پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد سے مکالمہ
۔(پہلا حصہ)۔
پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد عہدِ حاضر میں ہماری علمی اور دینی روایت کے وارث اور اہم اسکالر ہیں۔ آپ کا شمار برصغیر کی اُن چند شخصیات میں ہوتا ہے جو تاریخ کے ساتھ عصرِ حاضر کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے اسلامی تحریکوں کی جدوجہد پر گہری نظر رکھتی ہیں۔ آپ کا تعلق دلّی ’’جو اک شہر تھا عالم میں انتخاب‘‘ کے ایک معزز علمی خانوادے سے ہے۔ ایڈمرل (سابق) ضمیر احمد مرحوم، پروفیسر خورشید احمد، اور ممتاز طارق مرحوم کے چھوٹے بھائی ہیں۔ آپ کے سب سے بڑے بھائی ضمیر احمد نے سب سے پہلے کراچی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے کام کاآغاز کیا، اور اپنے بھائی خورشید احمد کو جمعیت میں متعارف کرایا۔ عملی زندگی میں پاکستان نیوی میں چلے گئے۔ یہ ایک معروف بات ہے کہ اگر آپ پروفیسر خورشید احمد کے بھائی نہ ہوتے تو پاک نیوی کے چیف ہوتے۔ آپ کے بھائی ممتاز طارق 20 مئی 1965ء کو قاہرہ میں پی آئی اے کی پہلی پرواز کو پیش آنے والے حادثے میں فوت ہوگئے۔
آپ کے والد نذیر احمد قریشی مرحوم کا تعلق بنیادی طور پر جالندھر سے تھا، جو دہلی کے معروف تاجر، اعلیٰ علمی، دینی، سیاسی اور سماجی شخصیات کے دوست تھے۔ نذیر احمد صاحب مولانا مودودیؒ کے بے تکلف رفقا میں سے تھے، جنھوں نے متعدد علمی اور قیمتی کتابیں مولانا مودودیؒ کو تحفے میں دیں۔
ڈاکٹر انیس احمد 22 مارچ 1944ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ میٹرک سندھ مدرسۃ الاسلام سے، اور گریجویشن سندھ مسلم کالج سے کی۔ کراچی یونیورسٹی میں تعلیم کے دوران سیاسی و سماجی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لیا۔ تب کراچی یونیورسٹی میں نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا طوطی بولتا تھا۔ انیس احمد نے اسلامک اسٹڈیز سوسائٹی کی سرگرمیوں کو جامعہ میں اس قدر وسعت دی کہ وہ یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے مقابلے میں متحرک باڈی کے طور پر ابھر کر سامنے آئی۔ 1963ء میں ایم اے پاس کیا اور یہیں شعبہ اسلامی تاریخ میں 1969ء تک پڑھایا۔
1969ء میں پنسلوانیا اسٹیٹ کی ٹمپل یونیورسٹی میں اسکالرشپ پر امریکہ چلے گئے اور پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔ وہاں کچھ عرصہ بعض جامعات میں بھی پڑھایا۔ آپ اس کے علاوہ ملائشیا میں بھی تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے ہیں۔ دعوۃ اکیڈمی اسلام آباد کا تصور پیش کرنا اور اس کو عملی جامہ پہنانا آپ کا ایک بڑا کارنامہ ہے۔ آپ اس اکیڈمی کے بانی ڈائریکٹر جنرل رہے ہیں۔ انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی میں مختلف کلیات کے قیام میں آپ کا کلیدی کردار تھا۔ پھر بات یہیں ختم نہیں ہوگئی، آپ نے ٹیم ورک کے ساتھ اس کو بہترین انداز میں چلا کر بھی دکھایا اور عالمی سطح پر لوہا منوایا۔ اسی کے ساتھ چین، وسطِ ایشیا، لاطینی امریکہ سمیت کئی ممالک کی کتابوں کے ترجمے کرواکر مختلف زبانوں میں ان کے متعلقہ لوگوں کی اجازت سے چھپوانا بھی آپ کی محنت، لگن اور کاوش کا نتیجہ تھا۔ آپ آج کل رفاہ یونیورسٹی اسلام آباد کے وائس چانسلر ہیں، اور صرف روایتی وائس چانسلر نہیں بلکہ آپ یونیورسٹی کے انتظامی معاملات سے لے کر طالب علموں تک سے رابطے میں رہتے ہیں۔ آپ طالب علموں کو اچھا پاکستانی اور مسلمان بنانے کے ویژن اور مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے ان کی ذہنی و فکری سطح کو بلند کرنے کے لیے بھی ہر وقت پُرعزم اور عملی طور پر متحرک رہتے ہیں۔
آپ سے رفاہ یونیورسٹی اسلام آباد میں ایک تفصیلی ملاقات ہوئی۔ اس انٹرویوکے توسط سے زمانۂ طالب علمی کے دوست، ملنسار اور ہمیشہ محبت اور مسکراہٹ کے ساتھ ملنے والے ’کے مشتاق‘ سے بھی بیس سال کے بعد ملاقات خوشگواری میں اضافے کا باعث بنی، جو جناب ڈاکٹر انیس احمد کے پرسنل سیکریٹری رفاہ یونیورسٹی ہیں۔
محبت اور شفقت کے ساتھ استقبال کرنے، دھیمے لہجے اور خوب صورت زبان میں مدلل گفتگو کرنے والے ڈاکٹر انیس احمد سے گفتگو کا سلسلہ ڈھائی گھنٹے سے زیادہ جاری رہا۔ بات چیت کا یہ دورانیہ بھی کم تھا اور بات بھی بہت ہوسکتی تھی، لیکن وقت کی کمی دامن گیر رہی۔ ڈاکٹر انیس احمد سے نظام تعلیم کی خرابیاں، ادب اور اسلامی ادب کی بحث، نظریاتی جدوجہد کا فقدان، اسبابِ قحط الرجال، مخلوط تعلیم کا جواز،موبائل، انٹرینٹ کی دنیا،کتاب اور کاغذ کی اہمیت، جدیدیت، ٹیکنالوجی، اسلامی تحریکات، سید مودودیؒ کی تعلیمات کے دنیا پر اثرات، علمی و فکری بحران،انقلابی تحریکیں اور ان کی جدوجہد، مغربی اور اسلامی فکر کی آویزش، نائن الیون کے بعد مسلمانوں کے خلاف مغرب کا غصہ، مغربی تہذیب کے زوال کے بعد عروج کس کا، مغرب سے تعلقات کی نوعیت، سیاست اور اس کی اخلاقیات، آج کا نوجوان، اسلامی تحریکوں کی انتخابی اور جمہوری عمل کے ذریعے تبدیلی کی خواہش، ریاست مدینہ کا عملی تصور، سماج اور اخلاقی مسائل،آج کا استاد اور آج کا شاگرد سمیت دیگر موضوعات پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔ اس گفتگو کے اقتباسات نذرِ قارئین ہیں۔
…………
فرائیڈے اسپیشل: اپنی ابتدائی زندگی کے بارے میں بتائیں۔ جہاں آپ پیدا ہوئے وہاں کا سماجی اورمعاشرتی ماحول کیسا تھا؟
پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد: میری پیدائش ایک علمی اور ادبی گھرانے میں ہوئی، میرے والد صاحب مرحوم اور والدہ دونوں کا ادبی ذوق بہت ستھراہوا تھا، اس بنا پر بچپن سے مجھے یہ موقع ملا کہ میں کلاسیکل شعر و ادب کا مطالعہ کروں۔ گھر کے اندر ہونے والی گفتگو بھی زبان اور موضوعات کے حوالے سے عام گھروں سے مختلف اور علمی موضوعات پر مشتمل ہوتی،اس لیے بچپن ہی سے علمی تبادلہ خیال کا موقع ملا۔ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے اور تدریس سے وابستگی کے بعد اس ذوق و شوق میں مزید اضافہ ہوا اور یونیورسٹی میں خاص طور پر علمی سرگرمیوں میں شامل رہا اور بہت سے صاحبِ علم و فن حضرات کو یونیورسٹی میںان سرگرمیوں میں مدعو کیا، ان کے خیالات جاننے کا موقع ملا اور ساتھ ساتھ یونیورسٹی کے معروف اساتذہ سے بھی تبادلہ خیال کا موقع ملا، اور یہ اُس وقت کی بات ہے جب ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی صاحب وائس چانسلر تھے اور میجر آفتاب صاحب کیمپس میں معروف و سرگرم شخصیت تھے، ڈاکٹر محمود احمد شعبہ فلسفہ کے ہیڈ بھی تھے اور کچھ عرصہ ڈین بھی رہے۔ڈاکٹر امیر حسن صدیقی صاحب صدر شعبہ اسلامی تاریخ تھے وہ بھی ڈین ہوئے، وہ میرے استاد بھی تھے۔ ڈاکٹر محمود حسن خان صدر شعبہ تاریخ تھے ان کے ساتھ ہی ہمارا ڈیپارٹمنٹ تھا جو بعد میں وائس چانسلر بھی بنے۔ ڈاکٹر عزیز صاحب کا کمرہ بھی بہت قریب تھا جو بعد میں رجسٹرار بنے۔ یعنی بے شمار افراد جو یونیورسٹی کی ذمہ داریوں پر بعد میں فائز ہوئے ان سے براہِ راست ملاقات اور استفادہ کا موقع ملا۔ اس کے نتیجے میں مجھے اپنے ذہنی ارتقا میں بے انتہا مدد ملی اور یہی وجہ تھی کہ جیسے ہی تعلیم سے فارغ ہوا مجھے بطور لیکچرر مقرر کر دیا گیا۔ میں چھ سال تک کراچی یونیورسٹی میں تدریس کے شعبے سے وابستہ رہا اور پھرٹمپل یونی ورسٹی کی اسکالرشپ پر پی ایچ ڈی کرنے چلا گیا۔ ہمارے گھر کا ماحول ادبی بھی تھا اور بہت دینی بھی۔ گھر کے ماحول نے زبان اور فکر کو سنوارنے میں بنیادی کردار ادا کیا، یہ صرف اللہ تعالیٰ کا احسان تھا کہ مجھے گھر اور جامعہ دونوں نے ہر لمحہ تقویت فراہم کی۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ کی شخصیت کے ارتقا اور فکر کی تشکیل میں مذکورہ عوامل کے علاوہ دیگر کون سے عوامل تھے یا کن شخصیات کا کردار رہا؟
پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد:شخصیات تو بے شمار ہیں لیکن مجھے سب سے زیادہ متاثر مولانا مودودی کی تحریرات اور شخصیت نے کیا۔کالج اور یونی ورسٹی کی تعلیم کے دوران اردو میں ادبی اور علمی تخلیقات کو پڑھنے کا موقع ملا۔ان میں سر سید، شبلی نعمانی، سید سلیمان ندوی، مولانا عبدالماجد دریا آبادی، ابوالکلام آزاد، غلام رسول مہر اور ادب و شعر کی دنیا کی معروف شخصیات شامل تھیں۔ لیکن جب میں نے مولانا مودودی کی تحریرات کو پڑھنا شروع کیا تو انھیں ان سب سے مختلف پایا۔ مولانا مودودی کی تحریر میں نہ وہ شوکتِ الفاظ تھی جو مولانا ابوالکلام آزاد کا امتیاز تھا، نہ علامہ شبلی کی کلامی روایت۔مولانا مودودی کی تحریر میں فکر کی گہرائی، الفاظ کی سادگی اور اطناب کی جگہ اختصار نے مجھے بہت متاثر کیا۔یہ دور اختصار کا ہے، سادگی کا ہے اور جو بھی نفس مضمون ہے اس کی حد تک بات کرنے کا ہے۔ اس بات کی ضرورت نہیں ہے کہ آپ پہلے ایک بیان شروع کریں، پھر گریز کریں، پھر آپ واپس آئیں اور آخر میں جاکر آپ کوئی مقطع پیش فرمائیں بلکہ جو بات ہو وہ کم سے کم الفاظ میں ادا کردی جائے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ مولانا کے اسلوب کا یہ کمال ہے اور فکر ظاہر ہے کہ انہوں نے مختلف علوم کے گہرے مطالعہ سے اپنی فکر کو مرتب کیا اور دین کا جو تصور پیش کیا وہ بالکل ایک عملی تصور ہے کہ دین ایک زندہ کی حقیقت ہے، وہ ایک بیرونی عنصر نہیں ہے بلکہ اس کی بنیاد پر زندگی کا وجود ہے اور اسی چیزنے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا۔
فرائیڈے اسپیشل: مولانا مودودی کی علمی اور ادبی خدمات کی کیا اہمیت ہے؟
پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد:میرے خیال میں مولانا مودودی کا علمی کارنامہ دورِ جدید میں اسلام کی عملی تطبیق ہے۔مغربی تہذیب اور فکر نے مسلمان دانشوروں کو بھی متاثر کیا اور انسانی تاریخ اور فکر کے ارتقائی تصور کی بنا پر یہ سمجھنے لگے کہ ساتویں صدی میں آنے والی تعلیمات پر آج کیسے عمل ہوگا۔اس لیے یاتو ان تعلیمات پر نظر ثانی کی جائے یا انھیں کچھ کتربیونت کر کے آج کے ’’ترقی یافتہ‘‘دور کے مطالبات کے مطابق بنایا جائے۔ مولانا مودودی نے قرآن و حدیث کے دلائل سے سرمایہ داری، اشتراکیت، الحاد اور ارتقائی تصورات کا رد عقلی اور منطقی اسلوب میں کیا اور نہ صرف علمی سطح پر بلکہ اصلاحی اور دعوتی تحریک قائم کر کے ثابت کیا کہ اس دور میں بھی اسلام ویسے ہی قابلِ عمل ہے جیسے دورِ اوّل میں تھا۔مولانا کے ایک اصلاحی تحریک قائم کرنے کا ایک رد عمل یہ ہوا کہ جن لوگوں نے جماعت اسلامی کو محض ایک دینی یا محض ایک سیاسی تحریک سمجھا، انہوں نے مولانا کی فکر کو جماعت سے وابستہ سمجھتے ہوئے اس پر توجہ کرنے کی ضرورت نہیں محسوس کی۔لیکن اگر کسی نے ان کی تحریر کا مطالعہ کر لیا توپھر ان کے سادہ اسلوب اور قرآنی فکر نے اسے لازماً متاثر کیا۔میں سمجھتا ہوں مولانا کو جماعت کے فکری قائد کی جگہ ایک عالمی اسلامی مفکر، داعی اور مصلح کے طور پر مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔وہ پوری امت مسلمہ کے اس دور کے مجدد کہے جانے کے مستحق ہیں۔ بلکہ ان شخصیات میں سے ہیں جن کو ہم کہہ سکتے ہیں کہ قرآن کریم کی آفاقیت نے ان کی فکر میں آفاقیت پیدا کی۔ اس پہلو سے دورِ حاضر کے تین افرادقابل ذکر ہیں، ایک علامہ اقبال، دوسرے مولانا مودودی اور تیسرے علامہ محمد اسد۔ ان تینوں نے قرآن کریم سے اپنے آپ کو وابستہ کرکے وہ فکر امتِ مسلمہ کو دی جس میں قرآن کی آفاقیت پائی جاتی ہے۔ اس بنا پر میں سمجھتا ہوں کہ جو تعصبات پیدا ہوئے ہیں کہ مولانا فلاں گروہ، فلاں جماعت کے قائد ہیں اور ہم دانشور ہیں، زیرک افراد ہیں، پڑھے لکھے افراد ہیں، روشن خیال ہیں، وقت سے آگے سوچنے والے ہیں، یہ ایک مصنوعی تفریق ہے جو ختم ہونی چاہیے۔ ان کا جو اصل مقام ہے آفاقی فکر رکھنے والے مفکر کی حیثیت سے، ایک مجتہد کی حیثیت سے، دین کی تشریح کرنے والے ایک فرد کی حیثیت سے دیکھنے کی ضرورت ہے،ان کو ان کے سیاسی کردار سے الگ کرکے دیکھنے کی ضرورت ہے، یہ کام وہی کرے گا جو غیر جانبدار ہو۔ دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ علمی غیر جانبداری عملاً مفقود ہے، کوئی کتنا ہی بڑا دعویٰ کرے کہ وہ غیر جانبدار ہے لیکن جو عصبیتیں ہیں انہوں نے علم کی صحیح فکر کو، صحیح پہچان کو زنگ آلود کردیا ہے، جب تک یہ زنگ کم نہیں ہوگا اُس وقت تک شاید وہ محدود رہے، لیکن میری نگاہ میں وہ ایک بہت ہی عظیم شخصیت کے حامل تھے اور میں نے ان کو پڑھا ہی نہیں ہے بلکہ انہیں بہت ہی قریب سے دیکھا ہے، ان کے ساتھ سفر کیا ہے، ایک عرصے تک ان کے قریب رہا ہوں، آخر وقت تک میں ان کے ساتھ رہا، ان سے ملاقاتیں رہی ہیں حتیٰ کہ ان کی نماز جنازہ بھی بفیلو، امریکہ میں ایک میں نے پڑھائی اور ایک ڈاکٹر اسرار صاحب نے پڑھائی۔ ان سے ہر لحاظ سے بہت قریبی تعلق رہا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ ان کی شخصیت کو ہم نے بہت محدود کردیا ہے، اور اس کے ذمہ دار کسی حد تک وہ افراد ہیں جو اپنے آپ کو اُن کا مرید اور ماننے والا کہتے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: مولانا سے متعلق کوئی بات، کوئی واقعہ،کوئی ایسی چیز جو آپ قابلِ ذکر سمجھتے ہوں؟
ڈاکٹر انیس احمد : میرے خیال میں جو چیز بڑی نمایاں ہے وہ ان کا خاکساری کا رویہ ہے۔ انہیں کبھی یہ احساس نہیں ہوا کہ وہ سیدزادے ہیں، وہ ایک سلسلۂ تصوف کے خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں، وہ ایک تحریک کے بانی ہیں، وہ ایک مفکر ہیں، وہ ایک مفسر ہیں۔ ان تمام خوبیوں کے باوجود انہوں نے اپنے آپ کو ایک انتہائی منکسرالمزاج فرد کی حیثیت سے پیش کیا۔ اگر یہ کہا جائے کہ ان میں وہ انانیت نہیں تھی جو علم پیدا کرتا ہے تو یہ ایک جائز تجزیہ ہوگا۔
فرائیڈے اسپیشل: مولانا مودودی کی فکر انقلابی فکر ہے اور اس نے پوری امت کے اندر بیداری کی لہر پیدا کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا مولانا کی فکر کی انقلابیت آج بھی جو مذہبی تنظمیں ہیں اُن کی جدوجہد میں موجود ہے، یا پس منظر میں چلی گئی ہے؟
پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد:فکر اور اس کی عملی شکل یہ دونوں ملے ہوئے ہیں، لیکن ضروری نہیں ہے کہ ان میں ہمیشہ یکسانیت پائی جائے۔ بعض مفکرین جیسے علامہ اقبال کی فکر بڑی اعلیٰ ہے، بڑی گہری ہے، بہت مستند ہے۔ لیکن کیاعلامہ اقبال کوئی تحریک پیدا کرسکے؟ کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس بنا پر وہ ناکام ہوگئے؟ مولانا مودودی نے فکر بھی پیش کی، ایک تحریک بھی پیدا کی، اور اس تحریک کو ایک عملی شکل دی۔ گویا کہ وہ ایک مفکر بھی ہیں اور ایک منتظم بھی ہیں جنہوں نے افراد کے مزاج اور ضروریات کے لحاظ سے ایک اجتماعیت پیدا کی۔ یہ دو بالکل الگ چیزیں ہیں۔ ہر قائد ایسا نہیں ہوسکتا۔ جن لوگوں کو انہوں نے متاثر کیا ہو، ضروری نہیں ہے کہ علمی لحاظ سے انہیں وہ مقام حاصل ہو، نہ یہ ضروری ہے کہ ہر ایک ایسا منتظم اعلیٰ ہو کہ وہ چھوٹے بڑے کو ساتھ لے کر چلنے کا قائل ہو۔ اسی لیے کسی بھی تحریک میںان چیزوں کا پیدا ہونا ایک فکری عمل ہے، اور اگر اس تحریک میں جو انہوں نے برپا کی آپ یہ دیکھتے ہیں کہ اس کی قیادت میں علمی کمی، جذباتیت یا بعض اوقات عدم توازن پایا جاتا ہے تو یہ ایک قدرتی عمل ہے، آپ ہر ایک کو ایک سانچے میں نہیں ڈھال سکتے، لیکن آپ یہ لازماً کرسکتے ہیں کہ جو بھی اہداف ہیں وہ آپ کی نظر میں رہیں، اور ہدف ہمیشہ سے یہی رہا ہے تحریک اسلامی کا کہ ایسے افراد پیدا کرے جن میں فکر بھی پاکیزہ ہو، سیرت بھی پاکیزہ ہو، اور جو معاشرے میں تبدیلی لانے والے بن سکیں۔ یہ تین پہلو ایسے ہیں جو مولانا مودودی نے اپنی تحریر اور زندگی سے پیش کیے، اور یہی میرے نزدیک ان کی تحریک کی خصوصیت کا پہلو ہے۔
فرائیڈے اسپیشل:ایک خیال یہ ہے کہ تبدیلی کے لیے انتخابی سیاست کے راستے پر مولانا اپنے آخری دنوں میں مایوس تھے وہ شاید کچھ عرصے اور حیات رہتے تو اس طریقہ تبدیلی سے رجوع کرلیتے۔؟آپ اس خیال کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟
پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد: میرا خیال ہے کہ مولانا مودودی نے بہت سوچ بچار کے بعد وہ مؤقف اختیار کیا تھا جس پر وہ آخر تک قائم رہے، انہوں نے بہت تحقیق سے سے فاشزم، کمیونزم اور سرمایہ داری کا مطالعہ کیا تھا، جس کی واضح مثال ان کی ’’تنقیحات‘‘ اور ’’سود‘‘ سمیت وہ تمام تحریرات ہیں جو انہوں نے اپنے پیچھے چھوڑی ہیں۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ تبدیلی اگر آئے گی تو وہ دستوری ذرائع ہی سے آئے گی،جس کا مطلب یہ نہیںہے کہ برطانوی پارلیمانی نظام یا امریکی صدراتی نظام ہی مسائل کا حل ہے۔دستوری ذرائع کا مطلب یہ ہے کہ توڑ پھوڑ کی سے تبدیلی نہیں آسکتی۔تبدیلی کے لیے طویل عرصہ تطہیر افکار اور تعمیر سیرت کی ضرورت ہے۔ تبدیلی ایک فطری عمل ہے، جب بھی افرادکار اس قابل ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ امامت، امارت اور قیادت سونپ دے، وہ اس میں تاخیر نہیں کرے گا۔تعمیری تبدیلی مشروط ہے ان انسانوں کی جماعت سے جو قرآن کی چلتی پھرتی تصویر ہوں۔رہا یہ معاملہ کہ جہادی طریقہ اسلامی نہیں ہے تو مولانا نے اس وقت جب پوری امت مسلمہ معذرت پسند رویہ کے ساتھ جہاد پر بات کرنے سے گریز کر رہی تھی کھل کر علمی اور قرآنی دلائل سے یہ بات ثابت کی کہ جہاد اسلام کا رکن ہے اور قیامت تک رہے گا۔ہاں جہاد کا مطلب نہ خون خرابہ ہے نہ خود کش حملے بلکہ وہ منظم و مرتب اور ذمہ دارانہ جدوجہد جس میں جو کچھ انسان کے اختیار میں ہے اسے لگا دیا جائے۔ گویا تبدیلی دستوری اور پرامن ذرائع سے ہونی چاہیے، جو اسی وقت ممکن ہے جب افراد کی تربیت فکری اور عملی تطہیرکی کی شکل میں ہواور وہ تبدیلی کا ذریعہ بنے۔یہ بات پیش نظر رہے کے مولانا قوت کے استعمال کو مکمل رد نہیں کرتے۔اس کی واضح مثال ان کی وہ علمی کاوش ہے جسے ’’الجہاد فی الاسلام‘‘کا عنوان دیا گیا ہے۔ وہ جہاد کے موضوع پر بغیر کسی معذرت کے دوٹوک بات کرتے ہیں۔ یہ بات ہر ایک جانتا ہے کہ جہاد پر مولانا کی اس تحریر کے محرک مولانا محمد علی جوہر تھے اور جہاد کے موضوع پر مولانا کے یہ مضامین توازن و اعتدال کی بہترین مثال پیش کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں جہاد ایک اصلاحی عمل ہے۔ وہ یہ نہیں کہتے کہ جہاد ایک خونریز عمل ہے۔ اور اصلاحی عمل کا مطلب یہ ہے کہ آپ جس حد تک ممکن ہوگا ایک طبیب کی طرح سے حالات کی اصلاح کریں گے۔ لیکن اگر کہیں پر جراحت کی ضرورت ہے تو اس بناء پر کہ جراحت ایک نازک عمل ہے کیاآپ مریض کو مرنے دیں گے؟ لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہوا کہ آپ جراحت کا نشتر لے کر ہر ایک کو اس سے کریدتے پھریں۔ گویا کہ ان کا جو مائنڈ سیٹ ہے وہ یہ کہ آپ دستوری ذرائع سے، وہ ذرائع جو پبلک ہیں، جو صبر آزما ہیں، جو طویل ہیں، جن کے لیے ضروری ہے کہ انبیائے کرام کے طریقے کی پیروی کرتے ہوئے آپ نرم گفتاری کے ساتھ، بھلائی کے ساتھ ایک چیز کو لوگوں کے دلوں میں بٹھائیں، ان میں تبدیلی پیدا ہو، اس تبدیلی کے اثرات ظاہر ہوں ان کے طرزِعمل سے، ان کے معاملات وہ ہوں جو دوسروں کے لیے مثال ہوں، ایک مخالف بھی یہ کہے کہ مجھے اگر کسی رفاہی کام میں پیسہ لگانا ہے تو چاہے میں ووٹ ان کو دوں نہ دوں لیکن یہی لوگ امانت دار اور قابلِ اعتماد ہیں۔ ان کے معاملات درست ہیں۔اس لیے اللہ کے نام پر جو کچھ خرچ کرنا ہے تو وہ ان کے ذریعے خرچ ہو۔ یہ وہ امیج ہے جو اُسی وقت پیدا ہوسکتا ہے جب آپ ایک طویل عمل کے ذریعے افراد کی تطہیرِ فکر کرتے ہوئے، تعمیرِ سیرت کرتے ہوئے انہیں بطور ایک نمونے کے پیش کریں کہ یہ وہ عام شہری ہیں جن کے ذریعے مثالی معاشرہ وجود میں آسکتا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: مولانا نے بھی اس نظام کو مختلف جگہوں پر گلا سڑا نظام کہا، زہر کے پیالوں سے تشبیہ دی، اس کی کیا وجہ تھی؟
پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد:ان تمام چیزوں کا جب میں تجزیہ کرتا ہوں تو صرف دو الفاظ ان تمام چیزوں کا حل ہیں، ایک ہے تبدیلیٔ اقتدار اور ایک ہے تبدیلیٔ نظام۔ مولانا قائل ہیں تبدیلیٔ نظام کے جبکہ تبدیلیٔ اقتدار مسئلے کا حل نہیں ہوتی لیکن حل معلوم ہوتی ہے۔ حزب التحریر نے یہی سوچا کہ پہلے تبدیلی اقتدار ہواور جب اقتدار ہاتھ میں آ جائے تو تبدیلی کا عمل ہوگا اور پھر پہاڑی کی چوٹی سے نور بہتا ہوا آجائے گا نیچے تک، مولانا اس کے قائل نہیں ہیں، مولانا یہ سمجھتے ہیں کہ تبدیلیٔ نظام ہونا چاہیے۔ نظام کیسے بدلے گا؟ توڑ پھوڑ سے؟ خون خرابے سے؟ جنگ و جدال سے؟ نہیں! وہ نظام بدلے گا اس طریقے سے جس نظام میں آپ افراد کو تیار کرسکیں۔ مولانا مودودی اور علامہ اسد کا مشترکہ موقف اگر آپ سمجھنا چاہیں تو دونوں کو پڑھیے تو آپ کو یہ معلوم ہوگا کہ دونوں اس بات کے قائل تھے کہ پاکستان کی تحریک کے اندر جو بڑی کمی رہی وہ یہ تھی کہ سرکردہ افراد وہ تھے جو نواب، جاگیردار، انگریز کی طرف سے اعزاز یافتہ بیوروکریٹس، جن کو یہ بات معلوم تھی کہ جمعہ کی نماز پڑھنا بہت کافی ہے اسلام کے قیام کے لیے اور یہ بات علامہ اسد نے اپنی تحریرات میں کھل کر بیان کی ہے اور اس کا ذکر مولانا مودودی کی تحریروں میں بھی ملتاہے، کیا محض ملک حاصل کرنا ہے یا وہ نظام جس کے ذریعے اس ملک میں وہ ادارے ہوں جن میں اسلامی اصول کارفرما ہوں اور یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب آپ کے پاس ایسے معیشت کے ماہر، دفاع کے ماہر، سائنس کے ماہرین، ادب و ثقافت کے ماہرین ہوں جن کا نقطۂ نظر اسلامی ہو، اس کا نام ہے تبدیلیٔ نظام۔ تبدیلیٔ نظام کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ حکومت پر قابض ہوگئے، آپ نے جھنڈا لگا لیا اسلام کا اور جو کچھ ہورہا ہے وہ ہوتا رہے۔ یہ بنیادی فرق اگر سمجھ لیا جائے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ مولانا مودودی تبدیلیٔ نظام کے داعی ہیں، تبدیلیِ اقتدار کے قائل نہیں ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: پاکستان7 194ء میں معرضِ و جود میں آیا اور1971ء میں دولخت ہوگیا۔ آخر 24سال میں ایسا کیا ہوا کہ ہمارا مشرقی بازو ہم سے الگ ہوگیا ؟
پروفیسرڈاکٹر انیس احمد : دیکھیے! پاکستان نہیں ٹوٹا بلکہ وہ افراد جو پاکستان کے قائل نہیں تھے وہ پاکستان کے جسم کے ایک حصے کو یک کھلی حکمت عملی کے ذریعہ کاٹنے میں کامیاب ہوئے۔ یہ وہ افراد تھے جو روزِ اوّل سے لسانیت، صوبائیت کے علَم بردار تھے، جن کی نگاہ میں پاکستانیت محض ایک تبدیلیٔ نام تھی اور انہوں نے یہ چاہا کہ وہ بنگال کی زبان کی تحریک کو، اور دس فیصدہندوآبادی کے90فیصد مسلمان آبادی کے ہونے کے باوجود عدم توازن پیدا کر کے ایک تبدیلی وہاں پر لے آئیں۔ اگر وہ افراد جو اس کے محرک تھے اور وہ جن کے ہاتھوں یہ کام ہوا، تصورِِ پاکستان کے قائل ہوتے تو یہ بات کبھی نہ ہوتی۔ میں یہ وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اپنی تمام تر خرابیوں کے باوجود شیخ مجیب الرحمٰن نے شاید خود بھی نہ سوچا ہو کہ وہ الگ ہوجائیں گے۔ جوبھی مذاکرات ہورہے تھے وہ تھے بارگیننگ آف پاور کے، لیکن جب ایک شخص کو آپ دیوار سے لگادیں اور کہیں کہ ’’تم کچھ نہیں، سب کچھ ہم ہیں، اِدھر ہم اُدھر تم‘‘ تو وہ مجبور ہوگیا، اورجب آپ نے کہا کہ ’’اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی جو اُس طرف رخ کرے گا‘‘ یہ سیاست کے لیے بہت ہی نازیبا کلمات ہیں، کیونکہ سیاست کا مطلب ہوتا ہے کہ دروازے کھلے رہیں بند نہ ہوںیہ ہمارا اپنا ایک سیاسی گناہ تھا جس کی بنا پر ملک دو لخت ہوا۔ اس کا تعلق نظریۂ پاکستان کے ساتھ نہیں ہے۔ نظریۂ پاکستان تو آج بھی برقرار ہے، آج بھی اتنا ہی زندہ ہے جتنا پہلے تھا، اور جو کچھ آج مودی ہندوستان میںکر رہا ہے اس نے ثابت کردیا کہ نظریہ پاکستان ہی درست تھا۔ یہ جو تصور تھا کہ ہندو اور مسلمان ساتھ رہ سکتے ہیں وہ ختم ہو چکا ہے۔ چار مہینے سے جو ظلم و ستم کشمیر میں ہورہا ہے وہ اپنی جگہ، لیکن جو جو ذلت آمیز رویہ ہندوستان میں سات دہائیوں سے مسلمانوں کے سا تھ ہندوستان کا رہا ہے، وہ سب کے سامنے ہے۔ اگر آج پاکستان نہ بنتا اور آپ ایک قوم ہوتے تو کیا آپ آج اپنا نام باقی رکھ سکتے تھے؟ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ وہاں کے نظامِ تعلیم نے، وہاں کے ماحول نے اُن گھرانوں کو جو اپنے آپ کو بہت مسلمان گھرانا کہتے تھے، یہ کہنے پر آمادہ کردیا کہ ہم تو اصل میں ہندی ہیں، اسلام ہمارا ذاتی مذہب ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو ان کا مقصود تھا، اور آج بھی ہے۔