دو سال میں حکومت نے ایف بی آر میں وہ اصلاحات کیوں نہیں کیں جن کی مدد سے حکومت بجٹ اہداف کو حاصل کرسکے؟
حالیہ جاری کردہ رپورٹ میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) کی حالیہ جاری کردہ رپورٹ نے عالمی معیشت کو درپیش غیر معمولی تباہی کی وضاحت کی ہے۔ یہ رپورٹ آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ رواں برس عالمی معیشت کی جی ڈی پی 4.9 فیصد تک سکڑ سکتی ہے اور آئندہ دو سال کے دوران 12ہزار ارب ڈالر عالمی معیشت سے باہر نکل جائیں گے۔ اس تناظر میں پاکستان کی شرح ترقی رواں برس میں 0.4 فیصد اور 2021ء میں ایک فیصد رہے گی۔
رپورٹ سے اس خدشے کو تقویت ملتی ہے کہ کساد بازاری کی لپیٹ میں آنے سے دنیا بھر میں کروڑوں افراد گزشتہ چار ماہ میں بے روزگار ہوچکے ہیں، اور ابھی یہ تعداد بڑی حد تک بڑھ سکتی ہے۔ آئی ایم ایف نے رپورٹ میں گرتی ہوئی عالمی معیشت کا جو نقشہ کھینچا ہے لامحالہ یہ صورت حال غریب ممالک کو مزید مشکلات سے دوچار کرے گی۔ رپورٹ کے مطابق چین دنیا کی واحد معیشت ہوگی جو رواں برس ایک فیصد ترقی کرسکے گی، جبکہ امریکہ کی معیشت 8 فیصد، جرمنی 7 فیصد اور جاپان کی معیشت 5.8 فیصد تک گر سکتی ہے۔ اسی طرح فرانس، اٹلی، اسپین اور برطانیہ سمیت یورپی ممالک کا ممکنہ نقصان ڈبل ہندسوں میں بتایا گیا ہے۔ معاشی بحران سے کم آمدنی والے ممالک اور شہری زیادہ متاثر ہوں گے۔ یہ علامت خطرے کی گھنٹی ہے۔ ملکی معیشت بچانے کے لیے ملک کی عسکری اور سیاسی لیڈرشپ، دانش وروں اور کاروباری طبقے کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا۔
تحریک انصاف کو تبدیلی کے نام پر لایا گیا، مگر کوئی جوہری تبدیلی نہیں آئی۔ دو سال گزر جانے کے باوجود پاکستان کے نظام میں ذرہ بھر بھی بہتری نہیں آسکی۔ حکومت نے تسلیم کیا ہے کہ کورونا سے معیشت کو 3 ہزار ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔ دوسری جانب حکومت کی ترجیح کا عالم یہ ہے کہ کورونا سے بچاؤ سے متعلق ترقیاتی منصوبوں کے لیے محض 70 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ حکومت نے بینکوں سے 3 ہزار 389 ارب روپے قرض کا ہدف رکھا تھا مگر محصولات میں کمی اور اخراجات میں اضافے کی وجہ سے حکومت نے بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے اپنے ہدف سے چار گنا سے زائد بینکوں سے 17 ہزار 238 ارب روپے قرض لیا۔ اب حکومت 9 فیصد زائد قرض لے گی۔
ایک اہم معاملہ ایف اے ٹی ایف کا بھی ہے۔ حکومت اسے محض منی لانڈرنگ سمجھتی رہی، اور اس کی آڑ میں دنیا میں ہر جگہ اپوزیشن کو رگڑا دیتی رہی، جب کہ یہ معاملہ محض منی لانڈرنگ تک محدود نہیں ہے، اس مسئلے کے حل کے لیے حکومت نے کوئی قانون سازی نہیں کی۔ یہ معاملہ ایک مشکل بن کر ہمارے سامنے کھڑا ہے۔
