قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم
حضرت عبداللہؓ بن عمرو بن العاص سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا:۔
’’جس شخص میں یہ چار خلصتیں پائی جائیں وہ پکا منافق ہے، اور جس میں ان میں سے کوئی ایک پائی جائے وہ منافقت کی ایک علامت پر ہے یہاں تک کہ وہ اسے چھوڑ دے: جب وہ گفتگو کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے، جب امانت اس کے سپرد کی جائے تو خیانت کرتا ہے، جب وہ وعدہ کرتا ہے تو اسے
پورا نہیں کرتا، اور جب وہ جھگڑتا ہے تو حق کو چھوڑ دیتا ہے‘‘۔ (بخاری، مسلم)۔
سَبَّحَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الاَرْضِ وَ ہُوَ العَزِیزُ الْحَکِیمُ (الحدید1)۔
’’اللہ کی تسبیح کی ہے ہر اُس چیز نے جو زمین اور آسمانوں میں ہے(1)، اور وہی زبردست دانا ہے۔‘‘(2)۔
(1)یعنی ہمیشہ کائنات کی ہر چیز نے اس حقیقت کا اظہار و اعلان کیا ہے کہ اُس کا خالق و پروردگار ہر عیب اور نقص اور کمزوری اور خطا اور برائی سے پاک ہے۔ اُس کی ذات پاک ہے، اُس کی صفات پاک ہیں، اُس کے افعال پاک ہیں اور اُس کے احکام بھی، خواہ وہ تکوینی احکام ہوں یا شرعی، سراسر پاک ہیں۔ یہاں سَبَّحَ صیغۂ ماضی استعمال کیا گیا ہے اور بعض دوسرے مقامات پر یُسَبِّحُ صیغۂ مضارع استعمال ہوا ہے جس میں مال اور مستقبل دونوں کا مفہوم شامل ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ کائنات کا ذرہ ذرہ ہمیشہ اپنے خالق و رب کی پاکی بیان کرتا رہا ہے، آج بھی کررہا ہے اور ہمیشہ کرتا رہے گا۔
-2 اصل الفاظ ہیں ہُوَ العَزِیزُ الْحَکِیمُ۔ لفظ ہُوَ کو پہلے لانے سے خودبخود حصر کا مفہوم پیدا ہوتا ہے، یعنی بات صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ وہ عزیز اور حکیم ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہی ایسی ہستی ہے جو عزیز بھی ہے اور حکیم بھی۔ عزیز کے معنی ہیں ایسا زبردست اور قادر و قاہر جس کے فیصلے کو نافذ ہونے سے دنیا کی کوئی طاقت روک نہیں سکتی، جس کی مزاحمت کسی کے بس میں نہیں ہے، جس کی اطاعت ہر ایک کو کرنی ہی پڑتی ہے خواہ کوئی چاہے یا نہ چاہے، جس کی نافرمانی کرنے والا اُس کی پکڑ سے کسی طرح بچ ہی نہیں سکتا۔ اور حکیم کے معنی یہ ہیں کہ وہ جو کچھ بھی کرتا ہے حکمت اور دانائی کے ساتھ کرتا ہے۔ اس کی تخلیق، اس کی تدبیر، اس کی فرماں روائی، اس کے احکام، اس کی ہدایات سب حکمت پر مبنی ہیں۔ اس کے کسی کام میں نادانی اور حماقت و جہالت کا شائبہ تک نہیں ہے۔
اس مقام پر ایک لطیف نکتہ اور بھی ہے جسے اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔ قرآن مجید میں کم ہی مقامات ایسے ہیں جہاں اللہ تعالیٰ کی صفت ِ عزیز کے ساتھ قوی، مقتدر، جبار اور ذُوانتقام جیسے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جن سے محض اُس کے اقتدارِ مطلق کا اظہار ہوتا ہے، اور یہ صرف اُن مواقع پر ہوا ہے جہاں سلسلۂ کلام اس بات کا متقاضی تھا کہ ظالموں اور نافرمانوں کو اللہ کی پکڑ سے ڈرایا جائے۔ اِس طرح کے چند مقامات کو چھوