آزاد کشمیر میں ایک نہایت حساس اور اہم ترین سیاسی پیش رفت ہونے جارہی ہے، اور بجٹ کے بعد ریاستی قانون ساز اسمبلی میں 14ویںآئینی ترمیم پیش کی جائے گی۔ اس ترمیم سے آزاد کشمیر حکومت کی سیاسی شناخت کے علاوہ وفاق میں مالیاتی اختیارات کی مکمل وضاحت اور دائرۂ کار ازسرِنو متعین ہوگا، اس ترمیم کے بعد حکومتِ آزاد کشمیر کی سیاسی اور آئینی تبدیلی بھی واضح ہوجائے گی۔ یہ کام اس قدر خاموشی سے ہورہا ہے کہ آزاد کشمیر کی تمام سیاسی جماعتیں مشاورت میں پوری طرح شریک ہیں، کوئی سیاسی جماعت مشاورت کے عمل سے باہر نہیں ہے۔ خاموشی کی حد یہ ہے کہ حکومت آزاد کشمیر کے ایک وزیر، کورونا کا بہانہ بنا کر آئیسولیشن میں بیٹھ کر آئینی ترمیم کی نوک پلک سنوار رہے ہیں۔ مجوزہ ترمیم کے ذریعے بیشتر آئینی، انتظامی اور مالیاتی اختیارات وزارت امور کشمیر کے تحت ’آزاد جموں و کشمیر کونسل‘ کو منتقل کیے جا رہے ہیں جو دو سال قبل تیرہویں آئینی ترمیم کے ذریعے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی اور حکومت کو تفویض ہوئے تھے۔ تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے برسرِاقتدار آتے ہی ان اختیارات کی واپس منتقلی کا اعلان کیا تھا اور وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم کی قیادت میں ایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔ اس کمیٹی نے ایک نیا ترمیمی مسودہ تیار کرکے آزاد جموں و کشمیر کی حکومت کو بھیجا تھا، اور اب یہ ترمیمی مسودہ اسمبلی کے اجلاس میں پیش کردیا جائے گا۔ اس مسودے پر غور اور رائے شماری کے لیے قانون ساز اسمبلی اور ’آزاد جموں و کشمیر کونسل‘ کا مشترکہ اجلاس بلایا جائے گا۔ آزاد جموں وکشمیر حکومت کے اہم ذرائع بتاتے ہیں کہ مجوزہ ترمیم کے لیے اب تک تین مسودے وفاقی حکومت نے حکومتِ آزاد کشمیر کو بھجوائے تھے، تاہم تفصیلی غور کے بعد فیصلہ یہی ہوا ہے کہ معاملہ کونسل اور اسمبلی کے مشترکہ اجلاس میں پیش کیا جائے۔ تیسرے مسودے پر تفصیلی غور ہوا ہے۔ وزیراعظم آزاد کشمیر نے سردار عتیق احمد سمیت اس معاملے میں آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتوں کے سربراہوں سے بھی مشاورت کی ہے۔ مجوزہ چودھویں ترمیم کے خدوخال بھی اب واضح ہوچکے ہیں کہ دفاع، خارجہ امور اور کرنسی کے لیے وفاقی حکومت ذمہ دار ہوگی، اور دیگر بہت سے معاملات اب آزاد کشمیر حکومت کے حوالے کردیے جائیں گے جن میں مواصلات بھی شامل ہے۔ سڑکوں کی تعمیر، حتیٰ کہ ائر پورٹس کی تعمیر کے لیے اس مجوزہ ترمیم میں وضاحت کے ساتھ اختیارات کی تقسیم کی جارہی ہے۔ یہ سیاسی اہمیت کی حامل نہایت اہم ترمیم ہوگی۔ اس ترمیم کے ذریعے اختیارات کی مظفرآباد سے واپس اسلام آباد منتقلی کے علاوہ اس خطے کی آئینی حیثیت میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں بھی زیربحث ہیں۔ اس کے بعد آزاد کشمیر کے عبوری آئین میں بھی واضح ترمیم کی جائے گی۔ عبوری آئین میں موجود لفظ ’ریاست‘ کو ’آزاد جموں وکشمیر‘ سے تبدیل کرنے کے علاوہ اس علاقے میں کشمیرکی خودمختاری کی حامی سیاسی جماعتوں پر بندشیں اور ججوں کی تقرری کے طریقہ کار میں تبدیلی بھی شامل ہے۔ نئے ترمیمی مسودے میں پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں 12 نشستوں کے اضافے اور ان نشستوں کو بھارت کے زیرانتظام علاقوں جموں، کشمیر اور لداخ پر اس طرح تقسیم کرنے کی تجویز دی گئی ہے کہ جموں اور کشمیر کے لیے پانچ پانچ، جبکہ لداخ کے لیے دو نشستیں مختص ہوں۔ تاہم ان علاقوں کی ’آزادی‘ تک ان نشستوں پر انتخاب نہ کروانے کی تجویز بھی مسودے میں شامل ہے۔ دو سال قبل تیرہویں آئینی ترمیم کی گئی تھی جس میں حکومتِ آزاد کشمیر کو متعدد اختیارات مل گئے تھے، اس کے بعد ٹیکسوں کی وصولی اسی نے کی تھی۔ یہ اختیارات پہلے وزارتِ امورِ کشمیر کے تحت قائم ’آزاد جموں وکشمیر کونسل‘ کے پاس ہوتے تھے۔ 14 ویں ترمیم میں انتظامی اور آئینی امور طے کیے جارہے ہیں، ٹیکسوں کے نفاذ اور وصولی کے اختیارت کے علاوہ ’آزاد جموں وکشمیر کونسل‘ کے انتظامی اختیارات کی واپسی ہوسکتی ہے جس سے ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی کُل رقم کا 20 فیصد حصہ ’انتظامی اخراجات‘ کی مد میں وصول ہوسکے گا۔ وزیراعظم پاکستان کی سربراہی میں قائم آزاد جموں و کشمیر کونسل کے کُل 14 ارکان ہیں جن میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے صدر اور وزیراعظم کے علاوہ 6 اراکین کا انتخاب قانون ساز اسمبلی کے ذریعے ہوتا ہے، جبکہ 6 ارکان وزیراعظم پاکستان نامزد کرتے ہیں۔ عام طور پر ان ارکان میں وزیر امور کشمیر، وزیر خارجہ اور وزیر خزانہ کے علاوہ اراکینِ پارلیمنٹ شامل ہوتے ہیں۔ یہ بھی رائے سامنے آتی رہی ہے کہ آزاد جموں وکشمیر کونسل کے نامزد اراکین پر الزام رہا ہے کہ وہ قانون سازی کے عمل کو متاثر کرنے کے علاوہ کونسل کے ترقیاتی فنڈز کاایک بڑا حصہ اپنے انتخابی حلقوں میں استعمال کر لیتے ہیں، یہ فنڈز انتخابات میں ’دھاندلی‘ کے لیے بھی استعمال ہونے کا الزام لگتا رہا ہے، تیرہویں ترمیم سے بہت سے آئینی ابہام پیدا ہوئے تاہم اس ترمیم سے آزادکشمیر کی حکومت اور قانون ساز اسمبلی مالیاتی اور انتظامی امور میں پہلے کی نسبت زیادہ با اختیار ہوئی ہے۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کی تشریحات کے مطابق ترمیمی مسودہ اسمبلی میں پیش ہونا چاہیے۔سلامتی کونسل کی قراردادوں میں واضح طورپر لکھا ہے کہ لوکل اتھارٹی کو اندرونی طور پرمکمل سیاسی اور انتظامی اختیار حاصل ہوگا۔ لہٰذاسپریم کورٹ اور نیشنل فنانس کمیشن کا دائرۂ کار کشمیر تک پاکستان کے آئین کے ذریعے ہی بڑھایا جاسکتا ہے، کسی انتظامی حکم کے ذریعے نہیں۔