قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم
بہاج بن حکیم سے روایت ہے کہ اُن کے والد نے اُن کے دادا سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’اس شخص پر افسوس ہے جو جھوٹی باتیں کرتا ہے تاکہ لوگوں کو ہنسائے‘‘۔
۔(ترمذی، احمد، ابودائود)۔
ڈاکٹر محمد علی ہاشمی
اسلام سب سے پہلے ایک مسلمان سے جس چیز کا مطالبہ کرتا ہے وہ یہ کہ اللہ پر ایمان لائے جیسا کہ اس پر ایمان لانے کا حق ہے۔ اس سے اپنا تعلق مضبوط کرے، ہمیشہ اس کے ذکر میں مشغول رہے اور اس پر توکل کرے۔ اسباب اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ اس سے مدد کا طالب رہے، اور اپنے دل کی گہرائی سے یہ احساس رکھے کہ خواہ وہ کتنی ہی کوشش کرے اور کیسے ہی وسائل اور اسباب اختیار کرے مگر وہ ہمیشہ اللہ کی قوت و نصرت اور تائید کا محتاج ہے۔
ایک برحق اور سچا مسلمان بیدار دل اور روشن بصیرت رکھتا ہے، دنیا میں خدا کی عجیب و غریب کاریگری کا مشاہدہ کرتا ہے اور یہ یقین رکھتا ہے کہ دنیاوی امور اور لوگوں کے معاملات کے پسِ پردہ اللہ ہی کا مخفی اور بلند ہاتھ کارفرما ہے۔ اس وجہ سے وہ ہمیشہ ذکرِ الٰہی میں مشغول رہتا ہے۔ وہ زندگی کی ہر جھلک اور دنیا کے ہر منظر میں خدا کی قدرت کے غیر محدود آثار کا مشاہدہ کرتا ہے، جس سے اس کے ایمان، ذکرِ الٰہی اور توکل میں اضافہ ہوتا ہے۔
’’زمین اور آسمانوں کی پیدائش میں اور دن و رات کے باری باری سے آنے میں ان ہوش مند لوگوں کے لیے بہت نشانیاں ہیں جو اٹھتے، بیٹھتے اور لیٹتے ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں اور آسمان و زمین کی ساخت میں غور کرتے ہیں (وہ بے اختیار بول اٹھتے ہیں) پروردگار! یہ سب تُو نے فضول اور بے مقصد نہیں بنایا ہے۔ تُو پاک ہے اس سے کہ عبث کام کرے۔ پس اے رب ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔‘‘(آل عمران: 191-190)۔
اس لیے یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ ایک سچا مسلمان اللہ تعالیٰ کے تمام احکام کی اطاعت کرنے والا، اس کے سامنے عاجزی و فروتنی کرنے والا، خشوع و خضوع اختیار کرنے والا، اللہ کی مقرر کردہ حدود پر ٹھیرنے والا، اس کے حکم کی تعمیل کرنے والا (خواہ وہ اس کی خواہش کے برخلاف ہو) اور اس کے بتلائے ہوئے طریقے پر چلنے والا ہو (خواہ وہ اس کے مزاج کے خلاف ہو)۔ دراصل مسلمان کے ایمان کی کسوٹی، بغیر کسی استثناء کے ہر چھوٹے بڑے کام میں اللہ اور رسولؐ کے احکام کی پیروی اور اتباع ہی ہے۔ ارشادِ نبویؐ ہے:۔
’’تم میں سے کوئی شخص اُس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا، جب تک کہ اس کی خواہشات میری لائی ہوئی شریعت کے تابع نہ ہوجائیں‘‘۔ (الاربعین النوویہ)۔
’’نہیں اے محمدؐ، تمہارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں۔ پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں بلکہ سربسر تسلیم کرلیں۔‘‘ (النساء: 65)۔
