جب عالمی سطح پر کورونا کی وبا پھیلنی شروع ہوئی تھی تو اُس وقت اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے عالمی قیادت کو متنبہ کیا تھا کہ جنگوں اور علاقائی تنازعات کو ختم کیا جائے اور مشترکہ طور پر عالمی وبا کا مقابلہ کیا جائے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی یہ آواز غیر مؤثر ثابت ہوئی۔ عالمی وبا کے باوجود عالمی تنازعات اسی طرح جاری ہیں۔ گزشتہ سال 5 اگست کو بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی دستوری اور آئینی حیثیت کو تبدیل کیا اور احتجاج کو کچلنے کے لیے ابھی تک لاک ڈائون جاری رکھا ہوا ہے۔ کورونا کی وبا سے پوری دنیا کے ساتھ جنوبی ایشیا بھی متاثر ہے۔ ابھی تک کورونا کی وبا کے پھیلائو میں کمی کے کسی قسم کے آثار ظاہر نہیں ہوئے ہیں۔ اس بات کی امید کی جارہی تھی کہ اس وبا کی ہلاکت سے سنگ دل حکمرانوں کے دلوں میں نرمی پیدا ہوگی اور یہ احساس جاگے گا کہ اپنے انفرادی و اجتماعی افعال کا جائزہ لیا جائے- لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس سلسلے میں بھارت کے حکمرانوں کی شقاوت میں اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کورونا وائرس کے اثرات کا مقابلہ کرنے کے بجائے اسے اپنی ہی اقلیتی آبادی کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیا اور مسلمانوں کو کورونا پھیلانے کا ذمہ دار قرار دیا۔ بھارت کی سرپرست طاقت امریکہ کے حکمرانوں اور پولیس کی نسل پرستی کے مظاہر میں اضافہ ہوا، اور ایک سفید فام پولیس اہلکار کے ہاتھوں سیاہ فام شہری کے ماورائے عدالت قتل کے بعد پورے امریکہ میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔ کورونا کی وبا کے باوجود بھارت کی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں پر جبر و استبداد میں اضافہ کردیا۔ اسی کے ساتھ بھارتی حکومت نے اپنے پڑوسی ملک نیپال کے ساتھ سرحدی تنازعات بھی چھیڑ دیے۔ لائن آف کنٹرول پر تو خلاف ورزیاں جاری تھیں، اسی کے ساتھ لداخ میں چین اور بھارت کے درمیان سرحدی تنازعات بھی بڑھ گئے ہیں۔ چین اور بھارت کی سرحدی کشیدگی کے اثرات پاکستان اور مقبوضہ کشمیر پر بھی پڑیں گے۔ چین بھارت سرحدی کشیدگی کو ہم چین امریکہ سرد جنگ سے علیحدہ کرکے نہیں دیکھ سکتے۔ چین اور بھارت کے درمیان لداخ کے علاقے میں سرحدی تنازعات فوجی جھڑپوں میں تبدیل ہوگئے ہیں۔ لداخ میں بھارت اور چین کی فوج کے درمیان 45 سال بعد مسلح تصادم ہوا ہے۔ بھارتی حکومت نے اپنے 20 فوجیوں کے مرنے کی تصدیق کی ہے اور 43 سے زائد چینی فوجیوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا ہے۔ چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان کے مطابق لائن آن ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) کے علاقے وادی گلوان میں بھارتی فوجیوں نے پیر کو دو مرتبہ سرحدی خلاف ورزی کی، چینی اہلکاروں پر حملے کیے اور انہیں اشتعال دلایا۔ چینی ترجمان نے اس پر سخت احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ اتفاقِ رائے پر عمل کرتے ہوئے بھارت فرنٹ لائن پر تعینات فوجیوں کو سختی سے قواعد و ضوابط کا پابند کرے، وہ سرحد پار کرنے سمیت ایسے اقدامات نہ کریں جن سے معاملات پیچیدہ ہوں۔ چینی فوج کے ترجمان نے بھی بھارت کے ساتھ فوجی تصادم کی تصدیق کی ہے اور کہا ہے کہ ایل اے سی پر دونوں فوجوں کے درمیان شدید جسمانی جھڑپ ہوئی ہے۔ انہوں نے بھارتی فوج پر دراندازی کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ چینی فوج کو اشتعال دلایا گیا ہے۔ بھارتی فوج کی جانب سے پہلے 3 فوجیوں، بعد میں 17 مزید فوجیوں کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ فوجی کیسے زخمی اور ہلاک ہوئے ہیں۔ دونوں حکومتوں کی طرف سے فوجی تصادم کی تصدیق تو نہیں کی گئی ہے البتہ یہ واضح ہوگیا ہے کہ بھارتی حکومت چین کی حکومت اور فوج کو مسلسل اشتعال دلارہی ہے، اور چین اپنی جغرافیائی حدود کے حوالے سے کسی مصالحت اور کمزوری کے لیے تیار نہیں ہے۔ بھارت نے بیک وقت اپنے تین پڑوسیوں پاکستان، نیپال اور چین کے ساتھ سرحدی تنائو اور کشیدگی میں اضافہ کردیا ہے۔ چین اور بھارت کی کشیدگی اور نیپال کے ساتھ تنائو کے واقعات ایک دوسرے سے منسلک ہیں اور اس کا اثر پاکستان کے اوپر بھی پڑے گا۔ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت مسلسل خبردار کررہی ہے کہ بھارت جنگ چھیڑنے کے لیے کسی جھوٹے اقدام کا سہارا لے سکتا ہے۔ اسی تناظر میں انٹر سروسز انٹیلی جنس ہیڈ کوارٹر میں افواجِ پاکستان کے سربراہوں کا خصوصی اجلاس منعقد ہوا جس میں عسکری قیادت کو قومی سلامتی کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ کیا گیا- یہ اجلاس غیر معمولی ہے۔ عام طور پر سیکورٹی امور کے حوالے سے عسکری قیادت چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کا فورم موجود ہے، لیکن یہ اجلاس آئی ایس آئی کے ہیڈ کوارٹر میں منعقد ہوا ہے۔ اس سے قبل آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹر میں سیاسی قیادت کے ساتھ بھی دو بریفنگ ہوچکی ہیں۔ افغانستان کے امور بھی آخری مرحلے پر ہیں، بین الافغان مذاکرات کے حوالے سے دوحہ میں طالبان اور افغان حکومت کے مذاکرات کی تصدیق ہوچکی ہے۔ افغانستان میں امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدہ بھی بھارت کی ایک بہت بڑی ہزیمت ہے۔ اس تناظر میں بھارت نے چین کو مشتعل کیا ہے۔ کیا اس کی پشت پر امریکہ ہے جو عالمی سیاست میں اپنی ہزیمت اور پسپائی سے بچنے کے لیے بھارت کو ایک نئی جنگ پر اُکسا رہا ہے؟