خوش رہے‘ آصف انصاری! جس نے پیاروں کا پرسہ دیا‘ جی بہت خوش ہوا‘ حوصلہ ملا‘ ابھی چاہنے والے سلامت ہیں‘ یہ اطمینان بھی‘ چراغ سے چراغ جلانے کی روایت بھی زندہ ہے۔
’’پُرسہ‘‘ کیا ہے‘ ایک صاحب دل کی حکایت دل‘ حکایت دوران‘ انکھ بند کرجانے والوں کا ورثہ‘ ان کی باتیں‘ یادیں اور گزرے لمحوں کا احوال۔
ندیمؔ صدیقی‘ علمی ادبی حلقوں میں فعال شخصیت‘ بقول مولانا انجم فوقی ’’شخص شخصیت میں تبدیل ہو جائے۔ یہ عام بات ہے۔ مراتب ِ کمال یہ ہے کہ شخصیات شخص میں سمٹ آئیں۔‘‘ ندیم‘ اس کی تازہ مثال ہیں اور ’’پرسہ‘‘ ثبوت۔ آپ کی ہنر مندی سے سنہری یادیں‘ روشن لمحے قرطاس پر مسکرا رہے ہیں۔
کبھی تتلی کی طرح کبھی جگنو کی مثال
اُڑتے لمحات کو چٹکی میں دبائے رکھنا
(ظفر محمد خان ظفرؔ)
ندیم صدیقی کون ہیں؟ تعارف انہی کی زبانی۔
’’بیسویں صدی کے پانچ دہے پورے ہو چکے تھے جب میں کانپور (یوپی۔ ہندوستان) میں پیدا ہوا۔ ایک معمولی سا آدمی ہوں مگر یہ بھی سچ ہے کہ زمانے کے تاریک اور روشن پہلوئوں نے زندگی کی معنویت مجھ پر کھول دی۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ میری تو کسی طرحکی بھی کوئی تعلیم مکمل نہ ہو سکی اور ہنر بھی… کاغذ اور کپڑے پر نقش نگاری اور دانت کے منجن سے لے کر جوتے کی پالش تک کئی کام کیے۔ شکرِ ربی کہ قلم اور کاغذ کا پیشہ راس آیا۔
کوئی بیس برس سے زائد مدت روزانہ انقلاب (ممبئی) میں کام کیا۔ 2009ء میں وہاں سے کبر سنی کے باعث سبکدوش ہوا تو روزنامہ ’’اردو ٹائمز‘‘ (ممبئی) میں جمعہ میگزین کی ادارت تفویض ہوئی اور ادبی امور بھی۔ بحمدللہ 69 برس میں بھی کام سے لگا ہوا ہوں۔ شاید وہ وقت ابھی دور ہے جب کام ختم ہو جاتا ہے کیا ایسا نہیں ہے کہ کام کرنے والیکے لیے کاک کبھی ختم نہیں ہوتا۔
یہاں یہ بھی اظہار کرتا چلوں کہ مجھے اس کتاب کے تعلق سے ادب کا کوئی عویٰ نہیں اسے ان لوگوں کا ایک تذکرہ ہی سمجھا جائے گا جو زبان و ادب کے لیے مخلص تھے۔ یہ کتاب انہی مرحومین کا پرسہ ہے اور بس…‘‘
