تجارتی شہ رگ پر حملہ

پاکستان کے اقتصادی دارالحکومت کراچی میں پاکستان اسٹاک ایکس چینج پر دہشت گرد حملہ ناکام بنا دیا گیا۔ پولیس، رینجرز اور حفاظتی اداروں کی جوابی کارروائی کے باعث جدید اسلحہ اور دستی بموں سے لیس حملہ آور اپنے مذموم ارادوں میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ دہشت گردی کی اس کارروائی کی ذمہ داری بلوچستان کی قوم پرست علیحدگی پسند تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی نے قبول کی ہے۔ اس واردات کے بعد رینجرز، پولیس، سیکورٹی اداروں کے ذمہ داروں اور وزیراعظم عمران خان نے قومی اسمبلی میں اپنے خطاب میں دہشت گردی کی اس واردات کی ذمہ داری بھارت کی خفیہ ایجنسی ’را‘ پر عاید کی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے اس واردات کے دوسرے روز قومی اسمبلی میں اپنے خصوصی خطاب میں کہا کہ ’’ہمیں کوئی شک نہیں کہ اسٹاک ایکس چینج پر حملہ بھارت میں پلان ہوا۔ یہ ممبئی میں ہونے والی دہشت گردی جیسا منصوبہ بنایا گیا تھا۔ دہشت گرد حملے سے نمٹنے کے لیے ہماری پوری تیاری تھی‘‘۔ انہوں نے انٹیلی جنس ایجنسیوں کو خراجِ تحسین اور شہید ہونے والے تین گارڈز کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ شہدا نے قربانیاں دے کر دشمنوں کا بڑا منصوبہ ناکام بنادیا، دنیا کا کوئی بھی طاقتور ملک اس طرح کا حملہ نہیں روک سکتا تھا۔ وزیراعظم نے مزید کہا کہ ’’بھارت نے پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے ایک بڑا منصوبہ بنایا تھا۔ دہشت گرد ممبئی طرز کا حملہ کرکے اور بے قصور لوگوں کو قتل کرکے پاکستان کو عدم استحکام اور بے یقینی کا شکار بنانا چاہتے تھے۔ کوئی شک نہیں کہ یہ حملہ بھارت سے ہوا ہے۔‘‘
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اس واردات کے بارے میں بتایا کہ ’’پاکستان اسٹاک ایکس چینج پر حملہ آور دہشت گرد بڑی تیاری سے آئے تھے جو اپنے ارادوں میں کامیاب ہوجاتے تو پاکستان کو بھی ویسے ہی نقصان کا سامنا ہوتا جیسا امریکہ کے ٹوئن ٹاور پر حملوں کے نتیجے میں امریکہ کو پہنچا تھا۔ شہدا نے ملک کو بڑے المیے سے بچا لیا ہے اور بہت کم وقت میں دہشت گردوں کو نیست و نابود کیا، نہیں تو ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے سے بھی بڑا نقصان ہوسکتا تھا۔‘‘
کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے بیس ماہ کی مدت کے بعد کراچی کو پھر نشانہ بنایا ہے۔ یاد رہے کہ 23 نومبر 2018ء کو کلفٹن میں واقع چینی قونصلیٹ پر اسی طرز کا حملہ کیا گیا تھا، جس میں دو پولیس اہلکار اور دو شہری شہید ہوگئے تھے۔ پولیس کی جوابی کارروائی میں 3 حملہ آور دہشت گرد ہلاک ہوگئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری بھی بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی تھی۔ یہی تنظیم دالبندین میں چینی باشندوں کی بس اور گوادر میں ایک بڑے ہوٹل پر حملہ کرچکی ہے جس میں چینی باشندے قیام پذیر تھے۔ ان وارداتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گردی کے منصوبہ سازوں کا ہدف پاکستان اور چین کے اقتصادی اور تزویراتی تعلقات ہیں۔
دہشت گردی کے منصوبہ سازوں نے فرانسیسی خبررساں ایجنسی اے ایف پی کو ایک ای میل بھیجی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اسٹاک ایکس چینج کے ساتھ ساتھ پاکستانی معیشت کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔ کالعدم تنظیم کے مطابق چین غیر منصفانہ طور پر بلوچستان کے معدنی وسائل اور ہائیڈروکاربن وسائل کو استعمال میں لا رہا ہے۔
کراچی کی تازہ واردات سے قبل کراچی اور سکھر میں رینجرز کے جوانوں پر قاتلانہ حملوں کی وارداتیں ہوچکی ہیں۔ ان وارداتوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گردی پر قابو پالینے کے باوجود دہشت گردی کے خطرات کم نہیں ہوئے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دہشت گردی کی نئی لہر پاکستان میں سامنے آرہی ہے اور اس کا پس منظر بھی عالمی سیاست کی تبدیلی ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ عالمی سطح پر چین اور امریکہ کی سرد جنگ تیز ہوگئی ہے۔ افغانستان میں امریکہ کی پسپائی کی وجہ سے اس خطے میں بھارت کا کردار محدود ہوگیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں عوامی انتفاضہ اور لداخ میں چین سے فوجی ہزیمت نے بھارت کو پریشان کیا ہے، اس لیے اُس نے پاکستان کے اقتصادی مرکزِ اعصاب کو نشانہ بنایا ہے۔ ظاہر ہے کہ کورونا کی عالمی وبا نے دنیا کی ہر معیشت کو متاثر کیا ہے، پاکستان بھی اس سے متاثر ہے۔ اسمارٹ لاک ڈائون کی وجہ سے اقتصادی سرگرمیاں محدود ہیں۔ ایسے عالم میں پاکستانی وال اسٹریٹ پر دہشت گرد حملہ پاکستان کی معیشت پر ضرب ہے تاکہ قرضوں میں جکڑا ہوا پاکستان مزید اقتصادی و سیاسی عدم استحکام کا شکار ہوسکے۔ اس واردات سے معلوم ہوتا ہے کہ دہشت گردی کے خطرات ختم نہیں ہوئے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ دہشت گرد گروپوں کی تربیت اور وسائل کی فراہمی میں مفسد ممالک کی خفیہ ایجنسیاں ملوث ہوتی ہیں۔ پاکستان میں ریمنڈ ڈیوس اور کلبھوشن یادیو کی رنگے ہاتھوں گرفتاری اس کا ثبوت ہے۔ بھارت کی بلوچستان میں مداخلت کسی سے بھی چھپی ہوئی نہیں ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور ان کی انٹیلی جنس اور فوج کے حکام بلوچستان میں دہشت گرد گروہوں کی سرپرستی کا کھلم کھلا اعتراف کر چکے ہیں۔ گوادر کی بندرگاہ کی تعمیر اور سی پیک کے بعد ان کارروائیوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔ اس پس منظر میں سیاسی اور عسکری قیادت کو محض انٹیلی جنس کارروائیوں پر انحصار نہیں کرنا چاہیے۔ اوّلین ضرورت یہ ہے کہ بلوچستان کے نوجوانوں کے احساسِ محرومی کا ازالہ کیا جائے، ناراض نوجوانوں کو قومی دھارے میں واپس لایا جائے۔ طاقت کا استعمال ہر مسئلے کا حل نہیں ہے، بالخصوص انسانی حقوق کی پامالی، ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگی دشمنوں کے لیے ایندھن بنانے کا سبب بنتی ہے۔