بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
عارف الحق عارف
اس وقت سیکرامنٹو (امریکہ) میں رات کے تین بجے ہیں۔ ہم ایک بجے سوئے تھے کہ اچانک آنکھ کھلی۔ فون پر نظر پڑی تو اس کی اسکرین پر سید منور حسن کے انتقال کی الم ناک خبر نے جیسے دنیا ہی اندھیر کردی۔ سکتے کی سی کیفیت طاری ہوگئی۔ اب تک یقین نہیں آرہا ہے کہ یہ سانحہ وقوع پذیر ہوچکا ہے۔ لیکن یہ لازوال اور ابدی سچائی ہے کہ ہر ایک کو ایک نہ ایک دن موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ سید منور حسن نے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ اور ایک ایک سانس اللہ تعالیٰ کی بندگی، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور اسلامی نظامِ حیات کے نفاذ کی جہدِ مسلسل کرتے ہوئے گزارا ہے۔ وہ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی جماعت کے وہ مثالی کارکن اور درویشوں کے قافلے میں شامل تھے جن کی دین سے عقیدت اور محبت، اس کے ایک ایک تقاضے پر عمل، مال و دولت اور عہدہ و منصب سے بے رغبتی اور درویشانہ طرزِ زندگی دیکھ کر قرونِ اولیٰ کے پاک باز مسلمانوں کی یاد تازہ ہوتی تھی۔ سید منور حسن اب اپنے خالقِ حقیقی کی بارگاہ میں پیش ہوگئے ہیں، وہ اللہ تعالیٰ کی امانت تھے، اسی نے یہ امانت واپس لے لی ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ بے شک ہم اللہ کے لیے ہیں اور بے شک ہم اس کی طرف واپس جانے والے ہیں۔ ان کے انتقال سے پاکستان ایک بے لوث اور بے باک قومی لیڈر سے محروم ہوگیا جس کا خلا عرصے تک محسوس کیا جائے گا۔ سیدی، آپ ہمیں تنہا چھوڑ کر یوں رخصت ہوجائیں گے یہ تو ہم نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ ہمارا انتظار کیجیے، ہم کسی بھی وقت آپ سے ملنے آسکتے ہیں اور ضرور اور جلد آئیں گے۔ سید منور حسن کے سانحہ ارتحال کی اس دل دہلا دینے والی خبر سے 1964ء سے اب تک اُن سے تعلق کا ایک ایک لمحہ ہمارے تصورِ خیال میں ایک فلم کی ریل کی طرح چلنے لگا۔ لکھنے کی کوشش کی تو کچھ بھی سُجھائی نہ دیا کہ کیا لکھیں، کہاں سے شروع کریں؟ ان کی برحق موت کے صدمے کا اظہار کن الفاظ میں کریں سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے لکھنے کی صلاحیت سلب ہوگئی ہو، آنکھوں سے آنسو جاری ہیں، ان کے سامنے اندھیرا چھایا ہوا ہے اور اسی حالت میں لکھنے کی ناکام سی کوشش کررہے ہیں۔
