آہ! سید منور حسن بھی اپنے رب کے حضور پیش ہوگئے حق گوئی و بے باکی، جرأت ،استقامت ،اول العزمی کا استعارہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں شاید ہی کوئی ایسا بے باک اور حق گو انسان جس سے کفر بھی لرزہ خیز ہو شاید دوبارہ کہیں ایسا سیاست دان پیدا ہو گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان ہمہ وقت امت اور پاکستان کی فکر میں پریشان ایک ایسا مرد درویش جس نے پوری زندگی اللہ کی رضا کے حصول کے لیے کوشاں رہے آپ 1941 میں دہلی میں پیدا ہوئے زمانہ طالب علمی سے ہی اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا آپ پاکستان کے واحد سیاسی رہنما ہیں جو پہلے بائیں بازو کی طلبہ تنظیم میں اور بعد میں اسلامی جمعیت طلبہ کے رکن، کراچی کے ناظم اور اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے تین مرتبہ ناظم اعلی منتخب ہوئے۔1977 کے انتخابات میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کر کے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ آپ جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل اور جماعت اسلامی کے چوتھے امیر منتخب ہوئے۔ 29 مارچ 2009 سے 29 مارچ 2014 تک آپ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر رہے یہ وہ وقت تھا جب امریکہ افغانستان اور عراق پر حملہ آور تھا اور پاکستان کے حکمران نیٹو سپلائی میں اور امریکہ کو اڈے دے رہی تھی جس کے بعد آپ نے پورے ملک میں قوم کو ایک نعرہ پر اکٹھا کیا اور بتایا کہ ‘‘گو امریکہ گو’’ تحریک میں ہی پاکستان کی بقا ہے۔ آپ نے بغیر کسی خوف کے سابق ڈکٹیٹر جنرل ر پرویز مشرف کی پاک افغان پالیسی کو مسترد کیا اور ثابت کیا وہ پالیسی پاکستان کے مفاد میں نہیں تھی۔اس دوران بہت لوگوں نے مرشد سید منور حسن کی پالیسی کی مخالفت کی لیکن آپ اپنے موقف پر ڈٹے رہے آپ نے لاپتہ افراد کے معاملہ پر آواز بلند کی آپ نے پاکستان میں جاری ڈرون حملوں اور آپریشن کی مخالفت کی آپ کی رائے میں مذاکرات کے ذریعے اس مسئلہ کا حل موجود ہے جبکہ افغانستان میں جاری امریکہ کی جنگ پاکستان کی جنگ نہیں ہمیں اس آگ کا ایندھن نہیں بننا چاہیے امریکہ کی حمایت کے وہ سخت مخالف تھے اور اسے پرائی جنگ میں کودنا تصور کرتے تھے۔ آپ کی دوراندیش تھی کہ آج وقت کے حکمران یہ مان چکے کہ وہ جنگ ہماری جنگ نہیں اور اپنے آپ کو عالمی طاقت کہنے والا امریکہ اور اس کے حواری بھی آج افغان طالبان کے ساتھ مزاکرات کرنے پر مجبور ہوئے۔ سید منور حسن نے ہمیشہ جہاد فی سبیل اللہ کی بات کی۔ باطل طاقتیں ان کے نام سے خوف کھاتیں یہاں تک کہ ایک مرتبہ آپ کی قیادت میں ایک وفد کراچی میں آگ اور خون کی ہولی کھیلنے والے اور روشنیوں کے شہر کو تاریکی میں بدلنے والے الطاف حسین سے ملاقات کے لیے ان کی رہائش گاہ نائن زیرو گئے لیکن الطاف حسین کی فرعونی طبیعت دیکھ کر انہیں دو ٹوک الفاظ میں اپنا پیغام اور کراچی کے امن کا واضح پیغام دے کر واپس آگئے۔آپ نے ہمیشہ اصولوں کی سیاست کو فروغ دیا اور کراچی کے سخت حالات میں الطاف حسین کی فسطائیت کا مقابلہ کیا۔