پروفیسر غازی علم الدین میرپور (آزاد کشمیر) رقم طرز ہیں ’’مجھے یہ فیصلہ کرنے میں مشکل پیش آرہی ہے محترم ندیم صدیقی نے خاکہ نگاری، شخصیہ نگاری اور تذکرہ نگاری میں سے کیسے اپنے تخلیقی ہنر کا میدان ٹھہرایا ہے؟ مصنف نے ’’پرسہ‘‘ کی شخصیات کے باطن اور ماحول کی لفظی تصویر کشی کی ہے جس سے ممدوح اپنی بیش تر خصوصیات کے تاثرات و تصورات کے سامنے آن کھڑا ہوتا ہے۔ ان تحریروں میں مصنف مختلف جہتوں سے واضح تصویریں بناتے ہیں اور ثقافت، تہذیب اور گزرے لمحات کے المیے کو بھی سامنے لاتے ہیں۔ ان کا اصرار ہے کہ اسے ان لوگوں کا ایک تذکرہ ہی سمجھا جائے جو زبان و ادب کے لیے مخلص تھے۔ ندیم صدیقی کی اس واردات قلبی کو پڑھتے ہوئے ایسے موقعے بھی آئے ہیں کہ ’’پرسہ‘‘ کا قاری، اپنی نم آنکھوں پر دونوں ہاتھ رکھ لیتا ہے۔
’’پرسہ‘‘ تاثرات مضامین کے علاوہ نظم و نثر پر مشتمل عالمانہ مباحث کا وہ گل دستہ ہے جو ادبی تسامحات پر گرفت اور تصحیحات لسانی پر راہ نما ہے۔ا س کا جس قدر مطالعہ کرتے جائیں کمالات شعری کے انکشافات کے ساتھ زبان دانی کے معاملات بھی عیاں ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اس بات کا اعتراف نہ کرنا ادبی خیانت ہوگا کہ ’’پرسہ‘‘ نے مجھے اول تا آخر اپنی گرفت میں لیے رکھا۔ اپنے موضوع کے لحاظ سے یہ کتاب اردو ادب میں ایک مفید، لائق تحسین اور وقیع اضافہ ہے جو فاضل مصنف کے روشن باطن، انسانی دوستی، ان کی بصیرت اور ادبی اسلوبِ نگارش کی نادر مثال ہے‘‘۔
آنکھوں میں کچھ سمیٹ کے رکھ لو رُتیں امام
پھر اس کے بعد دن یہ سہانے نہ آئیں گے
(نعمان امامؔ)
ندیمؔ سہانے دنوں کا پرسہ یوں دیتے ہیں۔
’’ایک واقعہ فناؔ نظامی کی وسیع القلبی اور ظرف کی بہترین مثال ہے۔ کانپور میں ایک شاعر تھے افسر ناروی‘ موصوف پورے کانپور میں تضمین کے لیے مشہور تھے۔ طرح مشاعروں اور نشستوںکا دور تھا۔ مخدوم محی الدین کے شعر کا ایک مصرع طرح بنا۔
’’اٹھا ہوں آنکھوں میں اِک خواب نا تمام لیے‘‘
حسب پروگرام طرحی نشست شروع ہوئی۔ مبتدی شعرا مطروحہ کلام پڑھ رہے ہیں‘ داد مل رہی ہے کہ اب نشست آخری دور میں پہنچی ہے یعنی صرف بزرگ شعرا باقی ہیں۔ آواز دی گئی‘ حضرت افسر ناروی زحمت فرمائیں‘ حاضرطین ہمہ تن گوش کہ دیکھیں افسر ناروی آج کیا مصرع لگاتے ہیں۔ افسرؔ نے مصرع مطروحہ یاد دلایا اور پھر اپنی تضمین سنائی:۔
یہ کس نے پھونک دیا صور وقت سے پہلے
اٹھا ہوں آنکھوںمیں اک خوابِ ناتمام لیے
روای کہتا ہے کہ تضمین پر داد و تحسین سے چھت اُڑ گئی۔ ابھی کئی سینئر شعرا کلام سنانے کے لیے بیٹھے تھے جن میں فناؔ بھی تھے جو یہ کہتے ہوئے نشست سے اٹھ گئے کہ بھئی افسر نے اس مصرعے کو جس مقام پر پہنچا دیا ہی اس کی حرمت کا تقاضا ہے کہ اب نشست کے خوابِ نا تمام کو تمام نہ ہونے دیا جائے، یہاں مخدوم کے شعر میں پہلا مصرع کیا تھا‘ یہ بھی بتا دیا جائے۔
بجا رہا تھا دور کہیں کوئی شہنائی
اٹھا ہوں آنکھوںمیں اک خوابِ نا تمام لیے
ہائے ہائے ندیم صاحب کیا دن تھے جب ’’فوق الادب‘‘ میں مولانا انجم فوقی شاگردوںکے جھرمٹ میں پھول بکھیرتے تھے۔ ایک شاگرد تھے نجمی بدایونی‘ جو میرے پڑوسی تھے‘ انہی کے ساتھ مولانا سے کئی ملاقاتیں رہیں‘ ان کے دو شعر بھی سن لیں۔
دل میں رکھو کہ نکالو ہم کو
کسی سانچے میں تو ڈھالو ہم کو
میں گیا وقت نہیں ہوں نجمیؔ
جب چاہو بلا لو ہم کہ
مولانا نے نجمی سے پوچھا نجمی یہ صاحبزادے جو اکثر ساتھ ہوتے ہیں‘ شعر بھی کہتے ہیں؟ نہیں حضور یہ سنتے ہیں‘ عزیزم سننے والے تو ناپید ہیں‘ صاحبزادے! کچھ یاد ہو تو سنایئے۔ میں نے محمد حسین عباسی‘ جو حضرت کے حلقے میں ظفر انجمی کے نام سے معروف تھے‘ کا شعر سنایا جو حضرت ہی کی زمین میں ہے:۔
مفلس دیکھو سوکھا کانٹا
پیسے والا گول مٹول
مولانا نے بے ساختہ کہا ’’پگلے ذہن کے سوتے کھول‘ ندیم صاحب سوتے تو اسی وقت کھل گئے تھے آج آصف انصاری نے اظہار کرا دیا۔
آپ نے خوب کہا ’’مولانا انجم فوقی اسی فکر و اظہار کے اعجاز کا ایک جیتا جاگتا نام ہے جو صرف کہتا نہیں بلکہ کرتا بھی ہے۔ ان کے کردار اور ایثار کے گواہ کانپور سے احمد آباد‘ مالیگائوں‘ دھولیہ‘ ممبئی اور کراچی میں ہم نے دیکھے ہیں۔ ایک گواہی یہ بھی درج ہو جائے‘ جو ان کے کردار کی جھلک ہے کہ وہ دوسرے بزرگوں کی طرح چھوٹوںسے کبھی خائف یا دور نہیں رہے بلکہ ہم نے خود دیکھا ہے کہ کوئی چھوٹا اگر کسی سطح پر معمولی سی بھی کشش کا حامل ہے تو مولانا کی نگاہِ توجہ سے وہ بچ نہ سکا۔
حسن سوز‘ جو مولانا کے تلامذہ میں سے تھے‘ اور جن کا یہ شعر مشہور ہے کہ
دونوں ہی سے رشتہ رکھو، دونوں سے ہشیار رہو
انسانوںکی جان کا دشمن لوہا بھی ہے سونا بھی
مولانا سے شعر و ادب پر گفتگو کے دوران حسن سوزؔ اکثر فراقؔ کے شعری محاسن کو یوں بیان کرتے کہ جیسے دوسرے شعرا کچھ بھی نہیں ہیں۔ مولانا انجم فوقی کو حسن سوز کا یہ اندازِ نقد و نظر‘ ظاہر ہے گراں گزرتا تھا۔ مگر وہ حسن سوزؔ کو کبھی ٹوکتے نہیں تھے‘ ایک دن حسن سوز رخصت ہوئے تو مولانا نے اپنے آپ سے کہا کہ حسن سوزؔ جس طرح فراقؔ کو سمجھ رہے ہیں‘ ذرا اس زاویے سے بھی فراقؔ کی شاعری کا مطالعہ کیا جائے۔