امریکہ اور نسل پرستی

ابوسعدی

(یہ واقعہ ٹیم ایئرلائنز کا ہے)
ایک پچاس سالہ سفید فام خاتون ہوائی جہاز میں اپنی سیٹ پر بیٹھنے آئیں تو انہوں نے دیکھا کہ ان کی برابر کی سیٹ پر ایک سیاہ فام شخص بیٹھا ہوا ہے۔ بے حد غصے میں انہوں نے ہوائی میزبان کو بلایا، جس نے دریافت کیا ’’میڈم کیا مسئلہ ہے؟‘‘
’’کیا تم نہیں دیکھ سکتیں؟‘‘ اس خاتون نے کہا ’’میں اس شخص کے برابر والی سیٹ پر نہیں بیٹھ سکتی۔ آپ کو میری سیٹ بدلنا ہوگی!‘‘
’’براہِ مہربانی میڈم سکون برتیے‘‘۔ ہوائی میزبان بولی ’’بدقسمتی سے سب سیٹیں بھری ہوئی ہیں، لیکن میں پھر بھی چیک کرلیتی ہوں کہ کہیں کوئی سیٹ خالی ہے کہ نہیں‘‘۔
ہوائی میزبان کچھ دیر کے بعد واپس لوٹ کر آئی اور بتایا ’’میڈم، جیسا کہ میں نے عرض کیا تھا، اس کلاس میں (اکانومی کلاس میں) کہیں بھی کوئی سیٹ خالی نہیں ہے۔ ہمارے پاس صرف فرسٹ کلاس میں سیٹیں ہیں‘‘۔
اس سے پہلے کہ وہ خاتون کچھ کہتیں، میزبان نے انہیں بتایا کہ ’’ہماری کمپنی اپنی پالیسی کے مطابق عام طور سے اکانومی کلاس سے فرسٹ کلاس میں تبدیلی کرنا مناسب نہیں سمجھتی۔ حالات کے مدنظر ہوائی جہاز کے کیپٹن کا خیال ہے کہ یہ ایک بہت ہی بری بات ہوگی کہ ایک مسافر کسی ناخوشگوار انسان کے برابر سیٹ پر بیٹھ کر سفر کرے‘‘۔
اور سیاہ فام مسافر کی طرف رجوع ہوکر ہوائی میزبان نے کہا ’’جناب عالی، اگر آپ مہربانی کریں اپنا ہاتھ کا بیگ اٹھالیں اور میرے ساتھ آئیں، ہم نے آپ کے لیے فرسٹ کلاس میں ایک سیٹ مختص کردی ہے‘‘۔
اور چاروں طرف بیٹھے ہوئے مسافروں نے جو اس واقعے سے برہم تھے، تالیاں بجانا شروع کردیں اور کچھ لوگ تو اپنی اپنی سیٹ سے کھڑے ہوگئے۔
’’نسلی تفریق و امتیاز ماضی کی بات تھی اور حال میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے‘‘۔
۔(پروفیسر اطہر صدیقی، علی گڑھ)۔

شیخ شہاب الدین سہروردی

شہاب الدین ابوحفص عمر بن محمد السہروردی، حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ 536ھ میں سہرورد میں پید اہوئے۔ تعلیم کے لیے بغداد گئے، مختلف اساتذہ سے علم حاصل کیا۔ امام غزالیؒ کے بھائی محمد غزالی کی روحانی صحبت میں رہے اور تصوف کے اسرار و رموز سیکھے۔ دریائے دجلہ کے کنارے ایک بڑی خانقاہ تعمیر کرائی۔ مدرسہ نظامیہ میں مدرّس رہے۔ ان کا حلقۂ مریدین بہت وسیع تھا، جن کی تربیت کے لیے ’’آداب المریدین‘‘ تصنیف کی۔ 563ھ میں رحلت فرمائی اور خانقاہ میں دفن ہوئے۔ فقہ میں شافعی مسلک کے پیرو تھے۔ عربی، فارسی دونوں زبانوں میں شعر کہتے تھے۔ متعدد تصانیف لکھیں، جن میں ’’عوارف المعارف‘‘ بہت معروف ہے اور تصوف کی بنیادی کتابوں میں شمار کی جاتی ہے۔ شیخ مصلح الدین سعدی شیرازی بھی ان کے مرید تھے۔
۔(پروفیسر عبدالجبار شاکر)۔

ثالث

جنگل میں دو دیہاتی ایک بکری پر جھگڑ رہے تھے۔ ایک نے اس کا دایاں کان پکڑا ہوا تھا اور دوسرے نے بایاں۔ وہاں ایک مسافر آگیا۔ انہوں نے اسے جھگڑے کی تفصیل بتائی اور کہا کہ آپ ثالث بن کر فیصلہ کریں۔ اس نے کہا: ’’تم دونوں قسم کھا کر عہد کرو کہ میرا فیصلہ مانو گے‘‘۔ جب وہ قسم کھا چکے تو کہنے لگا: ’’بکری کو چھوڑ دو‘‘ اور لے کر چلتا بنا۔
……٭٭٭……

۔’’دیانت دار‘‘ داروغہ

ایک آدمی ممنوعہ جنگلات میں شکار کھیل رہا تھا، اوپر سے داروغہ آگیا اور شکاری کو گھیر لیا۔ شکاری نے بہتیری خوشامد کی لیکن داروغہ نہ مانا اور کہنے لگا: ’’میں جنگل کا ایک فرض شناس اور دیانت دار محافظ ہوں۔ اس جرم کو کبھی معاف نہیں کرسکتا‘‘۔ شکاری نے اس کے ہاتھ میں دو سو روپے تھما دیے۔ ’’میں دو کو کیا کروں، کم از کم پانچ سو تو ہوں‘‘، تو اس نے ہزار کا نوٹ دے کر کہا کہ پانچ سو واپس کیجیے۔ اس نے نوٹ جیب میں ڈال کر کہا کہ آپ کو اگلے اتوار بھی تو آنا ہے۔
……٭٭٭……

عذاب ِ شہادت

اصفہان کے ایک غسّال (مُردے نہلانے والا) کو ایک شہادت کے سلسلے میں حاجی کلباشی کی عدالت میں طلب کیا گیا۔ صبح سے شام تک اس کی شہادت ہوتی رہی۔ حاجی صاحب نے اتنی لمبی جرح کی اور بات بات پر غسال کو ڈانٹ پلائی تو اس غریب کو غش پر غش آنے لگے۔ دوسرے روز وہ ایک مُردے کو غسل دینے کے بعد جب کفن پہنا چکا تو حاجی کلباشی پر نظر پڑ گئی، فوراً سر جھکا کر مُردے کے کان میں کچھ کہا۔ کسی نے پوچھا کہ کیا کہا ہے؟ کہنے لگا: ’’میں نے مُردے سے کہا ہے: مبارک ہو کہ حاجی کلباشی کی عدالت میں شہادت دینے سے پہلے تمہاری وفات ہوگئی ہے‘‘۔
علی حمزہ، دانش پارے، ماہنامہ چشم بیدار