مصباح القرآن( قرآن لغت)۔

برادرم مسلم سجاد مرحوم جب بھی لاہور سے کراچی تشریف لاتے تو ایک روز ہمارے ہاں گزارتے، لنچ ہمارے ہاں ہی ہوتا۔ بہت سے موضوعات پر گفتگو رہتی۔ ایک دن تشریف لائے تو ایک ضخیم مسودہ اٹھائے ہوئے تھے۔ ہمارے استفسار پر فرمایا ’’صبح ناشتا برادرم عبدالقدیر سلیم کے ہاں کیا، انہوں نے اپنے والد صاحب کی مصنفہ لغات القرآن کا یہ مسودہ دکھایا تو مجھے بڑا اہم لگا، میں نے ان سے کہا کہ ہم اسے شائع کریں گے۔ سلیم صاحب نے یہ مسودہ مجھے عنایت کیا ہے‘‘۔ اس کے بعد ہم بھی ان سے لغات کے متعلق پوچھتے رہتے اور وہ کتابت اور پروف کا بتاتے رہتے۔ اسی دوران میں وہ اللہ کے پاس چلے گئے۔ جب ہم کراچی سے لاہور آگئے تو سلیم صاحب لغات کے متعلق اپنی پریشانی کا ذکر کرتے۔ ہم ان کو تسلی دیتے اور ان کا پیغام سلیم منصور خالد صاحب کو دیتے اور ساتھ ہی اپنی درخواست بھی ڈال دیتے کہ مسلم صاحب کا وعدہ ایفا ہو ہی جائے تو اچھا ہے۔ ہر کام کا ایک وقت مقرر ہے۔ ایک دن شام کو ٹیلی فون آیا، انہوں نے بتایا ’’میں پروفیسر عبدالقدیر صاحب کی بہو بول رہی ہوں، صبح سے ابا کتاب کھولے بیٹھے ہیں، اب انہوں نے فرمایا کہ ملک صاحب کو فون کرکے ان کا میری طرف سے شکریہ ادا کرو‘‘۔ پہلے تو مجھے سمجھ ہی نہیں آیا کون سی کتاب کا شکریہ ادا کررہے ہیں۔ اچانک خیال ہوا: ہو نہ ہو لغات القرآن چھپ گئی ہوگی۔ میں نے کہا ’’میرے شکریے کے بجائے اللہ کا شکر بجا لائیں کہ کتاب چھپ گئی۔ سلیم منصور خالد صاحب کا شکریہ ادا کریں جنہوں نے یہ کتاب چھاپی ہے‘‘۔ آدھے گھنٹے بعد دوبارہ فون آیا، انہوں نے کہا ’’ابا کہہ رہے ہیں ملک صاحب کا شکریہ ادا کریں‘‘۔ میں نے کہا ’’میرے لیے یہ مقامِ مسرت ہے کہ لغات طبع ہوگئی ہے‘‘۔ لغات مصباح القرآن بڑے سائز میں سفید کاغذ پر عمدہ طبع ہوئی ہے۔
پروفیسر عبدالقدیر سلیم حفظہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:۔
’’قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اُس کے نزول کی وجہ صاف طور پر یہ بیان فرمائی ہے کہ یہ تمام انسانوں کے لیے ہدایت اور رہنمائی کا ذریعہ ہے:۔
(ترجمہ) ’’بڑی برکت والی ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر ’’فرقان‘‘ (یعنی صحیح اور غلط، درست اور نادرست میں فرق کرنے والا) [قرآن مجید] نازل کیا، تاکہ وہ سب جہانوں [ساری دنیا] کے لیے خبردار کرنے والا ہو۔‘‘(الفرقان:1:25)۔
قرآن مجید دنیا کی واحد اور منفرد کتاب ہے، جس کا دنیا کی ہر اُس زبان میں ترجمہ ہوچکا ہے جو خطاطی سے آشنا ہے۔ اور بعض زبانوں میں تو اس کے کئی کئی تراجم موجود ہیں۔ اس کی تفاسیر، تشریحات اور فہم پر لوگوں نے اپنی عمریں صرف کردی ہیں۔ دنیا کی کسی کتاب کی اتنی تفاسیر نہیں ہیں۔ اگر دنیا کی ساری کتابیں نابود ہوجائیں تو قرآن کریم واحد کتاب ہے جو باقی رہے گی کہ یہ لاکھوں حفاظ کے سینوں میں محفوظ ہے۔
قرآنِ کریم کی لغات کی تشریحات پر بھی بہت سے علما نے کام کیا ہے۔ موجودہ لغت اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس میں عام لغات کی طرح محض الفاظ دے کر اُن کے سامنے معنی اور مفہوم نہیں لکھ دیے گئے ہیں، بلکہ الفاظ کو ان کے مادوں (Root) کے ذیل میں درج کیا گیا ہے۔ یہ بنیادی طور پر ’’تدریسِ قرآن‘‘ کی ایک لغت ہے۔
