خورشید ندیم
سید منورحسن میری جوانی کا ایک رومان تھے۔ رومان تو جوانی کے ساتھ گیا، منور صاحب اب چلے گئے۔ انّا للہ و انّا الیہ راجعون۔ لاریب، ہم اللہ ہی کے ہیں اور ہمیں (ایک دن) اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔
میں جمعیت میں آیا تو یہ شبیر احمد خان کا دور تھا۔ رخصت ہوا تو سراج الحق ناظمِ اعلیٰ تھے۔ درمیان میں امیرالعظیم بھی آئے۔ سحر مجھ پر لیکن منور حسن کا طاری رہا۔ خطابت میری کمزوری ہے کہ عطا اللہ شاہ بخاری کے الفاظ میں، کانوں کا عیاش ہوں۔ اسی شوق میں کئی بار سردی کی ٹھٹھرتی راتیں مسجد کی چٹائیوں پر گزاریں اور بارشوں میں بھیگا۔ منور صاحب نے بھی میری اس کمزوری کا فائدہ اٹھایا اور دل میں اتر گئے۔ وہی دل جس میں آنے کا راستہ تو ہوتا ہے، جانے کا نہیں۔
میں جس تعلیمی ادارے میں رہا، اپنی جماعت میں سب سے کم سن تھا اور قدوقامت کے باب میں بھی قدرت نے زیادہ سخاوت کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اس کے باوصف خطابت اور فنِ تقریر کے ساتھ دلچسپی نے ہمیشہ نمایاں رکھا۔ اُس عمر میں سید منور حسن کی تقریروں نے کبوتر کے تنِ نازک میں شاہین کا جگر پیدا کردیا تھا۔ اسی وجہ سے جمعیت کے دوستوں نے کئی اہم ذمہ داریوں کے قابل سمجھا۔ کہا جا سکتا ہے کہ یہ بھی سید صاحب کا بالواسطہ فیضان تھا۔
اس دورِ رومان کو خیرباد کہے کئی سال ہوگئے تھے، جب منور صاحب سے شخصی تعلق قائم ہوا۔ وہ میرے ماموں ڈاکٹر ممتاز احمد کے عزیز ترین دوستوں میں سے تھے۔ کم وبیش چھ دہائیوں پر محیط یہ دوستی اُس وقت تمام ہوئی جب 2016ء میں ماموں جان سفرِ آخرت پر روانہ ہوئے۔ منور صاحب کو جب اس رشتے کی خبر ہوئی تو میں ان کی محبت کا زیادہ مستحق ٹھیرا۔
منور حسن سر تا پا ایک رومان تھے۔ فکر میں بھی، عمل میں بھی۔ شعر و سخن اور گفتار و تحریر میں، سب ہی رومان پرور ہوتے ہیں۔ عمل میں رومان کو نبھانا مگر کسی قیس، کسی فرہاد ہی کا جگرا ہے۔ دنیا میں اگر رومانویت زندہ ہے تو ایسے لوگوں ہی کے دم سے۔
موسم آیا تو نخلِ دار پہ میرؔ
سرِ منصور ہی کا بار آیا
سید منور حسن نے اس رومان کو فکر کی سطح پر نبھایا اور عمل کی سطح پر بھی۔ وہ جو بات کہتے تھے، ان کا عمل اس کی شہادت بن جاتا تھا۔ وہ ”جہاد“ کا لفظ بولتے تھے تو اس کا مفہوم ان کے لیے کبھی مبہم نہیں تھا۔ اہلِ رومان کا معاملہ وہی ہوتا ہے جسے فیض صاحب نے بیان کیا: جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے۔ راستے میں کوئی مقام ان کو نہیں جچتا۔ ہم جیسے محتاط لوگ اسے مقامِ اعتدال کہتے ہیں۔
سید منورحسن کی خطابت جماعت اسلامی کی روایت سے ہم آہنگ نہیں تھی۔ مولانا مودودی کے زیرِاثر جماعت کے کلچر میں ابلاغ اور پیغام پر اتنا اصرار ہوا کہ اس کا جمالیاتی پہلو نگاہوں سے اوجھل ہوگیا۔ یہ تحریر ہو یا تقریر، ابلاغ اگر جمالیات سے بے نیاز ہوجائے تو بے رنگ و بے ذائقہ تحریریں اور تقریریں باقی رہ جاتی ہیں۔ جماعت کا معاملہ بھی یہی رہا۔ اس کی فضا خطیبوں کے لیے کبھی سازگار نہیں رہی۔
مولانا مودودی کی تحریریں اگرچہ انشاپردازی کا اعلیٰ نمونہ ہیں، لیکن ان کی تقریریں فنِ خطابت کی روایت کے موافق نہیں تھیں، جیسے اُن میں لفظی تکرار ملے گی نہ الفاظ کا زیروبم، نہ اشعار نہ جذبات سے کلام۔ یہ خطابت کے ناگزیر اجزائے ترکیبی ہیں۔ سید منور حسن کا اسلوبِ خطابت جماعت کی روایت سے ہٹا ہوا تھا۔ ان کا اصل مخاطب سامع کے جذبات ہوتے تھے۔ وہ اسے اپنے ساتھ بہا لے جاتے۔ جماعت اسلامی کی تاریخ میں تین ہی خطیب گزرے ہیں: مولانا گلزار احمد مظاہری، علامہ عنایت اللہ گجراتی اور سید منور حسن۔