ہمارے سامنے 56 سال پہلے کے کراچی کا منظر آتا ہے، ہمیں کراچی آئے چوتھا سال گزر رہا ہے۔ ہمارا قیام کیماڑی میں ہے، ہم اردو کالج میں انٹر سال دوم کے طالب علم ہیں اور کراچی پورٹ ٹرسٹ میں ملازمت کرتے ہیں۔ ہم جماعت اسلامی کیماڑی کے کارکن بھی ہیں کہ ایک صبح جامع مسجد کیماڑی کی لائبریری میں اخبارات میں جماعت اسلامی پاکستان کے سیکریٹری جنرل میاں طفیل محمد کا ایک بیان پڑھتے ہیں جو اُس وقت کے وزیر داخلہ جنرل حبیب اللہ خان کے ایک الزام کے جواب میں تھا کہ کوئی طالب علم اور سرکاری ملازم جماعت کا رکن یا کارکن نہیں ہے۔ اُن کا یہ بیان ہمیں تشویش میں مبتلا کرتا ہے، کیوں کہ ہم کیماڑی کے چند طلبہ جماعت کے کارکن تھے اور ہمارے ناظم حلقہ سرکاری محکمہ ریلوے کے اعلیٰ افسر اور رکن بھی تھے۔ ہم اُن کے پاس دوڑے دوڑے جاتے ہیں اور یہ معاملہ اُن کے سامنے رکھتے ہیں، وہ اس کی سنگینی کو محسوس کرتے ہیں اور اسی دن شام کو امیر جماعت اسلامی کراچی چودھری غلام محمد کے پاس چلنے کا کہتے ہیں۔ ہم دونوں شام کو صادق منزل آرام باغ میں جماعت کے دفتر میں چودھری صاحب سے ملتے ہیں۔ وہ ناظم حلقہ آرام باغ محمود واسطی صاحب سے استعفیٰ لیتے ہیں اور ہمیں پیار بھری ڈانٹ پلاتے ہوئے کہتے ہیں: تمہارا جماعت میں کیا کام؟ تم طالب علم ہو، جمعیت میں کام کرو، ابھی جاؤ اور منور حسن سے ملو جو اس کے ناظم ہیں۔ اور وہ ہمیں 23 اسٹریچن روڈ پر جمعیت کے دفتر کا پتا سمجھاتے ہیں کہ این ای ڈی کالج کے سامنے ہے۔ ہم وہاں سے روانہ ہوجاتے ہیں۔ فاصلہ زیادہ نہیں تھا، ہم پیدل ہی پتا پوچھتے پاچھتے دس منٹ کے اندر جمعیت کے دفتر پہنچتے ہیں۔ دفتر میں داخل ہوتے ہی ایک نوجوان سے منور صاحب کا پوچھتے ہیں کہ ان سے ملنا ہے۔ وہ اشارے سے اندر دفتر کے ایک کمرے میں ایک کرسی پر بیٹھے ایک دبلے پتلے خوب صورت نوجوان کی طرف ہمیں بھیجتے ہوئے کہتے ہیں: یہ ہمارے ناظم سید منور حسن ہیں۔ وہ ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ ہمیں خوش آمدید کہتے ہیں اور سامنے والی کرسی پر بیٹھنے کا کہتے ہیں۔ ہم ان سے علیک سلیک کے بعد بتاتے ہیں کہ ہم اردو کالج کے طالب علم ہیں اور ہمیں چودھری غلام محمد نے جمعیت میں کام کے لیے بھیجا ہے۔ یہ ہماری سید منور حسن سے پہلی ملاقات تھی، جس کے بعد جمعیت کا یہ دفتر ہمارا دوسرا گھر اور منور بھائی سے ہمارے تعلقات حقیقی بھائیوں سے بھی بڑھ کر عقیدت و محبت کے ایسے رشتوں میں بدل گئے جو ہمیشہ قائم رہے۔ ہمارا سید سے یہ تعلق مسلسل 56 برسوں سے قائم رہا اور اس میں کبھی کوئی فرق نہیں آیا۔
سید منور حسن کے سفرِ آخرت اور جنازے کا منظر ویڈیو میں دیکھا، جسمانی طور پر شریک نہ ہونے کا افسوس ہوا لیکن روحانی طور پر خود کو اس میں شامل محسوس کیا۔ جس کو ویڈیو کے ذریعے ممکن بنانے والے سید کے شیدائیوں کے لیے دل سے دعا نکلی۔ سرد خانے سے شادمان ٹاؤن، ان کے 100 گز کے گھر تک، اور وہاں سے ناظم آباد عیدگاہ تک کے سفر اور ان کے جنازے کے دلدوز مناظر دیکھے تو ان کے اس آخری سفر اور بڑے جنازے پر بڑا رشک آیا۔ ان کے ہزاروں شیدائیوں اور ان کے نورانی چہرے کی ایک جھلک دیکھنے کے مشتاق پروانوں کے بڑے ہجوم کو دیکھ کر فیض احمد فیضؔ کا یہ شعر یاد آگیا:۔
