ایسا کہاں سے لاؤں

محمد شاہد شیخ

سالِ رواں تو بڑا ہولناک ثابت ہورہا ہے۔ کیسے کیسے علمی، ادبی، سیاسی و دینی اور نامور لوگ اچانک دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں کہ بس، کوئی دن بھی خالی نہیں جارہا کہ جب کوئی دل خراش خبر سننے کو نہ ملے۔ 2020ء نہ جانے اور کتنا ستم ڈھائے گا! کتنے ہی پیارے لوگ اچانک جدا ہوگئے، بیان کرتے ہو ئے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ انسان کیا ہے، پانی کا بلبلہ… ہر نفس کو موت کا مزا چکھنا ہے۔ تاہم انسان چلا جاتا ہے لیکن اس کی باتیں و یادیں رہ جاتی ہیں۔ ایسے لوگوں کی یاد زیادہ ستاتی ہے جنہوں نے کسی صلہ وستائش، نمود ونمائش اور دنیاوی لالچ سے بالاتر ہوکر محض اللہ کی رضا کے لیے خلقِ خدا کی خدمت کی اور فریضۂ اقامتِ دین ادا کیا ہو۔
محترم سید منور حسن جماعت اسلامی کے اکابرین میں پہلے فرد نہیں ہیں، سید مودودیؒ سے لے کر قاضی حسین احمد ؒ تک سب ہی دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں۔ ہر ایک کے جانے پر دل خون کے آنسو رویا ہے، لیکن منور بھائی کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ نصف صدی سے اسلامی تحریک بالخصوص اسلامی جمعیت طلبہ کی فکری رہنمائی عمل کے میدان میں کررہے تھے۔ وہ نظریاتی کارکنوں کے لیے ایک نمونہ ہیں، اسی لیے دنیا بھر میں جمعیت کے موجودہ اور سابق لاکھوں کارکنان ان سے دلی محبت کرتے ہیں، لہٰذا ان کے جانے کا غم زیادہ ہونا ایک فطری عمل ہے۔
سید منور حسن صاحب سے ظہرانے پہ میری ایک ملاقات طے تھی، خیال یہ تھاکہ اس مرتبہ کراچی جانا ہوا تو منور صاحب کے گھر جاؤں گا۔ میری اہلیہ بھابھی عائشہ کا شکریہ بھی ادا کریں گی کہ انہوں نے ہمیشہ ہر مشکل وقت میں اپنی دعاؤں میں یاد رکھا، اور میں منور بھائی سے حالاتِ حاضرہ پر تبادلہ خیال کرلوں گا۔ بات یہ ہے کہ ابھی کچھ ہی عرصے پہلے میں اپنی بیٹی کے گھر فیڈرل بی ایریا کراچی گیا، خیال آیا کہ پیپلزپارٹی حیدرآباد کے ایک دوست نے ترجمہ قرآن کا تقاضا کیا تھا، سوچا کیوں ناں یہ نسخہ ادارہ معارف اسلامی جو قریب ہی تھا، وہاں سے لے لیا جائے۔ پہنچا تو نمازِ ظہر کا وقت تھا، میں بھی نماز میں شامل ہوگیا، دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ منور حسن صاحب بھی موجود ہیں۔ معلوم ہوا کہ رعشہ آجانے کے بعد بس کچھ دن گھر رہے، پھر اسی طرح اکیڈمی آرہے ہیں۔ نماز سے فارغ ہوکر منور بھائی نے میری طرف پیار بھری مشفقانہ نظروں سے دیکھا اور کمرے کی طرف اشارہ کیا۔ مختصر سی گفتگو ابھی ہوئی تھی کہ کھانا آگیا۔ ان کا اصرار تھا کہ میں کھانا کھا کر جاؤں، لیکن میں نے بتایا کہ جب بیٹی نے گھر سے نکلتے دیکھا تو روک لیا اور اس شرط پر نکلنے دیا کہ کھانا ہر صورت گھر پر ہی آکر بچوں کے ساتھ کھاؤں گا۔ منور بھائی نے یہ سنا تو ہنسنے لگے اور کہا: تو پھر کب تک ہو؟ میں نے بتایا صبح ہی چلا جاؤں گا۔ بہرحال طے پایا کہ آئندہ ملاقات کھانے پر ہوگی۔ لیکن وقت نے مہلت نہیں دی اور منور بھائی نے رختِ سفر باندھ لیا۔ جب وہ کراچی کے نجی اسپتال میں وینٹی لیٹر پر موت وزیست کی کشمکش میں تھے اور میں سول اسپتال حیدرآباد کے آئی سی یو میں کورونا کا شکار ہوکر تنہائی کا قیدی بن گیا، تو ایک لمحے کو اس ملاقات کا خیال آیا، پھر سوچا کہ شاید یہ ملاقات اب اس دنیا میں نہ ہو، کیونکہ اللہ کے اپنے فیصلے ہوتے ہیں، یہ آخری ملاقات نہ ہوسکی اور میں پھر امتحان گاہ میں بھیج دیا گیا ہوں، تاہم مجھے یقین ہے کہ منور بھائی اپنے اللہ کے حضور سرخرو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کے حق دار اور صالحین کی جماعت میں ہوں گے۔
