افواہوں اور غلط فہمیوں کے باوجود طالبان و امریکہ کے درمیان مسلسل رابطہ خوش آئند ہے
افغان ملت کی پریشانی جلد ختم ہوتی نظر نہیں آرہی۔ سوا تین کروڑ سے کچھ زیادہ نفوس پر مشتمل یہ جنتِ ارضی 1979سے غیر ملکی جارحیت کا نشانہ بنی ہوئی ہے۔ نہ تو سر پھرے افغان غیر ملکی بالادستی قبول کرنے کو تیار ہیں، نہ قابض قوتیں غیر مشروط واپسی پر آمادہ۔
طویل اعصاب شکن مذاکرات کے بعد 28 فروری کو طالبان اور امریکہ معاہدے سے امن کی ایک امیدِ موہوم پیدا ہوئی ہے۔ یہ دستاویز معاہدۂ امن نہیں بلکہ عزمِ امن ہے جس میں فریقین نے پائیدار امن کے قیام کے لیے کچھ اقدامات کا عزم ظاہرکیا ہے۔ معاہدے کے مطابق، افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلا 14 مہینوں میں مکمل ہوگا اور پہلے مرحلے میں 130 دنوں کے دوران یہاں تعینات 13 ہزار نیٹو فوجیوں کی تعداد کم کرکے8600 کردی جائے گی۔ دوسری طرف طالبان نے اس بات کی ضمانت دی ہے کہ افغان سرزمین امریکہ یا کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔ ساتھ ہی طالبان نے کابل انتظامیہ سے مذاکرات پر رضامندی ظاہر کی ہے تاکہ ایک وسیع البنیاد حکومت کا قیام ممکن بنایا جاسکے۔ طالبان نے ان مذاکرات سے قبل جنگی قیدیوں کے تبادلے کی شرط رکھی ہے۔ اس وقت پانچ ہزار طالبان امریکہ کی قید میں، اور ایک ہزارافراد طالبان کی حراست میں ہیں۔
معاہدے کے ساتھ ہی اسے ناکام بنانے کی منظم کوششوں کا آغاز ہوا۔ طالبان کے اصرار پر اس پورے معاملے سے کابل انتظامیہ کو الگ رکھا گیا تھا، جس کی وجہ سے افغان حکومت معاہدے کو اپنی توہین سمجھتی ہے اور ڈاکٹر اشرف غنی اسے ناکام بنانے کے لیے قیدیوں کی رہائی میں مسلسل تاخیر کررہے ہیں۔ معاہدے کے مطابق جون کے آخر تک قیدیوں کا تبادلہ مکمل ہونا تھا، لیکن تادم تحریر ڈھائی ہزار کے قریب طالبان رہا کیے گئے ہیں۔ یہ شکایت بھی ہے کہ کابل انتظامیہ بھاری رقوم کے عوض عادی مجرموں کو طالبان قرار دے کر رہا کررہی ہے۔ اسی کے ساتھ ملک کے مختلف علاقوں میں طالبان اور سرکاری فوج کے درمیان تصادم اور افغانستان کے مختلف شہروں پر امریکی طیاروں کی بمباری جاری ہے۔ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے داعش اور دوسرے شرپسند عناصر بھی اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
افغانستان سے غیر مشروط انخلا کو امریکہ کے قدامت پسند اپنی شکست سمجھتے ہیں، اور اس معاملے میں صدر ٹرمپ کو خود اپنی پارٹی کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا ہے۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ فوج کی واپسی سے دہشت گردی کو فروغ ملے گا۔ جون کے آغاز سے اس مہم میں تیزی آگئی ہے۔
چند ہفتے پہلے بین الاقوامی پابندیوں کی نگرانی کرنے والی اقوام متحدہ کی کمیٹی نے ایک رپورٹ جاری کی جس میں کہا گیا ہے کہ طالبان اب بھی القاعدہ سے رابطے میں ہیں اور مُلاّئوں نے ان دہشت گردوں سے لاتعلقی اختیار کرنے کے بجائے مراسم کو مزید مضبوط کرلیا ہے۔ مزے کی بات کہ کہیں بھی اس سلسلے میں کوئی دستاویزی شواہد فراہم نہیں کیے گئے، اور صاف لگتا ہے کہ کابل انتظامیہ کے لیے طالبان کے رویّے کو اس مفروضے کی بنیاد بنایا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان بین الافغان مذاکرات کو مختلف حیلوں بہانوں سے ٹال رہے ہیں اور وہ افغانستان سے نیٹو فوج کے انخلا کے انتظار میں ہیں۔ کمیٹی کا خیال ہے کہ فوجی انخلا کے بعد طالبان القاعدہ کی مدد سے حکومت پر قبضے کی کوشش کریں گے۔ امریکی حکام نے اس رپورٹ کو تجزیہ قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا ہے۔ امریکی وزارتِ خارجہ کے اعلیٰ عہدیداران پُراعتماد ہیں کہ طالبان اپنے معاہدے پر قائم رہیں گے، اور بین الافغان مذاکرات کے حوالے سے طالبان کے اخلاص پر شبہ کی کوئی وجہ نہیں۔
افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے اور مذاکرات کے دوران امریکی وفد کے قائد جناب زلمے خلیل زاد نے واشنگٹن میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کہاکہ قیدیوں کے تبادلے اور تشدد میں کمی کے معاملے پر نمایاں پیش رفت ہوئی ہے۔ جناب خلیل زاد نے انکشاف کیا کہ امریکی وزارتِ خارجہ کی نگراں کمیٹی افغانستان کی زمینی صورت حال پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ کمیٹی کا خیال ہے کہ دہشت گردی کے حوالے سے طالبان کا رویہ اور طرزِعمل مثبت اور عزم بہت واضح ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے جناب خلیل زاد نے کہا کہ یہ رپورٹ 15 مارچ کو مرتب کی گئی ہے جبکہ امن معاہدے پر دستخط 28 فروری کو ہوئے تھے، اورگنجلک صورت حال میں وعدوں پر عمل درآمد کے لیے پندرہ دن کی مہلت غیر حقیقت پسندانہ ہے۔
اقوام متحدہ کی کمیٹی کی جانب سے جون 2019ء میں بھی اسی نوعیت کی رپورٹ سامنے آئی تھی، جس کے مطابق افغانستان کے تمام بڑے دہشت گرد گروپ طالبان کی نگرانی میں کام کررہے ہیں۔ دلچسپ بات کہ رپورٹ میں ان ’بڑے گروپوں‘ کی تفصیل یا شناخت نہیں بیان کی گئی، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مصنفین نے اپنے اندیشے اور خدشات کی بنیاد پر یہ رپورٹ ترتیب دی ہے۔ ان دستاویزات میں داعش کی سرگرمیوں کی کوئی تفصیل بیان نہیں کی گئی۔ دوسری طرف امریکہ کے سراغ رساں حلقے داعش کو عالمی امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دے رہے ہیں۔
اس ماہ کے وسط میں طالبان نے انکشاف کیا کہ افغان خفیہ ایجنسی ’نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی‘ (NDS) امن معاہدہ ناکام بنانے کے لیے زلمے خلیل زاد کو ہلاک کرنا چاہتی ہے، اور اس مقصد کے لیے این ڈی ایس داعش سے کرائے کے قاتل بھرتی کررہی ہے۔ چند دن پہلے طالبان نے ایک ویڈیو بھی جاری کی ہے جس میں دو افراد کو پشتو میں یہ کہتے سنا جا سکتا ہے کہ ان کا تعلق داعش سے ہے اور ان دونوں کو این ڈی ایس کے سابق سربراہ رحمت اللہ نبیل کے کہنے پر زلمے خلیل زاد کو قتل کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ طالبان کا کہنا ہے کہ اس سازش کا مقصد امریکہ اور طالبان معاہدے کو سبوتاژ کرنا ہے۔ رحمت اللہ نبیل نے ویڈیو جعلی قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کردیا ہے، تاہم امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت ویڈیو کی تحقیق کررہی ہے۔
