حکومت ایک بار پھر گندم درآمد کرے گی
حکومت نے مالی سال 2020-21ء کے لیے پارلیمنٹ میں 3437 ارب روپے خسارے کا بجٹ پیش کردیا ہے، وفاقی میزانیے کا حجم 7294ارب روپے ہے۔ حکومت کے نکتہ نظر سے بجٹ کے نمایاں خدوخال یہ ہیں کہ عوام کو ریلیف کی فراہمی کے لیے کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا۔ کورونا اخراجات اور مالیاتی خسارے کے مابین توازن قائم رکھا جائے گا، پرائمری بیلنس کو مناسب سطح پر رکھا جائے گا، احساس پروگرام جاری رہے گا اور آئی ایم ایف پروگرام میں رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی۔ حکومت کے اپنے ادارے کے مطابق کورونا کے متاثرین کے لیے ایک کھرب روپے چاہئیں۔ یہ کیسے ہوگا؟ ،بجٹ دستاویز کہتی ہے کہ بجٹ تجاویز پر عمل درآمد کے لیے حکومت 13 ارب 15 کروڑ ڈالر قرض لے گی۔ پروجیکٹ لونز کی مد میں ایک ارب 32کروڑ ڈالر، قرض پروگرام کی مد میں 3 ارب ڈالر، اور غیر ملکی مالیاتی اداروں سے 8 ارب 80کروڑ ڈالر کا قرض لیا جائے گا۔ حکومت اسلامک ڈویلپمنٹ بینک سے ایک ارب ڈالر، سعودی عرب سے ایک ارب ڈالر کا ادھار تیل، ڈیڑھ ارب ڈالر یورو بانڈز اور سکوک بانڈز جاری کرکے قرضے حاصل کرے گی۔ کورونا کے پیش نظر صحت کے زیادہ فنڈز مہیا کرنے چاہیے تھے، مگر تلخ حقیقت یہ ہے کہ آئی ایم ایف کی پاکستان کو 6 ارب ڈالر کی توسیعی فنڈ سہولت اُسی وقت بحال ہوگی جب حکومت آئی ایم ایف کے میکرو اکنامک فریم ورک کے مطابق بجٹ پیش کرے گی۔ لہٰذا بجٹ میں وہی رکھا گیا جو آئی ایم ایف کے لیے قابل قبول تھا۔ آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان کے مجموعی قرضے اور واجبات 42820 ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں۔ یہ جی ڈی پی کا 98.2 فیصد ہیں، اور رفتار یہی رہی تو یہ قرضے جی ڈی پی کے 100 فیصد کے برابر ہوجائیں گے۔ تحریک انصاف کی حکومت کے دو سال میں اندرونی اور بیرونی قرضوں میں 12 ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ قرضوں میں گزشتہ سال 3500 ارب، اور موجودہ سال 8800 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ وزارتِ خزانہ کے مطابق 8.8 ٹریلین قرضے میں سے 5 ٹریلین وفاقی بجٹ کے خسارے کو پورا کرنے کے لیے لیا گیا، جبکہ 1.2 ٹریلین غیرملکی ذخائر میں اضافہ کرنے کے لیے لیا گیا۔
وفاقی بجٹ 2020-21ء وباء کی وجہ سے لوگوں کی کم توقعات کے باعث حکومت کے لیے ملک کو درپیش دیرینہ مسائل کی تصحیح کرنے کا ایک نادر موقع تھا، لیکن یہ بجٹ جامع حکمتِ عملی سے عاری ہے ۔
بجٹ میں ٹیکس اہداف موجودہ حالات میں غیر حقیقی ہیں، توانائی کے شعبے میں جو سبسڈی کم کی گئی ہے اس سے بجلی کے نرخوں میں اضافہ ہوگا، جبکہ پیٹرولم لیوی میں اضافے کا مطلب ہے کہ حکومت بین الاقوامی منڈی میں تیل کی قیمت میں کمی کا زیادہ فائدہ عوام کو پہنچانے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ ٹڈی دل کی وجہ سے گندم کی فصل کو2 ملین سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے، اب گندم بھی درآمد کرنی پڑے گی۔ جبکہ اس بجٹ میں موسمیاتی تبدیلیوں جیسے اہم موضوع کو بھی نظرانداز کیا گیا ہے، جبکہ آنے والے مون سون میں سیلاب کے خطرات بھی لاحق ہیں۔ اگلے مالی سال میں مہنگائی بہت بڑھ سکتی ہے۔ پاکستان کو بھی اپنے بجٹ بنانے کے عمل کو دنیا میں تیزی سے تبدیل ہوتے حالات کے مطابق ڈھالنا چاہیے، جس کے مطابق بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے بھی سوالات پوچھے جا سکیں۔