‘‘ انہوں نے اب فراقؔ کو سوزؔ کے تناظر میں پڑھا۔ مولانا نے لکھا ہے کہ اُس دن مجھ پر فراقؔ کی شعریات کے کئی مخفی پہلو ظاہر ہوئے اور یہ بھی احساس جاگا کہاستاد اگر خود پرستی اور نرگسیت میں مبتلا نہیں تو اسے یہ بھی معلوم ہو سکتا ہے کہ ہوش مند استاد وہی ہے جو شاگرد کو سکھاتا ہی نہیں بلکہ اس سے خود بھی کچھ سیکھتا ہے۔
مولانا چھوٹوںکی حوصلہ افزائی میں بہت فراخ دل واقع ہوئے تھے‘ ان کے خطوط اور مضامین اس کے گواہ ہیں اور سب سے بڑھ کر انہی کا یہ شعر شہادت بنا ہوا ہے۔
چھوٹے نہ ہوں تو کیسے بڑے‘ کس کا احترام
کلیوں کے دَم سے لالۂ و گل کا شباب ہے
ندیمؔ صاحب! ڈاکٹر ظ انصاری کے شباب کا نقشہ یوں کھینچتے ہیں:
’’70 سالہ انقلاب (روزنامہ) کی تاریخ میں انصاری ہی ایک ایسے مدیر گزرے ہیں کہ ان کے اداریوںکی دھوم ممبئی ہی نہیں تمام مہاراشٹر میں تھی۔ انقلاب کا یہی مدیر تھا جس کے اداریوں کا مجموعہ اس کی زندگی ہی میں بزمِ غالبؔ کامٹی کے زیر اہتمام مرزا نوشہ ہی کی ایک ترکیب ’’کانٹوں کی زبان‘‘ کے نام سے چھپا تو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ شائقین آج بھی کتب خانوں میں اس کتاب کو ڈھونڈتے دیکھے جاتے ہیں۔
ظ صاحب نے بہت لکھا مگر حقیقت یہ ہے کہ جتنا لکھا خوب لکھا‘ وہ اپنے معاصرین اور متاخرین میں اس حوالے سے ’’کمترین‘‘ ہی سمجھے جانے کے قابل ہیں۔
ڈاکٹر انصاری جیسا بڑا شخص ہم نے نہیںدیکھا کہ بہت کچھ جانتے ہوئے بھی وہ ہم جیسوں کے سامنے علم کے معاملے میں ’’طالب‘‘ بن جاتے تھے مگر سچ یہ ہے کہ اُن کا یہ طریقہ ہمارے لیے ایک سبق سے کم نہیں ہوتا تھا…‘‘
ہم مرحوم کی قبر سے لوٹنا چاہتے تھے کہ اک ندا سنی‘ میاں ندیم! تم اپنے چھوٹوں کے ساتھ کیسا رویہ اختیار کرتے ہو۔ کم بخت ہمارا دماغ کہیں قابو میں رہتا ہے فوراً بول پڑا۔ ڈاکٹر صاحب اب چھوٹے پیدا ہی نہیں ہوتے۔‘‘
لیجیے وہ بھی یاد آگئے۔
دعا کرو مری خوشبو پہ تبصرہ نہ کرو
کہ ایک رات میںکھلنا بھی تھا بکھرنا بھی
(قیصر الجعفریؔ)
اب بھائی کیسا تبصرہ‘ ندیم صاحب کا ہی پرسہ سن لیں۔
