چین بھارت سرحدی تنازع

چین سے ہزیمت سے توجہ ہٹانے کے لیے لائن آف کنٹرول پر دبائو

اس خطے میں ان دنوں ایک اہم پیش رفت ہمارے سامنے ہے، چین بھارت تنازع چل رہا ہے اور پاکستان اس سے براہِ راست متاثر ہورہاہے، لہٰذا اسلام آباد کی سیاسی اور عسکری قیادت اس سے کسی بھی قیمت پر لاتعلق نہیں ہے۔ بھارتی قیادت اپنی ناکامیوں سے توجہ ہٹانے کے لیے مہم جوئیوں کو ایک ذریعہ سمجھتی ہے، بھارت نے پاکستان پر عجیب و غریب قسم کے الزامات لگائے جو جھوٹ ثابت ہوئے۔ بھارت رواں سال کنٹرول لائن پر جنگ بندی معاہدے کی1229 مرتبہ خلاف ورزی کرچکا ہے، یہ صورتِ حال پاکستان کے لیے غیر معمولی ہے۔ بھارت نے سفارتی آداب فراموش کرتے ہوئے نئی دہلی میں پاکستان کے قائم مقام ہائی کمشنر سید حیدر شاہ کو ہراساں کرنے کی کوشش کی، اور بھارتی خفیہ اہلکار ان کے ساتھ بدتمیزی سے پیش آئے۔ دفتر سے گھر جاتے ہوئے ان کی گاڑی کا راستہ بار بار بھارتی خفیہ ایجنسی کے حکام کی جانب سے روکا گیا۔ پاکستان نے اس واقعے پر شدید احتجاج کیا کہ یہ بھارتی اقدام ویانا کنونشن برائے سفارتی تعلقات کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ بھارت کو اقوام متحدہ کی رپورٹ اور چین کے محاذ پر ملنے والی ہزیمت کا غم ہے۔ پاکستان نے اقوام متحدہ کی مانیٹرنگ ٹیم کی رپورٹ سے متعلق بھارتی وزارتِ خارجہ کا بیان حقائق کے برعکس قرار دے کر مسترد کردیا ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ عائشہ فاروقی نے کہا کہ متعدد بھارتی سہولت کاروں کے نام یواین سلامتی کونسل کی دہشت گردوں کی فہرست میں دیے جائیں جن کے دہشت گردی میں ملوث ہونے کے شواہد بھی فراہم کیے جاچکے ہیں۔
بھارت درحقیقت اس خطے کا وہ ملک ہے جو اپنی طاقت کے زعم میں عالمی قوانین، اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر، سلامتی کونسل کی قراردادوں اور ریاستی تعلقات کے حوالے سے ویانا کنونشن سمیت کسی قانون اور سفارتی ادب آداب کو خاطر میں نہیں لاتا، اور خطے کے دوسرے ممالک میں مداخلت اپنا حق گردانتا ہے۔ علاقائی اور عالمی امن کو کہیں سے خطرہ لاحق ہے تو وہ صرف بھارت ہے۔ بھارت کی ہر حکومت نے پاکستان کی سلامتی کو کمزور کرنا اپنے ایجنڈے میں شامل رکھا ہے۔ مودی سرکار پاکستان کی سلامتی کے حوالے سے اپنی ہذیانی کیفیت کے اظہار کا کوئی نہ کوئی موقع نکالتی رہتی ہے۔ گزشتہ سال فروری سے اب تک اس نے پاکستان کے ساتھ سرحدی کشیدگی بڑھانے اور ساتھ ہی ساتھ مقبوضہ کشمیر اور بھارت کے مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ گزشتہ سال 5 اگست کو مقبوضہ کشمیر پر شب خون مار کر اس کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کی اور کشمیریوں کو لاک ڈائون کے ذریعے گھروں میں محصور کردیا، جو گزشتہ 306 روز سے بھارتی مظالم برداشت کررہے ہیں۔ اب مودی سرکار کی جانب سے پاکستان کو زچ کرنے کا نیا سلسلہ بھارت میں تعینات اس کے سفارت کاروں کو ہراساں کرنے کی صورت میں شروع کیا گیا ہے۔ یہ صورت حال مودی سرکار کی جنونیت سامنے لارہی ہے۔
