چین بھارت مذاکرات کی ناکامی

کھسیانی بلی کھمبانوچ سکتی ہے؟

امریکہ اور بھارت کے درمیان اسٹرے ٹیجک اتحاد موجود ہے، مگر امریکہ پاکستان کیخلاف کسی جارحیت میں بھارت کا ساتھ دیتا ہے تو پاکستان افغانستان میں امن سے اپنا ہاتھ کھینچ سکتا ہے

لداخ میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول سے شروع ہونے والی چین بھارت کشیدگی کا اونٹ مستقبل قریب میں کسی کروٹ بیٹھتا دکھائی نہیں دے رہا۔ اس کا پہلا ثبوت شدید کشیدگی کے عالم میں دونوں افواج کے درمیان لیفٹیننٹ جنرل سطح کے مذاکرات کی ناکامی ہے۔ یہ مذاکرات لداخ کے علاقے میں ہوئے، جس میں دونوں طرف سے فوجی وفود نے شرکت کی۔ چار گھنٹے کے مذاکرات کے اختتام پر دونوں وفود اس انداز سے اپنے اپنے راستوں پر چل پڑے کہ ان کے پاس دنیا کے لیے کوئی خاص اور اچھی خبر نہیں تھی۔ ان مذاکرات کی جو اندرونی کہانی آزاد ذرائع سے سامنے آئی ہے اس کے مطابق بھارتی وفد کاغذات اور فائلوں کا پلندہ اُٹھائے چینی وفد کو یہ باور کرانے آیا تھا کہ چین نے حقیقت میں ان کے ’’اٹوٹ انگ‘‘ میں پیش قدمی کی ہے۔ چینی فوج گیلوان وادی میں جہاں آگئی ہے وہ بھارت کا علاقہ ہے۔ اس کے برعکس چین نے علاقے کو اپنا اٹوٹ انگ کہنے کے بجائے متنازع علاقہ قرار دیا اور بھارت پر واضح کیا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں کشمیر کو متنازع تسلیم کیا گیا ہے اور ان تمام دستاویزات پر بھارت کے دستخط ہیں، اس لیے یہ علاقے عالمی قوانین کی رو سے متنازع ہیں، کسی ملک کا حصہ نہیں۔ ان متنازع علاقوں میں چینی کنٹرول کے علاقے پر کسی قسم کی جارحیت یا پیش قدمی قبول نہیں کی جائے گی۔
کچھ ذرائع یہ اطلاع بھی دے رہے ہیں کہ چینی وفد نے بھارت پر واضح کیا ہے کہ بھارت نے گزشتہ سال پانچ اگست کو ریاست جموں وکشمیر کی متنازع حیثیت کو ختم کرکے اسٹیٹس کو توڑ کر خطے میں شدید تنائو پیدا کیا ہے۔ بھارت کشمیر کی چار اگست کی پوزیشن بحال کرے تو کشیدگی کم ہوسکتی ہے۔
اگر چین کی طرف سے یہ شرط رکھی گئی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بھارت سے کشمیر کی متنازع حیثیت کو منوائے بغیر پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ یوں بھی گیلوان وادی میں جھیل کے کنارے چین نے پیش قدمی کرکے جو تعمیرات کی ہیں ان کو ختم کرنا اور پس قدمی اختیار کرنا اب محال ہے۔ یہ نئے اور عالمی منظر پر اُبھرتے چین کی شہ رگ یعنی سی پیک کے بچائو اور مستقل تحفظ کے لیے اُٹھایا گیا قدم ہے، جسے واپس لینا قطعی ناممکن ہے۔ یوں اس علاقے میں مفاہمت نہ ہوئی تو بھی یہ معاملہ آنے والے زمانوں تک چلتا رہے گا۔ یہ بات خود بھارت کے سابق جنرل بھی تسلیم کررہے ہیں۔ ان کے خیال میں لداخ میں شروع ہونے والا تنازع فوری طور پر ختم ہونے کا امکان نہیں۔ یوں چین کی اس پوزیشن کے باعث مذاکرات کا یہ دور ناکام ہوگیا ہے۔ چین نے سفارتی چینلز سے بھی بھارت پر واضح کردیا ہے کہ وہ امریکہ کی شہ پر خطے میں بڑا بننے کی کوششیں ترک کرکے اچھے ہمسایوں کی طرح رہنا سیکھ لے، بصورتِ دیگر خطہ شدید نقصان کا شکار ہوسکتا ہے۔