’’ اس وقت وہ منظر بھی آنکھوںمیں تیر رہا ہے جب ’’دشتِ بے تمنا‘‘ کی تقریبِ رونمائی ممبئی کے باوقار نہرو سینٹر میں منعقد ہوئی تو موسیقار اعظم نوشاد نے بھری محفل بلکہ ببانگ دہل کہا تھا کہ ’’قیصر الجعفری کی یہ کتاب پڑھتے وقت ان کی اکثر غزلیں مجھ سے چیخ چیخ کر جیسے کہہ رہی تھیں کہ مجھے بھیروی میں گائو‘ مجھے ملہار میں گائو‘ مجھے دربار میں گائو۔‘‘ یہ ذکر یہاں یوں در آیا کہ ہماری شعرا برادری کا ایک طبقہ انہیں گلوکاروںکا شاگرد گردانتا تھا‘ یا سمجھتا ہے مگر کیا کیا جائے کہ ہم نے یہ شوق اُن شعرا کے ہاں بھی پایا ہے جن کی شعریت میں غزل بھی نہیں پایا جاتا بلکہ میں کا زبر زیر ہو کر میں‘ میں کی الاپ بن جاتا ہے۔
قیصر مرحوم کے ہاں ایک شعری وفور تھا جسے کسبی یا مشقی کہنا زیادتی ہوگی۔ 2001 کا ماہ ربیع الاوّل ہفتے عشرے میں شروع ہواچاہتا تھا اس دوران دہلی سے شائع ہونے والے کسی پرانے رسالے (آستانہ یا دین و دنیا) میں ہم نے حضرت ابو حنیفہؒ کی ایک (عربی) نعت پڑھی جس کے ہر شعر کے نیچے رواں نثری ترجمہ بھی درج تھا۔ معاً خیال گزرا کہ کیا ہی اچھاہو کہ اس نعت کا منظوم ترجمہ ہو جائے۔ ذہن میں اسی وقت قیصر الجعفری کا نام ابھرا حسن اتفاق کہ دوسرے ہی دن موصوف ممبرا ریلوے اسٹیشن پر مل گئے۔ ہم نے اپنے بیگ سے وہ رسالہ انہیں دیا اور کہا کہ لیجیے اللہ اپنے محبوبؐ کا کام آپ سے لینا چاہتا ہے۔ خوش ہوئے اور یہ کہہ کر دادرا اسٹیشن پر رخصت ہوئے کہ ان شاء اللہ اگلے ہفتے ملیں گے۔ مگر ہوا یوں کہ تیسرے ہی دن وہ غریب خانے پر آئے اور تین ورقی‘ بیالیس اشعار پر مشتمل نعمان بن ثابت المعروف حضرت ابو حنیفہؒ کی نعت کا (اردو) نذرانہ ساتھ لائے۔ جس کا ایک ایک مصرع روانی اور شگفتگی کا ایک نمونہ بنا ہوا تھا۔ اگر حضرت ابو حنیفہؒ اور قیصر صاحب کا نام بتائے بغیر یہ نعت کسی صاحبِ نظر کے سامنے رکھ دی جائے تو وہ بلا تردد اسے کسی اردو شاعر ہی کی فکرِ رسا کا نتیجہ قرار دے گا۔ اس وقت اس نعت کے چند اشعار حافظے کی پوٹلی سے برآمد ہوا چاہتے ہیں:۔
انسان کے بس میں تیری تعریف نہ جن کے
اوصاف فرشتے بھی نہ گن پائیں‘ میں کیا ہوں
سرکارؐ! دلِ شیفتہ قابو میں نہیں ہے
میں تیری محبت میں چھلکنے سا لگا ہوں
چپ رکھتا ہے جو مجھ کو وہ ہے تیراؐ تصور
میں مدح سرا ہوں تو تراؐ مدح سرا ہوں
اقوال ترے گونجیں تو کھلتی ہے سماعت
میں چاروںطرف صرف تجھے دیکھ رہا ہوں
محشر میں مجھے تیریؐ شفاعت ہو میسر
اے سرور کونینؐ میں محتاجِ عطا ہوں
