انفرادی و اجتماعی کردار و عمل اور خود احتسابی کی ضرورت
حضرت ابن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر چار چیزیں اور خصلتیں تمہارے اندر ہوں اور ساری دنیا بھی چھوٹ جائے تو کوئی حرج نہیں: امانت کی حفاظت، بات میں سچائی، اخلاق میں عمدگی، اور رزق میں پاکیزگی۔
یہ مسند احمد کی حدیث ہے۔
یہ وہی حدیث ہے جسے ممتاز عالم دین مولانا طارق جمیل نے وزیراعظم عمران خان کی کورونا فنڈ ریزنگ ٹیلی تھون میں دعا سے قبل اس طرح بیان کیا تھا کہ میرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ چار باتیں مجھ سے لے لو پھر دنیا بھی تمہاری ہے اور آخرت بھی تمہاری۔ تمہیں کوئی ٹیڑھی آنکھ سے نہ دیکھ سکے گا، تمہیں کوئی نقصان نہ پہنچا سکے گا کہ تمہارے رب کا سایہ تم پر چھا جائے گا۔ وہ چار باتیں یہ ہیں:
صدقِ حدیث… ہمیشہ سچ بولنا، جھوٹ نہ بولنا۔
حفظِ امانت… کبھی کسی کو دھوکا نہ دینا۔
حسنِ خلیقت… اپنے اخلاق اونچے کرنا۔ (مولانا طارق جمیل کے بقول اخلاق کو سب سے اونچا مقام دیا گیا ہے) ۔
مولانا کے اسی دعائیہ خطاب کے بعد کئی ٹی وی چینلز نے تنقیدی پروگرام کیے تھے جس پر مولانا نے معذرت بھی کی تھی، تاہم اس پر بحث تاحال جاری ہے۔
آئیے ذرا جائزہ لیں کہ بطور قوم ہم اس حدیث کے مقرر کردہ معیار پر کتنا پورا اترتے ہیں۔ ابھی برکتوں، رحمتوں اور مغفرتوں کا ماہِ مبارک گزرا ہے۔ اس ماہِ مبارک میں دل نرم ہوجاتے ہیں۔ رجوعِ الی اللہ بڑھ جاتا ہے۔ خیر کا جذبہ پہلے کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہوجاتا ہے۔ طبیعتیں گناہ کی جانب راغب نہیں ہوتیں، بلکہ فکرِ آخرت ہر مسلمان کے پیش نظر ہوتی ہے۔ اس ماحول میں ہم نے اس حدیث پر کتنا عمل کیا؟ اس سے پہلے کے معاملے کو اگر نظرانداز بھی کردیں اور صرف اس مہینے میں اپنے کردار اور عمل کو اس حدیث کی کسوٹی پر پرکھیں تو صورتِ حال واضح ہوجائے گی، جو یقیناً قابلِ شرم ہوگی۔
ہم کتنا سچ بولتے ہیں، اگر ہر رات سونے سے قبل اس کا جائزہ لیں تو شرمندگی کے سوا ہمارے حصے میں کچھ نہیں آئے گا۔ شاید 22 کروڑ میں سے چند افراد ایسے نکل آئیں جنہوں نے پورے دن جھوٹ نہ بولا ہو۔ یہ بھی اگر پورے ہفتے یا مہینے کا جائزہ لیں تو شرمسار ہوں گے۔ ہم ایک ایسی قوم ہیں جو بلا جواز جھوٹ بولتی ہے۔ کسی مجبوری کے بغیر بھی جھوٹ بول لیتی ہے۔ ہنسی مذاق میں جھوٹ بولنا، گفتگو میں مبالغے سے کام لینا اور اپنی بات درست ثابت کرنے کے لیے جھوٹے دلائل دینا شاید ہماری سرشت میں شامل ہے۔ ہماری عدالتوں کے ریکارڈ روم جھوٹی شہادتوں اور جھوٹی دستاویزات سے بھرے پڑے ہیں۔ ہمارے سرکاری اداروں کی فائلوں میں ہزاروں نہیں لاکھوں جھوٹے حلف نامے مل جائیں گے۔ ہماری پولیس ہر روز درجنوں جھوٹی ایف آئی آر کاٹتی ہے۔ ہمارے ایکسائز اور ٹیکس کے محکمے کی ہر فائل میں جھوٹ کا ایک پلندہ لگا ہوا ہے، جس کی واضح مثال یہ ہے کہ چینی کے جن کارخانوں کو حال ہی میں 5 ارب روپے سے زائد کی سبسڈی دینے کے معاملے پر گرما گرما بحث چل رہی ہے، ان کارخانوں کا ٹیکس ریکارڈ اٹھائیں تو انہوں نے چند لاکھ سے زیادہ ٹیکس نہیں دیا ہوگا۔ ہمارے اسی طرزعمل کے باعث عوام کی بڑی تعداد سیاست ہی کو جھوٹ کا دوسرا نام دیتی ہے۔ سب سیاست دانوں کے بیانات، اُن کے یوٹرن اور سیاسی جماعتوں کے منشور جھوٹ کا پلندہ ہیں۔ فلاحی و رفاہی تنظیمیں جھوٹے دعوے کرکے چندہ اکٹھا کرتی ہیں۔ لوگ بجلی کا کنکشن لیتے ہوئے اور دفاتر سے چھٹی لیتے وقت جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام، احساس پروگرام اور اس طرح کے دوسرے سرکاری اور نجی امدادی پروگراموں کے ریکارڈ کا جائزہ لیا جائے تو ان میں ہزاروں جھوٹی درخواستیں، جھوٹی دستاویزات، جھوٹے حلف نامے، جھوٹے تصدیق و توثیق نامے اور جانتے بوجھتے ان کی خوفِ خدا سے عاری منظوریاں نکل آئیں گی۔
حدیث کا دوسرا حصہ ہے حفظِ امانت… یعنی امانت کی حفاظت کرنا یا دھوکا نہ دینا۔ ہم اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں کا جائزہ لیں تو اس معیار پر ہمیں سخت شرمندگی کا سامنا ہوگا۔ ہم اس نبی ؐ کے امتی ہیں جس نے ہجرت کے وقت اپنی جان کے دشمنوں کی امانتیں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے حوالے کرتے ہوئے انہیں ہدایت کی کہ صبح یہ امانتیں ان کے مالکوں کے حوالے کردینا۔ اور ہمارا حال یہ ہے کہ ہم امانت کی حفاظت کرنے کے بجائے اس پر ڈاکا ڈالنے کے عادی ہیں۔ ہمارے ملک کی غالب اکثریت بہنوں اور بیٹیوں کو وراثت میں ان کا جائز حق دینے کے بجائے اسے حیلوں بہانوں سے ہضم کرجاتی ہے، اور پھر یہی محروم بہنیں اور بیٹیاں اپنے شوہروں کو ان کی بہنوں کا حق نہ دینے کی ترغیب دیتی ہیں۔ ہمارے بااثر افراد کمزوروں کی امانتیں دبا لینا کوئی جرم نہیں سمجھتے۔ رہی بات دھوکے کی، تو اس میدان میں بھی بدقسمتی سے ہم بہت آگے ہیں۔ ہم نہ صرف دوسروں کو دھوکا دیتے ہیں بلکہ اکثر و بیشتر معاملات میں اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہوتے ہیں۔ اور خدا سے معافی کی امید پر دھوکا دینے کی کوشش میں زندگی گزار دیتے ہیں۔ ہم رشوت کے پیسے، ذخیرہ اندوزی کی کمائی، ملاوٹ کی آمدنی اور منشیات کے کاروبار کے بعد عمرے اور حج کرتے ہیں۔ مساجد اور امام بارگاہیں تعمیر کراتے ہیں۔ خیراتی اداروں کی سرپرستی کرتے ہیں۔ بیواؤں کی مدد کرتے اور یتیم بچیوں کی شادیاں کراتے ہیں۔ یہ سب کچھ اپنے ساتھ، پوری قوم کے ساتھ اور خود خدا کے ساتھ دھوکا نہیں تو اور کیا ہے! ہم دھوکا دے کر زمینیں اور جائدادیں الاٹ کراتے ہیں۔ دھوکا دے کر سبسڈیاں لیتے ہیں۔ دھوکا دے کر ٹیکس چوری کرتے ہیں۔ اور دھوکے دے کر اپنے جرائم پر پردہ ڈالتے ہیں۔ کیا یہ سب کچھ اپنے ساتھ اور اپنے رب کے ساتھ دھوکے نہیں! ہمارے ہاں بااثر مجرم اور گناہ گار، عدالت کی آنکھوں میں دھول جھونک کر خود کو بے گناہ ڈیکلیئر کروا لیتا ہے، اور بے گناہ یہ انتظامات نہ کرسکنے کے باعث اپنی زندگی کا بڑا حصہ جیل میں گزار آتا ہے۔ ہماری حکومتیں عوام کو اور عوام حکومتوں کو دھوکا دینے میں مصروف ہیں۔