گزشتہ دنوں یہ سنسنی خیز انکشاف سامنے آیا کہ روس کی عسکری انٹیلی جنس امریکی فوجیوں کو ہلاک کرنے والے طالبان کو نقد انعامات کی پیشکش کررہی ہے۔ نیویارک ٹائمز نے کسی فردکا نام لیے بغیر امریکی محکمہ سراغ رسانی کے حوالے سے بتایا کہ حکام نے امریکی صدر کو اس بارے میں آگاہ کردیا تھا۔ اخبار کے مطابق حکام نے جوابی اقدامات بھی تجویز کیے تھے جن میں ماسکو سے سفارتی شکایت اور روس پر پہلے سے عائد تعزیرات کو سخت اور اس کا دائرہ وسیع کرنے کے ساتھ چند دوسرے سخت اقدامات شامل تھے۔ 2016ء کے صدارتی انتخابات میں روس کی مبینہ مداخلت پر صدر بارک اوباما نے اپنے عہدِ صدارت کے اختتام پر روسی اہلکاروں کی گرفتاری اور سفری پابندیوں سمیت کچھ پابندیاں عائد کردی تھیں۔
واشنگٹن پوسٹ نے بھی اس رپورٹ کی تصدیق کی اور کہا کہ روس سرکاری طور پرطالبان کو دہشت گرد سمجھتا ہے، لیکن ادھر کچھ عرصے سے کریملن ان پر مہربان نظر آرہا ہے، اور ماضیِ قریب میں طالبان رہنما افغان شخصیات کے ہمراہ ماسکو کا دورہ کرچکے ہیں۔
نیویارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ اور CNNکو صدرٹرمپ جھوٹا یا Fake میڈیا کہتے ہیں، چنانچہ اس خبر کی امریکی صدر نے سختی سے تردید کی اور رپورٹ کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ نہ تو مجھے کسی نے اس بارے میں بتایا اور نہ نائب صدر مائیک پنس یا وائٹ ہاؤس کے چیف آف اسٹاف مارک میڈوز کو افغانستان میں روسیوں کی جانب سے ہمارے فوجیوں پر حملوں کے متعلق کوئی بریفنگ دی گئی۔ ’نامعلوم ذرائع‘ نے یہ اطلاع جھوٹے اخبار نیویارک ٹائمز کو دی ہے۔ ہر کوئی اس سے انکار کررہا ہے۔
امریکی صدر نے کہا کہ جھوٹا اخبار نامعلوم ذرائع کو سامنے لائے، لیکن اخبار ایسا نہیں کرسکتا کیونکہ اس ’نامعلوم‘ کا کوئی وجود ہی نہیں۔ اپنے ایک ٹویٹ میں صدر ٹرمپ نے اس خبر کو من گھڑت روسی فریب (hoax) قرار دیا۔ امریکی صدر کے اس طنز کا پس منظر ڈیموکریٹک پارٹی کا وہ الزام ہے کہ روس نے 2016ء کے انتخابات میں صدر ٹرمپ کو جتانے کے لیے مداخلت کی تھی۔
روس نے بھی افغانستان میں امریکی یا نیٹو سپاہیوں کے قتل پر طالبان کو انعام دینے کی خبر کو من گھڑت، غلط اور شرانگیز قرار دیا ہے۔ واشنگٹن کے روسی سفارت خانے نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والی خبر بے بنیاد ہے اور اس کی اشاعت سے امریکہ اور برطانیہ میں تعینات اس کے سفارتی عملے کی جانیں خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔ سفارت خانے نے کہا کہ امریکہ کا اخبار جھوٹی خبریں پھیلا رہا ہے۔ ٹویٹ میں امریکہ کے متعلقہ اداروں سے ویانا کنونشن کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے، جس کے تحت سفارت کاروں کی حفاظت کو یقینی بنانا میزبان ملک کی ذمہ داری ہے۔
افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے امریکہ یا نیٹو فوجیوں کی ہلاکت کے لیے روسی خفیہ اداروں کی جانب سے کسی پیشکش کی سختی سے تردید کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ طالبان مجرم پیشہ یا کرائے کے قاتل نہیں بلکہ مادرِ وطن کو آزاد کرانے کی مقدس جدوجہد میں مصروف ہیں۔ اپنے ایک ٹویٹ میں انھوں نے کہا کہ طالبان تمام کارروائیاں اپنے منصوبے اور ہدف کے مطابق کرتے ہیں، طالبان عسکری وسائل کے اعتبار سے خودکفیل ہیں اور انھیں اللہ کے سوا کسی کی مدد کی کوئی ضرورت نہیں۔ طالبان کا کہنا ہے کہ ملّت کے مخالف افواہوں اور دہشت گرد سرگرمیوں کے ذریعے افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کو ناکام بنانا چاہتے ہیں۔
