امریکی کلیہ انتخاب یا ”الیکٹورل کالج“ کا تعارف ٹرمپ اور جوبائیڈن کے درمیان ”متوقع“ مقابلہ ہو گا
ہفتے کو امریکی ریاست اوکلاہوما کے دوسرے بڑے شہر ٹلسہ میں ایک جلسہ عام سے صدر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کردیا۔ امریکی صدر کا پہلا جلسہ بہت زیادہ کامیاب نہ رہا۔ صدرٹرمپ کے قریبی حلقے دعویٰ کررہے تھے کہ امریکہ بھر سے 10 لاکھ افراد نے جلسے میں شرکت کی خواہش ظاہر کی ہے۔ جگہ نہ ملنے کے خوف سے ان کے سیکڑوں حامی کئی دن پہلے سے جلسہ گاہ کے آگے خیمے لگاکر بیٹھ گئے۔ لیکن جب کارروائی شروع ہوئی تو جلسہ گاہ ایک تہائی سے زیادہ خالی تھی۔ فائر ڈپارٹمنٹ نے تخمینہ ظاہر کیا ہے کہ 19 ہزار کی سماعت گاہ میں صرف سات ہزار افراد بیٹھے تھے۔ غیر جانب دار تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ کورونا کے خوف سے لوگوں نے جلسہ گاہ آنے کے بجائے گھر بیٹھ کر صدر کا خطاب سننے کو ترجیح دی۔ تاہم روایتی سیاست دانوں کی طرح صدر ٹرمپ نے مجمع کو ٹھاٹھیں مارتا سمندر کہہ کر دو گھنٹے خطاب کیا۔
اب تک دونوں بڑی جماعتوں نے سرکاری طور پر اپنے امیدوار کا اعلان نہیں کیا، اور کورونا وائرس کی وجہ سے قومی اجتماعات کا اہتمام مشکل نظر آرہا ہے جس میں پارٹیاں اپنے امیدواروں کو ٹکٹ جاری کرتی ہیں۔ خیال ہے کہ یہ اجتماعات اس سال ویڈیولنک کے ذریعے ہوں گے۔ پرائمری انتخابات کے نتائج سے یہ بات واضح ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے صدر ٹرمپ کا مقابلہ سابق نائب صدر جو بائیڈن کریں گے۔ جناب بائیڈن نے اب تک نائب صدر کے لیے اپنے امیدوار کا اعلان نہیں کیا۔ وہ بہت ہی غیر مبہم انداز میں کہہ چکے ہیں کہ ایک خاتون ان کی نیابت کریں گی۔ اور سیاہ فاموں میں پھیلی حالیہ بے چینی کے پیش نظر خیال ہے کہ قرعہ فال کسی خاتون سیاہ فام رہنما کے نام نکلے گا۔
اِس سال 3 نومبر کو صدارتی انتخابات کے ساتھ ہی ایوانِ نمائندگان (قومی اسمبلی) کی جملہ 435 اور سینیٹ کی 35 نشستوں کے علاوہ 13 ریاستوں میں گورنروں کا چنائو ہوگا۔ اسی دن بلدیاتی اور مقامی قیادتوں کے لیے بھی میدان سجے گا۔
امریکہ میں صدارتی انتخابات کا نظام دوسرے ملکوں سے مختلف ہے جس کی وجہ یہاں کا منفرد وفاقی نظام ہے۔ امریکہ 50 آزاد و خودمختار ریاستوں پر مشتمل ایک وفاق کا نام ہے۔ وفاق کی ہر ریاست کا اپنا دستور، جھنڈا اور مسلح فوج ہے۔ کرنسی اور خارجہ امور کے سوا بین الاقوامی تجارت سمیت تمام معاملات میں ریاستیں پوری طرح بااختیار ہیں۔ امریکی صدر وفاق کی علامت اور اس کی مسلح افواج کا سپریم کمانڈر ہے۔ صدر کے انتخاب میں ہر ریاست انفرادی اکائی کی حیثیت سے ووٹ ڈالتی ہے، اور اس مقصد کے لیے ایک کلیہ انتخاب یا Electoral- College تشکیل دیا گیا ہے۔ اس موقع پر امریکہ کے کلیہ انتخاب کا ایک مختصر سا تعارف قارئین کی دلچسپی کا باعث ہوگا۔