وہ تو وہ ہے، تمہیں ہو جائے گی، الفت مجھ سے
تم، اک نظر، مرا محبوب نظر تو دیکھو
ہم سمجھ رہے تھے کہ سید سے صرف ہم ہی محبت کرتے ہیں، لیکن اب معلوم ہوا کہ سید نے اپنے حسنِ عمل، اعلیٰ اخلاق، مثالی کردار، غلبہ دین کے لیے بے لوث جدوجہد اور جابر سلطان کے سامنے بلاخوف و خطر حق گوئی و بے باکی کے عمل سے پاکستان اور دنیا بھر میں لاکھوں افراد کو اپنی محبت کا اسیر بنا رکھا ہے۔ ہم نے ان سے اپنے تعلق کے 56 برسوں کے دوران سفر و حضر کا ایک طویل عرصہ ساتھ گزارا ہے۔ ہم ان کے ایک ایک عمل کے گواہ ہیں اور شرحِ صدر کے ساتھ گواہی دیتے ہیں کہ
اے اللہ ہم نے تیرے اس بندے کو زندگی بھر اسلام کے نظام عدل کے نفاذ کی جدوجہد کرتے ہوئے دیکھا۔ اس نے غلبہ اسلام کو زندگی کا مشن بنایا اور اس کی تکمیل کےلیے بڑی بہادری اور بے خوفی کے ساتھ غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہا، اور صرف تیری رضا حاصل کرنے کے لیے دنیاوی مناصب، فوائد، کوٹھی، بنگلے اور شاندار مستقبل پر درویشانہ طرزِ بود و باش کو ترجیح دی، اور آئینے کی طرح صاف شفاف زندگی بسر کی۔ اس نے دوستی اور محبت کی تو تیری رضا کے لیے، اور مخالفت اور دشمنی کی تو وہ بھی تیری رضا کے لیے کی۔ اس کا اوڑھنا اور بچھونا صرف تیری بندگی، تیری مخلوق کی خدمت اور اسلامی نظام کے نفاذ کی جہدِ مسلسل تھی۔
اے پروردگار! ہم تیرے اس بندے سے راضی ہیں، تُو بھی اس سے راضی ہوجا، اور اس کو جنت الفردوس کے اعلیٰ ترین درجات پر فائز کر۔ آمین۔
ان کے پیاروں نے ان کو اشک بار آنکھوں سے آخری آرام گاہ میں اتارا تو کچھ یوں محسوس ہوا: ۔
ستارے روز ٹوٹ کر گرتے ہیں
غضب ہوا آج تو آفتاب ٹوٹا ہے
اور یہ آفتاب، زندگی کی 79 بہاریں گزار کر آج غروب ہوگیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ اس موقع پر ہمیں الطاف گوہر کا ٹیکسی ڈرائیور کے ساتھ وہ مکالمہ یاد آگیا جو انہوں نے اس کے ساتھ لندن کے ہیتھرو ائرپورٹ پر مرشدی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا جنازہ پڑھنے کے بعد واپس جاتے ہوئے کیا تھا۔ ڈرائیور نے ان سے پوچھا تھا: ”کیا مرنے والا آپ کا عزیز تھا؟“ تو الطاف گوہر نے یہ تاریخی جملہ کہا تھا: ”نہیں، وہ عزیز ِ جہاں تھا“۔
علامہ اقبال نے اپنی والدہ مرحومہ کی یاد میں ان کو ایک طویل نظم کے ذریعے خراجِ عقیدت پیش کیا ہے، ہم بھی اس کا آخری دعائیہ شعر سید کی نظر کرتے ہیں: ۔