جب ان کی تدفین ہو رہی تھی تو ہم اپنی اخباری مصروفیات کے سبب شریک نہ ہوسکے لیکن دفتر میں بیٹھے انہی کے بارے میں سوچتے رہے۔ دل تھا کہ رو رہا تھا‘ مگر آنکھوں سے ایک آنسو بھی نہ ٹپکا تو کہیں اندرون میں ان کا یہ شعر گونجا:۔
یہ محبت ہے ذرا سوچ سمجھ کے رونا
ایک آنسو بھی جو ٹوٹا تو سنائی دے گا
’’مت سہل ہمیں جانو‘‘
انور ظہیر اپنے ہم عمروں میں نہایت نمایاں شخص تھے‘ ان کی اوّل و آخر کتاب ’’مت سہل ہمیں جانو‘‘ پڑھیے اور سر دھنیے پھر ذرا اردگرد دور نزدیک دیکھیے کہ اس درجہ کی زبان اور پُر تاثیر بیان آج کتنے قلم کاروں کو میسر ہے۔
شاعروں‘ ادیبوں اور فن کاروں میں ایسے گزرے ہیں جنہیں عمر کم ملی مگر وہ کچھ ایسا کہہ گئے کہ بعداز مرگ بھی ان کی عمر ہے کہ بڑھتی جارہی ہے اور ایسے بھی گزرے کہ جنہوںنے بہت عمر پائی اور بہت کچھ کر گئے مگرجب وقت نے اسے اپنے ترازو پر رکھا تو پتا چلا کہ اس بہت کچھ میں تو ’’کچھ‘‘ تھا ہی نہیں۔ معلوم ہوا کہ یہی ’‘کچھ‘‘ ہے جو فن کاروں کی زندگی بن جاتا ہے۔ یعنی یہ ’’کچھ‘‘ آپکو ایک عمر پر حاصل ہو یا کم عمری ہی میں نصیب ہو گیا‘ اس کی اہمیت نہیں… اہمیت تو صرف کچھ کی ہے اور وہ کچھ ہمارے انور ظہیر خان کو اسم بامسمیٰ کر گیا۔ (شکر ربی)
کان انور ظہیر خاک کے بستر پر مٹی کی چادر اوڑھ چکے ہیں اس میں بھی وہ سبقت لے گئے مگر جسے زندگی کی منزل کہتے ہیں وہ بھی ان کی قدموں تلے ہے:۔
الفاظ و صورت و رنگ و تصور کے روپ میں
زندہ ہیں لوگ آج بھی مرنے کے باوجود
ندیم صاحب! اجازت دیجیے‘ مربی یاد آگئے‘ 95 میں ایک کرم فرما سید مختار علی (شعور اکیڈمی) نے نور احمد میرٹھی کا غیر مسلم نعت گو شعرا کے تحقیقی تذکرے‘ بہر زماں‘ بہر زباں‘ کی زیارت کرائی تو نور احمد سے ملنے کی خواہش فطری تھی اور کئی برس بعد 2009 ء کی ایک تقریب میں میرٹھی صاحب مقابل تھے۔ روشن چہرہ‘ گداز جسم سے محبت و شفقت کی فرحت انگیز لہریں پھوٹ رہی تھیں۔ اس بے ہنر کو کلیجے سے لگانا آپ کے بڑے پن اور اعلیٰ ظرفی کی دلیل ہے۔ حد تو یہ ہے کہ زندگی کے آخری روشن دن تک اس بے ہنر سے ملنے میں ناغہ نہ کیا۔
آپ نے خوب لکھا ’’نور احمد میرٹھی رخصت ہوگئے مگر اپنی کتابوں میں وہ زندہ ہی نہیں بلکہ دوسروں کی زندگی کو بھی روشن کر رہے ہیں اب جو چاہے اس ’’نور سے پُر نورہوئے… زندگی کس کو کہتے ہیں اور زندگی کیسے ملتی ہے؟ نور احمد بتا گئے۔
زندہ باد نور احمد زندہ باد…!