یہ اللہ اور رسولؐ کی مطلق اتباع اور مکمل اطاعت ہے جس کے بغیر نہ ایمان کا تحقق ہوسکتا ہے، نہ اسلام کا۔ اس بنیاد پر ممکن نہیں کہ سچے مسلمان کی زندگی میں اللہ تعالیٰ کے طریقے سے انحراف اور اس کے رسولؐ کے احکام سے پہلوتہی ہو۔ ایسا نہ اس کی انفرادی زندگی میں ہوگا اور نہ اس کے خاندان کے لوگوں اور متعلقین میں ہوگا جو اس کے زیرتربیت اور زیرنگرانی ہوں، جن کے سلسلے میں وہ ذمہ دار ہو اور جن کے اوپر اسے اختیار حاصل ہو۔
اس لیے کہ اگر اس کے خاندان کے کسی فرد سے، اللہ اور اس کے رسولؐ کی بارگاہ میں کوئی تقصیر، سستی یا تفریط سرزد ہوجائے گی تو وہ اس کا ذمہ دار ہے اور اس سے اس کے بارے میں بازپرس ہوگی۔ حدیث میں ہے:
’’تم میں سے ہر شخص ذمہ دار ہے، اور ہر شخص سے اس کے ماتحت رہنے والے لوگوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔‘‘ (متفق علیہ)۔
یہ ذمہ داری سچے مسلمان کو کسی پہلو چین لینے نہیں دیتی۔ وہ اس پر صبر نہیں کرسکتا اور اس کے نتائج کچھ بھی ہوں وہ اس کے اسباب کا ازالہ کرنے کی جدوجہد کرتا ہے۔ اس ذمہ داری پر وہی شخص خاموش رہے گا جس کے ایمان میں ضعف ہو، جس کے دین میں کمزوری ہو، اور جس کی مردانگی میں کمی ہو۔
سچا مسلمان اللہ تعالیٰ کے فیصلے اور تقدیر پر راضی رہتا ہے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کو اپنے پیش نظر رکھتا ہے:۔
’’مومن کا معاملہ بھی عجیب و غریب ہے۔ اس کے ہر کام میں خیر ہے۔ اگر اسے خوشی حاصل ہوتی ہے تو شکر ادا کرتا ہے اور یہ اس کے لیے بہتر ہوتا ہے، اور اگر اسے تکلیف پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے اور اس میں اس کے لیے خیر ہوتا ہے‘‘۔(بخاری)۔
اور اس زندگی میں اسے جو کچھ پہنچنا ہے وہ خطا نہیں ہوسکتا، کیونکہ وہ تقدیر میں لکھا جا چکا ہے جس کو دفع کرنے پر وہ قادر نہیں ہے۔ اس طرح وہ یہ عقیدہ بھی رکھتا ہے کہ اللہ کی متعین کردہ تقدیر پر راضی ہونے سے اسے اللہ کی طرف سے بہت زیادہ ثواب ملے گا اور اس کا شمار اللہ پر ایمان لانے اور اس کی اطاعت کرنے والوں اور کامیاب لوگوں میں ہوگا۔
اسی وجہ سے اس کے ہر کام میں خیر ہوتا ہے۔ اگر اسے خوشی حاصل ہوتی ہے تو اپنی زبان سے اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاتا ہے جس نے اسے اس نعمت سے نوازا اور اس پر فضل و احسان کیا، اور اگر اسے تکلیف لاحق ہوتی ہے تو وہ حکم الٰہی کی تعمیل میں صبر کرتا ہے، اس کی تقدیر پر رضا کا اظہار کرتا ہے۔ لہٰذا دونوں حالتوں میں اس کے لیے خیر ہے۔
بسا اوقات مومن پر غفلت طاری ہو جاتی ہے اور اس سے کوئی لغزش ہو جاتی ہے یا کوئی کوتاہی سرزد ہو جاتی ہے جو کہ ایک صاحبِ بصیرت، مطیع اور عاجزی اور خشوع و خضوع اختیار کرنے والے بندے سے نہ ہونی چاہیے، مگر بہت جلد اسے یاد آجاتا ہے، وہ غلطی پر متنبہ ہوجاتا ہے، غفلت سے بیدار ہوجاتا ہے، لغزش سے رجوع کرلیتا ہے، کوتاہی پر استغفار کرتا ہے اور اپنے فعل پر شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے، توبہ و استغفار کرتے ہوئے اور خدا کے سامنے عاجزی اور فروتنی کرتے ہوئے اپنے امن دینے والے رب کی پناہ میں آجاتا ہے۔