شہبازشریف کی پوری کوشش ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ میں خود کو عمران خان کے متبادل کے طور پر پیش کریں اور یہ باور کروائیں کہ وہ پسِ پردہ قوتوں کے لیے وہ مسائل پیدا نہیں کریں گے جو نوازشریف یا مریم نواز نے ان کے لیے پیدا کیے ہیں
کچھ لوگ کہہ رہے تھے کہ شہبازشریف کی واپسی ایک خاص مقصد، ڈیل یا حکمتِ عملی کا نتیجہ ہے۔ ان کے بقول شہبازشریف کو لانے کا مقصد عمران خان کی حکومت پر دبائو بڑھانا، فوج اور عمران خان کے درمیان تعلقاتِ کار میں ٹکرائو پیدا کرنا اور ایک متبادل سیاسی پلان کی طرف پیش قدمی ہے۔ لیکن شہبازشریف کی واپسی کے بعد کے امکانات کا تجزیہ کیا جائے تو بظاہر یہی لگتا ہے کہ ان کی آمد کے بارے میں جو بھی سیاسی پیش گوئیاں کی گئی تھیں، وہ نتیجہ خیز نہ ہوسکیں، یا ان میں حقائق سے زیادہ کسی کی خواہش کا عنصر کارفرما تھا۔ عملی حقائق یہ ہیں کہ اس وقت عمران خان کی حکومت کو شہبازشریف سمیت حزبِ اختلاف کی کسی بھی جماعت سے کوئی خطرہ نہیں، اور نہ ہی یہ لوگ حکومت کے خلاف کوئی بڑی سازش یا مزاحمت پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ عمران خان کے لیے سب سے بڑا خطرہ خود ان کی اپنی حکومت ہے جو اگر حکمرانی کے نظام میں کچھ بہتر پیش نہ کرسکی تو ان کی اپنی سیاسی ساکھ بری طرح سے متاثر ہوگی۔
شہبازشریف بنیادی طور پر ایک سیاست دان ہیں۔ عملی سیاست عمومی طور پر کسی بڑے ذہنی خلفشار یا فکری مسائل میں الجھنے کے بجائے سیاست سے جڑے ہوئے عملی مسائل پر توجہ دینے کا نام ہے۔ شہبازشریف کا سیاسی ماڈل فیصلہ ساز طاقت کے مراکز کے ساتھ معاملات کو جوڑ کر اقتدار کے کھیل میں حصہ دار بننے سے جڑا ہوا ہے۔ وہ ہمیشہ کہتے ہیں کہ ہمیں طاقت کے مراکز کے ساتھ ٹکرائو پیدا کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ شہبازشریف اسٹیبلشمنٹ کے حلقوں میں کافی حد تک قابلِ قبول فرد کے طور پر اپنی قبولیت بھی رکھتے ہیں۔ اِس وقت بھی مسلم لیگ (ن) اور بالخصوص شریف خاندان کو جو کچھ بھی سیاسی رعایتیں ملی ہوئی ہیں اس کے پیچھے بھی شہبازشریف کے پسِ پردہ قوتوں سے سیاسی رابطوں کا عمل دخل ہے۔
شہبازشریف کی پوری کوشش ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ میں خود کو عمران خان کے متبادل کے طور پر پیش کریں اور یہ باور کروائیں کہ وہ پسِ پردہ قوتوں کے لیے وہ مسائل پیدا نہیں کریں گے جو نوازشریف یا مریم نواز نے ان کے لیے پیدا کیے ہیں۔ اسی سوچ اور فکر کے ساتھ وہ اپنی ہی جماعت میں اپنا سیاسی قد کاٹھ بڑا بناکر پیش کرنے کی کوششوں میں مگن ہیں۔ شہبازشریف نے خاموشی سے مسلم لیگ (ن) کے اُن لوگوں کو جو انتخابی سیاست کرتے ہیں اور اِس وقت بھی اسمبلیوں کا حصہ ہیں،صاف پیغام دیا ہے کہ ہم حکومت میں دوبارہ آسکتے ہیں، لیکن اس کو یقینی بنانے کے لیے ہمیں اسٹیبلشمنٹ کی قوتوں کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا۔ ان کے بقول جو راستہ نوازشریف اور مریم نواز سمیت پارٹی کے کچھ رہنمائوں نے اختیار کیا اس کا نقصان ہمیں اور فائدہ عمران خان کو اقتدار کی صورت میں ملا ہے۔