وفاقی بجٹ میں سبسڈی (زرِتلافی) میں نمایاں کمی کی گئی ہے، جس سے مہنگائی بڑھے گی، کیونکہ سبسڈی کا بڑا حصہ توانائی کے شعبے کے لیے مختص تھا۔ کراچی کو بجلی کی مد میں سبسڈی کی رقم آدھی کردی گئی ہے۔ آئندہ مالی سال میں ’کے الیکٹرک‘ کے لیے سبسڈی کی صورت میں 25 ارب 50 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ جبکہ مالی سال 20-2019ء میں ’کے الیکٹرک‘ کو 59 ارب 50 کروڑ روپے کی سبسڈی دی گئی تھی۔ اب اسے واپس لے لیا گیا تو گیس، بجلی اور تیل کی قیمتیں بڑھ جائیں گی، یہ قیمتیں آئی ایم ایف کے لیے بڑھائی گئی ہیں تاکہ وہ قرض کی قسط ادا کرنے پر راضی ہوجائے۔ کورونا سے ملکی صنعتیں تباہ ہوئی ہیں اور ٹڈی دَل نے زراعت کو تباہ کردیا ہے جس سے نمٹنے کے لیے وفاقی حکومت نے بجٹ میں محض 10 ارب روپے رکھے ہیں، اور تحفظِ خوراک اور زراعت کے فروغ کی غرض سے ترقیاتی منصوبوں کے لیے 12 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ تحریک انصاف نے اگرچہ قومی اسمبلی میں بجٹ منظور کرا لیا ہے، مگر یہی بجٹ ملک میں تحریک انصاف کی قیادت سے نجات کی بنیاد رکھ گیا ہے، کیونکہ بجٹ میں حکومت نے تمام مشوروں اور ملکی معیشت کے لیے ضروری اقدامات سے ایک بار پھر صرفِ نظر کیا ہے۔ حکومت سے بی این پی کی علیحدگی بلاسبب نہیں ہے، حکومت پر دوسرا وار مسلم لیگ(ق) کرے گی جسے پنجاب میں اہم کردار دیا جارہا ہے۔ اس پختہ فیصلے کے بعد ہی مرکز میں متبادل کی تلاش شروع کردی گئی ہے۔ جو کہتے ہیں استعفیٰ نہیں دوں گا، میرے ساتھ بہت لوگ ہیں، مائنس ون ہوا تو ردعمل آئے گا… یہ سب کچھ ایک جانب، اب مائنس ون ہوکر رہے گا اور تحریک انصاف کو نئے وزیراعظم کے لیے خود امیدوار دینا ہی پڑے گا۔
بجٹ کی منظوری میں اپوزیشن پوری طرح شامل ہے، محض مشترکہ پریس کانفرنس کرکے بجٹ مسترد کردینے سے اپوزیشن اپنی قومی ذمہ داریوں سے بری الذمہ نہیں ہوسکتی۔ حکومت کی معاشی ٹیم ٹیکس اہداف کی وصولی کے حوالے سے پُراعتماد نظر نہیں آتی۔ حکومت ابھی تک یہ کہہ رہی ہے کہ وہ ضمنی بجٹ پیش نہیں کرے گی۔ جبکہ حقائق یہ ہیں کہ اسے یہ کام کرنا پڑے گا۔ آئندہ مالی سال کا ٹیکس ہدف 4963 ارب روپے ہے جو موجودہ مالی سال کی حقیقی ٹیکس وصولی سے ایک ہزار 55 ارب روپے زائد ہے۔ وفاق کے بجٹ کی روشنی میں ہی صوبوں نے بجٹ بنایا ہے۔ اس کے اثرات سے ملک کا مالی نظم و نسق ہل کر رہ جائے گا۔ جدید جمہوری سیاسی نظام میں بجٹ بھی ایک سیاسی دستاویز ہوتی ہے۔ اس بجٹ کے ذریعے سیاسی گروہ یا سیاسی اتحاد اپنے منشور کے مطابق ریاستی وسائل اور آمدنی کو مختص کرتا ہے۔ بجٹ دیکھ کر نہیں لگتا کہ یہ کسی سیاسی جماعت کا پیش کردہ میزانیہ ہے۔ اس بجٹ میں وسائل کے استعمال اور وسائل پیدا کرنے کے حوالے سے کوئی واضح سمت نظر نہیں آرہی۔ بجٹ بے سمت ہونے کی اہم ترین وجہ یہ ہے کہ اس بجٹ میں وسائل کی تقسیم اور انہیں تفویض کرنے کی کوئی بھی ایک سمت نظر نہیں آرہی ہے، اور خود بجٹ بنانے والے بھی اس میزانیے میں رکھے گئے اہداف کے حوالے سے پُراعتماد دکھائی نہیں دیتے۔ آئندہ مالی سال 21-2020ء کے لیے 7 ہزار 248 ارب روپے کا میزانیہ پیش کیا گیا ہے۔ گزشتہ مالی سال کے لیے بجٹ کا تخمینہ 7 ہزار 260 ارب روپے لگایا گیا تھا۔ اس طرح موجودہ بجٹ گزشتہ مالی سال سے تقریباً 12 ارب روپے کم ہے۔ حکومت نے بجٹ کو پاکستانی کرنسی میں پیش کیا ہے، مگر مختص شدہ رقم کو ڈالر میں منتقل کرکے بجٹ میں حقیقی توسیع جانچی جاسکتی ہے۔ جس وقت بجٹ پیش کیا جا رہا تھا ایک ڈالر 164.58روپے کا تھا۔ اگر بجٹ کے مجموعی حجم کو روپے کی شرح مبادلہ سے تقسیم کیا جائے تو بجٹ کا حجم 44 ارب 4 کروڑ ڈالر بنتا ہے۔ اگر یہی فارمولا 20-2019ء کے میزانیے پر استعمال کیا جائے تو 11جون 2019ء کو جب بجٹ پیش ہوا تھا تب ایک ڈالر 150روپے میں دستیاب تھا۔ اس طرح بجٹ کا حجم ڈالر میں 48 ارب 40 کروڑ روپے سے زائد تھا۔ یعنی موجودہ مالی سال کا بجٹ گزشتہ مالی سال کے پیش کردہ تخمینے سے تقریباً 4 ارب ڈالر کم ہے۔ بجٹ میں رواں مالی سال شرح نمو کو (جو منفی اعشاریہ 4 فیصد ہے) آئندہ مالی سال کے لیے 2.1 فیصد رکھا گیا ہے۔ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان کی معیشت مالی سال 21-2020ء میں بمشکل ایک فیصد کی شرح سے ترقی کرے گی۔ اس کے علاوہ جاری کھاتوں کے خسارے کا ہدف 4.4 فیصد، قیمتوں میں اضافے کی شرح یا انفلیشن کا ہدف 9.1 فیصد سے گھٹا کر 6.5 فیصد رکھا گیا ہے۔
مالی سال 20-2019ء کا بجٹ ٹیکس وصولی کا بجٹ قرار دیا گیا تھا۔ ایف بی آر سے محصولات کا تخمینہ 5 ہزار 555 ارب روپے رکھا گیا تھا۔ لیکن ٹیکس وصولی کے سخت اقدامات کی وجہ سے کاروباری لین دین میں نمایاں کمی دیکھی گئی جس کی وجہ سے ٹیکس کا ہدف حاصل نہ ہوسکا، اور پھر کورونا کے پھیلاؤ سے قبل ہی ٹیکس ہدف کم کرکے 4 ہزار 17 ارب روپے کردیا گیا تھا جو ہدف سے ایک ہزار 538 ارب روپے کم ہے۔ ہدف میں اس کمی کے باوجود بھی وفاقی حکومت نے کورونا اور معیشت کے لاک ڈاؤن کا بہانہ بنا کر ٹیکس وصولی کا ہدف مزید کم کرکے 3 ہزار 908 ارب روپے کردیا تھا۔