وزیراعظم گزشتہ دنوں قومی سلامتی سے متعلق بے حد حساس اور انتہائی غیر معمولی اہمیت کے حامل اعلیٰ سطحی اجلاس میں بریفنگ کے لیے شریک ہوئے، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بھی اجلاس میں موجود تھے، قومی سلامتی سے متعلق ملکی ادارے کے سربراہ نے انہیں بریفنگ دی۔ وفاقی کابینہ کے دو اہم ارکان وزیر خارجہ اور مشیر خزانہ کی اس اجلاس میں موجودگی کا صاف صاف مطلب یہ تھا کہ انہیں بھی اس حوالے سے کوئی ٹاسک دیا جائے تاکہ بیرونی اور اقتصادی محاذ پر درپیش مشکلات کا حل نکال سکیں۔ ان میں سے ایک اقوام عالم میں پاکستان کی وکالت کریں گے، اور دوسرے کے ذمے وسائل کی فراہمی ہوگی۔ جدید زمانے کی جنگ کی ساری ترکیب اب بہت بدل گئی ہے، کوئی بھی ملک امورِ خارجہ، معیشت اور اطلاعات کے شعبے پر مکمل کنٹرول کے بغیر جنگ میں نہیں کود سکتا۔ عسکری پیش رفت، جنگی ہتھیاروں اور ساز و سامان سے متعلق اصطلاحات بھی اب بدل گئی ہیں۔ جس طرح سفارت کار نہایت مختصر جملے میں وسیع مفہوم کی بات کرجاتے ہیں، اسی طرح اب حربی محاذ پر نئی عسکری اصطلاحات استعمال ہونے لگی ہیں۔ بھارت چین جنگ ایک شاہراہ کی جنگ ہے جسے دونوں ملک اپنی معیشت کے لیے شہ رگ سمجھتے ہیں، مگر اس محاذ پر بھارت کا دعویٰ غلط اور بے بنیاد ہے، اسے اپنا دعویٰ واپس لینا ہوگا اور پسپائی کی ذلت اٹھانی ہوگی۔ وہ جسے اپنی آرٹری سمجھتا ہے یا اسے شہ رگ قرار دے کر آگے بڑھنے لگا تھا، اسے اب یہ علاقہ چھوڑنا ہوگا۔ چین نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ اپنی کسی شاہراہ کو بلاک نہیں کرنے دے گا۔ بھارت چین جنگ اصل میں قراقرم ہائی وے اور سی پیک پر براہِ راست اثرات ڈال رہی ہے۔ یہ راستہ چین کے اسٹرے ٹیجک نکتہ نظر سے اہمیت کا حامل ہے۔ اگر چین اپنے دارالحکومت بیجنگ یا ساحلی شہر شنگھائی سے اپنی بحریہ کو بحرہند میں لانا چاہے تو اسے آبنائے ملاکا استعمال کرنا پڑے گی۔ یہ آبی راستہ بھارت کی جانب سے کسی بھی وقت بند یا بلاک کیے جانے کا امکان رہتا ہے۔ ایسا ہوجانے پر چین کے لیے متبادل راستہ قراقرم ہائی وے یا سی پیک ہی بچتا ہے۔ چند ہفتوں کی جنگ کے بعد اب دونوں مذاکرات کی میز پر بیٹھے ہیں۔ ماضی میں بھی دونوں ملک سرحدی تنازعات پر فلیگ میٹنگز کرتے رہے ہیں، لیکن اِس بار ان ملاقاتوں میں اعلیٰ رینک کے افسر شریک ہوں گے۔ بھارت کی جانب سے لداخ کے دارالحکومت لیہہ کے 14کور کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل ہریندر سنگھ، اور چین کی طرف سے تبت کے ملٹری ڈسٹرکٹ کمانڈر شرکت کریں گے۔ یہ فلیگ میٹنگ مالڈو میں ہوگی جو لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر واقع ایک گائوں ہے۔ اس اعلیٰ سطحی میٹنگ سے قبل دونوں ملک مذاکرات کے بارہ دور کرچکے ہیں، فیصلہ اور تجاویز کو حتمی شکل دینے کا وقت ہے تو اس میٹنگ کے لیے اعلیٰ رینک کے افسر بھجوائے جائیں گے۔ بھارت کی خواہش ہوگی کہ چین زمانۂ امن کی پوزیشن پر واپس چلا جائے، جس کے بعد جھیل پانگونگ (Pongong) اور وادیٔ گالوان میںکشیدگی ختم ہوجائے گی اور چین لائن آف ایکچوئل کنٹرول کے اندر 5کلومیٹر پیش قدمی واپس لے لے۔ لیکن بھارت کی خواہش پوری ہوتی نظر نہیں آرہی۔ چین اس وقت غالب ہے اور بھارت مغلوب، دونوں کی پوزیشن میں زمین آسمان کا فرق ہے، لہٰذا چین اپنے اصولی مؤقف سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔ وہ تو گزشتہ برس اگست میں، جب بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کی کردی تھی، لداخ کا اسٹیٹس تبدیل کرنے پر بھارت کو سخت وارننگ دے چکا ہے۔ دونوں کے درمیان اصل جھگڑا دولت بیگ اولدی اور لیہہ کی ان سڑکوں کی تعمیر کا ہے جو بھارت تعمیر کرچکا ہے۔
دولت بیگ کی ہوائی پٹی بھی چین کے لیے مشکلات پیدا کرنے کا سامان ہے۔ بھارت یہاں سے کسی بھی ہوائی پٹی سے قراقرم ہائی وے اور سی پیک کو بند یا بلاک کرسکتا ہے، اور یہیں سے بھارت ہمارے لیے بہت بڑا خطرہ ہے کہ دیامیر بھاشا ڈیم بھی اسی علاقے میں ہے۔ چین چاہتا ہے کہ بھارت دولت بیگ کی ہوائی پٹی خالی کردے اور یہاں سے اپنی فوج واپس لے جائے۔ چین بھارت پر واضح کرچکا ہے کہ وہ اس انتہائی اہم علاقے سے اپنا بوریا بستر سمیٹے اور واپس چلاجائے تاکہ چین سنکیانگ اور تبت کے جنوب مغربی حصے سے متعلق کسی تشویش میں نہ رہے۔ اب تک کی جنگ میں ہونے والے نقصان کے باعث یہ نظر آرہا ہے کہ بھارت دولت بیگ اولدی سے پسپائی کی ذلت کی خاک اپنے سر پر ڈالنے پر تیار ہوسکتا ہے، مگر وہ مقبوضہ کشمیر میں بھی مکروہ منصوبے بنا رہا ہے جس میں ہوائی اڈے کی تعمیر بھی شامل ہے۔ یہ ہوائی مستقر کشمیر کے ضلع اننت ناگ میں بیج بہارا (Bij Behara) کے مقام پر تعمیر کرنے کا منصوبہ ہے۔ یہ علاقہ جموں اور سری نگر دونوں کو باہم ملاتا ہے۔
بھارت اور چین کے سرحدی تنازعے میں ایک بڑا موڑ آیا ہے، دونوں فوجیں اس ہفتے پیٹرولنگ پوائنٹ 14 (گیلوان ایریا)، پیٹرولنگ پوائنٹ 15 اور ہاٹ اسپرنگس ایریا سمیت متعدد دیگر علاقوں پر بات چیت میں شریک ہیں۔ چین کا مؤقف ہے کہ بھارت کے شمال مشرقی علاقے میں 90 ہزار مربع کلومیٹر کا علاقہ اس کی ملکیت ہے۔ چین اور بھارت کی فوجیں لداخ میں ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں۔ چین کی جانب سے 80 سے 100 ٹینٹ نصب کردیے گئے ہیں، جبکہ بھارت کی جانب سے بھی 60 خیمے لگائے گئے ہیں۔ سرحد پر تنازعے کی اصل وجہ بھارت کی جانب سے سڑکوں اور رن ویز کی تعمیر ہے۔