اس ساری صورتِ حال میں چین کی طرف سے اپنی پیش قدمی والے علاقے سمیت پوری ریاست جموں وکشمیر کو متنازع تسلیم کرنا اور اقوام متحدہ کی کارروائی کو ثبوت کے طور پر پیش کرنا ایک اصولی مؤقف کا اظہار ہے جس سے کوئی توسیع پسندی اور سامراجیت نہیں ٹپکتی۔ یہ تمام قباحتیں بھارت کے رویّے میں تکبر، انانیت اور نسل پرستانہ اور مذہبی جنونیت کی اضافی خرابیوں کے ساتھ بدرجۂ اُتم موجود ہیں۔ پاکستان اور چین اسی مقام اور اصول پر کھڑے ہیں جو عالمی ادارے نے طے کیا۔ چین کی اپنے زیر انتظام علاقے اکسائے چن، اور پاکستان کی اپنے زیرانتظام آزادکشمیر وگلگت بلتستان کے بارے میں وہی پوزیشن ہے جو اقوام متحدہ نے مقرر کررکھی ہے۔ دونوں اپنے زیرانتظام علاقوں سمیت پوری ریاست کو متنازع سمجھتے ہیں۔ یہ واحد بھارت ہے جو کشمیر کی عالمی طور پر مسلمہ متنازع حیثیت کو حیلوں بہانوں سے روزِ اوّل سے ہی نقصان پہنچانے کے لیے کوششیں کرتا رہا، اور پانچ اگست اس سلسلے کا آخری ’’شب خون‘‘ تھا۔
بھارتی میڈیا فوجی وفود کی ملاقات کو اپنے معانی پہنا رہا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ دونوں ملکوں نے جنگ نہ کرنے اور مسئلے کو پُرامن انداز سے حل کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ اس میں کوئی نیا پن نہیں۔ چین ایک اہم گزرگاہ پر اپنی پوزیشن مضبوط کرچکا ہے اور سی پیک اور گلگت بلتستان پر حملے کے لیے اس کی فوجی اہمیت بھارت کے نزدیک بہت زیادہ تھی۔ اب بھارت اس علاقے سے چین کو واپس جانے کا کہہ رہا ہے، اور چین ایک انچ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ اس معاملے کو پُرامن انداز سے حل کرنے کے لیے چین اگلی ایک صدی تک مذاکرات جاری رکھ سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ چین نے بھارت کو میڈ اِن امریکہ ہوا کے گھوڑے کی سواری سے زمین پر اتار دیا ہے، اور بھارت کے خلاء سے زمین پر اترنے کا یہ مقام ریاست جموں وکشمیر کا علاقہ لداخ ہے۔ شاید اسی لیے اہلِ نظر کشمیر کو ایشیا کا ’’فلیش پوائنٹ‘‘ کہا کرتے تھے۔ فوجی اور سفارتی سطح پرچین سے ذلت آمیز شکست کھانے کے بعد بھارت اس ذلت اور خفت کو مٹانے کے لیے پاکستان کا رخ کرسکتا ہے۔ بھارت اور چین کے درمیان لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر جو فلم چلی ہے اس میں ہر قدم پر چینی فوج کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے۔ لداخ میں دونوں فوجوں کے درمیان دھینگا مشتی کے دوران بھارتی فوجی کو لگنے والی لات حقیقت میں بھارت کے تکبر اور اَنا کو لگی ہے۔ بھارت پاکستان اور کشمیر کے مقابلے میں ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ کا اصول جو طاقت کے فلسفے کے گرد گھومتا ہے، اپنائے ہوئے ہے۔ بھارت نے پاکستان کے ساتھ معاملات کو کبھی انسانیت، اصول، امن اور مستقبل کے اچھے امکانات کے نام پر حل کرنے کی کوشش نہیں کی، بلکہ معاملات کرتے ہوئے طاقت اور طاقتور کے اصول کو ہی اپنا ہتھیار بنائے رکھا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ پاکستان کے مقابلے میں زیادہ طاقت رکھنے والے ملک بھارت کو اس سے بھی طاقتور ملک چین کا سامنا ہے۔ چینی فوجی کی لات نے بھارت کے ہی وضع کردہ فارمولے کو آگے بڑھایا ہے۔ اس سے بھی خوفناک ویڈیو وہ ہے جو تصادم کے دنوں میں ہی گھومتی رہی جس میں چینی فوجیوں نے بھارتی فوجیوں کو گرفتار کرکے زمین پر لٹایا ہوا ہے اور رسیوں سے کھینچ رہے ہیں۔ اپنی فوج کی یہ حالت دیکھ کر اکثر بھارتیوں کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ کچھ لوگ پوچھتے ہیں کہ چین کے ہاتھوں یہ ذلت کب تک برداشت کی جاتی رہے گی؟
