قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم
عطیہؓ بن عروہ سعدی سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا:
’’غصہ کرنا شیطان سے ہے۔ اور شیطان آگ سے پیدا کیا گیا ہے۔ اور آگ پانی سے بجھائی جاتی ہے۔ جس وقت تم میں سے کسی کو غصہ آئے اُسے چاہیے کہ وضو کرے۔‘‘ (ابودائود)۔
سید طاہر رسول قادری
۔”رحمٰن کے (اصلی) بندے وہ ہیں جو زمین پر نرم چال چلتے ہیں اور جاہل ان کے منہ آئیں تو کہہ دیتے ہیں کہ تم کو سلام۔ جو اپنے رب کے حضور سجدے اور قیام میں راتیں گزارتے ہیں۔ جو دعائیں کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب جہنم کے عذاب سے ہم کو بچالے۔ اس کا عذاب تو جان کا لاگو ہے۔ وہ تو بڑا ہی برا مستقر اور مقام ہے۔ جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ بخل، بلکہ ان کا خرچ دونوں انتہائوں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتا ہے۔ جو اللہ کے سوا کسی اور کو معبود نہیں پکارتے، اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق ہلاک نہیں کرتے، اور نہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں۔ یہ کام جو کوئی کرے وہ اپنے گناہوں کا بدلہ پائے گا۔ قیامت کے روز اس کو مکر عذاب دیا جائے گا اور اس میں وہ ہمیشہ ذلت کے ساتھ پڑا رہے گا۔ اِلّا یہ کہ کوئی (ان گناہوں کے بعد) توبہ کرچکا ہو، اور ایمان لاکر عملِ صالح کرنے لگا ہو۔ ایسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ بھلائیوں سے بدل دے گا۔ اور وہ بڑا غفور ورحیم ہے۔“ (الفرقان:63تا 70)۔
ان آیات میں ’’عباد الرحمٰن‘‘ کی صفات بیان کی گئی ہیں۔ ان کی شب و روز کی مصروفیتوں کا ذکر کیا گیا، اور ان کا تعارف ایسے مسلمانوں کی حیثیت سے کرایا گیا ہے جو اصلی بندئہ رحمٰن ہیں۔ ویسے تو ہر انسان بندئہ رحمٰن ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ کسی نے جان بوجھ کر یا انجانے میں اور لاشعوری طور پر اپنے آپ کو شیطان کی بندگی میں دے دیا ہے۔ اور کسی نے پیدائشی بندگی کے ساتھ اختیاری بندگی کو رضاکارانہ اختیار کرلیا ہے۔
ان آیات میں انہی بندگانِ خدا کا تعارف پیش کیا گیا ہے اور کیا خوب پہچان بتائی گئی ہے:۔
٭وہ عام پیدائشی بندوں سے ممتاز مقام و حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ رحمٰن کے محبوب و پسندیدہ بندے ہیں۔
٭ان کی چال و ڈھال اور اٹھنے بیٹھنے کا انداز اور نقل و حرکت فطری اور ہر قسم کے تصنع اور ریا سے خالی ہوتی ہے۔
٭ان کے میل ملاپ کا طریقہ اور طرزِ تخاطب انتہائی شریفانہ ہوتا ہے۔
٭وہ نہ حرام طور پر کمانے والے اور نہ ناجائز طور پر خرچ کرنے والے ہوتے ہیں۔ جہاں پر خرچ کرنا چاہیے ضرورت کے مطابق خرچ کرتے ہیں۔ یعنی نہ بخیل ہوتے ہیں نہ فضول خرچ۔
٭شر کی ہر روش سے پاک، ناحق قتل و خونریزی سے سخت مجتنب اور زنا جیسی بدترین اخلاقی برائی سے دور، بہت دور رہتے ہیں۔
شیطانوں کی اس بھری بستی میں ان اعلیٰ صفات کے حامل صرف وہی لوگ ہوسکتے ہیں جنہوں نے اپنے مزاج کی خودسری کو، اپنی انا کے بت کو اور مقاصدِ حیات کو حق پسندی اور حق پرستی کا تابع بنادیا ہو، اور اپنی گمشدہ پہچان رحمٰن کی بندگی میں پہچان لی ہو۔ پھر جس کو اپنی یہ پہچان حاصل ہوجائے وہ ان صفات سے کیوں نہیں پہچانا جائے گا۔ یقیناً اس کی تو شام و سحر بدل جائے گی۔ اس کی پسند و ناپسند بدل جائے گی۔ وہ کہیں آتا اور جاتا نظر آئے گا تو دیکھنے والے اسے پہلی نظر میں پہچان لیں گے کہ ایک نیک بندہ، ایک شریف آدمی اور ایک نیک نفس اور پاک باطن آرہا ہے۔