روس اور طالبان کے درمیان سازباز اور امریکی فوجیوں کو قتل کرنے کی سازش کا معاملہ اُس وقت سامنے آیا ہے جب امریکی انتخابات میں صرف 4 ماہ باقی ہیں اور صدر ٹرمپ انتخابات سے پہلے افغانستان میں اپنے فوجیوں کی تعداد کو 8500 سے کم کردینا چاہتے ہیں۔ بلکہ وہ کئی بار مکمل فوجی انخلا کی خواہش ظاہر کرچکے ہیں۔ صدر ٹرمپ کورونا وائرس کی وجہ سے امریکہ کے انخلا میں تیزی کے خواہش مند ہیں۔کچھ عرصہ پہلے نیٹو نے افغانستان میں تعینات اپنے چار سپاہیوں کے مثبت ٹیسٹ کی تصدیق کی تھی۔ امریکیوں کو ڈر ہے کہ اگر افغانستان میں یہ وبا بڑے پیمانے پر پھوٹ پڑی تو نیٹو کی چھائونیوں اور اڈوں کو محفوظ رکھنا ناممکن ہوجائے گا۔ دوسری طرف یہ نامراد وائرس امریکی اقتصادیات کو گھن کی طرح چاٹ رہا ہے جس کی وجہ سے معاشیات کے امریکی علما افغانستان سے دکان کو جلد از جلد بڑھا لینے کا مشورہ دے رہے ہیں۔
انتخابی مہم کے پہلے جلسے میں بھی صدر ٹرمپ نے کہا کہ افغانستان میں ہمارے لڑاکا پولیس کی ذمہ داری ادا کررہے ہیں جو اِن دلاوروں کے شایانِ شان نہیں۔ ڈیمو کریٹک پارٹی اور دوسرے مخالفین صدر ٹرمپ پر روسی صدر پیوٹن کے بارے میں نرم گوشہ رکھنے کا الزام لگاتے ہیں جس کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ سابق صدر بارک اوباما اور جوبائیڈن کے مقابلے میں روس کے لیے ٹرمپ انتظامیہ کا رویہ کہیں زیادہ سخت ہے۔ صدر ٹرمپ کے خیال میں جنگِ افغانستان صدر اوباماکی حماقت سے طول پکڑ گئی اور اوباما کی نااہلی نے افغانستان کو امریکیوں کے لیے دلدل بنادیا۔
دلوں کا حال تو اللہ ہی جانتا ہے، لیکن طالبان اور امریکی دونوں ہی افغان امن کے معاملے میں بظاہر مخلص و پُرعزم نظر آرہے ہیں، اور انھیں شاہراہِ امن پر جگہ جگہ نصب سازشوں اور فتنہ انگیزیوں کے دامِ ہم رنگِ زمیں کا بھی اندازہ ہے۔ اس معاملے کا مثبت پہلو یہ ہے کہ امریکہ و طالبان کے درمیان گہرے روابط ہیں۔ چند ہفتہ پہلے صدر ٹرمپ نے طالبان کے نائب امیر مُلاّ عبدالغنی برادر سے براہِ راست بات کی تھی، جبکہ زلمے خلیل زاد بھی طالبان سے مسلسل رابطے میں ہیں۔ یہ امریکی دبائو کا ہی نتیجہ ہے کہ اتوار کو صدر اشرف غنی نے طالبان قیدیوں کی رہائی تیز کرنے کی یقین دہانی کروائی۔ ان کا کہنا تھا کہ کابل انتظامیہ بین الافغان مذاکرات جلد از جلد شروع کرنا چاہتی ہے۔ مذاکرات کے لیے افغان سرکاری وفد کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے گزشتہ دنوں ایسی عبوری حکومت کے قیام پر آمادگی ظاہر کی جس میں طالبان کو بھی نمائندگی حاصل ہو۔
افواہوں اور غلط فہمیوں کے باوجود طالبان و امریکہ کے درمیان مسلسل رابطہ خوش آئند ہے، اور بظاہر دونوں فریق ایک دوسرے پر اعتماد بھی کرتے نظر آرہے ہیں، لیکن وقت بہت کم ہے۔ رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق کورونا وائرس صدرٹرمپ کی مقبولیت پر منفی اثر ڈال رہا ہے۔ اگلے دوتین ہفتوں کے دوران انتخابی مہم عروج پر پہنچ جائے گی۔ ڈر ہے کہ کہیں آوے جاوے اور زندہ باد ومردہ باد کے ہنگامے میں طالع آزمائوں کو اپنی چال چلنے کا موقع نہ مل جائے۔
…………
اب آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.com اور ٹویٹر Masood@MasoodAbdali پر بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ ہماری ویب سائٹwww.masoodabdali.comپر تشریف لائیں۔