سید منور حسن عزم وہمت، ہجرت و قربانی، جرأت و بے باکی، صبر و استقامت، امانت ودیانت، سادگی وقناعت کی مثالی زندگی گزار کر اِس دارِ فانی سے کوچ کرگئے ہیں۔ آٹھ عشروں پر محیط ان کا یہ دور جہدِ مسلسل کی داستان ہے۔ وہ لاکھوں نوجوانوں کے مربی و مزکی اور فکری قائد، اور امام سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی برپا کردہ تحریکِ اسلامی کے پاکستان میں تیسرے امین تھے۔ 68 برس کی عمر میں ان پر جماعت اسلامی کی امارت کا بارِِ گراں اس وقت آیا جب وہ بڑھاپے کی طرف قدم بڑھاتے ہو ئے بیماریوں سے نبرد آزما تھے، لیکن وہ مزاحمتی و نظریاتی جنگ کے سپاہی تھے اس لیے اپنی ذات کو کبھی خاطر میں نہیں لائے، اور اپنی قائدانہ صلاحیتوں سے ثابت کیا کہ وہ اصولوں و نظریات پر کوئی سمجھوتا کرنے اور کسی ظالم و جابر اور طاقت ور کے سامنے جھکنے، بکنے، دبنے اور مصلحت پسندی کا راستہ اختیار کرنے پر تیار نہیں۔ دنیا نے دیکھا کہ جب کراچی آگ و خون میں نہلایا جارہا تھا تو منور حسن ببانگِ دہل باطل کو للکار رہے تھے، ایک ایسے وقت میں جب دوسری جماعتیں اور ان کے کارکن منظر سے غائب ہوگئے لیکن منور حسن اور ان کے ساتھی آئے دن اپنے جوانوں و تحریکی کارکنوں کے جنازے کاندھوں پہ اٹھاتے رہے اور میدان چھوڑ کر نہیں بھاگے۔ بہت دباؤ تھا کہ جوابی کارروائی کی جائے، اور ایسی قوتیں بھی تھیں جو جوابی کارروائی میں ہر طرح کی مدد کرنے کو تیار تھیں، لیکن یہ قیادت کی دور اندیشی تھی کہ اس نے دشمن کے کھیل کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔ یہ اسی حکمتِ عملی کا نتیجہ ہے کہ جماعت اسلامی پوری آب و تاب کے ساتھ کھڑی ہے، اور جو زمینی خدا بن رہے تھے اب انہیں منزل و رہنما کی تلاش ہے۔
دنیا نے یہ بھی دیکھا کہ جب اہلِ وطن پر آگ و بارود کی بارش کی گئی، پرائی جنگ کو اپنے گھر میں لایا گیا، ہزاروں بے گناہوں کو خون میں نہلایا گیا، لاکھوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کیا گیا، مسجد کے نمازیوں و مدرسے کے بچوں کو بھی نہ بخشا گیا اور ہمارے گھر میں گھس کر رسوائی کا سامان کیا گیا، حد تو یہ ہے کہ قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو ڈالروں کی عوض فروخت کردیا گیا، تو یہی منور حسن ٹیپو کی تلوار، قاسم کی للکار، طارق کا بازو ثابت ہوئے اور میدانِ عمل میں مظلوموں کی آواز بن گئے۔ ان کی حق گوئی و بے باکی سے نہ جانے کہاں کہاں لرزہ طاری ہوا۔ خود امریکی جاسوس و دہشت گرد ریمنڈ ڈیوس بھی اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب میں یہ لکھنے پر مجبور ہوا کہ میرے کیس میں پاکستان میں ایک جماعت اور ایک شخص تھا جس کی آواز کسی لالچ و دھونس سے دبائی نہ جاسکی، وہ تھا سید منور حسن، اور ان کی جماعت اسلامی جو اسے پھانسی دلوانا چاہتی تھی۔ گویا جماعت اسلامی اور اس کے قائدین کا یہ اعزاز ہے کہ بدترین دشمن نے بھی ان کی اسلام پسندی، حب الوطنی، دیانت داری اور جرأت کی گواہی دی، حالانکہ اُس وقت بھی بعض اپنے و پرائے کہہ رہے تھے کہ ملکی حالات کے مطابق مصلحت پسندی کا راستہ اپنانا چاہیے۔ لیکن بعد میں اور آج کے حالات نے ثابت کیا کہ جماعت اسلامی کا مؤقف درست اور بروقت تھا۔
سید منور حسن ملکی و بین الاقوامی حالات کا پوری طرح ادراک رکھتے تھے اور دنیا بھر میں جاری اسلامی تحریکوں کے کام، طریقہ کار اور ان کے ملکوں کے طرزِ حکمرانی سے آگاہ تھے۔ وہ سید مودودیؒ کی اختیار کردہ پالیسی کا سابق امراء کی طرح اعادہ کرتے تھے کہ جماعت اسلامی پاکستان میں کسی خفیہ سرگرمی، زیر زمین کام اور نہ مسلح جدوجہد کرے گی۔ سیاسی و پُرامن جدوجہد پر یقین رکھتے ہوئے ووٹ کی پرچی اور عوام کی رائے سے تبدیلی لائے گی جس طرح ترکی کی برادر اسلامی تحریک نے سابق وزیراعظم مرحوم نجم الدین اربکان سے لے کر طیب ایردوان تک خدمت و دیانت کے ساتھ جمہوری راستے پر چلتے ہوئے حالات تبدیل کیے اور اپنے ملک کو ترقی کے راستے پر ڈال دیا۔ سید منور حسن بھی یہی چاہتے تھے کہ