٭آخر انسانوں کی چال میں کوئی خاص پہچان تو ہے جب ہی تو اللہ تعالیٰ نے رحمٰن کے بندوں کی صفات بیان کرتے ہوئے سب سے پہلے چال ہی کو اچھی پہچان بتایا ہے۔ غور کیجیے تو بلاتامل یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ چال محض اندازِ رفتار کا نام نہیں ہے، بلکہ وہ انسان کے ذہن و سیرت و کردار کی اوّلین ترجمان بھی ہوتی ہے۔ ایک عیار آدمی کی چال، ایک غنڈے بدمعاش کی چال، ایک ظالم و جابر کی چال، ایک خود پسند متکبر کی چال، ایک باوقار مہذب کی چال، ایک غریب مسکین کی چال اور اسی طرح مختلف اقسام کے دوسرے انسانوں کی چالیں ایک دوسرے سے اس قدر مختلف ہوتی ہیں کہ ہر ایک کو دیکھ کر بآسانی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کس چال کے پیچھے کس طرح کی شخصیت جلوہ گر ہے۔
چال تو آج کل نفسیات کا اہم موضوع ہے اور اس پر خاصی تحقیقات ہورہی ہے، اور مغربی ممالک میں جرائم پیشہ لوگوں کا کھوج ان کی چالوں کے ذریعے لگالیا جاتا ہے۔ اور بعض اوقات جرم کی نیت سے جانے والے ملزموں کو محض اُن کی چالوں سے ان کی نیت و ارادے کا اندازہ لگا کر پکڑ لیا جاتا ہے۔ اور جرم صادر ہونے سے رہ جاتا ہے۔ یہ علم اکلٹ (Occult Science) سائنس ہے۔
جو لوگ اپنی زندگی کا کوئی اعلیٰ نصب العین رکھتے ہیں اور انہوں نے اپنے مقصدِ حیات کو جان لیا ہے، وہ کبھی بھی اِدھر اُدھر الجھتے نہیں پھریں گے۔ وہ خوامخواہ کی بحث و تکرار میں نہیں پڑیں گے۔ اور ہر معترض کے اعتراضات میں الجھ کر اپنا وقت ضائع نہیں کریں گے۔ بلکہ ہر وقت اپنے کام سے کام رکھیں گے۔ ناشدنی اگر کہیں وہ ایسے لوگوں میں پھنس جائیں گے جو کٹھ حجت ہوں اور جن کا مقصد افہام و تفہیم نہ ہو بلکہ کج بحثی ہو، تو ایسے لوگوں سے احسن طریقے سے جلد از جلد جان چھڑا لینے کی فکر کریں گے۔ اور سلامِ الوداع کرتے ہوئے رخصت ہوجائیں گے۔ بندئہ رحمٰن کی اس صفت کو سورۃ القصص آیت نمبر 55 میں بیان کیا گیا ہے ”اور جب وہ کوئی بیہودہ بات سنتے ہیں تو اسے نظرانداز کردیتے ہیں۔ کہتے ہیں بھائی ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لیے ہیں۔ سلام ہے تم کو، ہم جاہلوں کے منہ نہیں لگتے“۔
دنیوی زندگی کی یہ بہت بڑی ابتلا ہے کہ اجتناب کی ہزار کوشش کے باوجود آدمی کو لغو، بیہودہ، جھوٹی اور گندی باتیں سننا ہی پڑتی ہیں۔ اتنا پاکیزہ معاشرہ انسان کو دنیا میں شاید ہی میسر آسکتا ہو جہاں گالم گلوچ، بہتان، افترا، تہمت، الزام تراشیوں اور دوسری لغو باتوں سے کان ناآشنا اور دل پُرسکون ہو۔ یہ دراصل انعام الٰہی ہے کہ انسان ان سے محفوظ ہو۔ اور یہ انعام ایک مسلمان کو جنت ہی میں ملے گا۔ سورۃ الواقعہ میں ہے کہ اہلِ جنت کو جن بہت سارے انعامات سے نوازا جائے گا ان میں یہ انعام بھی ہوگا کہ وہ کوئی بیہودہ کلام یا گناہ کی بات نہ سنیں گے۔
سورۃ النسا آیت نمبر35 میں ہے ”وہاں کوئی اور جھوٹی بات وہ نہ سنیں گے“۔