کلیہ انتخاب میں ہر ریاست کو اس کی آبادی کے مطابق نمائندگی دی گئی ہے، اور یہ اس ریاست کے لیے ایوانِ نمائندگان (قومی اسمبلی) اور سینیٹ کے لیے مختص نشستوں کے برابر ہے۔ امریکہ میں ایوانِ نمائندگان کی نشستیں آبادی کے مطابق ہیں، جبکہ سینیٹ میں تمام ریاستوں کی نمائندگی یکساں ہے، اور ہر ریاست سے دو دو سینیٹر منتخب کیے جاتے ہیں۔ امریکہ کے ایوانِ نمائندگان کی نشستوں کی مجموعی تعداد 435 ہے، جبکہ 50 ریاستوں سے 100 سینیٹر منتخب ہوتے ہیں۔ وفاقی دارالحکومت یعنی ڈسٹرکٹ آف کولمبیا المعروف واشنگٹن ڈی سی کے لیے انتخابی کالج میں تین ووٹ ہیں۔ گویا کلیہ انتخاب 538 ارکان پر مشتمل ہے۔ الیکٹورل کالج کی ہیئت کو اس طرح سمجھیے کہ ٹیکساس (Texas) سے ایوانِ نمائندگان کے 36 ارکان منتخب ہوتے ہیں چنانچہ 2 سینیٹر کو ملاکر انتخابی کالج میں ٹیکساس کے 38 ووٹ ہیں۔ انتخابی کالج میں سب زیادہ ووٹ کیلی فورنیا کے ہیں یعنی 55، جبکہ جنوبی ڈکوٹا، شمالی ڈکوٹا، مونٹانا، وایومنگ، الاسکا، ڈلوئر، ورمونٹ اس اعتبار سے بہت چھوٹی ہیں جن کے صرف تین تین ووٹ ہیں۔ الیکٹورل کالج میں ’سارے ووٹ جیتنے والے کے لیے‘ کا اصول اختیار کیا جاتا ہے اور ریاست میں جس امیدوار کو بھی برتری حاصل ہوئی اس ریاست سے انتخابی کالج کے لیے مختص سارے ووٹ جیتنے والے امیدوار کے کھاتے میں لکھ دیے جاتے ہیں۔ یعنی اگر کیلی فورنیا سے کسی امیدوار نے ایک ووٹ کی برتری بھی حاصل کرلی تو تمام کے تمام 55 الیکٹورل ووٹ اسے مل جائیں گے۔ صرف ریاست مین (Maine) اور نیبراسکا میں ایک تہائی الیکٹورل ووٹ ایوانِ نمائندگان کی حلقہ بندیوں کے مطابق الاٹ کیے جاتے ہیں، ورنہ باقی سارے امریکہ میں ریاست کے مجموعی ووٹوں کی بنیاد پر فیصلہ ہوتا ہے۔ دلچسپ بات کہ اِس سال 3 نومبر کو ہونے والی ووٹنگ کی کوئی آئینی اور قانونی حیثیت نہیں، بلکہ صدر اور نائب صدر کے انتخاب کے لیے 14 دسمبر کو تمام ریاستی دارالحکومتوں میں پولنگ ہوگی جس میں الیکٹورل کالج کے ارکان خفیہ بیلٹ کے ذریعے صدر اور نائب صدر کے لیے ووٹ ڈالیں گے۔ ووٹنگ کے بعد نتائج مرتب کیے جائیں گے اور اسے ایک بکس میں بند کرکے وفاقی دارالحکومت بھیج دیا جائے گا۔6 جنوری 2021ء کو سینیٹ کے چیئرمین کی نگرانی میں تمام ریاستوں سے آنے والے بکسوں کو کھول کر صدارتی انتخاب کا سرکاری نتیجہ مرتب کیا جائے گا۔ یہاں یہ ذکر بہت ضروری ہے کہ قانونی طور سے الیکٹورل کالج کے ارکان کسی مخصوص امیدوار کو ووٹ دینے کے پابند نہیں، اور انتخاب بھی خفیہ بیلٹ پیپر کے ذریعے ہوتا ہے، لیکن اس کے باوجود گزشتہ دوسو سال کے دوران ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا کہ جب الیکٹورل کالج میں عوامی امنگوں کے برخلاف کوئی ووٹ ڈالا گیا ہو۔