حدیث کا تیسرا جزو حسنِ خلیقت … اخلاق کو اونچا رکھنا ہے۔ بطور قوم ہمارا اخلاق کتنا اونچا اور اعلیٰ ہے، یہ ہم سب جانتے ہیں۔ ہر معاملے میں ہماری اخلاقی پستی روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ جو بظاہر اخلاق نظر آتے ہیں ان میں سے بھی بیشتر مصنوعی، وقتی اور دکھاوے کے ہیں۔ اپنے اہلِ خانہ، بے نوا خواتین، بے بس بزرگوں اور مجبور بچوں کے ساتھ ہمارا اجتماعی رویہ قابلِ فخر نہیں ہے۔ نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کو پھیلانے کا حکم دیا ہے کہ یہ اخلاق کا پہلا زینہ ہے، لیکن ہم نے یہ ذمہ داری دفاتر اور ہوٹلوں کے گیٹ کیپرز، استقبالیہ کلرکوں اور جدید کمپنیوں کے ملازمین کے حوالے کردی ہے۔ ہمارے افسران ماتحت عملے کو سلام کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ ماتحت عملہ بھی اپنے ساتھیوں کو سلام نہیں کرتا البتہ افسران کے آگے پیچھے دوڑ دوڑ کر کئی کئی فرشی سلام کرتا ہے۔ اب تو نمازیوں نے بھی مساجد میں سلام کرنا چھوڑ دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر قابلِ اعتراض ویڈیوز، فحش مکالموں اور ذومعنی جملوں کے ساتھ خواتین اور مردوں کی ایک دوسرے کو دوستی کی پیش کشیں جو گل کھلا رہی ہیں وہ ہمارے سامنے ہے۔ موبائل کمپنیوں کے سستے پیکیجز نے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو رات بھر جس کام میں لگا رکھا ہے، اس نے والدین کی نیندیں حرام کردی ہیں۔ ایک عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان فحش فلمیں دیکھنے کے حوالے سے دنیا کے اوپر کے چند ملکوں میں شامل ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں پروان چڑھنے والی بے راہ روی اور سڑکوں پر نظر آنے والی بے باکی ہماری اخلاقی حالت پر مہرِ تصدیق ثبت کردیتی ہے۔ نوجوانوں کی مثبت سرگرمیوں میں عدم دلچسپی، لائبریریوں کا بے آباد ہونا اور جدید تعلیمی اداروں میں منشیات کا بڑھتا ہوا رجحان اسی اخلاقی گراوٹ کا فطری نتیجہ ہے۔ روایتی میڈیا پر جنسی اسکینڈلز کی ضرورت سے زیادہ تشہیر اس اخلاقی و نفسیاتی مرض کا ایک پہلو ہے۔ غرض شادی بیاہ، خوشی غمی، لین دین، رشتے ناتوں اور دیگر معاملاتِ زندگی میں ہماری اخلاقی پستی ہر ہر قدم پر واضح اور نمایاں ہوتی ہے۔ مگر ہم نے اپنے اوپر ایک مخصوص خول چڑھا رکھا ہے، ورنہ اپنے اخلاق کی حیثیت ہم خود جانتے ہیں۔ جہاں تک بے حیائی کا تعلق ہے تو اس کو ہم نے ذہنی طور پر قبول کرلیا ہے، اور بہت سی دیگر برائیوں کو اب ہم سماجی ضرورت قرار دینے لگے ہیں جو مزید تباہ کن ہے۔
رہی بات عفیفتِ طعام یعنی کھانے میں پاکیزگی کی، تو اس پر زیادہ کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ ایک طرف ہماری مارکیٹوں میں مُردار اور حرام جانوروں کے گوشت کی فروخت کی شکایت عام ہے، اور دوسری جانب ہر شخص اپنے رزقِ حلال کا خود بہترین جج ہے جو قیامت کے دن کھول کھول کر سب کے سامنے رکھ دیا جائے گا اور گواہی بس آپ کے اپنے ہاتھ پاؤں، دل اور دماغ دیں گے۔ گویا اس حدیثِ نبوی کے چاروں معاملات میں ہماری حالت بہت پتلی ہے… انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی سطح پر بھی۔ نہ فرد اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری محسوس کررہا ہے اور نہ ریاست اس ذمہ داری کو ادا کررہی ہے، لیکن پھر بھی ہمارا یہی دعویٰ ہے کہ ہم زندہ قوم ہیں، پائندہ قوم ہیں۔