تیز قدموں سے چلو اور تصادم سے بچو
بھیڑ میں سست چلو گے تو کچل جاؤ گے

محترم سید منور حسن سے راقم کی اَن گنت ملاقاتیں رہیں۔ انہیں سننے، سمجھنے اور پرکھنے کا بخوبی موقع ملا۔ حیدرآباد جمعیت کے ناظم کی حیثیت سے میں نے جب بھی انہیں مدعو کیا شاید ہی انہوں نے انکار کیا ہو۔ جمعیت کے کام اور نوجوانوں کو بیدار کرنے سے متعلق انہوں نے مشورے بھی دیئے اور پاسبان کے قیام سے لے کر شباب ملی کے نزول تک مشورے بھی لیے، اور جب میں نے عملی طور پر صحافت میں قدم رکھا تو ان کی خوشی دیدنی تھی۔ ان سے میں نے انٹرویوز بھی کیے اور حالاتِ حاضرہ پر بات چیت بھی۔ جب میں حیدرآباد پریس کلب کا جنرل سیکریٹری تھا تو ہم نے 3مئی2006ء کو بڑے پیمانے پر ’یومِ آزادیِ صحافت‘ منانے کا پروگرام ترتیب دیا اور طے پایا کہ سیاسی و قوم پرست جماعتوں، وکلا اور دیگر شعبہ جات کے اہم نمائندوں کو بھی مدعو کیا جائے۔ سید منور حسن، سابق صدر مملکت ممنون حسین، ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار وغیرہ سے رابطے کی ذمہ داری مجھے ملی۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے مجھ سے کئی بار پوچھا کہ سید منور حسن بھی آئیں گے؟ میں نے کہاکہ جی ہاں، تو انہوں نے کہا کہ میں بھی ضرور آؤں گا۔ لیکن وہ پھر بوجوہ نہیں آسکے اور ان کی نمائندگی کسی اور نے کی، تاہم ممنون حسین صاحب آئے، جب کہ منور صاحب کا کہیں اور پروگرام تھا لیکن میرے اصرار کے بعد انہوں نے وہ پروگرام چھوڑ ا اور حیدرآباد تشریف لائے، آزادیِ صحافت کے مظاہرے کے قائدین میں شامل ہوئے اور حیدرآباد پریس کلب کے زیراہتمام آل پارٹیز کانفرنس میں کلیدی خطاب بھی کیا۔ انہیں پہلی مرتبہ سیاسی و مذہبی جماعتوں کے علاوہ سندھی قوم پرست قیادت کو قریب سے سننے اور تبادلہ خیال کا موقع ملا۔ ان میں مرحوم رسول بخش پلیجو، مرحوم بشیر خان قریشی، ڈاکٹر قادر مگسی اور دیگر اہم رہنما شامل تھے۔ یہ کسی طے شدہ منصوبے کے تحت نہیں ہوا بلکہ اتفاقیہ ہوگیا، اور بہت ہی خوشگوار ہوا۔ سابق صدر سید ممنون حسین بھی بہت خوش تھے۔
سید منور حسن ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے، مزاحمتی جدوجہد میں وہ اپنا ایک مقام رکھتے تھے۔ اس جرم کی پاداش میں جوانی سے لے کر بڑھاپے تک متعدد بار قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں اور ثابت قدم رہے۔ ان پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے۔ وہ پائے کے مقرر، مدبر اور رہنما ہی نہیں بلکہ دوستوں کے دوست اور سماجی رابطوں کے بھی ماہر تھے۔ وہ اپنی بزلہ سنجی سے محفل کو زعفران زار بھی بنادیتے۔ برجستہ جملوں میں تو ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔

وہ نظر اور اسلوبِ نظر کیا کہنا
منفرد طرزِ تکلم کا ہنر کیا کہنا