2016ء کے انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار ہلیری کلنٹن کو مجموعی یا پاپولر ووٹوں کے اعتبار سے ڈونلڈ ٹرمپ پر 28 لاکھ ووٹوں سے زیادہ کی برتری حاصل تھی، لیکن جب تمام ریاستوں کے انتخابی ووٹ جمع کیے گئے تو صدر ٹرمپ کے الیکٹورل ووٹوں کی تعداد کلنٹن سے 77 زیادہ تھی۔اس سلسلے میں چند دلچسپ مثالیں پیش خدمت ہیں جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ امریکہ میں صدارتی انتخابات کی مہم سیاست سے زیادہ ریاضی کی مشق ہے۔
امریکی دارالحکومت میں ہلیری کلنٹن نے 90 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کرکے یہاں مختص 3 الیکٹورل ووٹ اپنے نام کرلیے، جبکہ مشی گن میں کانٹے دار مقابلہ ہوا جہاں صدر ٹرمپ کو صرف 10703یا 0.23 فیصد ووٹوں کی برتری کے عوض 16 انتخابی ووٹ مل گئے۔کچھ ایسا معاملہ فلوریڈا ور پنسلوانیا میں ہوا جہاں بالترتیب 1.2اور 0.7 فیصد برتری کے عوض 49 الیکٹورل ووٹ صدر ٹرمپ کے کھاتے میں لکھ دیے گئے۔ دوسری طرف 0.3 فیصد کی معمولی سی برتری حاصل کرکے ہلیری نے نیوہمپشائر انتخابی کالج کے 4 ووٹ حاصل کرلیے۔
انتخابی نظام پر اس مختصر سی گفتگو کے بعد اب متحارب امیدواروں کا مختصر سا تعارف:
ری پبلکن پارٹی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ ددھیال کی جانب سے جرمن نژاد ہیں جبکہ ان کی والدہ صاحبہ کا تعلق اسکاٹ لینڈ سے ہے۔ ہم نے ان کے خاندانی پس منظر کا ذکر اس لیے کیا کہ موصوف کو غیر ملکی تارکینِ وطن کا امریکہ آنا سخت ناپسند ہے، حالانکہ ان کے داداجان 16 برس کی عمر میں امریکہ آئے تھے اور ان کی اسکاٹش والدہ محترمہ ماریہ مکلیوڈ 17 برس کی عمر میں سیاح کی حیثیت سے امریکہ تشریف لائیں اور ان کے والد کے عشق میں مبتلا ہوکر یہیں کی ہورہیں۔ اس اعتبار سے ٹرمپ صاحب تارکینِ وطن کے پوتے اور بیٹے ہیں۔ شریکِ حیات کے انتخاب میں بھی صدر ٹرمپ نے غیر ملکی خواتین کو ترجیح دی۔ ان کی موجودہ اہلیہ میلانیا سلوانیا (سابق یوگو سلاویہ) سے امریکہ تشریف لائی تھیں، اور ان کی پہلی اہلیہ ایواناکا تعلق چیکوسلواکیہ سے تھا۔
حالیہ نامراد کورونا وائرس کی طرح دنیا 1918ء میں بھی ایک خوفناک متعدی مرض کا شکار ہوئی تھی۔ بدترین زکام کی اس وبا کو ’ہسپانوی فلو‘ کا نام دیا گیا جو 1920ء تک جاری رہی۔ تقریباً 50کروڑ افراد اس مرض سے متاثر ہوئے جن میں سے 5 کروڑ افراد دم توڑ گئے۔ صدر ٹرمپ کے دادا فریڈرک ٹرمپ بھی اس مرض میں مبتلا ہوکر صرف 49 برس کی عمر میں انتقال کرگئے، جس کے بعد ان کی جواں سال دادی نے اپنے 13 سالہ بیٹے فریڈرک جونیئر (صدر ٹرمپ کے والد) کے ساتھ مل کر ٹرمپ اینڈ سنز کی بنیاد رکھی، جو جلد ہی تعمیرات و جائداد کی خریدوفروخت کا بہت بڑا ادارہ بن گیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ بھی اپنے والد کے ساتھ اس کاروبار میں آگئے اور رئیل اسٹیٹ کے ساتھ تفریحی ٹیلی ویژن، ہوٹل، گالف کورس اور ملبوسات کا کام شروع کیا۔ تفریح کی دنیا سے وابستگی کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ شراب اور سگریٹ سے مکمل پرہیز کرتے ہیں جس کی وجہ اُن کے چھوٹے بھائی کی کثرتِ مئے نوشی سے ہلاکت ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے بیٹے بیٹیاں، داماد اور بہو بھی شراب سے اجتناب کرتے ہیں۔ جنگِ ویت نام کے دوران مسٹر ٹرمپ نے جھوٹ اور دھوکہ دہی سے لازمی فوجی خدمت سے استثنا حاصل کرلیا۔ مسٹر ٹرمپ کی کاروباری ساکھ بے حد مشکوک ہے۔ وہ چھے بار خود کو دیوالیہ قرار دے چکے ہیں جس کا بنیادی مقصد قرض کی ادائیگی سے فرار تھا۔ وہ ایک سخت گیر آجر اور مغرور افسر (boss)کے طور پر مشہور ہیں۔ معمولی باتوں پر زیردستوں کی توہین اور ملازمتوں سے فراغت ان کی عادت ہے۔ دفتر میں You-are-firedان کا تکیہ کلام ہے۔ تنخواہوں کی ادائیگی میں تاخیر، واجبات سے ناروا کٹوتی اور ملازمین پر بھاری جرمانے موصوف کا طرہ امتیاز ہے۔گفتگو اور تقریر کے میدان میں ان کی صلاحیت واجبی سی ہے۔ ذخیرۂ الفاظ بے حد مختصر ہے جس کی بنا پر تقریر کے دوران وہ ایک ہی لفظ کو بار بار دہراتے رہتے ہیں۔ ٹیکسوں کی ادائیگی کے باب میں بھی جناب ٹرمپ کی شہرت اچھی نہیں۔ وہ بہت فخر سے فرماتے ہیں کہ میں ٹیکس بچانے کے لیے ہر قانونی حربہ استعمال کرتا ہوں۔ اصرار کے باوجود مسٹر ٹرمپ اپنے ٹیکس گوشواروں کی اشاعت پر تیار نہیں، حالانکہ یہ امریکہ کے صدارتی امیدواروں کی روایت ہے۔
متلون مزاج ٹرمپ اپنی سیاسی وابستگی نظریۂ ضرورت کے تحت تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ 1980ء میں وہ ری پبلکن پارٹی میں تھے اور انھوں نے رونالڈ ریگن کی انتخابی مہم میں بھرپور حصہ لیا۔ رونالڈ ریگن کے بعد وہ صدر (ڈیڈی) بش کے ساتھ رہے، لیکن وہائٹ ہائوس کی مبینہ’’سردمہری‘‘ کے باعث سیاست سے کنارہ کش ہوگئے۔ 1999ء میں وہ ریفارم پارٹی میں شامل ہوگئے۔ ان کی نظریں 2000ء کے انتخابات پر تھیں، لیکن وہاں خرانٹ سیاست دان پیٹ بوکینن نے ان کی ایک نہ چلنے دی، چنانچہ 2001ء میں انھوں نے ڈیموکریٹک پارٹی کا دامن تھام لیا۔ 2004ء میں انھوں نے ڈیموکریٹک پارٹی کا ٹکٹ حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن ہوا کا رخ دیکھ کر دبکے رہنے ہی میں عافیت جانی۔ 2008ء میں دوسری ناکام کوشش کے بعد 2011ء میں انھوں نے دوبارہ ری پبلکن پارٹی کی رکنیت اختیار کرلی۔ 