اپنی بے باکی، اور ناانصافی کے خلاف پوری شدت سے آواز بلند کرنے والے ممبئی ہائی کورٹ کے حقوقِ انسانی کے علَم بردار سابق جج جسٹس ہاسبیٹ سریش جمعرات کو 91 سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔ ملک کے موجودہ وزیراعظم نریندر مودی کو گجرات فسادات کا ذمہ دار ٹھیراتے ہوئے انہیں ہٹلر کے لقب سے نوازنے والے جسٹس سریش نے اندھیری میں اپنی رہائش گاہ پر آخری سانس لی۔ جمعہ کو سانتا کروز شمشان بھومی میں ان کی آخری رسومات ادا کی گئیں۔
حقوقِ انسانی کے علَم برداروں، قانونی و دیگر شعبوں سے وابستہ اہم شخصیات نے ہاسبیٹ سریش کی موت پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے ان کی موت کو حقوقِ انسانی کی جدوجہد کے لیے ناقابلِ تلافی نقصان قرار دیا ہے۔ وہ کرناٹک کے دکشن کنڑ ضلع میں 20جولائی 1929ء کو پیدا ہوئے۔ انہوں نے منگلور یونیورسٹی سے بی اے کی ڈگری حاصل کی، اور بیلاگوی کی ویسویسوریا ٹیکنالوجیکل یونیورسٹی سے ایم اے کی سند حاصل کی تھی۔ بعد میں ممبئی یونیورسٹی سے ایل ایل ایم کرنے کے بعد 1953ء میں بطور وکیل ہائی کورٹ پریکٹس شروع کی۔ بزرگ سماجی رضاکار و سابق جج جسٹس ہاسبیٹ سریش 29 نومبر 1968ء میں سیشن کورٹ میں ایڈیشنل سیشن جج بننے سے قبل تک ممبئی لا کالج اور کے سی کالج کے لیے سرکاری وکیل کی حیثیت سے شہر کی سٹی سول اور سیشن کورٹ میں خدمات انجام دیتے رہے تھے۔ اکتوبر 1979ء میں انہیں پرنسپل جج بنایا گیا تھا لیکن انہوں نے 1980ء میں عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور ممبئی ہائی کورٹ میں بطور وکیل پریکٹس کرنے لگے تھے۔ انہوں نے بطور جج جہاں قانونی سطح پر بے شمار قابلِ ذکر فیصلے سنائے، وہیں بے شمار فلاحی اور سماجی تنظیموں سے وابستہ ہوکر حقوقِ انسانی کے لیے خدمات انجام دیں۔
جسٹس سریش نے بابری مسجد کی شہادت کے بعد ہونے والی شنوائی کے علاوہ دیگر کئی قابلِ ذکر مقدمات پر فیصلہ سنایا ہے یا بطور وکیل جرح بھی کی ہے۔ جسٹس وی ایئر کے بقول ’’جسٹس سریش ایک ایسی شخصیت تھے جنہوں نے ملک گیر سطح پر انسانی حقوق کی بے شمار تحریکیں چلائیں، ان کے نقشِ قدم پر چل کر ہم بھی انسانیت کی بقا کے لیے کام کرسکتے ہیں‘‘۔
حقوقِ انسانی کی سرگرم کارکن ٹیسٹا سیتلواد کے بقول ’’جسٹس سریش سے میری ملاقات ممبئی ہائی کورٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد ہوئی تھی۔ وہ میرے محسن، سرپرست اور ہمدرد تھے۔ وہ ہندوستانی آئین کی سیکولر سماجی اقدار کے حامی تھے۔ انہوں نے سبکدوشی کے بعد اُس وقت ٹریبونل اور عوامی مقدمات کے ذریعے لوگوں کو انصاف دلانے کی کوشش کی جب انصاف کی بنیادیں ہلنے لگی تھیں‘‘۔ ٹیسٹا نے انہیں گجرات فسادات کے مقدمات کے دوران دیے جانے والے حوصلے کے حوالے سے بھی یاد کیا۔
دوست محمد فیضی بھی کورونا کا شکار ہوکر انتقال کرگئے
ایک شعلہ بیان مقرر، اسلامی جمعیت طلبہ کے ایک فعال کارکن، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے سابق رکن اور سابق صوبائی وزیر دوست محمد فیضی بروز پیر مورخہ !5 جون 2020ء کو کورونا وائرس سے شکست کھاکر داغِ مفارقت دے گئے۔ انہیں انتقال سے دو دن پہلے کلفٹن کے ایک معروف اسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔ وہ مسلم لیگ (ن) سے سیاسی وابستگی رکھتے تھے۔ بہت عرصے سے وہ ایک اشتہاری کمپنی چلارہے تھے۔ 16 جون بروز منگل کو ان کی تدفین ڈیفنس کے قبرستان میں کی گئی۔ 17 جون بروز بدھ ان کی رہائش گاہ واقع خیابان جانباز میں ایصالِ ثواب کے لیے قرآن خوانی کی گئی۔
ممتاز شاعر اور گنگا جمنی تہذیب کی نمائندہ شخصیت گلزار دہلوی کا انتقال
پانچ دن قبل ہی کورونا کو شکست دے کر اسپتال سے گھر لوٹے تھے، دورۂ قلب موت کی ممکنہ وجہ بنا
اردو دنیا جمعہ کو بزرگ شاعر اور گنگا جمنی تہذیب کی نمائندہ شخصیت گلزار دہلوی کے داغِ مفارقت دے جانے سے سوگوار ہوگئی۔ وہ ابھی پانچ روز قبل ہی کورونا وائرس کو شکست دے کر گھر لوٹے تھے۔ آنند موہن زتشی جنہیں دنیائے زبان و ادب گلزار دہلوی کے نام سے جانتی تھی، 93 برس کے تھے۔ ان کے بیٹے انوپ زتشی نے خبررساں ایجنسی پی ٹی آئی کوبتایا کہ ’’7 جون کو ان کا کورونا کا ٹیسٹ منفی آنے کے بعد ہم انہیں گھر لے آئے تھے، آج انہوں نے ڈھائی بجے دوپہر کا کھانا کھایا مگر اس کے فوراً بعد اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے۔‘‘ انوپ زتشی کے مطابق ’’پیرانہ سالی کے ساتھ ساتھ کووڈ کے انفیکشن کے بعد وہ خاصے کمزور ہوگئے تھے۔ ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ موت کی ممکنہ وجہ ہارٹ اٹیک ہے۔ اس مہینے کے اوائل میں کورونا سے متاثر ہونے کے بعد وہ گریٹر نوئیڈہ کے شاردا اسپتال میں کئی دن آئی سی یو میں زیر علاج رہے اور وائرس سے مکمل صحت یاب ہونے کے بعد اتوار کو گھر لوٹے تھے۔‘‘ وہ مرکزی حکومت کے زیر اہتمام شائع ہونے والے اردو کے واحد سائنسی رسالے ’’سائنس کی دنیا‘‘ کے مدیر رہ چکے ہیں۔ گلزار دہلوی کشمیری پنڈت تھے۔ شیروانی، جس کی جیب میں اکثر گلاب کا پھول ہوتا تھا، سفید چوڑی دار پاجامہ اور سر پر ٹوپی اُن کی شخصیت کی نمایاں خصوصیت تھی۔