اس منفرد لغتِ قرآن کے مؤلف محمد سلیم عبداللہؒ (1978-1889ء) عالم، مصنف اور ماہرِ تعلیم تھے۔ مشرقی یوپی (اتر پردیش) کے شہر غازی پور (ضلع اعظم گڑھ) میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی عمر میں ہی خاندان اور دوسرے عزیزوں کے ساتھ ہجرت کرکے ہندوستان کے صوبہ جات مرکزی (Central Provinces) کے شہر امرائوتی آگئے۔ یہیں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ انہیں اردو کے علاوہ عربی و فارسی زبان و ادب سے شغف تھا۔ پھر جامعہ پنجاب (لاہور) کے اورینٹل کالج سے ’’فاضل‘‘ کی سند اعزاز کے ساتھ لی۔
تعلیم و تدریس سے ابتدا ہی سے دلچسپی تھی۔ کئی درسی کتابیں مرتب کیں، جو محکمہ تعلیم کی منظوری سے لازمی تعلیم کا جزو قرار پائیں۔ امرائوتی میں انہوں نے ’’ادارہ قرآنیہ‘‘ قائم کیا، اور قرآنی تعلیمات پر مشتمل چھوٹی چھوٹی کتابیں شائع کیں۔ ترجمہ قرآن سکھانے میں وہ براہِ راست طریق تدریس (direct method) کو سود مند پاتے تھے۔ اس طرح قرآنی عربی کی تحصیل نہایت آسان ہوجاتی۔
ان کی تالیفات میں ’’البینات‘‘ (قرآنی تعلیمات کا مجموعہ)، ’’اردو کیسے پڑھائیں؟‘‘ اور بچوں کے لیے اسلامیات پر درسی کتابیں شائع ہوئیں۔
1950ء میں ہجرت کرکے پاکستان آگئے۔ یہاں ان کی کتابوں میں ’’قرآنی تعلیمات‘‘، شاہ ولی اللہ کی ’’الفوز الکبیر‘‘ کا اردو ترجمہ، اور اردو کی درسی کتابوں کا سلسلہ (ابتدائی جماعتوں سے ثانوی جماعتوں تک) محکمہ تعلیم نے منظور کیا۔ اُن کی ایک کتاب کو اردو کی بہترین درسی کتاب قرار دے کر اُس وقت کی مغربی پاکستان کی حکومت کی طرف سے انعام بھی دیا گیا۔ ان کتابوں کی خصوصیت یہ تھی کہ تدریج کے ساتھ، زبان آموزی کے ساتھ کوئی سبق بھی بچے کی ذہنی و اخلاقی نشوونما سے عاری نہ تھا۔
میرے دورِ طالب علمی کے دوست اور ساتھی، پروفیسر مسلم سجاد (م:28 گست 2016ء) جو کالج کی تدریس کو جناب خرم مراد (4 دسمبر 1996ء) کی ایما پر خیرباد کہہ کر پوری قوم کی تدریس کے لیے ماہنامہ ترجمان القرآن لاہور کے نائب مدیر مقرر کیے گئے، اکثر اس فقیر کے غریب خانے پر آتے تھے (تقریباً ہر ماہ)۔ انہوں نے جب اس منفرد لغت ’’مصباح القرآن‘‘ کا مسودہ دیکھا تو فوراً اس کی طباعت و اشاعت پر آمادہ ہوگئے۔ تاہم کمپوزنگ اور حروف چینی میں تاخیر ہوتی رہی اور وہ اس کی طباعت سے پہلے ہی مالکِ حقیقی سے جاملے۔
ان کے بعد برادرِ عزیز سلیم منصور خالد نے بھی اس کی طباعت و اشاعت میں سرگرمی سے کام کیا، عزیزم راشد الیاس مہر، فراز احمد سلیم، ثنا اللہ اور سید ظہیر گیلانی نے اس کی صوری پیش کش کو بہتر بنانے کے لیے بار بار کوششیں کیں۔ اسی ذیل میں محترم ملک نواز احمد اعوان کی دُعائیں بھی شکریے کی سزاوار ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس کارِخیر میں شریک تمام اصحاب کو اجرِ عظیم سے نوازیں، اور اسے ثوابِ جاریہ کے طور پر قبول فرمائیں‘‘۔
کتاب پر جناب محمد سلیم عبداللہ صاحب نے مبسوط مقدمہ لکھا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے، جگہ کی قلت کی وجہ سے اس کی محتویات کا ذکر نہیں کرتے۔
دو دن قبل جھنگ سے ڈاکٹر ظفر اقبال صاحب ملاقات کے لیے تشریف لائے، ان کے ہاتھ میں ختم نبوت پر ٹائپ شدہ ضخیم مسودہ تھا، میں نے ان کو مصباح القرآن دکھائی، انہوں نے فوراً خاتم کی لغات دیکھی اور کہا ان کی تشریح صحیح ہے، عموماً لفظ خاتم کی تشریح صحیح نہیں کی جاتی نہ اردو میں نہ انگریزی میں۔ اور اس تفصیلات بیان کیں جس سے لغات مصباح القرآن کے مستند ہونے کا اندازہ ہوا۔
کتاب سفید کاغذ پر خوبصورت طبع ہوئی ہے، مجلّد ہے۔ جلد ڈائی دار ہے۔ ان شاء اللہ یہ کتاب بھی محمد سلیمؒ عبداللہ اور پروفیسر عبدالقدیر سلیم صاحب کے لیے صدقۂ جاریہ ہوگی۔