وہ کون سا انسان ہے جو سبزی کھانے کا دلدادہ ہو اور کریلے سے ناواقف ہو! یہ ہندو پاک ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں وسیع مقدار میں پیدا ہونے والی اور کھائی جانے والی سبزی ہے۔ البتہ اس کے سائز کا چھوٹا اور بڑا ہونا مختلف ممالک کی آب و ہوا پر منحصر ہے۔ موسم گرما کے آغاز میں یہ مفید سبزی مارکیٹ میں آتی ہے تو ہر سبزی کی طرح مہنگی اور غریب آدمی کی پہنچ سے باہر ہوتی ہے۔ کچھ ہی عرصے کے بعد جب پیداوار بڑھ جانے سے مارکیٹ میں وافر مقدار میں یہ سبزی آتی ہے تو ریٹ مناسب ہوجاتے ہیں۔
کریلا طبی اعتبار سے درجہ دوم میں گرم خشک ہے۔ اس کو پکانے کے کئی طریقے ہیں۔ بعض لوگ کریلوں کو چھیل کر اوپر جو دندانے دار ابھار ہوتے ہیں اُن کو کاٹ کر پھینک دیتے ہیں، اور بیج وغیرہ نکال کر کریلے کو کاٹ کر نمک لگا کر رکھ دیتے ہیں۔ کچھ دیر بعد اسے دھو کر تیل یا گھی میں تل کر پکا لیتے ہیں۔ اس طرح اس سبزی کا کڑوا پن ختم ہوجاتا ہے۔ کریلے کھانے کے عادی لوگ کہتے ہیں کہ کریلے کے اوپر والے دندانے دار حصے کو کاٹ یا چھیل کر پھینک دینے سے کریلے کی حقیقی افادیت ختم ہوجاتی ہے، کیونکہ جدید تحقیق کے مطابق اسی حصے میں انسولین کی وافر مقدار ہے جو شوگر میں انتہائی مفید ہے۔
کریلے کے اوپر والے حصے کو جسے لوگ پھینک دیتے ہیں، اگر قیمہ میں بھون کر پکایا جائے تو انتہائی خوش ذائقہ اور مفید سالن تیار ہوتا ہے۔ کریلے کو دو طرح بھر کر پکانے کا عام رواج ہے۔ کچھ لوگ کریلوں کو کاٹ کر، بیج نکال کر ان میں پیاز، تھوم، ہری مرچ، ٹماٹر باہم کوٹ کر کریلوں میں بھر کر کریلے کے گرد دھاگہ باندھ کر اچھی طرح تیل میں بھون کر پکالیتے ہیں، تاہم حقیقت یہ ہے کہ مرچ مسالہ کی زیادتی کی وجہ سے کریلے کی طبی افادیت ختم ہوجاتی ہے۔ دوسرا مروجہ طریقہ کریلے میں قیمہ بھر کر تیل یا گھی میں پکایا جانا ہے۔ کریلے کے منفی اثرات کو زائل کرنے میں پیاز اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کریلے کاٹ کر پکائے جاتے ہیں تو ان کی مقدار کے برابر پیاز بھی شامل کی جاتی ہے۔ کریلے کے بارے میں عام روایت یہی ہے کہ گرم ہوتا ہے اور کھانے کے بعد پیاس زیادہ لگتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پرانے لوگ کریلے کے ساتھ چاٹی کی لسی کو ترجیح دیتے تھے۔
تاہم کریلا خود گرم نہیں، نہ پیاس کو بھڑکاتا ہے، بلکہ کریلے کو پکانے کے لیے جو مسالہ جات استعمال کیے جاتے ہیں وہ پیاس پیدا کرتے ہیں۔ کریلا جسم میں موجود فاسد مادوں کو بذریعہ پیشاب اور پاخانہ خارج کرتا ہے۔ پیٹ کے کیڑے مارتا ہے۔ جِلدی امراض میں مفید ہے۔
جدید دور کا خطرناک اور پریشان کن مرض شوگر یعنی ذیابیطس ہے۔ بہت سے لوگ کریلے کو شوگر میں بے حد مفید بتاتے ہیں۔ کریلے مع چھلکا اور بیج کاٹ کر خشک کرلیتے ہیں۔ یہ خشک شدہ کریلے250گرام، برگ نیم100 گرام، بیسن خالص250گرام، مغزبادام200 گرام کا اضافہ کرلیں تاکہ خشک ہونے کی بنا پر مغزبادام سے معتدل دوا تیار ہو۔ بعض لوگ تجربے کے طور پر اس میں گٹھلی جامن بھی 250 گرام کا اضافہ کرلیتے ہیں۔ سفوف تیار کرکے نصف چمچہ خالی معدہ تازہ پانی سے استعمال کریں۔
1973ء میں جب میں نے مطب کا آغاز کیا تو ایک صاحب اپنے چھے سات سال کے بچے کو لے کر آئے، شکایت یہ تھی کہ بچے کو روزانہ پاخانہ کے بعد خاصی مقدار میں خون آتا تھا۔ ڈاکٹر حضرات کے پاس چیک اپ کے بعد فتویٰ ملا کہ بچے کو بواسیر نہیں۔ سرجن نے کہا: جب تک واضح نہ ہو کہ مرض کیا ہے، آپریشن لا حاصل ہے۔ بچے کی کمزوری بڑھ رہی تھی، کیونکہ مرض کو ایک ماہ سے زیادہ ہوچکا تھا۔ غریب آدمی تھا، باربار اصرار پر قدیم طبی کتب کو کھنگالا۔ ایسی کیفیت کے لیے ایک نسخہ زیر مطالعہ آیا۔ بڑے دعوے سے صدیوں پہلے ایک معالج نے جو نسخہ لکھا اللہ پر توکل کرکے سات یوم استعمال کرایا۔ الحمدللہ کہ آج تک وہ بچہ تندرست ہے اور اب صاحبِ اولاد ہے۔ یہ نسخہ مخلوقِ خدا کی بھلائی کے لیے قارئین کی نذر ہے:
تازہ کریلا ایک عدد، پیپل کا تازہ پتّا (درمیانہ سائز) دونوں کو گھوٹ کر ایک کپ پانی ڈال کر نچوڑ لیں۔ روزانہ یہ پانی کشتہ سنگجراح نصف چمچی کے ساتھ استعمال کروائیں۔ ممکن ہے کہ یہ نسخہ خونیں بواسیر اور انتڑیوں کے السر میں بھی مفید ثابت ہو۔کریلے گوشت میں پکا کر کھانا عام جسمانی کمزوری، لو بلڈ پریشر،ضعفِ عامۃ، حتیٰ کہ جنسی کمزوری میں مفید ثابت ہوا ہے۔ یورپ، امریکہ، افریقہ، برطانیہ سمیت دنیا کے ہر کونے میں یہ پسندیدہ سبزی ہے۔