عارف الحق عارف
اس انتہائی دل خراش خبر سے کراچی کے سیاسی، مذہبی، ادبی، اور سماجی حلقوں میں صفِ ماتم بچھ گئی ہے کہ کورونا کی مہلک وبا نے کراچی شہر کے ایک اور روشن چہرے دوست محمد فیضی کو بھی نگل لیا ہے، اور وہ اب ہم سے ہمیشہ کے لیے دور بہت دور چلے گئے ہیں جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔ یہ وبا کس کس کو اپنے ساتھ لے جائے گی! فیضی کراچی کا روشن چراغ تھا جو بجھ گیا۔ فیضی کے اس طرح اچانک بچھڑنے پر محمود شام کا یہ شعر کس قدر حسب ِحال ہے جو ان کی تازہ غزل ”وہ لوگ کیا ہوئے“ کا مقطع ہے کہ
جو محفلوں کی جان تھے وہ لوگ کیا ہوئے
سب دوستوں کا مان تھے، وہ لوگ کیا ہوئے
دوست محمد فیضی ایک شریف النفس اور وضع دار انسان اور شہر کی سیاسی، ادبی اور سماجی محفلوں کی جان تھے۔ کسی تقریب میں ان کی موجودگی اس کی کامیابی کی ضمانت بن جایا کرتی تھی۔ وہ ایسے شعلہ بیان مقرر تھے، جن کی تقریر میں ہر طرح کے سامعین کی دلچسپی کو برقرار رکھنے کا مواد موجود ہوتا۔ وہ ظہورالحسن بھوپالی کی مجلسِ مقررین کی یادگار تھے جس نے 1970ء کے عشرے میں پاکستان بھر میں بین الجامعات اور کالجوں کے طلبہ کے تقریری مقابلوں میں کراچی کا نام روشن کررکھا تھا۔ اس مجلس میں ہماری یادداشت کے مطابق فیضی کے علاوہ سید احمد، اسد اشرف ملک، سعدیہ صدیقی اب روشن، فائزہ صدیقی، جنید فاروقی، خوش بخت عالیہ بعد میں شجاعت، منور غنی اب کلیمی،ضیا الاسلام زبیری، شفیق پراچہ اور رضوان صدیقی شامل تھے۔ سلیم جہانگیر بھی اس دور کے اچھے مقرر اور بھوپالی کے دوست تھے، لیکن وہ اس مجلس میں شامل نہیں تھے۔
ظہورالحسن بھوپالی اپنی ذات میں ایک انجمن تھے اور وہ اپنے دوستوں کا بڑا خیال رکھتے تھے۔ اور جب انہوں نے جمعیت علمائے پاکستان کے پلیٹ فارم سے صحافت کے ساتھ ساتھ عملی سیاست میں حصہ لینا شروع کیا تو اپنی مجلسِ مقررین کے دوستوں کو بھی سیاست میں آنے پر آمادہ کرلیا۔ ان میں دوست محمد فیضی بھی تھے۔ انہوں نے اپنی شخصیت کی خوبیوں کی وجہ سے جلد ہی اپنی سیاسی پہچان بنا لی، اور وہ پہلی بار جنرل ضیاالحق کے دور میں سندھ کابینہ کا حصہ بنے اور سندھ اسمبلی کے رکن بنے، اور پھر تین بار صوبائی وزارت کے منصب پر بھی فائز رہے۔ 1993ء کے عام انتخابات میں وہ مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر شمالی ناظم آباد کی نشست سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ مسلم لیگ (ن) میں ہونے کے باوجود ان کا شمار اس کے اُن رہنماؤں میں ہوتا تھا جن کا کردار صاف ستھرا تھا اور ان کے دامن پر کسی بھی قسم کی کرپشن یا بدعنوانی کا داغ نہیں لگا۔ انہوں نے اپنے دامن کو ان خرافات سے ہمیشہ دور رکھا۔ اس سلسلے میں ہمیں ہمارے بزرگ کرم فرما اور اردو ادب کے ایک بڑے نقاد اور کالم نگار مشفق خواجہ کی بات یاد آرہی ہے جو انہوں نے ایک بار دوست محمد فیضی کے بارے میں لکھی تھی کہ ”فیضی صاحب کا کمال یہ ہے کہ وہ جب بھی وزارت سے علیحدہ ہوئے، عزت و وقار کے ساتھ ہوئے، ورنہ اس”کاروبار“ میں عزت و آبرو تو کیا، ضمیر تک ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔ کوئلوں کی دلالی میں ہاتھ ہی نہیں منہ بھی کالا ہوجاتا ہے، لیکن فیضی صاحب کی صرف شیروانی کالی رہی“۔ مسلم لیگ کے کسی سیاست دان کے لیے اس سے بڑا کوئی خراجِ تحسین نہیں ہوسکتا۔