اوراسی کے خلاف علامہ اقبال،قائداعظم، مولانا مودودی، علامہ اسد نے جہاد کیا، اور یہ چیز ان حالیہ واقعات سے ثابت ہوجاتی ہے کہ نظریۂ پاکستان درست تھا اور آج بھی اتنا ہی زندہ ہے جتنا پہلے تھا، کیونکہ اس کی بنیاد یہی تھی کہ ہماری قومیت، ہماری نسل، ہماری نسبت، پہچان اور شخصیت صرف اسلام ہے۔ ہم رنگ و نسل، زبان اور کسی اور عصبیت کے بندے نہیں ہیں، ہم صرف اللہ کے بندے ہیں۔ اس بنیاد پرہم نے ایک ملک کو حاصل کیا اور قائم کیا اور اسی چیز کو آج انڈیا میں ثابت کیا جارہا ہے کہ تم جو مسلمان اپنے آپ کو کہتے ہو یہ تمہاری جگہ نہیں ہے، یہ تو ہندوئوں کی جگہ ہے، ہندوتوا ہے، مسلمانوں کا کام یہاں پرکیا ہے؟ تم کیسے کہتے ہو کہ ہمارے آبا و اجداد دو سو سال سے یہاں پر تھے؟ اور ہم ہندوستانی ہیں، ہم نہیں مانتے اس بات کو۔ یہ کس بات کا ثبوت ہے! یعنی پوری تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ صرف سقوطِ ڈھاکہ ہی نہیں بلکہ جو بھی حالات اس خطے میں رہے ہیں وہ یہ ثابت کرتے ہیں کہ یہ نظریہ آج بھی زندہ ہے اور درست تھا۔ اس کی موت کبھی واقع نہیں ہوئی۔ یہ محض ہمارا واہمہ ہے، اور خاص طور پر جو افراد خود کو لبرل، سیکولر اور روشن خیال قرار دیتے ہیں یہ ان کا پھیلایا ہوا واہمہ ہے جس کو ہمارے ابلاغ عامہ نے، صحافت میں اور برقی ابلاغ دونوں میں اتنا دوہرایا ہے کہ عوام کا ذہن دھندلا گیا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: لیکن کیا ملک ٹوٹنے کی ذمہ داری صرف بھٹو کے چند جملوں پرہے؟
پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد: میں نے قطعاً یہ نہیں کہا، میں نے کہا کہ وہ افراد جو نظریۂ پاکستان سے وابستگی اور وفاداری نہیں رکھتے تھے، یہ بیوروکریٹس بھی تھے، فوج میں بھی تھے، سیاست میں بھی تھے، تاجر بھی تھے۔ آپ بتائیے کہ قائداعظم کے ساتھ جو لوگ شامل ہوئے کیا وہ سرکاری اعزاز یافتہ نہیں تھے؟ہمارے پہلے وزیر خارجہ ’’سر‘‘کا خطاب رکھتے تھے۔ یہ لوگ اسلام کے وفادارتھے یا تاجِ برطانیہ کے وفادارتھے؟ یہ کس کے خلیفہ ہوسکتے تھے؟ جو بہت سے افراد ہمارے یہاں برسرِ اقتدار آئے آپ کو علم ہے کہ جب چودھری رحمت علی نے پاکستان کا نام تجویز کیاتو کس نے اس کی مخالفت کی؟ ظفر اللہ خاں نے کہا یہ بالکل ناقابلِ عمل تصور ہے، بعد میں جو جو حالات پیش آئے، جو بھٹو نے کیا وہ اسی ذہنیت کا تسلسل تھا جو ہمارے پورے نظام پر قابض ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا اور 1973ء میں پاکستان کو اسلامی آئین بھی مل گیا۔ ہمارا پورا نظامِ حکومت اور نظامِ ریاست خلافِ اسلام تصورات پر کھڑا ہوا ہے۔ ہماری معیشت غیر اسلامی ہے، ہمارا عدالتی نظام اسلامی نہیں ہے، ہمارے تعلیمی نظام میں اسلام کہیں موجود نہیں ہے، ہمارا پولیس کا بندوبست ابھی تک برٹش لا کوfollow کررہا ہے۔ زندگی کے کسی شعبے میں ہم نے اسلام کے نام پر پیش رفت نہیں کی، اس کا کیا سبب ہے؟
پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد: وجوہات تو بنیادی طور پر تین ہیں، ایک تو یہ کہ ہمارا نظامِ تعلیم وہی رہا جو انگریز نے چھوڑا۔ اس کے نتیجے میں زندگی دو خانوں میں بٹ جاتی ہے، ایک خانہ ہے مذہب کا، ایک خانہ ہے دنیا کا اور ان دونوں کے درمیان توازن کو ہم کامیاب زندگی سمجھتے رہے ہیں۔ اسلام دعوت دیتا ہے توحید کی، گویا روزِ اوّل سے ہم توحید کے منافی تعلیم دیں گے تو کیا توحیدی امت پیدا ہوجائے گی؟ نہیں ہوسکتی۔ یوں سمجھیے روزِ اوّل سے جو بیوروکریسی یا نوکرشاہی ہمارے ورثے میں آئی اس میں ایک بڑی تعداد اُن افراد کی تھی جو اس ملک کے شہری بھی نہیں تھے۔ 1964ء تک ساٹھ سے اوپر افراد وہ تھے جو برطانیہ کی شہریت رکھتے ہوئے ہمارے اہلکار تھے۔ ان میں سے بہت سے غیر مسلم تھے۔ ریکارڈ تلاش کریں تو جوائنٹ سیکریٹری اور سیکریٹری تک ایسے لوگ ملیں گے جو غیر مسلم بھی تھے اور ان کا اور ہمارا مفاد یکساں نہیں تھا۔ وہ کیا کرتے یہاں پر؟ کس قسم کا نظام نافذ کرتے؟ کس بات کو حمایت کرتے؟ یہی شکل ہماری فوج کی تھی۔ فوج کی تربیت کہاں پر ہوئی تھی؟ ڈیرہ دون میںانگریز کے قائم کردہ ادارے میں کس نے کی تھی؟ انگریز نے کی تھی،آج بھی جاکر دیکھ لیں، آپ کے پاس جو اسکول اُس زمانے میں سرحد اور پنجاب میں قائم کیے گئے تھے، ان کے اندرافسران کے فوٹو لگے ہوئے ہیں ان کمانڈنٹس کے جنہوں نے اسے قائم کیا۔ یہ سارے افراد وہ تھے جوبرطانوی مفاد کے امین تھے۔ اس کا نتیجہ کیا ہوتا؟ پھر یہ بھی ہے کہ ہم نے اسلام کوبراہ راست قرآن و سنت سے کبھی سمجھنا نہیں چاہا۔ ہمارے علمائے کرام نے بھی شروع سے ہمیں یہ بات بتائی کہ چند عبادات کا اہتمام نجات کے لیے کافی ہے، اور باقی کام کرتے رہو دنیا کے لیے۔ کبھی یہ نہیں کہا کہ آپ اپنے پورے نظام کو اسلام کے مطابق کیجیے، بلکہ یہ کہا کہ جو بھی آپ کاروبار کررہے ہیں کرتے رہیں، اس میں سے خیرات نکال دیں اللہ کے لیے، سب کچھ پاک صاف ہوجائے گا۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر میں کالا کاروبار کررہا ہوں اور اس میں سے زکوٰۃ ادا کررہا ہوں توکیا وہ سب سفید ہوجائے گا؟ ہم دین اور دنیا کی تفریق کے تصور پر شدت سے قائم رہے۔ یہ تفریق محض تعلیم میں نہیں بلکہ ان افراد میں بھی آج تک برقرار ہے جو دین کا علَم بھی رکھتے ہیں۔ مجھے بتائیے دینی مدارس خود کو دینی کیوں کہتے ہیں؟ اس لیے کہ وہاں پر قرآن کا حفظ، قرآن کی تفسیر، حدیث، فقہ، سیرت پاک کے بارے میںتعلیم دی جاتی ہے لیکن اگر کوئی مدرسہ میں پڑھنے والا طالب علم ایک سیکولر اسکول میں یا سرکاری اسکول میں چلا جاتا ہے تو کیا کہا جاتا ہے؟ یہ تو دین کو چھوڑ کر دوسرا علم حاصل کررہا ہے۔ یہ تقسیم ہر جگہ پائی جاتی ہے۔ اس لیے یہ کہنا نامناسب ہوگا کہ یہ محض سیکولر افراد کا کارنامہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس میں غیر شعوری طور پر ہمارا دینی طبقہ بھی شامل رہا ہے۔
مجھے بتائیے اگر آپ کسی صاحب سے ملتے ہیں جن کی وضع قطع بڑی مناسب ہے، وہ شیروانی پہنے ہیں، چوغہ پہنے ہیں، جناح کیپ یا عمامہ پہنے ہوئے ہیں، ہاتھ میں تسبیح ہے اور آپ روز دیکھتے ہیں ان کو مسجد میں نماز پڑھتے ہوئے، آپ کیا کہتے ہیں؟ بہت دیندار آدمی ہے۔ کیا آپ نے معلوم کیا کہ ان کا یہ لباس کہاں سے آیا ہے؟ ان کے گھر کے اندر جو کچن ہے وہ کہاں سے چل رہا ہے؟ ہم نے دین کو ظواہر میں تبدیل کردیا ہے، اور دین کا جو اصل مقصد تھا تبدیلیٔ کردار، تقویٰ اس کو بھی ہم نے منسوب کردیا چند مظاہر سے۔ گویا ہم نے اصلاح کو سمجھنا نہیں چاہا۔ اگر اسلام کو سمجھنا چاہتے تو قرآن ہم کو یہ بتاتا کہ دین تو پورے مجموعۂ زندگی کا نام ہے، وہ تو دین کے اندر مکمل داخل ہونے کا نام ہے۔ دین جز وقتی نہیں ہے کہ جمعہ کو مسلمان ہوجائو اور پیر کے دن سلام کرو ڈالرکو، اور منگل کے دن سلام کرو کسی عسکری قوت کو، اور بدھ کے دن سلام کرو کسی ثقافتی قوت کو… اس کا نام تو دین نہیں ہے۔ لیکن ہم نے کہا کہ نہیں ہماری ثقافت انڈیا سے آئے گی یا امریکہ سے آئے گی، ہمارا دفاع وہاں سے آئے گا، ہماری معیشت وہاں سے آئے گی، ہم نماز پڑھیں گے ضرور خشوع و خضوع کے ساتھ۔ یہ دین کو نہ سمجھنے کے باعث ہے۔ اگر دین کو سمجھتے اور نافذ کرتے تو حالات مختلف ہوتے۔
فرائیڈے اسپیشل: پوری مسلم دنیا کا اس وقت یہ حال ہے کہ ہمارا جو ظاہر ہے وہ تو زیادہ سے زیادہ اسلامی ہوتا چلا جارہا ہے، داڑھی رکھنے والوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے، پردہ رکھنے والی خواتین میں بھی اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ ہمارا باطن سیکولر ہوتا جارہا ہے، اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ ہماری خواہشیں، ہماری آرزوئیں، ہماری تمنائیں، ہمارے سارے خواب مغرب سے امپورٹ ہورہے ہیں۔ اس دورنگی کا کیا سبب ہے اور اس سے ہم کیسے نکل سکتے ہیں؟
پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد:محض مادّیت نہیں بلکہ اس کی وجہ وہ ذہنی غلامی ہے جس سے ہم آج تک آزاد نہیں ہوسکے۔ مجھے بتائیے کہ جب آپ ایک شخص کو اسلام پر خطاب کرتے ہوئے دیکھتے ہیں بڑی عمدہ انگریزی کے اندر، تو آپ کیا کہتے ہیں؟ بہت بڑا اسکالر ہے۔ اگر وہی بات ایک شخص اردو میں کہہ رہا ہے تو اسے ایک مسجد کے خطبہ سے تعبیر کرتے ہیں؟ یہ ہماری ذہنی غلامی ہے، چاہے اس کو ہم محسوس نہ کریں۔