اس وقت شہبازشریف پاکستان میں ہیں۔ اُن پر، اُن کے بیٹوں، داماد اور خاندان کے دیگر افراد پر مالی بدعنوانیوں، کرپشن، بے ضابطگیوں سمیت منی لانڈرنگ کے الزامات ہیں۔ نیب اور شریف خاندان کے درمیان آنکھ مچولی کا کھیل جاری ہے۔ شہبازشریف نیب سے بچنے کی کوشش کررہے ہیں، حمزہ شہباز نیب کی تحویل میں ہیں۔ سلمان شہباز اور داماد علی عمران ملک سے باہر ہیں اور ملک واپس آنے سے گریز کررہے ہیں۔ شہبازشریف بطور اپنے گھر کے سربراہ کے، ان تمام معاملات سے سخت پریشان بھی ہیں، کیونکہ اب ان مقدمات میں گھر کی عورتوں کے نام بھی سامنے آرہے ہیں۔ ایسے میں شہبازشریف کے لیے سیاست سے زیادہ اہم مقدمات ہیں جن سے اُن کو خود بھی بچنا ہے اور اپنے بیٹوں سمیت خاندان کے دیگر افراد کو بھی بچانا بنیادی ترجیح کا حصہ ہے۔ سیاسی طور پر ان کی پہلی ترجیح خود کو نوازشریف کے متبادل کے طور پر پیش کرنا، اور اپنی بھتیجی مریم نواز کی سیاست کو پیچھے اور خود کو فرنٹ فٹ پر رکھ کر کھیلنا ہے۔ شہبازشریف جانتے ہیں کہ مریم خود کو نوازشریف کا متبادل سمجھتی ہیں اور فوری طور پر وہ قیادت کے لیے شاہد خاقان عباسی کو آگے کرنا چاہتی ہیں، جو شہبازشریف کے لیے قابلِ قبول نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو مریم کے ان سیاسی عزائم کے باعث خود پاکستان آکر بیٹھنا پڑا تاکہ قیادت پر ان کا کنٹرول رہے اور پارٹی پر وہ اپنی سیاسی گرفت مضبوط کرسکیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں سیاسی طور پر شہبازشریف اور مریم نواز کے درمیان فاصلے نظر آتے ہیں، اوراس وقت دونوں کی سیاسی حکمت عملی ایک دوسرے سے مختلف نظر آتی ہے۔
شہبازشریف کی کوشش یہ ہے کہ وہ باہمی اتفاق سے نوازشریف کو یہ باور کروائیں کہ وہ متبادل قیادت کے طور پر ان کے نام پر اتفاق کرلیں، اس سے پارٹی اور خاندان دونوں کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ کیونکہ شہبازشریف کبھی بھی نوازشریف کو چیلنج کرکے باہر نہیں نکلیں گے، اور وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ ووٹ بینک نوازشریف کا ہی ہے، اور اس پر کنٹرول برقرار رکھنے کے لیے انہیں نوازشریف کی ہی سیاسی حمایت درکار ہوگی۔ اس لیے شہبازشریف کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ خاندانی سیاست کے گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں اور عملی طور پر اس پوزیشن میں بھی نہیں کہ پارٹی میں نوازشریف کے خلاف کوئی بڑی مزاحمت پیدا کرسکیں۔ اسٹیبلشمنٹ بھی اچھی طرح سمجھتی ہے کہ شہبازشریف ذاتی حیثیت میں کچھ نہیں کرسکیں گے، اور اگر نوازشریف کو چیلنج نہیں کرتے تو یقینی طور پر شہبازشریف ایک سیاسی بوجھ ہی ہوسکتے ہیں، اور مریم ہی نوازشریف کا متبادل ہوں گی۔ جبکہ شہبازشریف یہ کام آسانی سے نہیں ہونے دیں گے، کیونکہ اس سے شہبازشریف اور حمزہ شہباز دونوں کا کردار ختم ہوسکتا ہے، جو شہبازشریف کے لیے قابلِ قبول نہیں۔ اس لیے مسلم لیگ (ن) یا شریف خاندان کی سیاست کا مستقبل جہاں اسٹیبلشمنٹ سے مفاہمت یا ٹکرائو کی سیاست سے جڑا ہوا ہے، وہیں بڑا سوال خاندان کے اندر مستقبل کی سیاست کے لیے کرداروں کا انتخاب بھی ہے۔ اس خاندانی خلفشار نے خود مسلم لیگ (ن) کے اندر بھی کئی طرح کی گروپ بندیاں پیدا کردی ہیں، اور پارٹی کے لوگ ابہام کا شکار ہیں کہ وہ کس کے ساتھ کھڑے ہوں تاکہ ان کی اپنی سیاست بھی بچ سکے۔
شہبازشریف کے حق میں یہ بات ضرور جاتی ہے کہ نوازشریف اور مریم نواز کی خاموشی نے ان کو سیاسی طور پر زندہ رکھا ہوا ہے، اوریہ بات شہبازشریف اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان دونوں کی خاموشی ہی ان کے سیاسی مفاد میں ہے۔ لیکن وہ کب تک ان دونوں کرداروں کو عملی طور پر خاموش رکھ سکیں گے، اور بالخصوص مریم نواز کو؟ یہ خود ایک بڑا سوال ہے جس کا جواب ہی شہبازشریف کے مستقبل کا تعین کرسکے گا۔ اصل بات یہ ہے کہ شہبازشریف حزبِ اختلاف کا حصہ ہوتے ہوئے بھی مفاہمت ہی کی سیاست سے جڑے نظر آتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی اور ان کے خاندان کی بچت اسی مفاہمت کی سیاست میں ہے۔ ممکن ہے کہ مسئلہ شہبازشریف کی گرفتاری کا نہ ہو بلکہ ان پر دبائو ڈالنا مقصود ہو، تاکہ وہ خود کو سیاسی طور پر محدود کرسکیں۔
اب سوال یہ ہے کہ شہبازشریف کی سیاسی واپسی ممکن ہے؟ فی الحال تو ان کی واپسی ہوگئی ہے اور وہ پاکستان میں ہی ہیں، اور یہ بھی انہیں ہی طے کرنا ہے کہ وہ عملی سیاست کب شروع کریں گے اور ان کی سیاسی حکمت عملی کیا ہوگی۔ شہبازشریف کی پہلی کوشش یہ ہوگی کہ وہ پسِ پردہ قوتوں کی مدد سے خود کو سب سے پہلے قانونی معاملات سے محفوظ بناسکیں، اور نیب جو ان کے یا ان کے بچوں کے پیچھے پڑا ہے اُس سے انہیں محفوظ راستہ دیا جائے۔ یہی راستہ وہ اپنے لیے بھی چاہتے ہیں اور اپنے خاندان کے افراد کے لیے بھی، کیونکہ ان کو اندازہ ہے کہ اس وقت ان کے خاندان کو قانونی ریلیف کا ملنا اہم نکتہ ہے، اور اسی بنیاد پر وہ مستقبل کی سیاست میں اپنا رنگ بھر سکتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کو بھی اس بات کا اندازہ ہے کہ شہبازشریف کو قانونی محاذ پر ہی کنٹرول کرکے ان کی سیاسی گرفت کو کمزور کیا جاسکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ حکومت کا مقدمہ بھی شہبازشریف اور ان کے بچوں کے خلاف قانونی زیادہ ہے، اور اسی کو بنیاد بناکر ان کو سیاسی طور پر کمزور کرنا حکومتی پالیسی کا حصہ ہے، تاکہ وہ قانونی محاذ پر اس انداز سے جکڑے جائیں کہ سیاسی طور پر ان کی حیثیت کو مفلوج کیا جاسکے۔