2016ء کی انتخابی مہم کے دوران اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں صدر ٹرمپ کا رویہ خاصا جارحانہ تھا، لیکن ہفتے کو اپنے پہلے جلسہ عام میں مسلمان ان کی گل افشانیوں سے کسی حد تک محفوظ نظر آئے اور انھوں نے اپنے مخصوص لہجے میں دانت پیس کر ’’ازلامک ٹیررازم‘‘ (Islamic Terrorism)کی گردان سے بھی گریز کیا۔ اِس بار ان کا ہدف بایاں بازو ہے۔ خیال ہے کہ جولائی کے آخر میں صدر ٹرمپ اپنے انتخابی منشور کا اعلان کریں گے، جس کے بعد ان کی انتخابی حکمت عملی کا ایک تجزیہ پیش کیا جائے گا۔
ڈیموکریٹک پارٹی کے ’حتمی متوقع‘ امیدوار سابق نائب صدر جوزف رابینیٹ بائیڈن المعروف جوبائیڈن ہیں۔ ہم نے ’حتمی‘ لکھ کر احتیاط کا حصار اس لیے باندھا ہے کہ انھیں اب تک پارٹی ٹکٹ جاری نہیں ہوا، تاہم ان کی نامزدگی یقینی ہوچکی ہے۔ صدر ٹرمپ ملکی معاملات سے بے خبری کی پھبتی کستے ہوئے انھیں خوابیدہ یا Sleepy Joe کہتے ہیں۔ 77 سالہ جو 2009ء سے جنوری 2017ء تک امریکہ کے نائب صدر رہ چکے ہیں۔ ان کا تعلق امریکی ریاست ڈیلاویئر (Delaware)سے ہے۔ جناب بائیڈن کی والدہ آئرش نژاد اور ددھیالی شجرہ فرانس اور انگلستان سے ملتا ہے۔ ان کے والد تیل کی صنعت سے وابستہ ایک خوشحال تاجر تھے، لیکن جو کی ولادت کے وقت اُن کا کاروبار گھاٹے کا شکار ہوگیا اور ننھے جو کا بچپن سختیوں میں گزرا۔ انھوں نے خاصی کم عمری سے معاشی جدوجہد میں اپنے والد کا ہاتھ بٹایا، اور یہی وجہ تھی کہ امریکہ کے روایتی سیاست دانوں کی طرح قانون کی اعلیٰ تعلیم کے لیے ہارورڈ، ییل (Yale) یا جامعہ اسٹینفورڈ کا رخ کرنے کے بجائے انھوں نے نیویارک کی جامعہ سراکیوس (Syracuse of University) میں داخلہ لیا، جہاں سے قانون کی سند حاصل کرنے کے بعد وکالت شروع کردی۔ جو بائیڈن کالج کے دنوں میں فٹ بال کے کھلاڑی تھے۔
جناب بائیڈن کی نظریں زمانہ طالب علمی سے ہی وہائٹ ہائوس پر ہیں۔ ان کی سابق اہلیہ آنجہانی نیلا ہنٹر نے اپنی ایک سہیلی کو بتایا کہ پہلی ملاقات میں جوبائیڈن نے ان کو اپنے ارادے سے آگاہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ 30 سال کی عمر میں سینیٹر اور اس کے بعد امریکہ کے صدر بننا چاہتے ہیں۔ نیلاہنٹر جامعہ سراکیوس میں ان کی ہم جماعت اور تعلیم میں جوبائیڈن کی سنجیدگی سے بہت متاثر تھیں۔ انھوں نے جناب بائیڈن کی ہمت بندھاتے ہوئے کہا کہ ان جیسے مخلص، محنتی، پُرعزم اور یکسو شخص کے لیے یہ ہدف حاصل کرنا کچھ مشکل نہیں۔1966ء میں دونوں نے شادی کرلی۔ 1969ء میں 27 برس کے بائیڈن لبرل منشور پر ری پبلکن پارٹی کو شکست دے کر بلدیاتی کونسلر منتخب ہوگئے۔ یہ حلقہ ری پبلکن پارٹی کا گڑھ تھا اور قدامت پسندوں کو شکست سے دوچار کرکے جوبائیڈن نے ریاستی سیاست میں اپنا مقام بنالیا۔
