مہدی آذریزدی/مترجم: ڈاکٹر تحسین فراقی
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک کتا شیر سے ملا اور اسے سلام کیا۔ شیر نے بھی جواباً اسے سلام کیا اور پوچھا: ’’کہو کیسے آئے ہو؟‘‘ کتا بولا: ’’میں تم سے کشتی لڑنا چاہتا ہوں‘‘۔
شیر بولا: ’’یہ کیا گستاخی ہے؟ ہم تم سے دوبدو نہیں ہونا چاہتے، کیوں کہ تمہاری وفاداری مشہور ہے۔ تمہاری یہ جرأت کہ مجھ سے ہمسری کا دعویٰ کرتے ہو! شاید تمہیں معلوم نہیں میں کون ہوں؟‘‘
کتا بولا: ’’کیوں نہیں، مجھے معلوم ہے۔ ہم ایک ہی خاندان سے ہیں۔ کیا تم نہیں دیکھتے دونوں گوشت کھاتے ہیں اور دونوں پیشاب کرتے وقت ایک ٹانگ اوپر اٹھاتے ہیں!‘‘
شیر بولا: ’’اصل میں تم ہماری تقلید کرتے ہو، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم ایک خاندان سے ہیں۔ تمہاری کوئی اور عادت ہم سے مشابہ نہیں۔ تم نان کے ایک ٹکڑے کی خاطر اپنی گردن میں غلامی کا طوق پہن لیتے ہو۔ ایسا شخص جو دوسروں کے حکم کے تحت زندگی گزارے ہمیں ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ اگر ہم کبھی قید بھی ہوجائیں اور پنجرے میں اسیر ہوں تب بھی شیر ہی ہوتے ہیں۔ اب کہو تم میں اور ہم میں کیا چیز مماثل ہے؟‘‘
کتا بولا: ’’اگر تم واقعی سچے اور بہادر ہو تو آئو مجھ سے دست پنجہ کرو‘‘۔
شیر بولا: ’’میں اپنے سے کمزور کے ساتھ زور آزمائی نہیں کرتا۔ ہم یکساں نہیں ہیں۔ اگر میں تمہیں زمین پر پٹخ دوں، تو میرے لیے یہ بات عزت کا موجب نہ ہوگی۔ اگر میں تمہارے ہاتھوں شکست کھائوں تو یہ تمہارے لیے عظمت کا موجب نہ ہوگی بلکہ میرے لیے ذلت کا باعث ہوگی۔ جو کوئی اپنے سے کمزور سے زور آزمائی کرتا ہے، اصل میں اپنے کردار کی کمزوری کا پتا دیتا ہے، اور مجھے اپنی قوت پر ایمان اور اعتماد ہے۔‘‘
کتا بولا: ’’اچھا، اگر تمہارا طرزعمل یہی ہے تو میں جنگل کے سب باسیوں کے پاس جاتا ہوں اور انہیں بتاتا ہوں کہ شیر مجھ سے کشتی نہیں لڑتا، مجھ سے ڈرتا ہے‘‘۔
شیر بولا: ’’ہاں ہاں ایسا ہی کرو۔ میرے لیے یہ بہتر ہے کہ صحرا کے سارے جانور میری مذمت کریں بجائے اس کے کہ شیر میری سرزنش کریں کہ تم نے ایک کمزور کتے پر کیوں ہاتھ ڈالا؟ اگر میں تم سے کشتی لڑوں تو شیروں کو حق حاصل ہے کہ میرے شیر ہونے میں شبہ کریں۔ شیر اگر شیر ہے تو اُسے اپنے ہم جنس سے کشتی لڑنی چاہیے‘‘۔
۔(’’بے زبانوں کی زبانی… حکمت بھری کہانیاں‘‘ )۔