دریائوں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان سید منورحسن ؒ۔

نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان

سید منورحسن ایک عہد کا نام ہے، اور یہ عہد تمام ہوا۔ سید منورحسن سراپا مقصدِ زندگی تھے، اور یہ مقصدِ زندگی ان کی زندگی کی آخری سانس تک جاری و ساری رہا۔ وہ ایک تحریک تھے، ایک تاریخ تھے، اپنی ذات میں انجمن تھے۔ وہ درماندہ رہرو نہیں خود ایک کارواں تھے۔ وہ ہمارے درمیان ایک سعادت والی زندگی گزار کر گئے… نیکی اور تقویٰ والی، تزکیہ نفس اور طہارتِ قلب والی، یقینِ محکم اور عمل پیہم والی، نگاہ بلند اور سخن دل نواز والی، دعوت و عزیمت اور ایثار و قربانی والی، نویدِ سحر اور چراغِ منزل والی۔ اللہ ان کو زندگی کے ہر غبار آلود قدم کا عظیم اجر عطا فرمائے۔ وہ ایک باعمل مسلمان، سچے پاکستانی، کھرے سیاست دان اور جابر حکمرانوں کے سامنے کلمۂ حق بلند کرنے والے باہمت مردِ مجاہد تھے۔
سید منور حسن 2008ء تا 2013ء پانچ سال تک امیر جماعت اسلامی پاکستان رہے۔ اس سے پہلے وہ پندرہ سال جماعت اسلامی پاکستان کے سیکرٹری جنرل رہے، اور اس سے پہلے کراچی کے امیر رہے۔ وہ اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلیٰ بھی رہے۔ ملک میں چلنے والی تحریکوں اور اتحادوں یعنی پاکستان قومی اتحاد، تحریک ختم نبوت، تحریک نظام مصطفیٰؐ، اسلامی جمہوری اتحاد، متحدہ مجلس عمل میں وہ قیادت کے منصب پر اور ہراول دستے میں رہے۔ عالمی اسلامی تحریکوں میں ان کا ایک خاص مقام ہے اور وہ شرق و غرب اور عجم و عرب میں لاکھوں دلوں کی دھڑکن تھے۔
سید منورحسن کے ساتھ رفاقت کا عرصہ:۔
دو چار برس کی بات نہیں یہ نصف صدی کا قصہ ہے۔ پہلی ملاقات 1962ء میں ہوئی، اور اس پر ان کے رحلت فرمانے تک 58 سال گزر چکے ہیں۔ 58 سال کی رفاقت پر نظر ڈالتا ہوں تو دل و دماغ میں جھرنوں کے نیلگوں پانیوں کی حلاوت کا شبنمی تاثر پھیل جاتا ہے۔ وہ ’’ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم… رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن‘‘ کی عملی تفسیر ہیں۔ 5 اگست 1941ء کو دہلی میں پیدا ہونے والے سید منورحسن دہلی کی طرز معاشرت اور دہلوی آداب و شائستگی کی تصویر تھے۔ انہوں نے 1963ء میں جامعہ کراچی سے سوشیالوجی اور پھر اسلامک اسٹڈیز میں ماسٹر کیا۔ وہ 1960 ء میں اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ ہونے سے پہلے بائیں بازو کی طلبہ تنظیم این ایس ایف یعنی نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے ساتھ وابستہ رہے۔ اس کی اعلیٰ قیادت میں شامل تھے۔ پھر کچھ رفقا کے ذریعے اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ اور سید مودودی ؒ کے لٹریچر سے آشنا ہوئے تو یہیں کے ہوکر رہ گئے۔ کبھی موسیقی کا شوق تھا، اِدھر آئے تو یہ شوق بھی دم توڑ گیا۔ بیڈمنٹن کے اچھے کھلاڑی تھے۔ کرکٹ کی کمنٹری سننے، دیکھنے، دورانِ میچ اسکور سے آگاہ رہنے کا شوق ہمیشہ رہا۔ جمعیت میں آئے تو جامعہ کراچی کے ناظم رہے۔ دورِ طالب علمی میں ناظم اعلیٰ بنے اور بنتے ہی رہے، یعنی مسلسل وہ اسلامی جمعیت طلبہ کے تین بار ناظم اعلیٰ منتخب ہوتے رہے۔ میں 1962ء میں اسلامی جمعیت طلبہ کی سمن آباد لاہور میں منعقد ہونے والی سات روزہ تربیت گاہ میں شامل ہوا، اُس وقت میں آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا اور شاید شرکاء میں سے سب سے کم عمر۔ اسی تربیت گاہ میں اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظمینِ اعلیٰ حسین خانؒ، شیخ محبوب علیؒ سے پہلی پہلی ملاقاتیں ہوئیں۔ طلبہ قیادت کے متعدد نام مثلاً بارک اللہ خان مرحوم، نصر اللہ شیخ مرحوم، صفدر علی چودھری مرحوم، عطاء اللہ شیرازی مرحوم وغیرہ سے بھی ملا قاتیں ہوئیں۔ سید مودودیؒ، مولانا امین احسن اصلاحیؒ، نواب مشتاق احمد گورمانیؒ، علامہ علاء الدین صدیقیؒ، مولانا خلیل احمد حامدی ؒ کے خطابات سننے کا موقع بھی ملا۔ ٹھیک سے یاد نہیں کہ منورحسنؒ سے کوئی نشست اس تربیت گاہ میں ہوئی یا بعد میں ملتان میں ہونے والے اجتماعِ عام میں۔ بہرحال ان کے ساتھ عقیدت و محبت کا یہ سفر دورِ طالب علمی سے شروع ہوا۔ وہ جملے سے مزاح پیدا کرنے کا فن جانتے تھے۔ وہ دوسرے ہی لمحے ملنے والے سے بے تکلف ہوجاتے تھے۔ ان سے ملنے والا ہر فرد اس تاثر میں مبتلا رہتاکہ وہ سب سے زیادہ میرے قریب ہیں، یا میں اُن کے قریب ہوں۔ تربیت گاہوں میں ان کے خطابات دلوں کی دنیا میں انقلاب برپا کردیتے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں زبان و بیان کا سلیقہ بھی عطا کیا تھا اور اخلاصِ عمل کی دولت بھی، اس لیے ان کی تقریریں دلوں پر اثر کرتی تھیں۔