وفاقی حکومت نے آبی وسائل کے لیے 69 ارب روپے، عوامی فلاحی ترقیاتی منصوبوں کے لیے 650 ارب روپے، وفاقی وزارتوں کے ترقیاتی کاموں کے لیے 418 ارب روپے، اور 100 ارب روپے کارپوریشنوں، 3 ارب روپے زلزلہ متاثرین اور 7 ارب روپے کورونا کے لیے رکھے ہیں۔ بجٹ میں پہلے سے جاری منصوبوں کے لیے 73 فیصد اور نئے منصوبوں کے لیے 27 فیصد رقم رکھی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نوازشریف حکومت جن منصوبوں کو شروع کرکے گئی تھی اُن کی تکمیل کے لیے یہی حکومت اپنے73 فی صد دستیاب وسائل خرچ کرنے کا فیصلہ کرچکی ہے۔ دیامیر بھاشا ڈیم یا مہمند ڈیم کے لیے رکھی جانے والی رقم کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ ملکی معیشت جس سطح پر پہنچ چکی ہے اسے چیونٹی کی رفتار سے باہر نکالنے کے لیے کم از کم ایک ہزار ارب روپے کے ترقیاتی پروگرام کا پیکیج ضروری تھا تاکہ ملکی معیشت میں سرمائے کی گردش سے ارتعاش پیدا ہوجاتا۔ مگر حکومت نے صرف تعمیراتی صنعت کو نوازنے کا فیصلہ کیا ہے، کیونکہ وہ نجی شعبے کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہے۔ بلڈرز، ڈویلپرزکو ٹیکس میں رعایت دی گئی ہے اور سستی رہائش گاہیں تعمیر کرنے والوں کو ٹیکس پر 90 فیصد تک چھوٹ دی گئی ہے۔ تعمیرات کے خام مال پر بھی ٹیکس چھوٹ دی گئی ہے مگر کچھ حصوں پر ٹیکس لگا کر یہ چھوٹ واپس بھی لی گئی ہے۔ پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی کو 30 ارب روپے دیے گئے ہیں۔ اسی طرح اخوت فائونڈیشن کے تعاون سے قرض حسنہ اسکیم متعارف کرائی گئی اور ڈیڑھ ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
دو سال میں حکومت نے ایف بی آر میں وہ اصلاحات کیوں نہیں کیں جن کی مدد سے حکومت بجٹ اہداف کو حاصل کرسکے؟ یہ بجٹ تو ایک سہ ماہی کا لگ رہا ہے۔ حکومت نے گزشتہ بجٹ میں ڈالر کی بچت سے متعلق پالیسی اپنائی اور بڑے پیمانے پر درآمدات کی حوصلہ شکنی کی جس میں روپے کی قدر میں کمی کے علاوہ متعدد مصنوعات پر ریگولیٹری ڈیوٹی کا نفاذ یا کسٹم ڈیوٹی میں اضافہ شامل تھا، مگر حکومت نے درآمد ہونے والی ایسی اشیاء پر بھی ڈیوٹی عائد کردی جن سے مقامی صنعت ویلیو ایڈیشن کرکے برآمد کیا کرتی تھی۔ اس پالیسی کی وجہ سے صنعتی پیداوار پر منفی اثرات پڑے اور گزشتہ مالی سال کے دوران صنعتی ترقی کا رجحان منفی 5.8 فیصد رہا۔
موجودہ مالی سال کے دوران صوبوں کو 2 ہزار 873 ارب روپے وفاقی قابلِ تقسیم پول میں سے دیے جائیں گے۔گزشتہ مالی سال کے تخمینے میں صوبوں کا حصہ 3 ہزار 254 ارب روپے رکھا گیا تھا۔ اس طرح نئے مالی سال میں وفاق سے صوبوں کو تقریباً 11 فیصد کم رقم ملے گی۔ صوبوں کو محض 24 ہزار 2 ارب روپے ہی منتقل کیے جاسکے ہیں۔ اب وفاق کہتا ہے کہ صوبے حقیقت پسندانہ منصوبہ بندی کریں۔