چینی فوج لداخ کی گیلوان وادی میں آکر بیٹھ گئی ہے مگر بھارتی فوج کا اسے ’’کھدیڑنے‘‘ کا کوئی ارادہ نظر نہیں آتا۔ کھدیڑنے کی یہ اصطلاح بھارتی حکمرانوں اور میڈیا نے اُس وقت عام کی تھی جب کرگل میں پاکستان نے پیش قدمی کرکے خالی مورچوں پر قبضہ کرلیا تھا۔ بھارتی صبح وشام پاکستانی گھس پیٹھیوں کو کھدیڑنے کے اعلانات کررہے تھے، مگر آج چینی فوجیوں کو نہ گھس پیٹھیے کے القابات سے نوازا جارہا ہے، نہ انہیں کھدیڑنے کے اعلانات کیے جا رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ چین کے پاس طاقت ہے اور وہ بھارت کو دھول چٹا رہا ہے۔ بھارت چین کے مقابلے میں امریکہ کے کندھوں پر چڑھ کر ٹارزن بننے کی کوشش میں تھا، مگر امریکہ اِس وقت ’’اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے‘‘ کی عملی تصویر ہے۔ بپھری ہوئی سیاہ فام آبادی ریاست و حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجا رہی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی اب تک ہر تدبیر اُلٹی ہوکر رہ گئی ہے۔ اس کے باوجود امریکہ اور بھارت کے درمیان اسٹرے ٹیجک اتحاد موجود ہے، مگر امریکہ پاکستان کے خلاف کسی جارحیت میں بھارت کا ساتھ دیتا ہے تو پاکستان افغانستان میں امن سے اپنا ہاتھ کھینچ سکتا ہے۔ چین کے ہاتھوں یہ درگت بننے کے بعد بھارت اپنی زخمی اَنا کی تسکین کنٹرول لائن پر کسی مہم جوئی سے کرسکتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ مختلف اوقات میں بھارت کی طرف سے ’’فالز فلیگ آپریشن‘‘ کے خطرے کا خدشہ ظاہر کرچکے ہیں اور بھارت کو مختلف انداز سے بتا چکے ہیں کہ ایسا کرنا مودی کی آخری غلطی ہوگئی۔ اب وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور فوج کے ترجمان میجر جنرل افتخار نے بھی بھارت کی کسی مہم جوئی کا پوری قوت سے جواب دینے کی بات کی ہے۔ شاہ محمود قریشی نے یہ معنی خیز بات بھی کی کہ بھارت کی سرگرمیوں کا محور اکھنڈ بھارت کا تصور ہے، اس تصور سے چین کے ساتھ افغانستان بھی متاثر ہوتا ہے، بھارت کا خیال تھا کہ چین اس معاملے سے الگ رہے گا، مگر پاکستان پر جارحیت کی صورت میں چین بھی خاموش نہیں رہے گا۔ وزیر خارجہ کی طرف سے یہ بات بہت سوچ سمجھ کر کی گئی ہوگی۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان، چین اور کئی علاقائی ممالک یا قوتیں بھی گھمسان کے اس رن میں اپنے اپنے ممدوح کے حق میں زور آزمائی کرسکتی ہیں۔ بھارت کی جارحیت کا ہدف صرف پاکستان ہی نہیں دونوں ملکوں کی دوستی کی علامت سی پیک بھی ہے، اس لیے بھارت نے دونوں کو باہم متحد کرکے اپنے مقابل کھڑا کرلیا ہے۔ تین ایٹمی طاقتوں کے درمیان جنگ ایک ہولناک تصور ہے، مگر چینی فوج سے لاتیں اور گھونسے کھاکر کھسیانی ہوجانے والی بھارتی فوج پاکستان کا کھمبا نوچنے کی حماقت کرسکتی ہے۔ پاکستان میں فوجی سطح پر اس کی تیاری مکمل ہوگی جس سے متعلق بھارت پر واضح بھی کردیا گیا ہے، مگر عوامی سطح پر اس کی تیاری نظر نہیں آتی، نہ ہی پاکستان کا میڈیا اس حوالے سے مجموعی طور پر زیادہ سرگرمی دکھاتا نظر آرہا ہے۔ فالز فلیگ آپریشن کا منترا پڑھنے کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ قومی اتفاقِ رائے پیدا کرکے ملک میں جارحیت کے خلاف اُٹھ کھڑا ہونے کا شعور اجاگر کیا جائے۔