مفکرِ اسلام سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی ہدایت پر وہ ادارہ معارفِ اسلامی کراچی سے وابستہ ہوئے اور تادم واپسی ان کی وابستگی و رہنمائی کا یہ سفر جاری رہا۔ 1967ء میں جماعت اسلامی کراچی سے وابستہ ہوئے۔ 1977ء میں انہوں نے پی این اے کے تحت قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا اور کراچی کی فضائوں میں ’’صبح منور، شام منور، روشن تیرا نام منور‘‘ کے نعرے گونجتے رہے۔ تاریخی دھاندلی والے انتخابات میں بھی سید منورحسن نے ملک بھر میں سب سے زیادہ ووٹ لینے والے ایم این اے کا اعزاز حاصل کیا۔ 1990ء میں سید منورحسن کراچی سے مرکز جماعت اسلامی منصورہ لاہور میں منتقل ہوئے۔ پہلے نائب قیم ہوئے، پھر 1993ء میں قیم یعنی سیکرٹری جنرل بنے۔ محترم قاضی حسین احمد ؒ کے ساتھ ان کا بطور سیکرٹری جنرل عرصہ 1993ء سے 2009ء تک رہا۔ اس دوران میں بھی ان کے ساتھ نائب قیم یعنی اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل رہا، پھر جب وہ 2009ء میں جماعت اسلامی کے چوتھے امیر منتخب ہوئے تب بھی ان کی امارت کے اس پانچ سالہ دور میں مَیں بطور نائب قیم کام کرتا رہا۔ ان کے کام کا طریق کار مشاورتی بھی تھا اور اپنے ساتھیوں پر اعتماد کرنے کا بھی۔ وہ ذاتی زندگی میں عابد شب زندہ دار تھے۔ نماز باجماعت کے اس کی حقیقی روح کے ساتھ پابند تھے۔ وہ اذان سننے سے پہلے ہی اپنی نشست چھوڑ دیتے اور سب سے پہلے مسجد میں داخل ہوتے اور امام کے پیچھے یعنی پہلی صف کے اہم ترین مقام پر صف آراء ہونے والے تھے۔ یہ ممکن ہی نہیں تھاکہ وہ منصورہ میں ہوں اور سب سے پہلے مسجد میں پہنچنے والوں میں نہ ہوں۔ ان کی باقاعدگی میں حقیقی لگن اور حی علی الصلوٰۃ کے عملی جواب میں ان میں حقیقی تڑپ موجود رہتی تھی۔ وہ سفر و حضر، ہر جگہ اللہ کا اٹھتے، بیٹھتے، لیٹتے ذکر کرنے والوں میں شامل تھے۔ مجھے ان کے ساتھ سفر کرنے اور ایک ہی کمر ے میں رات بسر کرنے کا موقع ملا۔ وہ رات تہجد کے لیے لازماً بیدار ہوتے اور اتنی آہستگی سے کہ ساتھ سوئے ہوئے کو بھی خبر نہ ہوسکے۔ دفتری زندگی میں ان کا تحریکی وسائل کی بچت کا یہ انداز بھی قابلِ تقلید ہے کہ وہ روزمرہ کے کام کے لیے اپنے ساتھیوں کو جو نوٹ بھیجتے وہ اُن دعوت ناموں کے کارڈز پر ہوتے جو مقررہ تاریخ گزرنے کے بعد عملاً بے کار اور ردی کی ٹوکری میں جانے کے قابل ہوتے، وہ ان کو بھی کارآمد بنا لیتے۔ بطور قیم اور بطور امیر انہوںنے ’’گو امریکہ گو‘‘، ’’سی ٹی بی ٹی نامنظور‘‘، ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی، لاپتا پاکستانیوں کی بازیابی، امریکی جاسوس و دہشت گرد ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے حکومتی فیصلوں میں رکاوٹ، گستاخانہ خاکوں کے خلاف تحفظِ ناموسِ رسالتؐ، تحریک حرمتِ قرآن، تحریکِ حرمت رسولؐ اور عدلیہ بحالی کی تحریکیں چلائیں۔ وہ ان سب تحریکوں کے منتظم و قائد تھے۔ جماعت اسلامی ایم ایم اے کا حصہ بنی۔ 2002ء کے انتخابات میں کامیابیاں حاصل کیں۔ 2008ء کے الیکشن کا بائیکاٹ ہوا۔ 2013ء کے الیکشن میں اپنے نشان سے انتخابات میں حصہ لیا۔ ان سب کامیابیوں اور فیصلوں کے پیچھے قوتِ نافذہ اور قوتِ متحرکہ سید منورحسن تھے۔
26 جون 2020ء بروز جمعۃالمبارک ان کا سفرِ زندگی تمام ہوا۔ اللہ کریم ان کی مساعیِ جمیلہ کو قبول فرمائے اور ان کو اعلیٰ علیین میں شہدا و صالحین کے ساتھ اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ وحسن اولئک رفیقا۔