منور صاحب کی بعض خوبیاں تو ایسی تھیں کہ ان کی مثال کم یاب ہی نہیں، نایاب ہے۔ وہ اِس دنیا میں مسافر کی طرح رہے۔ اسے کبھی گھر نہیں سمجھا۔ اللہ کے آخری رسولﷺ نے مومن کی نشانی بتائی ہے کہ یہ دنیا اس کے لیے ایک سرائے ہے۔ سیدنا مسیحؑ نے اسی بات کو ایک دوسرے اسلوب میں بیان کیا۔ فرمایا: آدمی کا دل وہاں لگا رہتا ہے جہاں اس کا مال ہو۔ تم اپنا مال آسمانوں میں رکھو کہ تمہارا دل اسی طرف لگا رہے۔ منورصاحب اس کا مصداق بن گئے۔ ان کا دل اور مال دونوں آسمانوں میں تھے۔
میں ایک بار کسی مجلس میں ان کے بہت قریب بیٹھا۔ میری نظر ان کے لباس پر پڑی۔ وہ ہمیشہ سفید شلوار قمیص پہنتے تھے۔ جوانی میں اگرچہ معاملہ یہ نہیں تھا۔ میں نے دیکھا کہ کپڑا دھل دھل کر گھس چکا ہے۔ معلوم ہوتا تھا کہ اگر چند دن مزید پہننے پر اصرار کیا گیا تو یہ زبانِ حال سے بدن ڈھانپنے کی ذمہ داری ادا کرنے سے انکار کردے گا۔ میں نے دیکھا کہ سید صاحب کے پائنچے پہ ہاتھ سے سلائی کی گئی تھی، جیسے ہماری مائیں، بیٹیاں پھٹے پرانے کپڑے کو سی کر دوبارہ پہننے کے قابل بنادیتی ہیں۔
ان کی ایک اور نایاب صفت مناصب سے ان کی بے نیازی تھی۔ یہ واقعہ ہے کہ مناصب ان کے پیچھے دوڑتے رہے اور وہ ان سے دامن بچاتے رہے۔ جماعت کی امارت تعاقب کرتے کرتے ان تک جا پہنچی، ورنہ وہ اس کی طرف رخ کرنے والے نہ تھے۔ یہ اسی بے نیازی کی نشانی ہے کہ وہ اس ذمہ داری سے سبک دوش ہوئے تو اس طرح کہ جیسے کبھی امیر تھے ہی نہیں۔ منصورہ سے نکلے تو کراچی جاکر اپنی تنہائی کو آباد کرلیا۔ اب مسجد ہی تھی جو انہیں جلوت میں لے آتی، یا پھر جماعت انہیں کوئی کام سونپ دے۔
وہ دوسری بار جماعت اسلامی کے امیر کیوں نہیں بن سکے؟ یہ داستان کبھی نہ سنائی جا سکے گی۔ ماچھی گوٹھ کے بعد یہ جماعت اسلامی کی تاریخ کا دوسرا اہم باب ہے، جسے شاید تفصیلات کے ساتھ کبھی بیان نہ کیا جا سکے۔ میں تو بس اتنا سمجھ سکا ہوں کہ مولانا امین احسن اصلاحی کی طرح سید منور حسن بھی اس دنیا کے آدمی نہیں تھے۔ جماعت اسلامی بھی اسی دنیا کی ایک جماعت ہے۔
سید منورحسن نے اِس دنیا کو دیکھا تو اپنے رومان کی نظر سے۔ دنیا کا معاملہ یہ ہے کہ اس کی بنیادیں حقائق پر رکھی گئی ہیں۔ ایسے حقائق جن کی تلخی زندگی میں گھلی رہتی ہے۔ وہ ایسے لوگوں کو اگل دیتی ہے جو خود کو اس کے حقائق سے ہم آہنگ نہیں بناتے۔ رومان پرور مزاج مگر ان باتوں کو خاطر میں نہیں لاتا۔ منور صاحب نے بھی اس دنیا کو اس سے زیادہ اہمیت نہیں دی کہ اس کو سرائے جانا اور اس کے مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے یہاں سے رخصت ہوگئے۔
رومان کے لیے ایک محبوب چاہیے۔ ایسا محبوب جو آپ کی بے چینی اور وارفتگی کو اپنی بانہوں میں سمیٹ لے، اور جس کی نگاہِ التفات آپ کو سیر کردے۔ ایسا محبوب خدا ہی ہوسکتا ہے جو اپنے بندوں کی محبت کو اپنی رحمت کے حصار میں لے لیتا ہے۔ بندہ جب اس کی طرف چلتا ہے تو وہ اس کو اپنی ابدی شفقت کی بانہوں میں لینے کے لیے، اس کی طرف دوڑتا ہے۔ بندہ جب اس جستجو میں دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو مجھے یقین ہے کہ فرشتے وہ نغمہ گنگناتے ہوں گے، جو دراصل حشر کے میدان میں اہلِ ایمان کے لیے گونجے گا: اے نفسِ مطمئن، اپنے رب کی طرف لوٹ، اس حال میں کہ تُو اس سے راضی ہے اور وہ تجھ سے راضی، سو میرے بندوں میں شامل ہو اور میری جنت میں داخل ہو۔ (الفجر89:27)۔
جن لوگوں نے سید منور حسن کو نماز پڑھتے دیکھا ہے، وہ چشمِ تصور سے اس منظر کو دیکھ سکتے ہیں۔ خدا سے محبت، وہ رومان ہے جو اس کائنات کی سب سے بڑی حقیقت بھی ہے: انسان کی اپنے رب سے ملاقات۔ لاریب، ہم اللہ ہی کے ہیں اور ہمیں (ایک دن) اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔
(بہ شکریہ:روزنامہ دنیا)