1972ء کے عام انتخابات میں جوبائیڈن نے سینیٹ کا انتخاب لڑنے کا اعلان کردیا۔ ان کا مقابلہ ری پبلکن پارٹی کے مرکزی رہنما کیلب بوگس (Caleb Boggs) سے تھا جو 1960ء سے اس نشست پر کامیاب ہوتے چلے آرہے تھے۔ اس سے پہلے مسٹر بوگس ریاست کے گورنر اور کانگریس کے رکن بھی رہ چکے تھے۔ تجربے کا فرق یوں سمجھیے کہ جب 1942ء میں جوبائیڈن کی ولادت ہوئی اُسی سال کیلب بوگس بلدیاتی کونسلر منتخب ہوئے تھے۔ یعنی جوبائیڈن جس شخص کے مقابلے میں خم ٹھونک کر میدان میں آئے تھے اُس کا سیاسی تجربہ موصوف کی مجموعی عمر سے زیادہ تھا۔ مسٹر بوگس کے دبدبے کا یہ عالم کہ ڈیموکریٹک پارٹی کے کسی رہنما میں اُن کا مقابلہ کرنے کی ہمت نہ تھی۔ وہ صدارتی انتخاب کا سال تھا اور ری پبلکن پارٹی کے صدر رچرڈ نکسن کی مقبولیت بامِ عروج پر تھی۔ جناب بوگس صدر نکسن کے قریبی رفقا میں سے تھے۔ سب سے بڑی بات کہ جوبائیڈن کی جیب بھی خالی تھی اور اکثر لوگوں کا خیال تھا کہ مقابلہ بس رسمی سا ہی ہوگا۔ خود جناب بوگس نے بھی جوبائیڈن کو کوئی اہمیت نہ دی اور وہ صدر نکسن کی انتخابی مہم چلاتے رہے۔ جوبائیڈن کی ہمشیرہ ویلیری بائیڈن ان کی انتخابی مہم کی ناظمہ تھیں۔ انھوں نے ٹیلی ویژن اور اخبارات میں اشتہارات کے بجائے گھر گھر دستک اور گلی محلوں میں چھوٹے چھوٹے جلسوں کی منفرد حکمتِ عملی اختیار کی۔ یہ وہ وقت تھا جب جنگِ ویت نام کے حوالے سے عوام میں بے چینی تھی۔ جناب بائیڈن نے ویت نام سے امریکی فوجیوں کی واپسی کو مہم کی بنیاد بنایا اور شدید مقابلے کے بعد ’سرپھرے لڑکے‘ کے نام سے مشہور جوبائیڈن مسٹر بوگس کو ہرانے میں کامیاب ہوگئے۔ دلچسپ بات کہ صدارتی انتخاب میں ریاست کے 60 فیصد لوگوں نے صدر نکسن کو ووٹ دیا لیکن سینیٹ کے لیے جو بائیڈن نے نکسن کے حمایت یافتہ امیدوار سے 3 ہزار ووٹ زیادہ لے کر یہ نشست جیت لی۔ اُس وقت جوبائیڈن کی عمر 30 سال تھی، یعنی ان کے طے کردہ ہدف کے عین مطابق۔ بلاشبہ یہ ان کی عظیم الشان کامیابی تھی، لیکن صرف چند ہفتوں بعد ان کی شدید ترین آزمائش کا آغاز ہوا اور ٹریفک کے خوفناک حادثے میں ان کی اہلیہ اور شیرخوار بچی ہلاک اور دونوں بیٹے شدید زخمی ہوگئے۔ شریکِ حیات کے انتقال کے بعد دوچھوٹے زخمی بچوں کی تیمارداری کے ساتھ سینیٹ کی ذمہ داری نبھانا مشکل تھا، چنانچہ انھوں نے حلف اٹھانے سے پہلے ہی استعفیٰ دینے کی خواہش ظاہر کی، لیکن ڈیموکریٹک پارٹی کی قیادت اور ہمشیرہ کے کہنے پر انھوں نے ارادہ ترک کردیا۔ حلف برداری کی تقریب اُس ہسپتال کی عبادت گاہ میں منعقد ہوئی جہاں ان کے بچے زیرعلاج تھے۔ اس سانحے نے بائیڈن کی زندگی پر منفی اثرات مرتب کیے اور یہ خدا سے بھی متنفر ہوگئے۔ چند سال بعد ان کی ملاقات ایک ماہر تعلیم محترمہ جل جیکبس سے ہوئی جنھوں نے ان کی دلجوئی کی۔ جلد ہی یہ ملاقات ایک مخلصانہ رفاقت میں تبدیل ہوئی اور 1977ء میں دونوں نے شادی کرلی۔ دوسری طرف ان کے بچے بھی مکمل صحت یاب ہوگئے اور جوزف بائیڈن خوش و خرم رہنے لگے۔ وہ سینیٹ کی نشست پر مسلسل 6 بار منتخب ہوئے۔ امریکہ میں سینیٹر کی مدت 6 برس ہے، گویا وہ 36 سال تک سینیٹ کے رکن رہے۔