پیپلزپارٹی نے بجٹ کے خلاف مسلم لیگ(ن) اور اپوزیشن کی تمام جماعتوں کو اس لیے اپنے ساتھ ملایا کہ وفاق صوبوں کو اب پہلے سے بھی کم رقم دے رہا ہے اور پیپلزپارٹی سندھ حکومت کے لیے اپنے آخری دوسال میں سیاسی ترجیحات مکمل کرنا چاہتی تھی جس میں اب رکاوٹ نظر آرہی ہے، اس لیے قومی اسمبلی میں بجٹ کے ایشو پر پیپلزپارٹی جارحانہ نظر آئی۔ پارلیمنٹ اب چونکہ اپنے پہلے دوسال مکمل کرچکی ہے، وفاق نے اپنے یہ دوسال چور چور کی گردان کرکے ضائع کردیے ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں اگلے دوسال خوب سیاسی ہلہ گلہ کریں گی، وہ اگلے انتخابات کے لیے مسائل کا سارا بوجھ تحریک انصاف کے کاندھوں پر لادنے میں کامیاب ہوتی نظر آتی ہیں۔
پی آئی اے پر پابندی کا آغاز
پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز پر دنیا بھر میں پابندی لگنے کا آغاز ہوچکا ہے۔ برطانیہ کی سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ترجمان کے مطابق یہ فیصلہ یورپی یونین کے 30 جون کے فیصلے کے پیشِ نظر کیا گیا ہے۔ لندن، مانچسٹر اور برمنگھم سے پی آئی اے کا فلائٹ آپریشن فوری طور پر روک دیاگیا ہے، یورپی یونین نے بھی چھے ماہ کے لیے پی آئی اے پر پابندی لگائی ہے۔ کئی ممالک ایسے ہیں جہاں پی آئی اے کی فلائٹ جاتی تھیں، وہاں غلام سرور خان کی ’’مہربانی‘‘ سے روک دی گئی ہیں۔ سبز پاسپورٹ کی عزت بحال کرانے والوں نے قومی پرچم کیریئر ائیرلائن ہی بند کرادی۔ یہ صورتِ حال وزیر ہوا بازی غلام سرور خان کے قومی اسمبلی میں دیے جانے والے بیان کے بعد پیدا ہوئی ہے۔ انہوں نے قومی اسمبلی میں کہا تھا کہ 148 مشکوک لائسنس کی فہرست پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائنز کو بھجوادی گئی اور انہیں ہوابازی سے روک دیا گیا ہے، دیگر مشکوک لائسنس والے پائلٹ سو سے زائد ہیں، ان کی تفصیلات بھی سول ایوی ایشن کی ویب سائٹ پر جاری کردی گئی ہیں۔ ویت نام کی سول ایوی ایشن اتھارٹی نے 27 پاکستانی پائلٹوں کو لائسنس جاری کیا تھا، ان میں سے 12 پائلٹ کام کررہے تھے، انہیں بھی اب گرائونڈ کردیا گیا ہے۔ یہ صورت حال انتہائی تشویش ناک ہے۔ وزیر ہوا بازی ہی بتائیں کہ اس تباہی کا ذمہ دار کون ہے؟ طیارہ حادثے کے بعد انہوں نے کھڑے کھڑے پاکستان کی سب سے بڑی نشانی کو تباہ و برباد کردیا ہے جس کا ازالہ دہائیوں میں بھی ممکن نہیں ہوسکے گا۔ کہیں یہ ساری مہم باقاعدہ کسی منصوبے کا حصہ تو نہیں ہے؟