٭ان کے علاوہ ایک اور صفت جن سے عبادالرحمٰن کو متعارف کرایا گیا ہے وہ یہ کہ تہجد گزار ہوتے ہیں۔ راتوں کو اٹھ اٹھ کر نماز پڑھتے ہیں اور اللہ کا ذکر کرتے ہیں۔ غفلت کی نیند اور بے پروائی میں رات نہیں گزارتے ہیں، اور کمال خوبی یہ ہے کہ شب بیداری، یادِ خدا اور تقویٰ کے باوجود عبادت گزاری کے فریب اور اپنے تقویٰ کے زور سے جنت جیت لینے کے پندار میں مبتلا نہیں ہوتے ہیں، بلکہ خدا سے ہمیشہ ڈرتے رہتے ہیں اور جہنم کی سزا، دوزخ کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگتے رہتے ہیں۔ یعنی رات عبادت اور شرمساری میں گزارتے ہیں اور دن عاجزی و انکسار میں بسر کرتے ہیں۔ رات کی عبادت، آہ و زاری، عفو و درگزر کی طلب کا اثر ان کے اخلاق پر یہ نہیں پڑتا کہ وہ چڑچڑے ہوجاتے ہوں اور اپنی عبادت کے سامنے دوسروں کو حقیر سمجھنے لگتے ہوں۔
٭ایک اور صفت جس سے عبادالرحمٰن متصف ہوتے ہیں وہ یہ کہ اخراجات کے سلسلے میں یہ میانہ رو اور اعتدال پسند ہوتے ہیں۔ نہ ایسے فضول خرچ ہوتے ہیں کہ اپنا سب کچھ لٹا بیٹھیں اور محروم زندگی گزارنے پر مجبور ہوجائیں، نہ ایسے بخیل اور کنجوس ہوتے ہیں کہ خرچ کرنا جانتے ہی نہ ہوں، نہ خود کھاتے ہوں اور نہ دوسرے کو کھلاتے ہوں۔ یعنی نہ تو ان کا حال یہ ہے کہ عیاشی، قمار بازی، شراب نوشی، یار باشی اور میلوں ٹھیلوں اور شادی بیاہ پر بے دریغ روپیہ خرچ کریں اور حیثیت سے بڑھ کر اپنی شان و شوکت دکھائیں۔۔۔ غذا، مکان، لباس اور تزئین و آرائش پر دولت لٹائیں۔ اور نہ ان کی کیفیت یہ ہے کہ ایک زر پرست آدمی کی طرح پیسہ جوڑ جوڑ کر رکھیں۔ نہ خود کھائیں نہ بال بچوں کی ضروریات اپنی استطاعت کے مطابق پوری کریں ،اور نہ کسی راہِ خیر میں خوش دلی کے ساتھ کچھ دیں۔
اس موقع پر یہ جان لینا چاہیے کہ اسراف کیا چیز ہے؟ اور بخل کیا چیز؟ اسلامی نقطہ نظر سے اسراف تین چیزوں کا نام ہے:۔
(1) ناجائز کاموں میں دولت صرف کرنا خواہ وہ ایک پیسہ ہی کیوں نہ ہو۔
2))جائز کاموں میں خرچ کرتے ہوئے حد سے تجاوز کرنا خواہ اس لحاظ سے کہ آدمی اپنی استطاعت سے زیادہ خرچ کرے یا اس لحاظ سے کہ آدمی کو جو دولت اس کی ضرورت سے بہت زیادہ مل گئی ہو اسے وہ اپنے ہی عیش و ٹھاٹ باٹ میں صرف کرتا چلا جائے۔ (3) نیکی کے کاموں میں خرچ کرنا مگر اللہ کے لیے نہیں بلکہ ریا اور نمائش کے لیے۔
بخل کا اطلاق دو چیزوں پر ہوتا ہے۔ ایک یہ کہ آدمی اپنی اور اپنے بال بچوں کی ضروریات پر اپنی مقدرت اور حیثیت کے مطابق خرچ نہ کرے۔ دوسرے یہ کہ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں اس کے ہاتھ سے پیسہ نہ نکلے۔ ان دونوں انتہائوں کے درمیان اعتدال کی راہ اسلام کی راہ ہے۔ حضور اکرمؐ کا ارشاد ہے: اپنی معیشت میں میانہ روی اختیار کرنا آدمی کے فقیہ (سمجھ دار) ہونے کی علامتوں میں سے ہے۔
٭ان تمام تر خوبیوں کے باوجود وہ انسانی کمزوریوں سے خالی نہیں ہوسکتے۔ چھوٹی چھوٹی غلطیاں ہوجانا، گناہ صغیرہ کر بیٹھنا اور کسی خطا کا ہوجانا، یہ ممکن ہے۔ البتہ بڑے بڑے گناہ جیسے شرک ہے، ناحق قتل ہے اور زنا کاری ہے اس سے وہ محفوظ اور مجتنب رہتے ہیں۔ یہ بات سمجھ میں بھی آتی ہے کہ جو شخص خدا پرستی کی اس حد تک پہنچ چکا ہو، تقویٰ کے اس معیار پر ہو، اور جس نے اپنی زندگی اعتدال پسندی اور میانہ روی پر قائم کرلی ہو، اللہ تعالیٰ اپنے فضلِ خاص سے اُس کو اس قسم کے بڑے گناہوں سے محفوظ اور مامون رکھے گا۔ تاہم خدانخواستہ ایسی حالت سے کوئی دوچار ہوجائے تو اس کو توبہ کی توفیق بھی مل سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ارحم الراحمین ہے۔
(52 دروس قرآن، انقلابی کتاب۔ حصہ دوئم)