اسی کے ساتھ انھوں نے امریکی صدارت کے لیے قسمت آزمائی جاری رکھی۔ 1988ء کے انتخابات میں انھوں نے ڈیموکریٹک پارٹی کے ٹکٹ کی خواہش ظاہر کی، لیکن نوشتۂ دیوار پڑھ کر دست بردار ہوگئے۔ اسی دوران انھیں ایک دماغی عارضہ لاحق ہوا، لیکن جلد ہی وہ صحت یاب ہوگئے۔ انھوں نے یکسوئی کے ساتھ سینیٹ کی خارجہ کمیٹی میں دلچسپی لینا شروع کردی، 2007ء میں وہ سینیٹ کی خارجہ کمیٹی کے سربراہ مقرر ہوئے۔ ہر موضوع پر بلاتکان اور لایعنی گفتگو کی بنا پر وہ ’باتونی بائیڈن‘ مشہور ہوئے اور ان کی سنجیدگی مشکوک قرار پائی۔ معاملہ یہاں تک آپہنچا کہ ساتھیوں نے سینیٹ کمیٹی سے ان کی معزولی کی بات شروع کردی۔
اسی دوران 2008ء کا صدارتی انتخاب آپہنچا اور جوبائیڈن وہائٹ ہائوس کا خواب آنکھوں میں سجائے ایک بار پھر صدارتی دوڑ میں شامل ہوگئے۔ جارج بش کی دوسری مدت ختم ہورہی تھی، معاشی حالات خراب تھے اور بے روزگاری عروج پر تھی۔ جنگِ عراق کے بارے میں بھی بے چینی تھی، اور عام خیال تھاکہ اِس بار قصر مرمریں کی کنجی ڈیموکریٹک کے ہاتھ لگ جائے گی۔ انھوں نے بھرپور مہم چلائی۔ وہ پرائمری انتخابات میں تو اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرسکے، لیکن ان کے مخالف بارک اوباما جوبائیڈن کے مدلل اندازِ گفتگو سے بہت متاثر تھے۔ یہ دونوں سینیٹ میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرچکے تھے۔ چنانچہ نامزدگی یقینی ہوتے ہی بارک اوباما نے جوبائیڈن کو نائب صدر کے لیے اپنا امیدوار نامزد کردیا۔ نائب صدرکی حیثیت سے جوبائیڈن نے بہت ہی اخلاص اور ’فرماں برداری‘ سے صدر اوباما کی نیابت کی۔
حالیہ انتخابی مہم کے آغاز پر جوبائیڈن کی پوزیشن اچھی نہ تھی لیکن جنوبی کیرولائنا کی کامیابی سے ان کی مہم میں جان پڑی اور جلد ہی انھوں نے سینیٹر برنی سینڈرز کو پیچھے چھوڑ دیا۔ جناب سینڈرز نے سخت مقابلہ کیا، لیکن پے در پے شکست کے بعد موصوف جوبائیڈن کے حق میں دست بردار ہوگئے۔ فی الحال جوبائیڈن کی توجہ نائب صدر کے لیے اپنے امیدوار کے انتخاب پر ہے۔ خیال ہے کہ اگلے چند ہفتوں میں یہ فیصلہ ہوجائے گا، جس کے بعد ان کی انتخابی مہم کا باقاعدہ آغاز ہوگا۔ ان شاء اللہ آئندہ نشست میں دونوں جماعتوں کے منشور اور انتخابی مہم کے ساتھ ممکنہ انتخابی نتائج پر بات ہوگی۔
اب آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.com اور ٹویٹر Masood@MasoodAbdali پر بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ ہماری ویب سائٹwww.masoodabdali.com پر تشریف لائیں۔