تحریک انصاف کی حکومت کا یہ دوسرا سالانہ بجٹ ہے، تاہم اگر منی بجٹ بھی شامل کرلیے جائیں تو اس حکومت کا یہ پانچواں بجٹ ہے۔ ان پانچوں بجٹ میں تعمیراتی انڈسٹری سے وابستہ مافیا اور اشرافیہ کے لیے مراعات ہیں جبکہ مزدوروں اور عوام کے لیے رعایت اور آسودگی کی کوئی صورت بجٹ میںکہیں بھی نظر نہیں آرہی۔ نجی تعمیراتی شعبے کو مراعات دی گئی ہیں، اس کے لیے سیمنٹ بھی سستا کیا گیا ہے اور ودہولڈنگ ٹیکس میں چھوٹ دے کر اسے صنعت کا درجہ دیا گیا ہے۔ اس شعبے کو حکومت اپنے پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہے، تاہم ’نیا پاکستان ہاؤسنگ‘ کے لیے تیس ارب رکھے گئے ہیں۔ اس کی تفصیلات ابھی تک سامنے نہیں آسکی ہیں۔ بجٹ میں زرعی شعبہ حکومت کی توجہ حاصل نہیں کرسکا، اس کی ترقی کا ہدف 2.9 فیصد مقرر کیا گیا ہے۔ ہماری زرعی اجناس کی ملکی ضرورت اس سے بڑھ کر ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ حکومت ایک بار پھر گندم باہر سے منگوائے گی۔ بنیادی طور پریہ بجٹ آئی ایم ایف کے اسی 39 ماہ کے پروگرام کا حصہ ہے جس پر حکومت نے دستخط کررکھے ہیں۔ آئی ایم ایف نے اس معاہدے کے تحت 6 ارب ڈالر حکومت پاکستان کو دینے ہیں اور اس کی ہر قسط دیا ہوا ہوم ورک دکھاکر ہی ملنی ہے۔ بجٹ میں وفاقی اخراجات کا کُل تخمینہ 7137 ارب روپے دکھایا گیا ہے، جس کے لیے 2223 ارب روپے کے غیر ملکی قرضے حاصل کیے جائیں گے۔ بجٹ میں وفاقی وزارتوں کے لیے 476 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ این ایف سی ایوارڈ کے تحت وفاق صوبوں کو 2874 ارب روپے دے گا۔ بجٹ میں پنشن کی ادائیگی کے لیے 470 ارب اور سبسڈیز کے لیے 210 ارب روپے تجویز کیے گئے ہیں۔
معاشی حالات کے پیش نظر جی ڈی پی گروتھ 2.1، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 1.6 اور مہنگائی کی شرح ساڑھے چھ فیصد پر لانے کا ہدف، معاشی ترقی کا ہدف 2.1 مقرر، براہ راست بیرونی سرمایہ کاری میں پچیس فیصد تک اضافے کا ٹارگٹ رکھا گیا ہے۔ مقامی صنعتی شعبے میں نمو کا ہدف 0.1 فیصد رکھا گیا ہے، اور مقامی صعنتوں پر ڈیوٹی بارہ سے کم کرکے چھے فیصد کردی گئی۔ تاہم بجلی، گیس کے نرخ کم نہیں کیے گئے، اسی وجہ سے ڈیوٹی میں رعایت کے باوجود صنعتی شعبے میں ترقی نہیں ہوگی۔
بجٹ اجلاس کی خاص بات یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کی دو بڑی پارلیمانی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی نے ایس او پیز کے جن رہنما اصولوں پر اتفاق کیا ہے اس کے تحت سرکاری بینچوں پر 46 اور اپوزیشن بینچوں پر 40 ارکان بیٹھیں گے۔ یہ بھی طے کیا گیا ہے کہ کٹوتی کی تحریکوں پر زور نہیں دیا جائے گا، نہ بجٹ کی منظوری سے قبل کورم کی نشاندہی کی جائے گی۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) نے اس سمجھوتے کو مسترد کردیا ہے، مگر اس کے باوجود بجٹ آسانی سے منظور ہوجائے گا۔