی کسی دن توجہ فرمائیں، اللہ آپ کو اور آپ کے علم کو تروتازہ رکھے اور ملت کے لیے نفع بخش بنائے، آمین، فقط و السلام‘‘
عزیزم معاذ، بی بی سی نیوز اردو تک تو ہماری رسائی نہیں۔ آپ ایسا کیوں نہیں کرتے کہ غلطیاں قلم بند کرکے ہمیں بھیج دیا کریں۔ دوسری بات یہ ہے کہ جن اغلاط کی آپ نے نشاندہی کی ہے وہ تو یہاں کے اردو اخبارات میں عام ہورہی ہیں۔ مثلاً ’’بڑھاپا کے بجائے ’’بوڑھاپا‘‘۔ بہرحال، جب تک اہلِ علم حضرات موجود ہیں، مایوسی کی ضرورت نہیں۔
اور اب پروفیسر غازی علم الدین سے مزید استفادہ کرتے ہیں:
بار بار اِعادہ کرنا
’’یہ اعتراضات علامہ شبلی کے زمانے میں کافی عروج پر تھے اور بار بار ان کا اعادہ کیا جارہا تھا‘‘۔ اعادہ کا معنیٰ ہی کسی بات کو بار بار کہنا ہے، لہٰذا جملے میں ’اعادہ‘ سے پہلے ’بار بار‘ زائد اور غلط ہے۔
باریک نکتہ
’’یہاں ایک باریک نکتہ یہ ہے کہ…‘‘ یاد رہے کہ نکتہ کا معنیٰ ہی باریکی، باریک بات، یا لطیف بات ہے۔ ’نکتہ‘ کو اور کتنا باریک کیا جاسکتا ہے؟
بالائے طاق پر رکھنا
’بالا‘ اور ’پر‘ کو یکجا نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ یہ دونوں ہم معنیٰ ہیں۔ یہ ملفوظات ایک سابق وفاقی وزیر کے ہیں کہ ’’حکومت نے فلاں مسئلے کو بالائے طاق پر رکھ دیا ہے‘‘۔
بجا طور پر درست فرمانا
راقم کی طرف سے ایک وضاحت کے جواب میں دوست نے لکھا:۔
’’پروفیسر صاحب! آپ نے بجا طور پر درست فرمایا ہے‘‘۔
’’بجا طور پر‘‘ اور ’’درست‘‘ کی یکجائی نے دوست کے جواب پر مشتمل اس جملے میں ایک بڑا سقم پیدا کردیا ہے۔
بدھ وار کا دن
’بدھ وار‘ کا معنیٰ ہی بدھ کا دن ہے، لہٰذا ’وار‘ کے بعد ’دن‘ کا اضافہ غیر ضروری ہے۔ اسی طرح سوموار کا دن اور منگل وار کا دن بھی غلط ہے۔
بطور مضمون کے
’’اس نے تاریخ کو بطور مضمون کے اختیار کیا ہے‘‘۔ اس جملے میں ’کے‘ اضافی ہے۔ ’بطور مضمون‘ یا ’مضمون کے طور پر‘ سے جملہ مکمل اور درست ہوجاتا ہے۔
بکثرت سے
’بکثرت‘ یا ’کثرت سے‘ ہونا چاہیے۔ بکثرت کا معنیٰ ہی ’کثرت سے‘ ہے، لہٰذا ’سے‘ کا اضافہ غیر ضروری ہے۔یہی صورت ِحال ’بمشکل سے‘ کی ہے۔
بمعہ اپنی آل اولاد کے ساتھ
ایک اخبار کے کالم نگار نے لکھا ’’فلاں صاحب علاج معالجہ کے لیے بمعہ اپنی آل اولاد کے ساتھ لندن چلے گئے‘‘۔ بمعہ، بمع، اور معہ کی تینوں صورتیں غلط ہیں، صرف ’مع‘ درست ہے۔ ’مع‘ کے بعد ’کے ساتھ‘ کا اضافہ تکرارِ لفظی و معنوی کی ذیل میں آکر غلط قرار پاتا ہے۔’ب‘ حرفِ جار اور ’مع‘ اسمِ جار ہے۔ یہ دونوں (حرف اور اسم) عربی ہیں جو فارسی اور اردو میں بھی مستعمل ہیں مگر ان کو ایک ساتھ استعمال کرنا غلط ہے۔