فرائیڈے اسپیشل: ہمارے معاشرے کے نوّے پچانوے فیصد دانشوروں کو دیکھیں، اسکالرز کو دیکھیں، علماء کو دیکھیں… سب میں یہ دو رنگی نظر آتی ہے؟
پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد:یہ محض دو رنگی نہیں ہے میں یہ کہہ رہا ہوں کہ ذہنی طور پر اس چیز کو افضل سمجھنا جس پر یورپ اور امریکہ کی چھاپ پائی جاتی ہے، یہ ذہنی غلامی ہے۔ اگر ایک شخص بغیر انگریزی الفاظ استعمال کیے آدھے گھنٹے اردو میں بات کرتا ہے تو آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ عصری مسائل اور مغربی فکر سے ناواقف ہے، اس کو نہیں پتا کہ دنیا میں کیا ہورہا ہے۔ اب اگر وہی شخص پانچ الفاظ انگریزی کے شامل کرلے گفتگو میں، توہم کہتے ہیں کہ بھئی بڑا انٹی لیکچوئل ہے، دانشور ہے۔ یہ کس بات کی علامت ہے؟
فرائیڈے اسپیشل: کہنے والے کہتے ہیں کہ ہمارے زوال کا سبب قول و فعل کا تضاد ہے اور اس میں ہمارے معاشرے کے تمام طبقے بشمول علماء، دانشور سب ملوث ہیں اور ہمارے یہاں رول ماڈل کا کال پڑگیا ہے؟
باتیںکرنے سے تو زندگی نہیں بدلتی، اقبال نے کہا ہے
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں ہے نہ نوری ہے نہ ناری
پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد:اقبال جو بات کہہ رہے ہیں اور قرآن پاک کی ترجمانی ہے قرآن کہتا ہے کہ رب کریم کو یہ بات سخت ناپسند ہے کہ وہ کہا جائے جو کیا نا جائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہم نے دو عملی کے رویّے کو اختیار کیا ہوا ہے کہ ہمارا خود عمل یکساں نہیں ہے جو جان جوکھوں کا کام ہے اور جس کی بنا پر مولانا مودودی کی تحریک پاپولر نہیں بن سکی اور شاید نہیں بن سکے گی۔ کیونکہ ہر فرد اس بات پر آمادہ نہیں ہوسکتا کہ وہ ہر وہ چیز اختیار کرے جو دین چاہتا ہے۔ جو بنیادی شرط انہوں نے اپنے دستور میں رکھی تھی وہ یہی تھی کہ قول و فعل میں تضاد نہ ہو۔ جوایک شخص کہتا ہے اس پر عمل بھی کرے اور اسی بنا پر وہ ایک محدود جماعت کو اپنے ساتھ پیدا کرسکے، زیادہ افراد پیدا نہیں کرسکے۔ لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ عددی طور پر کم ہونا قوت کم ہونے کی علامت نہیں ہے۔ بلکہ عددی طور پر کم ہونا قوت کی علامت ہوسکتا ہے اور رہا ہے۔ دنیا میں عوامی انقلاب کثرت تعداد سے کبھی نہیں آئے۔ ہمیشہ ایک چھوٹی سی تعداد نے انقلابات برپا کیے ہیں خواہ وہ فرانس کا ہو، روس کا ہو،کیوبا کا ہو، کہیں کا بھی ہو۔ تاریخ اٹھاکر دیکھیے آپ کو پتا لگے گا کہ یہ عوامی انقلابات نہیں تھے اور اگر مولانا مودودی نے یہ رویہ اختیار کیا کہ وہ ایک جماعت ایسی پیدا کرسکیں چاہے محدود ہو لیکن ان کا کردار، ان کا طرزِعمل، ان کی گفتگو اور عمل ایک ہو تو یہی وہ راستہ ہے جو قرآن و سیرت نے ہمیں سکھایا ہے اور یہی ہمارا المیہ ہے۔ اگر ہم یہ چیز کرسکیں اور ہم کرسکتے ہیں کہ ہماری نئی نسل کا قول و عمل یکساں ہو تو ہم سے بہتر کوئی قوم نہیں ہوسکتی جو آگے بڑھے۔
فرائیڈے اسپیشل: یعنی تبدیلی کے لیے پورے معاشرے کو تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اگر جو لوگ اس کو لے کر اٹھے ہیں یا جو یہ کام کررہا ہے وہ ایک استاد بھی ہوسکتا ہے، ایک جماعت بھی ہوسکتی ہے۔ وہ جو بات کہہ رہا ہو اس میں اخلاص موجود ہو اور اس کے عمل سے بھی نظر آتا ہو؟ تو اس کاکیا سبب ہے۔ جیسے یونیورسٹی کی مثال لے لیں، استادوں کا زوال بھی ہمارے سامنے موجود ہے، علماء کا بھی موجود ہے، دانشوروں کا بھی موجود ہے لیکن جب یہی فیکٹری ہے جو نسل کو تیار کرتی ہے وہی متاثر ہوگئی ہے، یا پھر یہ کہ آج کے باپ کا کردار بھی ویسا ہی ہے، ظاہر ہے وہ بھی معاشرے کا ایک فرد ہے اور بنیادی چیزیں ہی تباہ ہوگئی ہیں تو آپ کیا سمجھتے ہیں ان کے درست ہوئے بغیر بھی کوئی اور راستہ ہے؟
پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد: جی ہاں، تبدیلی کے آغاز کے لیے کثرت تعداد شرط نہیں ہے، قوت کردار شرط ہے۔ ہر خرابی کی اصلاح ہو سکتی ہے اور ہر مشکل دور کی جاسکتی ہے اور یہ اُس وقت ہوسکتا ہے جب آپ اپنے معاشرے سے تین بنیادی باتوں کو دور کرسکیں۔ ایک ہے انفرادیت، دوسری ہے مادیت، اور تیسری ہے اخلاقی اضافیت۔
پہلی کا تعلق اس چیز سے ہے کہ میں چاہے باپ ہوں یا ماں ہوں، یا بیٹا یا بھائی یا بہن میں ہی سب کچھ ہوں، یہ جسم میرا ہے،میرے مطالبات اور میری اصل بنیادی چیز ہیں۔ میرے مطالبات مانے جائیں، میرا حصہ مجھے ملے۔ یہ انفرادیت ہے جو ہمارے معاشرے میں نفوذ کرگئی ہے، اور یہ ضد ہے اسلام کی اجتماعیت کی۔ دوسری چیز یہ ہے کہ ہم نے محض مادّی منفعت کو بنیاد بنا لیا ہے۔ آپ نے استاد کی مثال دی۔ اگر وہ ایک کالج یا یونیورسٹی میں پڑھا رہا ہے اور اس سے امید کی جاتی ہے کہ وہ ایک گھنٹہ جو ساٹھ منٹ کا ہوگا، کلاس میں صرف کرے گا،جب کہ عملاً یہ ہوتا ہے کہ وہ دس منٹ لیٹ آیا اور دس منٹ پہلے کلاس سے نکل گیا اس بنا پر کہ اسے جاکر کہیں اور پڑھانا ہے، تو وہ یہ کیوں کررہا ہے؟ پیسے کے حصول کے لیے، کہ اس کو تنخواہ دو جگہ سے مل سکے۔ اس طرح جو یہ پیغام دے رہا ہے، اس کے طلبہ بھی آگے چل کرایسا ہی کریں گے۔ یہ مادّیت ہے جو ہر سطح پر ہے، یہ محض ایک استاد کا معاملہ نہیں ہے۔ اور ایسے ہی اخلاقی اضافیت کا مطلب یہ ہے کہ ایک اخلاق اپنے لیے ہے اور ایک دوسرے کے لیے۔ ہم نے اخلاق کے دو معیارات کو دین و دنیا کی تفریق کی طرح جزو ایمان بنا لیا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: استاد جو رویہ اختیار کر رہا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ معاشرتی جبراور ہمارے نظام کے جبر کا شکار ہے۔ ظاہر ہے جہاں وہ ملازمت کررہا ہے وہاں سے اس کے اخراجات پورے نہیں ہورہے اور وہ اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کوشش کررہا ہے۔ اس پر مادّیت کا لیبل لگانا بھی تو انصاف نہیں ہوگا؟
پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد:جی ہاں لیکن اس کے عملاًدوسرے پہلو بھی ہیںمثلاً ایک شخص ضروریات پوری کرنے کے لیے دو ملازمتیں کرتا ہے۔ لیکن اگر ہزاروں خواہشیں ایسی پیدا ہو جائیںجن میں سے ہر ایک پر ہرایک شخص کا دم نکلنے لگے تو پھر وہ ضروریات کیسے پوری ہوں گی! ایک شخص جواجتماعیت پر یقین رکھتا ہے اپنے گھر کے اندر سات افراد کے ساتھ ایک ہانڈی سے اپنا پیٹ بھر سکتا ہے، جب وہ ایک ’’ـفرد‘‘بن جائے گا انفرادی حیثیت میں یا مادّیت کے تحت آجائے گا تو پھر ایک ہانڈی کام نہیں کرسکتی، پھر توگھر کے ہر فرد کوایک ایک پیزا چاہیے ہو گا۔ ہر ایک کے پیزا کے لیے ضرورت ہوگی اس ہانڈی کے مقابلے میں دس گنا زیادہ رقم ادا کرنے کی، وہ رقم کہاں سے آئے گی؟ وہ آئے گی دو تین کام کرنے سے۔ یہ ایک لامتناہی سلسلہ ہے، یہ ایک گھن چکر ہے۔ ایک گھر یہ سمجھتا ہے کہ ایک تنخواہ سے کام نہیں ہوسکتا۔ کس بنا پر؟ اس بنا پر کہ اس کو روز نیا کپڑا استعمال کرنا ہے آفس میں قابلِ قبول بننے کے لیے، اس کو ٹرانسپورٹ استعمال کرنی ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہ سارے کام اسی وقت ہوں گے جب دو تنخواہیں آئیں۔ گویا ہم نے اپنی ضروریات کو، اپنے مطالبات کو معروضی طور پر نہیں دیکھا، بلکہ جتنا چاہا بڑھنے دیا۔ جتنے مطالبات بڑھیں گے آپ اتنے ہی غریب ہوجائیں گے۔ تو یہ جو آغاز میں گزارش کی کہ انفرادیت، مادیت اور اخلاقی اضافیت یہ تین ایسے عوامل ہیں جن کا ہم شکار رہے ہیں اور اس وقت بھی ہیں، اور ان کا علاج ہوسکتا ہے۔ اور ان کا علاج ہے تعلیم کے ذریعے، ابلاغ عامہ کے ذریعے، ایسی مثالوں کے ذریعے کہ لوگ ان کی طرف متوجہ ہوں۔
