تیل کی قلت۔۔۔ ذمہ دار کون؟۔

ملک میں تیل کے نرخوں میں کمی کیا ہوئی، ملک بھر میں تیل کی قلت ہی پیدا ہوگئی۔ پیٹرول کے کاروبار سے وابستہ افراد کی رائے ہے کہ یہ بحران اس لیے پیدا ہوا کہ حکومت نے لاک ڈائون کے باعث سُستی دکھائی کہ ملک بھر میں تو لاک ڈائون ہے، ٹرانسپورٹ چل نہیں رہی، جہاز، ٹرینیں تک بند ہیں، لہٰذا تیل منگوانے کا فیصلہ نہیں کیا۔ ملک میں تیل کی مجموعی سالانہ طلب تقریباً 2 کروڑ ٹن ہے، ملکی ٹرانسپورٹ کے کاروبار کا انحصار اسی پر ہے۔75 فیصد تیل ٹرانسپورٹ کا شعبہ استعمال کرتا ہے۔ زراعت، صنعت، اور بجلی پیدا کرنے والے کارخانوں کا نمبر بعد میں آتا ہے۔ محتاط اندازے کے مطابق زراعت کے شعبے میں ایک فیصد تیل استعمال ہوتا ہے، صنعتیں تقریباً 7 فیصد استعمال کرتی ہیں، بجلی کی پیداوار میں 14 فیصد اور دیگر شعبوں میں تیل کی کھپت تقریباً 2 فیصد ہوتی ہے۔ ملک میں پیٹرول کی کھپت 39 فیصد، ڈیزل کی 37 فیصد، فرنس آئل کی 18 فیصد، طیاروں کے ایندھن جے پی ون کی 4 فیصد، مٹی کے تیل، لائٹ اسپیڈ ڈیزل اور ایچ او بی سی کی کھپت ایک فی صد رہتی ہے۔ ملک میں 90 کے قریب آئل مارکیٹنگ کمپنیاں اور ریفائنریاں موجود ہیں۔ مارکیٹنگ کمپنیوں میں پاکستان اسٹیٹ آئل 37 لاکھ ٹن، ہیسکول 92 ہزار ٹن اور گیس اینڈ آئل (جی او) 88 ہزار ٹن ایندھن فروخت کرتی ہیں، اور دیگر کمپنیاں 13 لاکھ ٹن ایندھن بیچتی ہیں۔ پاکستان میں 78 لاکھ ٹن ایندھن درآمد ہوتا ہے، جبکہ 68 لاکھ ٹن تیل مقامی ریفائنریاں فراہم کرتی ہیں۔ ان میں پارکو 23 لاکھ 60 ہزار ٹن، بائیکو 11 لاکھ 80 ہزار ٹن، اے آر ایل 11 لاکھ 50 ہزار ٹن، نیشنل ریفائنری 10 لاکھ ٹن، پی آر ایل 8 لاکھ 10ہزار ٹن پیٹرو کیمیکلز کی صفائی کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
بحران اس لیے پیدا ہوا کہ وزارتِ توانائی نے پیٹرولیم کی درآمد پر پابندی عائد کی اور پہلے سے دیے گئے آرڈر بھی منسوخ کردیے، جس سے ملک میں پیٹرولیم کی سپلائی متاثر ہوئی۔ اس کے علاوہ جس وقت درآمد پر پابندی عائد کی گئی اُس وقت عالمی منڈی میں پیٹرولیم کی قیمت تاریخ کی کم ترین سطح 10ڈالر یا اس کے آس پاس تھی، اس لیے سستا پیٹرول خریدنے کے بجائے مقامی ریفائنریوں سے خریداری کو یقینی بنایا گیا۔ کورونا کی وجہ سے لاک ڈاؤن ہوا جس کے باعث ایندھن کی طلب اچانک بہت ہی کم ہوگئی جس کی وجہ سے آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے کیش فلو پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ عید کے قریب اچانک لاک ڈاؤن میں نرمی نے نقل و حرکت میں اضافہ کردیا، یوں ایندھن کی طلب بڑھ گئی۔ اب جو ایندھن لاک ڈائون میں 4 دن تک کے لیے کافی تھا، وہ ایک دن میں ہی فروخت ہوگیا، اور یوں قلت سنگین صورت اختیار کرگئی۔ لیکن یہ سب اچانک نہیں ہوا، بلکہ منصوبہ بندی معلوم ہوتی ہے کہ اب وزارتِ توانائی مافیا کے ساتھ مل کر پیٹرولیم کی قیمت مرکزی کنٹرول سے باہر نکال رہی ہے، اور اب قیمت کا تعین ڈی ریگولیٹ کردیا جائے گا۔ حکومت اپنی ریگولیٹری اور انتظامی صلاحیت کو بڑھائے بغیر پیٹرولیم کی قیمت کا تعین ڈی ریگولیٹ کرے گی تو اس کے انتہائی منفی نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ مافیا حکومت سے یہ فیصلہ کرانے میں کامیاب ہوجائے گا، کیونکہ تحریک انصاف کے لیے سرمایہ کاری کرنے والی لابیاں بہت متحرک ہیں اور وزارتِ توانائی ان کی مٹھی میں ہے۔ اس وقت پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت کا تعین پی ایس او کی درآمدی قیمت کے حساب سے کیا جاتا ہے۔ ڈی ریگولیٹ ہونے کے بعد گزشتہ ماہ کی اوسط قیمت پر ملک بھر میں ڈیزل اور پیٹرول فروخت کیا جائے گا۔ حکومت ان لینڈ فریٹ ایکولائزیشن مارجن کا طریقہ کار ختم کررہی ہے جس کی وجہ سے ملک بھر میں پیٹرول کی قیمت یکساں رکھی جاتی ہے۔ نیا طریقہ کار نافذ ہوا تو بندرگاہ اور ریفائنریز کے قریب رہنے والے صارفین کو سستا پیٹرول ملے گا، جبکہ ان تنصیبات سے دُور رہنے والوں کو مہنگا خریدنا پڑے گا۔ یوں ایک ہی شہر میں مختلف کمپنیوں کے پمپس پر پیٹرول کی قیمت مختلف ہوگی اور قیمتوں میں ایک سے 5 روپے تک کا فرق ہوسکتا ہے۔
ملک میں پیٹرول کی مارکیٹ ریگولیٹ کرنے کے لیے دو ادارے ہیں، پہلا ادارہ اوگرا ہے جو مارکیٹنگ کمپنیوں اور ریفائنریزں کو لائسنس فراہم کرتا ہے اور ریفائنریز لائسنس کی شرائط کے مطابق کام کو مانیٹر کرتا ہے۔ وزارتِ توانائی میں ڈائریکٹر جنرل آئل ہے جو پیٹرول کی دستیابی اور درآمد سے متعلق فیصلہ سازی کرتا ہے۔ مسلم لیگ(ن) کے دور میں اوگرا نے تمام آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو پابند بنا رکھا تھا کہ وہ کم از کم 21 دن کا اسٹاک محفوظ رکھیں۔ اسٹاک میں کمی کی صورت میں کمپنیوں پر جرمانے کے علاوہ انہیں لائسنس منسوخی کی سزا دی جاتی تھی۔ ہر مارکیٹنگ کمپنی کو ہر پمپ کے لیے 40 ٹن ایندھن ذخیرہ کرنا لازمی ہے۔ اگر ملک میں 8 ہزار 567 پمپ ہیں تو ہر وقت 3 لاکھ 42 ہزار 680 ٹن پیٹرول موجود ہونا چاہیے۔
۔31 مئی کو حکومت نے تمام پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کیا، تاہم پیٹرولیم پر ٹیکس اور لیوی میں اضافہ کردیا۔ پیٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 7 روپے 6 پیسے کمی کی گئی، پیٹرول کی ایکس ڈپو قیمت 74 روپے 52 پیسے کی گئی، لیکن پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی کو بڑھا کر 26 فیصد کردیا گیا، یوں حکومت نے ساڑھے 6 ارب روپے کمالیے۔ پیٹرولیم لیوی کے نفاذ سے قیمت 23 روپے 76 پیسے سے بڑھ کر 30 روپے فی لیٹر ہوگئی۔ جب پیٹرولیم کی قلت پیدا ہوئی تو پیٹرولیم ڈویژن نے کمپنیوں کو ایندھن کی راشننگ کی ہدایت کردی۔ کمپنیوں کو کہا گیا کہ موٹر سائیکل پر 500 اور گاڑی کے لیے 1000روپے یومیہ خریداری کی حد مقرر کی جائے۔ جب یہ فیصلہ ہوا تو اُس وقت پنجاب میں صرف 3 سے 4 دن کے استعمال کے لیے پیٹرول کے ذخائر رہ گئے تھے، سندھ میں 7 روز کے لیے پیٹرول اور 16روز کے لیے ڈیزل کے ذخائر موجود تھے، خیبر پختون خوا میں 4 دن، بلوچستان میں 7 دن، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں 6 دن کا اسٹاک تھا۔ تب وفاقی وزیر برائے توانائی عمر ایوب نے الزام عائد کیا کہ کچھ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں اور ریٹیلرز نے پیٹرول اور ڈیزل کی مصنوعی قلت پیدا کی ہے۔ انہوں نے مارکیٹنگ کمپنیوں کے لائسنس منسوخ کرنے کی دھمکی بھی دی۔ وزارتِ توانائی 25 مارچ کو ایک سرکلر جاری کرچکی تھی کہ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے پاس مناسب مقدار میں ذخیرہ موجود ہے، لہٰذا آئل مارکیٹنگ کمپنیاں اپریل 2020ء اور آئندہ دنوں کے لیے اپنے ایندھن درآمدی معاہدے منسوخ کردیں۔ اس فیصلے نے ملک میں تیل کے بحران کی بنیاد رکھی۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے پیٹرول کی فروخت 25 فیصد رہ گئی تھی، یوں آئل کمپنیاں خسارے میں چلی گئیں۔ روپے کی قدر میں کمی سے بھی نقصان ہوا، کیونکہ عالمی منڈی سے مہنگے ڈالر میں ایندھن کی خریداری کرنے کے بعد انہیں سستا ایندھن فروخت کرنا پڑا۔ ہر کمپنی کو پیٹرول کا انتظام کرنے کی ہدایت دی گئی تھی، مگر بحران تو سر اٹھا چکا تھا، تب وزارتِ توانائی نے ڈائریکٹر جنرل پیٹرولیم ڈاکٹر شفیع الرحمٰن کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دی جس میں اوگرا، وفاقی تحقیقاتی ادارے، ضلعی انتظامیہ، ہائیڈرو کاربن ڈیولپمنٹ انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان (ایچ ڈی آئی پی) اور پاکستان اسٹیٹ آئل کو شامل کیا گیا، جس کے بعد کمپنیوں کے خلاف کارروائی کی گئی اور نوٹس جاری کیے گئے۔ اوگرا نے 6 آئل مارکیٹنگ کمپنیوں پر 4 کروڑ روپے جرمانہ عائد کیا۔ اوگرا کے قانون کے تحت انہیں 21 دن کا ذخیرہ رکھنا لازمی تھا، اور اگر یہ ذخیرہ نہیں رکھیں گے تو اوگرا جرمانہ لگانے کے ساتھ لائسنس بھی منسوخ کرسکتی ہے۔ اب انہیں ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے جرمانہ کیا گیا۔ ان کا مؤقف ہے کہ اوگرا کے قانون کے تحت انہوں نے اپنا ذخیرہ جمع کیا تھا، وزارتِ توانائی کے مطابق ملک میں جون کے دوران ایندھن کی طلب 60 ہزار ٹن رہنے کی پیش گوئی کے تحت منصوبہ بندی کی گئی تھی۔