فیضی نے سیاست کو آمدنی کا ذریعہ نہیں بنایا بلکہ سیاست میں سرگرم ہونے کے ساتھ ساتھ اپنا کاروبار شروع کیا۔ انہوں نے اس کے لیے اشتہارات کے شعبے کو منتخب کیا اور اس شعبے کے بڑے گُرو اور اورینٹ ایڈورٹائزرز کے سربراہ ایس ایچ ہاشمی کے مشورے سے ایک اشتہاری کمپنی قائم کی جو ان کی اور ہاشمی صاحب کے داماد کی مشترکہ ملکیت تھی۔ آخر تک ان کا یہی کاروبار رہا۔ وہ کچھ عرصہ قبل ہمارے دوست واثق نعیم کی مارکیٹنگ کی مشہور کمپنی اسٹار مارکیٹنگ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر بھی مقرر ہوئے تھے۔ ایک کامیاب کاروباری شخصیت کے طور پر وہ تاجروں کی سیاست کا بھی حصہ رہے اور کورنگی انڈسٹریل ایریا کے تاجروں کی تنظیم ”کاٹی“ کے بھی ایک بار صدر منتخب ہوئے تھے۔
دوست محمد فیضی اسم بامسمیٰ تھے اور اپنے نام کی نسبت سے دوستوں کے ایسے ہمدرد اور بہی خواہ بن جاتے تھے کہ ہر ایک ان سے دوستی کو اپنے لیے باعث ِ فخر سمجھتا تھا۔ ہم سے ان کا تعلق دوستی سے زیادہ چھوٹے بھائی کا تھا اور اس کی ایک وجہ پہلے تو ظہورالحسن بھوپالی تھے، لیکن جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ ہم ان کے بڑے بھائی غوث محمد فیضی کے گہرے دوست ہیں تو دوستی کا یہ تعلق بھائی چارے کے احترام میں بدل گیا۔ غوث محمد فیضی یو بی ایل میں منیجر تھے اور ان سے ہمارے تعلقات کا آغاز 1970ء کے عشرے میں اُس وقت ہوا جب وہ آئی آئی چندریگر کی یوبی ایل الرحمٰن برانچ کے ابتدائی منیجر مقرر ہوئے۔ یہ برانچ جنگ ہی کی دوسری عمارت میں تھی اور اسی میں جنگ گروپ کے اکاؤنٹس تھے۔ غوث محمد فیضی نے بعد میں بینکنگ سے علیحدگی اختیار کرلی تھی اور امپورٹ ایکسپورٹ کا کاروبار شروع کردیا تھا۔ لیکن کچھ عرصے بعد ان کا بھی جوانی ہی میں انتقال ہوگیا۔دوست محمد فیضی سے ہمارا امریکہ آنے کے بعد بھی فون پر رابطہ رہتا تھا۔
دوست محمد فیضی نے سیاست کے علاوہ صحافت کو بھی عوامی اور سماجی اصلاح اور خدمات کا ذریعہ بنایا اور 1989ء سے روزنامہ جنگ میں کالم نگاری شروع کردی۔ انہوں نے خود کو اس شعبے میں جلد منوا لیا اور بڑا امتیاز پایا۔ ان کو ایک بار اے پی این ایس کے بہترین کالم نگار کا ایوارڈ بھی دیا گیا جو بجائے خود ایک بڑا اعزاز ہے۔ وہ کراچی کی سیاسی،ادبی اور شعری محفلوں میں شریک ہوتے تو شمع محفل بن جاتے، اور ہر ایک ان کی موجودگی کو محسوس کیے بغیر نہ رہتا۔ وہ بڑی محبت کرنے والے انسان اور سچے عاشقِ رسولؐ تھے اور میلاد کی محفلوں میں بڑے شوق سے شریک ہوتے، اور ایسی محفلوں میں مہمانِ خصوصی یا ایک عام عاشقِ رسولؐ کی حیثیت سے شریک ہونا اپنے لیے باعثِ فخر و عزت سمجھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کی دینی اور دنیاوی خدمات کو قبول فرمائے،ان کی لغزشوں سے درگزر کرے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔
کوئی دس دن پہلے ہمارے مشترکہ دوست ضیا الاسلام زبیری نے ہمیں اطلاع دی تھی کہ فیضی کو کورونا وائرس کی وجہ سے اسپتال میں داخل کردیا گیا ہے اور ان کی حالت ٹھیک نہیں ہے، دعا کریں۔ اس کے بعد ہم زبیری اور دوسرے دوستوں سے اُن کے بارے میں پوچھتے رہے، کہیں سے بھی خیر کی خبر نہیں ملی۔ اور آج صبح سو کر اٹھے تو بالآخر ان کے انتقال کی دل خراش خبر پڑھنے کو ملی۔ دل دھک سے رہ گیا۔ اللہ تعالیٰ کا یہ نظام ہے کہ بعض لوگوں کو ان کی موت سے قبل علم ہوجاتا ہے کہ اب ہمارے جانے کا وقت آگیا ہے اور وہ اس کا اظہار بھی کردیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ فیضی کو بھی یہ غیبی اشارہ مل گیا تھا اور انہوں نے میوہ شاہ میں اپنی تدفین کی وصیت بھی کردی تھی۔ ہمارے دوستوں کی کہکشاں کا ایک ایک ستارہ ڈوب رہا ہے، اور ہم بھی اپنی باری کے انتظار میں ہیں، یہ وقت تو ایک دن آنا ہی ہے۔ یہی دعا ہے کہ خاتمہ کسی محتاجی کے بغیر ایمان پر ہو۔ کل نفس ذائقۃ الموت.