مجھے بتائیے آپ کا تعلق ابلاغِ عامہ کے ساتھ ہے، کیا ہمارے ابلاغِ عامہ نے کبھی یہ غور کیا کہ ایک رکشہ والے کو وہ کہتے ہیں کہ وہ اجنبی گاہک سے دگنے پیسے لیتا ہے لیکن ایسے رکشہ والے بھی تو ہیں کہ اگر کوئی ان کے پاس اپنا پرس بھول گیا تو انہوں نے جاکر پہنچا دیا۔ کیاایسے افراد کو ابلاغ عامہ اجاگر کرتا ہے ؟ ان کو کبھی پروجیکٹ کیا گیا؟ ایک استاد کو ہم کہتے ہیں کہ دو تنخواہیں پیدا کرتا ہے، تو ایسے استاد بھی تو ہیں جو ایک جگہ کام کررہے ہیں اور محنت سے کررہے ہیں، کیا ان کو کسی نے تسلیم کیا؟ ان کے بارے میں کوئی بات ہوئی؟ کیا ہر باپ اور ماں وہی ہے جو خودغرض ہے؟ لیکن ہم نے جو تصور اختیار کیا ہوا ہے وہ سنسنی خیزیت، وہ ہے احساسیت کو ختم کرنا۔ اگر آپ ایک شخص کو صبح سے شام تک مار دھاڑ دکھاتے رہیں گے تو مار دھاڑ اسے معمول ہی نظر آئے گا، اُس کے لیے مار دھاڑ کوئی حیرت کی چیز نہیںہو گی۔ ہم نے ان چیزوں کے گھنائونے پن کو ختم کردیا جو کل تک گھنائونی تھیں۔ ان کی تکرار ہے ان کو گلیمرائز کرکے، ان کو بار بار پیش کرکے۔ تو مسئلہ محض ایک نہیں ہے۔ اور ان سب چیزوں کی اصلاح ہوسکتی ہے اُس وقت جب ابلاغ عامہ، تعلیم، ریاستی پالیسی، منبر و محراب ان سب کا ایک مطمح نظر ہو، اور وہ یہ ہو کہ دین کے جامع تصور کو سمجھتے ہوئے تبدیلی کی کوشش کریں۔
فرائیڈے اسپیشل: مسلمانوں کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جب مسلمانوں نے جہاں جہاں بھی بڑے کارنامے اور معرکے انجام دیے اس کی بنیاد یا تو اُن کی للہیت تھی یا اُن کی علمی فضیلت۔ لیکن اب کئی صدیاں گزر گئی ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلمان للہیت کے حوالے سے بھی تہی دامن ہوتے جارہے ہیں، علمی فضلیت بھی اُن کے پاس نظر نہیں آتی۔ آخر اس صورت حال کا سبب کیا ہے اور اس سے مسلمان کیسے نکل سکتے ہیں؟
پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد : میں سمجھتا ہوں کہ ہم آج بھی ان دونوں صفات کے لحاظ سے کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ ہمارے ملک کے اندر ہزارہا دینی مدارس ایسے ہیں جن کے ہاں کم از کم دو گرم کھانے فراہم کیے جاتے ہیں۔ یہ ہاتھ پھیلا کر کسی سے نہیں مانگتے۔ یہ پیسے آسمان سے آتے ہیں ان کے پاس؟ اگر ایک یونیورسٹی اپنا کانووکیشن کرنا چاہتی ہے تو اس کے لیے وہ بجٹ بناتی ہے اور بمشکل ایک چائے یا ایک کھانا دے کر سمجھتی ہے کہ بہت احسان کردیا، لیکن یہ جو تین سو پینسٹھ دن ان کے پاس وسائل آرہے ہیں کہاں سے آرہے ہیں؟ للہیت ہے ناں! کیا جو ان کو دے رہا ہے اس لیے دے رہا ہے کہ اس کا اشتہار آئے گا؟ اس کو ٹی وی پر چیک دیتے ہوئے دکھائیں گے؟ نہیں! میرے علم میں نہیں ہے۔ کسی ایک دینی مدرسے کے لیے جو رقم لوگ دیتے ہیں کبھی آپ نے دیکھا ہو ٹی وی یا کسی کیمرے نے اسے دکھایا ہو۔ یہ کیا ہے؟ للہیت ہی تو ہے، لیکن ہم ایسا کبھی سوچتے نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر آپ کا زاویۂ نگاہ درست ہے تو آپ کو للہت اور تقویٰ جگہ جگہ مل جائے گا، کمی نہیں ہے اس کی۔
مسئلہ یہ ہے کہ یہ للہیت اور تقویٰ اس مقام تک نہیں پہنچا جہاں پر وہ حالات کو تبدیل کرنے کے لیے ذریعہ بن جائے۔ ذریعہ بنے گا اُس وقت جب اس کے پاس اختیار ہو، قوتِ تنفیذ ہو۔ اس کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ جہاں تک بات رہی علمی برتری کی، میں سمجھتا ہوں کہ گزشتہ نصف صدی میں جتنا علمی کام مسلمانوں نے کیا جھے بتائیے جو کام ترکی زبان میں، حتیٰ کہ فارسی کے اندر کسی سائنس دان نے کیا ہے کیا ہمارے کسی علمی جریدے میں اس کی خبر آئی ہے؟ جو کام سوڈان میں ہوا ہے ہمیں اس بارے میں کوئی معلومات ہے؟ اگر کوئی پاکستانی کوئی کام کرلیتا ہے تو کیا ہم اسے قرار واقعی اہمیت دیتے ہیں؟۔ کام ہر جگہ ہوا ہے اور ہورہا ہے لیکن ہم جس چیز کو دیکھتے ہیں وہ مخصوص یورپی اور امریکی اداروں کی علمی درجہ بندی ہےQuality enhancement کے مطابق وہ کیا مقام رکھتا ہے۔لیکن کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ ہم نے کوشش کی ہو یہ معلوم کرنے کی کہ ترکی میں اسلام پر، معیشت پر، معاشرت پر جو کچھ طبع ہوا ہے گزشتہ دو سے پانچ سال میں ان مطبوعات کو کس حد تک لوگوں نے پڑھا ہے۔ آپ کو جان کر شاید حیرت ہو کہ ترکی اور ایران میں بالعموم جو چیز بھی مغربی جامعات سے طبع ہوتی ہے وہ چند مہینوں میں ترجمہ ہوکر مقامی زبان میں آجاتی ہے، جبکہ ہمارے ہاں جو چیز 1960ء میںطبع ہوئی ہے اسے آج تک ہم گھس رہے ہیں۔ آپ علم کی وسعت، نئے زاویے اور علم کے دروازے بند کردیں گے تو علم کیسے پھیلے گا؟ اس کے باوجود پاکستان میں کام ہوا ہے اور آپ ہی کے ملک سے معیشت پر لوگوں نے ایوارڈ حاصل کیے ہیں، اسلامی معیشت اور اسلامی فکر پر مولانا مودودی کے علاوہ دو پاکستانیوں کو فیصل ایوارڈ دیا گیا۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس میں کمی تو کہی جاسکتی ہے لیکن کام برابر ہوا ہے اور ہورہا ہے، اور امپیکٹ فیکٹر مضامین میں ہمارے بہت سے مسلم ممالک بہت آگے بڑھے ہیں، بہت اضافے ہوئے ہیں، لیکن مزید آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: ایک سادہ سا سوال ہے کہ مغرب کے عروج کی کیا وجہ ہے؟ اور کیا واقعی مغرب اور مغربی تہذیب زوال پذیر ہے؟ اور ہے تو زوال کا یہ سفر کچھ لمبا نہیں ہوگیا؟
پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد: مغرب کے عروج کا سبب وہی ہے جو کبھی ہمارا تھا، ہم نے محنت کی توجہ کے ساتھ، قربانی کے ساتھ، عالمی تحقیق کو وقت دیا، نتائج نکلے۔ فرق یہ تھا کہ ہم نے کام اس لیے کیے کہ اس کا مطالبہ ہمارے رب نے ہم سے کیا تھا، جبکہ مغرب نے یہ کام اس لیے کیا کہ اس میں اُس کے لیے منفعت تھی، مادّی فائدہ تھا۔ اہداف مختلف تھے لیکن کام ایک تھا۔ مجھے بتائیے کہ مغرب کی کون سی یونیورسٹی یا ادارہ ایسا ہوگا کہ جہاں پر ایک شخص جب داخل ہوتا ہے اور جب نکلتا ہے، اس پورے عرصے میں وہ اپنے کام میں مصروف رہتا ہے توجہ کے ساتھ؟ مقابلہ کیجیے جس جامعہ سے آپ نے پڑھا،یا جو آج کل کالج یا جامعات ہیں کیا وہاں پر ہر استاد یا طالب علم اس طرح داخل ہوتا ہے کہ جب وہ داخل ہورہا ہے تو یہ سمجھے کہ یہ مادرِ علمی ہی نہیں ہے بلکہ ایک مسجد ہے جہاں پر وہی اہتمام ہو جو ایک مسجد کا اہتمام ہوتا ہے۔ آپ مسجد میں جاکر فٹبال نہیں کھیلتے، مسجد میں جاکر آپ توجہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں، آخر وقت تک کرتے ہیں۔ تو کیا وہ یہ کررہا ہے؟ نہیں کرے گا تو نتائج کیا ہوں گے؟ گویا جو چیز ہم نے کی اور ہم کامیاب ہوئے اسی سے مغرب کامیاب ہوا۔ رہی بات زوال کی، تو اقبال نے تو بہت صاف یہ بات کہہ دی تھی کہ اس کی ظاہری چمک اور نمائش ہے جسے آپ دیکھ رہے ہیں، جبکہ اس کی اصل قوت تو ختم ہوچکی۔اقبال مغربی تہذیب کی اپنے ہاتھوں خود کشی کا تذکرہ کر چکے ہیں اور تمام سائینسی ترقی کے باوجود مغرب آج جس اخلاقی اور معاشرتی زوال کا شکار ہے یہ بات کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔ اقبال کے بعد قائد نے بھی کہا تھا اسٹیٹ بینک کے افتتاح کے موقع پر کہ یہ معیشت کینسر زدہ معیشت ہے جس کا کوئی علاج نہیں ہوسکتا۔ ان دونوں افراد کے کہنے کے بعد آپ نے دیکھا جو کرائسز 2008ء میں ہوئے، سو معاشی شہروں میں جلوس نکالے گئے یہ طالبان نہیں تھے بلکہ کاروبار سے وابستہ افراد تھے، اور انہوں نے کہا کہ Capitalism and Secularism has failed جس پر کتابیں لکھی گئیں بلکہ آج تک لکھی جارہی ہیں۔ مجھے بتائیے کہ ایک ایسا ملک جو طاقتور ہونے کے دعوے کرتا ہے اُس کے اندر اِس وقت اگر آپ گزشتہ ایک سال کا نیویارک ٹائمز اٹھا کر دیکھ لیں تو وہ کوف مین ہو یا دوسرے افراد ہوں، روزانہ جو بات لکھ رہا ہے وہ کیا ہے؟ کہ یہ زوال کی آخری حد ہے۔ یہ چیز تحریری طور پر بار بار آرہی ہے۔ فرید زکریا نے امریکہ کے زوال پر پوری کتاب لکھ دی۔ خاندان مکمل ٹوٹ چکا، معیشت گروی رکھ دی گئی، امریکی ریاست خود 16ٹریلین ڈالر کی مقروض ہے، ہم اس سے قرضہ مانگتے ہیں جو خود اپنے عوام کا مقروض ہے۔ ہماری تو ہر چیز ہی نرالی ہے، لیکن ہم مشاہدہ نہیں کرتے، مطالعہ نہیں کرتے۔ زوال تو ہورہا ہے اور ہے، جیسے اقبال نے کہا تھا، مولانا مودودی نے کہا تھا۔ انہوں نے یہ بات کہی تھی کہ وہ وقت آرہا ہے جب اشتراکیت ماسکو میں اور سرمایہ داری واشنگٹن میں کانپے گی، پریشان ہوگی۔ تو اشتراکیت کا جنازہ تودفن بھی ہو چکا اب دوسرا مریض اس راستے پر چل رہا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کے اعتبار سے دیکھا جائے تو گزشتہ دوسو سال میں ہمارے لیے سب سے اہم سوال یہ ہے کہ مغرب سے ہمارے تعلقات کی نوعیت کیا ہے؟ امت مسلمہ اس سلسلے میں کوئی بھی فیصلہ نہیں کرسکی۔ امتِ مسلمہ میں کئی گروہ پائے جاتے ہیں، ایک گروہ مغرب کو حق سمجھتا ہے اور اسی کے مطابق زندگی بسر کرنا چاہتا ہے۔ ایک طبقہ وہ ہے جو اسلام اور مغرب کا امتزاج بنانا چاہتا ہے۔ اور ایک بہت چھوٹا سا طبقہ جو مغرب کو اصولوں کی سطح پر،کلیات کی سطح پر دیکھتا ہے اور اپنی زندگی کے ہر پہلو کو اسلام سے ہم آہنگ کرنے پر اصرار کرتا ہے۔ آخر امتِ مسلمہ میں مغرب کے حوالے سے اتنا کنفیوژن کیوں موجود ہے؟
پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد:جس چیز کا نام اسلام ہے وہ ایک ہدایت ہے، دعوت ہے اور پیغام ہے، اور وہ تمام انسانوں کے لیے ہے۔ اس لیے مغرب ہو یا مشرق، ایک مسلمان کا زاویۂ نظر یہ ہونا چاہیے کہ اسے اپنے دین کے پیغام کو بھلے انداز سے پھیلانا اور پہنچانا ہے، اس کا تعلق ایک داعی اور مدعو کا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ تعلق دشمنی کا نہیں ہوسکتا، نفرت کا نہیں ہوسکتا بلکہ یہ ایک مسلسل مکالمے کا تعلق ہے۔ گویا اسلام یہ چاہتا ہے کہ اسلام کا ہر ماننے والا مشرق اور مغرب کے ساتھ ایک مکالمہ جاری رکھے جس میں وہ اپنی بات کو وضاحت کے ساتھ، آسانی کے ساتھ پیش کرتا رہے۔ اور اگر اس میں کامیابی ہوجاتی ہے تو بڑی خوشی کی بات ہے۔ نہیں ہوتی ہے جب بھی اسے مطمئن ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ ہمارا تصور یہ نہیں ہے کہ ہر وہ چیز جو مغرب کی ہے وہ اچھی یا بری ہے، بلکہ ہمارا تصور یہ ہے کہ ہمیں مشرق و مغرب دونوں کو اسلام کی اچھائیوں سے متعارف کرانا ہے، آگاہ کرنا ہے، اور اگر وہ کچھ چیزیں ایسی کررہے ہیں جو ہمارے اصول سے متصادم نہیں ہیں تو ہم اس کو منع نہیں کریں گے۔ فرض کیجیے کہ اگر ایک مغربی سرجن کان کی سرجری کا کوئی ایسا طریقہ ایجاد کرتا ہے جس سے لوگوں کی سماعت میں آسانی ہوجاتی ہے تو چونکہ وہ مغربی سرجن ہے ہم یہ کہیں گے کہ ہم اس طریقے کو اپنے اسپتالوں میں استعمال نہیں کریں گے؟ ہمارا دشمن ہے؟ نہیں! اگر کوئی فکر ایسی ہے جو انسانی حقوق سے تعلق رکھتی ہے اور وہی اسلام کہتا ہے ہم اس کی مخالفت تو نہیں کریں گے۔ اسلام کہتا ہے کہ حیا ایک قیمتی چیز ہے، اور مغرب کہتا ہے کہ حیا بے کار چیز ہے، یہ تو انسان کو دقیانوسی بناتی ہے، جتنا انسان عریاں ہوگا اتنا ترقی یافتہ ہوگا،ہم اس تصور کو لازماً رد کر دیں گے۔ گویا مغرب ہو یا مشرق، ہمیں دیکھنا یہ ہوگا کہ ہمارا اپنا پیمانہ کیا کہتا ہے۔ اگر اسلام کہتا ہے کہ یہ چیز ہمارے لیے قابل قبول یا قابلِ گوارا ہے تو ہم اس کو گوارا کریں گے، اور اگر نہیں ہے تو اسے رد کریں گے، اس کا انکار کریں گے۔ ہمارا تعلق ہوگا مکالمے کا اور دعوتِ فکر کا۔ ہمارا تعلق وہ نہیں ہوگا جیسا بعض لوگ کہتے ہیں مستقل ٹکرائوکا اور جہاد قرار دے کر اس کے خلاف برسرپیکار رہنے کا۔ بلکہ اسلام یہ چاہتا ہے کہ آپ پوری دنیا کو اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچائیں حکمت کے ساتھ، محبت کے ساتھ، خلوص کے ساتھ، اور اس کو آخرکار اسلام کی آماجگاہ بنائیں۔
فرائیڈے اسپیشل: اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم دو سو سال سے یہ طے نہیں کرپارہے ہیں کہ ہمارے تعلقات مغرب کے ساتھ کس نوعیت کے ہونے چاہئیں؟
پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد:میرے خیال میں کنفیوژن بعض لوگوں کو ہوبھی سکتا ہے لیکن میری نگاہ میں کوئی کنفیوژن نہیں پایا جاتا۔ میں مطمئن ہوں کہ قرآن جو مجھے بتاتا ہے وہ راستہ مکالمے کا ہے، وہ راستہ اپنی بات کو پیش کرنے کا دلائل کے ساتھ، بھلائی کے ساتھ، اس میں کوئی ٹکرائو نہیں پایا جاتا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: ایک عمومی خیال ہے کہ مسلمانوں کا زوال اس وجہ سے ہوا کہ وہ علم وہنر وفنون میں اور تسخیر کائنات میں پیچھے رہ گئے، مغرب نے ان میدانوں میں سبقت حاصل کی اور اُس نے عروج پایا ؟
پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد: اس بات میں وزن ہے لیکن دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ کیا ترقی، کامیابی اور فلاح محض سائنسی ایجادات، جلیبی نما شاہراوں اور طویل پلوں کی تعمیر کا نام ہے یا ایسے انسانی معاشرہ کے قیام کا نام ہے جہاں امن و سکون، عزت نفس، رشتوں کا احترام، خواتین، معمر افراد اور بچوں کی عزت و تحفظ پایا جاتا ہو، جہاں معاشی عدل ہو، جہاں دینی آزادی ہو، جہاں آنے والی نسلوں کے لیے محبت ہو یا ترقی کامیابی اور فلاح اس کا نام ہے کہ آپ گھر پر تنخواہ کتنی لے کر جاتے ہیںاور آپ کا مکان کتنے رقبے پر تعمیر ہوا ہے۔اور آپ کی سواری کی گاڑی کی قیمت کیا ہے؟
میں سمجھتا ہوںکہ معاشی دوڑ میں پیچھے رہ جانے کے باوجود اور اپنی بہت سی اسلامی اقدار کو بھلا دینے کے باوجود ہم آج بھی مغرب و مشرق سے زیادہ ترقی یافتہ ہیں۔ہم خود اپنی قدر سے آگاہ نہیں ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم مغرب کی سائنسی ترقی سے آگے نکلنے کی کوشش نہ کریں۔اسلام ہر معاملہ میں نقطہ کمال یا اتقان کے حصول کا نام ہے۔اس لیے ہمیں تجرباتی علوم میں آگے سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔
فرائیڈے اسپیشل:1977ء تک پاکستان کی سیاست نظریاتی سیاست تھی،سیاسی جماعتیں نظریات کی بنیاد پر ایک دوسرے سے پنجہ آزمائی کرتی تھیں،لیکن جنرل ضیاء الحق کے اقتدار میں آنے کے بعد ہماری سیاست غیر نظریاتی ہوتی چلی گئی اور اب وہ یا تولسانی اور صوبائی تعصب کی بنیاد پر آپریٹ کررہی ہے،یا پھر وہ سرمائے کی بنیاد پر کام کررہی ہے یا پھر وہ اسٹبلشمنٹ کی گود میں بیٹھی ہمیں نظر آتی ہے۔سوال یہ ہے کہ پاکستانی سیاست کو دوبارہ نظریاتی سیاست میں کیسے تبدیل کیا جاسکتا ہے۔؟
پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد:میرے خیال میں آپ کے بنیادی مفروضے پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔قیام پاکستان سے قبل مسلم لیگ اسلامی ریاست کی داعی تھی، پاکستان کا مطلب کیا، لاالٰہ الااللہ کی تعبیر اس کے علاوہ کیا ہو سکتی ہے۔لیکن قائداعظم کی وفات کے بعد اور خصوصاًقائد ملت کی شہادت کے بعد ہماری سیاست عصبیتوں اور طبقاتی نظام کی علم برداروںکی سیاست ہو گئی، اس میں ایوب خان نے فوج کو بھی ملوث کر دیا چنانچہ بعد میں جو کچھ ہوا وہ اسی کا تسلسل تھا۔ جنرل ضیاء الحق بھی بظاہر ـ ’’اسلامیت ‘‘ـ کی ڈھال سے اپنا دفاع کرتے رہے۔لیکن وہ اور ان کے رفقاء دس سال تک قرآن و سنت کے نظام کے قیام کو ترجیح اول ثابت نہیں کر سکے۔ ان کی اسلامیت بھی مسلم لیگی اسلامیت سے آگے نہیں بڑھی، اس لیے انھیںنظریاتی کہنا یا ان کے پروردہ سیاسی کرداروں کو نظریاتی کہنا حقیقت واقعہ سے کوئی مناسبت نہیں رکھتا۔یہ سب معمولی فرق کے ساتھ اقتدار پر قابض رہنے والے افراد تھے۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ نظریاتی پارٹی اور سیاست تھی ہی نہیں؟
پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد: جی، حتیٰ کہ وہ پارٹی بھی جسے کچھ عرصہ بظاہرغیر قانونی قرار دیا یعنی ممنوع قرار دیا گیا۔ سوشلسٹ فکرکے حامل جو مختلف ناموں سے آئے اُن کا نظریہ بھی کوئی نظریہ نہیں تھا، بلکہ وہ بھی سارے کے سارے مفاد پرست سرمایہ دارانہ ذہن رکھنے والے افراد تھے جو ذاتی اقتدار کی جدو جہد میں لگے ہوئے تھے۔ کوئی نظریاتی سیاست کرنے والا اگر کہتا ہے کہ سوشلزم مسائل کا حل ہے جب کہ وہ خود مالک ہوساٹھ ہزار ایکڑ کا تو کیا یہ نظریاتی سیاست ہے؟ اس میں نظریہ ہے کہیں پر؟ جو دائیں اور بائیںکا تصور برطانیہ یا امریکہ میں پایا جاتا ہے، ہمارے ہاں اس کا وجود ہے ہی نہیں سرے سے۔ بلکہ ہمارے ہاں سیاست موروثی مفاد پرستوں کی رہی ہے، بس نام بدل کر آجاتے ہیں، اس لیے یہ کہنا بالکل بے بنیاد ہے کہ اس کا دور ختم ہوگیا۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ جو نظریہ اسلام نے دیا ہے اور جو نظریہ دیگر افراد کا ہے، یہ دو نظریات روزِِ اوّل سے ہیں اور رہیں گے۔ اس بات کو یوں سمجھیے کہ پاکستان کے تناظر میں اسلامی جماعت کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ جماعت جو اسلام کی علَم بردار ہو۔ اسلامی نظریۂ حیات کا نفاذ ہر شعبے میں چاہتی ہو۔ وہ جماعت جو کھلم کھلا مسلک کی علَم بردار ہو اُسے مسلکی جماعت کہنا ہی عدل و انصاف کا تقاضا ہے۔ اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ آپ جمعیت علمائے اسلام (ف) ہیں، یا آپ جمعیت علمائے پاکستان ہیں یا جماعت اہل حدیث کے نمائندہ ہیں یا نفاذِ فقہ جعفریہ کے نمائندہ ہیں، تو ان ناموں کے ساتھ کیا یہ جماعتیں اسلام کی علَم بردار جماعتیںکہلائی جا سکتی ہیں جب کہ سرکاری طور پر وہ مسلکی جماعتیں ہوں؟ یہ تقسیم ہی غلط ہے۔ اگر کہا جائے اسلامی، تو اس کا تو مطلب یہ ہے کہ وہ جماعت مسلکی نہ ہو اور اسلام کی ہو۔ لیکن چونکہ ہم نے ان تمام اصطلاحات کو گڈمڈ کیا ہوا ہے، اور بعض اصطلاحات ہماری مستعار ہیں۔ مغربی ابلاغ عامہ کسی کو فنڈامنٹلسٹ، بنیاد پرست،کسی کو رائٹسٹ یا لیفٹسٹ کہتے ہیں، ہم اسی کو صحافت میں عام کردیتے ہیں، اس پر حاشیے لکھتے ہیں، کالم لکھتے ہیں اور ٹی وی پر اس پر گفتگو کی جاتی ہے، حالانکہ ہمارے یہاں ان اصطلاحات کا استعمال کیا جانا قطعاً مناسب نہیں۔ ایسے میں یہ کہنا کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ فلاں فلاں ہے۔ بشمول مسلکی جماعتوں کے کس نے فوج اور بیوروکریسی سے رشتہ نہیں جوڑا؟ مجھے بتائیے کون سی جماعت ہے جو خود کو حقیقتاً نظریاتی ثابت کرسکتی ہے؟ہاں جب تک اسلام ایک مکمل نظام مانا جاتا رہے گا اُس وقت تک جو اس کے علَم بردار ہیں وہ اسلامی جماعت کہلائیں گے، اور وہ اس کا حق رکھتے ہیں۔ باقی افراد اپنا کوئی بھی نام رکھ لیں وہ بنیادی طور پر ایک مسلک کی بنیاد پر، ایک عصبیت کی بنیاد پر، ایک علاقائیت کی بنیاد پر، لسانیت کی بنیاد پر اپنا وجود رکھتے ہیں، ان کو ہم نظریاتی نہ کہہ سکتے ہیں، نہ کہنا چاہیے۔
فرائیڈے اسپیشل: پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ یہ نہ اسلامی بن سکا، نہ جمہوری بن سکا، نہ سیکولر بن سکا، نہ لبرل بن سکا۔ کیا اس کا سبب یہ ہے کہ جو ہماری فوجی اور سول اشرافیہ ہے اُس کا دراصل کوئی نظریۂ حیات ہی نہیں ہے، اور وہ معاشرے کو نظریاتی اعتبار سے چوں چوں کا مربہ بنا کر رکھنا چاہتی ہے؟
پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد:آپ کی دوسری بات کچھ حد تک درست معلوم ہوتی ہے، لیکن پہلی بات سے مجھے اختلاف ہے۔ پاکستان بننے سے قبل اور پاکستان بننے کے بعد اس بات کا اعلان کردیا گیا تھا کہ یہ ایک اسلامی ریاست ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح نے امریکی شہریوں سے 1948ء میں خطاب کرتے وقت یہ بات کہی تھی کہ
Pakistan is the Premier Islamic State نہ صرف یہ بلکہ ایک سو کے لگ بھگ خطابات، بیانات ا ور پیغامات میں قائد نے یہ بات دوہرائی کہ”Now you have to stand guard over the development and maintenance of Islamic democracy, Islamic social justice and the equality of mankind in your own native soil.”
(Feb 21,1948)
یہ بات عملاً 1956ء کے دستور میں آئی، لیکن وہ اس سے بہت پہلے یہ اعلان کرچکے تھے کہ پاکستان ایک اسلامی اسٹیٹ ہے۔ اور جو بانیِ پاکستان کا اعلان ہے وہ بعد کے اعلانات سے زیادہ مستند ہے،پھرہمارا دستور یہ بات صاف طور پر کہہ دیتا ہے کہ ہم اسلامی بھی ہیں اور جمہوری بھی ہیں، اور میں دستور کا احترام کرتا ہوں۔ اس لیے یہ کہنا غلط ہے کہ پاکستان میں نہ اسلام ہے نہ جمہوریت ہے۔ یہ دونوں چیزیں ہمارے دستور کا لازمی حصہ ہیں، اور جو بھی دستور کا احترام کرتا ہے اُس کو چاہیے کہ وہ اسے مانے۔ یہ الگ بات ہے کہ آپ اس پر عمل درآمد نہ کررہے ہوں جس کی اصلاح ہوسکتی ہے۔کسی ملک میں جو دستوری حیثیت سے اسلامی ملک ہو، محض ’’مسلم ملک‘‘ نہ ہو،کسی کا یہ مطالبہ کرنا کہ یہاں سیکولر ریاست ہو، دستور کی واضح خلاف ورزی ہے۔ ملکی قانون میں ایسے باغیانہ بیانات پر واضح ہدایات ہونی چاہئیں۔
اس کے باوجود اسلام آزادی رائے کاحق دیتا ہے اور ایک شخص ملکی دستور اور قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے اپنی رائے کا اظہار کر سکتا ہے لیکن اگر ملک کی 97فی صد آبادی ملک میں اسلامی نظام چاہتی ہو اور محض 3فی صد غیر مسلم یا سیکولر یا لبرل حضرات کی خواہش لا دینی نظام کی ہو تو اور ایسے لوگ تھوڑی بہت عقل بھی رکھتے ہوں تو وہ خود یہ فیصلہ کریں کہ ان کا مطالبہ نام نہاد سیکولر جمہوریت کے کس اصول کی پیروی میں درست ہو سکتا ہے۔اگر ان کے لیے محض عددی اکثریت حق اور ناحق کا فیصلہ کرتی ہے تو 97فی صد کے مقابلہ میں 3فی صد کا کسی خواہش کا رکھنا کیا کبھی درست ہو سکتاہے؟
فرائیڈے اسپیشل: ادب کے دائرے میں مختلف نقطۂ نظر کے لوگ موجود ہیں، کچھ لوگ ادب برائے ادب کے قائل ہیں اور کچھ لوگ ادب برائے زندگی کے۔ آپ انسانی معاشرے میں ادب کے حقیقی کردار اور اہمیت کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد: میری نگاہ میں ادب انسانی زندگی کا لازمی حصہ ہے۔ ادب کا مطلب ہے زندگی کو مؤدب کرنا، آدابِِ زندگی کو اختیار کرنا، زندگی کو ادب کے ساتھ گزارنا، زندگی میں ایک نظم کا پایا جانا، خوبصورتی کا پایا جانا، توازن کا پایا جانا۔ اور جب یہ چیزیں ہم تحریروں میں منتقل کرتے ہیں تو یہ تحریر ادب بن جاتی ہیں۔ اگر ایک نظم ہے جس کا اصول یہ ہے کہ اس کے اشعار نو ہوں یا گیارہ ہوں، اور میں اس نظم کے اشعار ایک سو پانچ کردوں تویہ نظم تو نہیں کہلائے گی۔ ادب کا مطالبہ یہ ہے کہ خود شعر و ادب کے اندر کچھ توازن ہوں، اس میں اوزان ہو، اس میں کوئی طریقہ ہو، اور زندگی کا مطلب بھی یہی ہے۔ زندگی کو مؤدب کرنے کا مطلب یہ ہے کہ زندگی میں ایک توازن ہو، بھلائی ہو۔ اور اس لحاظ سے وہ ادب جسے ہم نثر یا نظم کہتے ہیں، زندگی کا لازمی حصہ ہےیر ہے۔ یہ نہ نظم ہے، نہ نثر ہے، یہ دونوں کو ہدایت دینے والا منبع ہے، اس کی روشنی میں آپ شعر اور نثر ایجاد کریں گے۔ اس کے پڑھنے کے بعد آپ میں ایک تحریک پیدا ہوگی۔ یہ ادب کی اعلیٰ ترین مثال ہے جس میں فکر ہو، توازن ہو، ندرت ہو، تخلیق ہو، اور ہر وہ چیز جو آپ سوچ سکتے ہیں۔ اس لیے جو ادب پیدا ہوا ہے قرآن کریم کی روشنی میں، وہ ادب مقصدی ہے، زندگی کے متعلق ہے، اس کے اندر وہ تصورات ہیں جو اسلام دیتا ہے۔ محبت ہے، امن ہے، صلح ہے، بھلائی ہے، فلاح ہے۔ یہ وہ ادب نہیں ہے جس میں مار دھاڑ، خون خرابہ، قتل وغارت پائی جائے، جو ایک زمانے میں نام نہاد ترقی پسند ادب کی پہچان ہوا کرتی تھی۔ یہ وہ ادب چاہتا ہے جس میں انسان کو انسانی اقدار، اخلاقی اقدار پر عمل کرنے کا درس ملے۔ ادب لازمی طور پر زندگی کا ایک بہت اہم شعبہ ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس پر توجہ بھی ہونی چاہیے، اس میں تعمیر بھی ہونی چاہیے۔ اقبال کا ہر شعر اس بات کی نمائندگی کرتا ہے کہ شعر کے اندر اُن مضامین کو جو قرآن کریم میں ہیں، پیش کیا جاسکتا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: بڑا ادب کیا ہوتا ہے اور بڑا ادیب کیسے پیدا ہوتا ہے؟
پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد:جیسے میں نے عرض کیا کہ قرآن کریم آفاقی اور الہامی ادب کی ایک اعلیٰ ترین شکل ہے کسی بھی ادبی معیار کی، اس کا مطلب یہ ہے کہ اس جیسا ادب کوئی پیدا نہیں کرسکتا۔ لیکن اس کی بنا پر جو ادب پیدا ہوگا، جو اس پر غور کرکے اُن موضوعات کو جن موضوعات کو قرآن نے اختیار کیا ہے، پیش کرے گا اس ادب میں وہ جھلک پائی جائے گی۔ چنانچہ جب اقبال یہ بات کہتے ہیں کہ یہ جو بتانِ وہم و گماں ہیں ان سے ماورا کوئی ہستی ہونی چا ہیے وہ جو سب سے عظیم ہے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ۔ اور جب وہ یہ کہتے ہیں کہ پوری کائنات میں جو دمادم آواز آرہی ہے وہ کس چیز کی آرہی ہے؟ وہ تخلیق کی آرہی ہے۔ اور یہ خالق کون ہے؟ رب کریم ہے۔ تو وہ ان سارے مضامین کو جو قرآن کریم نے پیش کیے ہیں، جذب کرنے کے بعد اپنے اندازِ بیان کے ساتھ لوگوں کو منتقل کررہے ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ اقبال کے کلام میں جو اثر انگیزی ہے وہ کہیں اور نہیں پائی جاتی۔ اقبال نے اُنہیں بھی متاثر کیا ہے جو اپنے آپ کو ترقی پسند کہتے ہیں۔ بہت سے شاعر وہ مقام حاصل نہیں کرسکتے تھے اگر اقبال کو نہ پڑھتے۔ اقبال کی چھاپ ان پر بھی پائی جاتی ہے۔ وجہ یہی ہے کہ اس میں ایک تخلیقی انداز پایا جاتا ہے، اس میں ایک ندرت پائی جاتی ہے، تخلیق پائی جاتی ہے۔ اور یہ ان کے قرآن کریم سے قریب ہونے کا فیض ہے۔
۔(جاری ہے)۔