’’کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائیں‘‘
ہم نے جا کر دیکھ لیا ہے حد نظر سے آگے بھی
راہ گزر ہی راہ گزر ہے راہ گزر سے آگے بھی
(پرویز شاہدی)
’’روایت ہے کہ ایک بار پاک ٹی وی نے ایک غیر معمولی پروگرام پیش کیا جو ’’فی البدیہہ بیت بازی‘‘ جیسا تھا ایک طرف رئیس امروہوی تھے تو دوسری طرف حکیم راغب مراد آبادی۔ روای بتاتے تھے کہ یہ پروگرام کوئی گھنٹہ بھر چلا ہوگا اور ٹی وی کے ناظرین تھے کہ ان کی نظریں ٹی وی سیٹ سے ایک لمحے کے لیے بھی نہیں ہٹ رہی تھیں اس میں بظاہر تو راغب صاحب اپنے حریف سے چند ثانیے خاموش رہنے کے باعث ہار گئے تھے مگر ثقہ لوگوں نے یہ بھی بتایا کہ مقابلہ چونکہ کانٹے کا تھا‘ رئیس امروہوی سارے پاکستان میں احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے اور راغب صاحب بھی ان کے احترام کے قائل تھے لہٰذا اس مقابلے میں رئیس امروہوی کے احترام کو سلامت رکھا گیا۔کیا شرافت تھی راغب مرحوم کی!!۔
فیض احمد فیض کا ایک شعر جو، ہر صاحب ذوق کو یاد ہے۔ انہوں نے اس کی تضمین کی اور فیض کو سنائی
گزر رہے تھے گلی سے جناب شیخ ایسے
کہ جیسے کرم کا کوئی امیدوار چلے
نظر ملی تو کہا نائیکہ نے کوٹھے سے
’’چلے بھی آئو کہ گلشن کا کاروبار چلے‘‘
اردو کا یہ فرزند اپنے دور میں تو منفرد تھا ہی مگر کمال یہ ہے کہ کمپوٹرایچ میں بھی اس کی انفرادیت متاثر نہیں ہوئی۔
ایسے بیٹوں کی موت پر بی اردو کا کیا حال ہوا ہوگا؟… اس سے قطع نظر ہم تو اس پر بہت خوش ہیں کہ… راغب نے جگہ تو خالی کی اب ہمی ہم ہوں گے‘‘…
مگر شکر ہے کہ ہمارا ضمیر ابھی زندہ ہے اس نے حضرت راغب کے لہجے میں کہا
’’تم لوگ شہرت زدہ اور نالائق ہو!‘‘
ہائے گردش دوراں… ہائے گردش دوراں
اپنے جن پیاروں کو ان کے پیاروں کا پرسہ دینا تھا۔ ہم جن کی آنکھ کا تارا تھے، وہ ہم سے روٹھ گئے۔ آہ! آزاد بن حیدر چلے گئے۔محترم سرور جاوید چلے گئے، پروفیسر انوار احمد زئی گئے، آصف فرخی گئے، مظہر محمود شیرانی گئے، گلزار دہلوی گئے، پروفیسر منظر ایوبی بھی گئے اور پاکستان کے بیشتر علمی، ادبی اداروںکے سرپرست میرے شفیق بزرگ سید منور حسن نے بھی آنکھیں موند لیں۔
اب تو ہم تھک چکے ہیں سن سن کر
اب ہمیں کاش کچھ سنائی نہ دے
(سعید الظفر صدیقی)
ندیم صاحب!
استاذی شاہ خلیل اللہ (ندیم غازی پوری) مدنیؒ کو جیسے زندگی میں سب سے پہلے اپنی تحریر سناتا، آپ کے وصال کے بعد بھی یہ عمل جاری ہے۔
یہ سطور سنائیں تو آپ کا یہ شعر زباں پر جاری ہوگیا۔
یہ کم ہے کہ تیرے غم ہی کو اشکوں سے سنوارا کرتا ہوں
تیرا یہ ندیم ہے نغمہ سرا برباد سہی بدنام سہی
پرسہ! ہنوز جاری ہے
کیا کہوں مشکل ہوئی تحریر حال
خط کا کاغذ رونے سے نم ہوگیا
(میر تقی میر)
]نوٹ: ’’پرسہ‘‘ پاکستانی ایڈیشن بزم تخلیق ادب پاکستان پوسٹ بکس نمبر 17667 کراچی 75300 سے جناب معراج احمد جامی نے شائع کیا ہے۔ قیمت:800 روپے، رابطہ: 0321-8291908
رابطہ مصنف ندیم صدیقی:۔
ای میل: [nadeem57@gmail.com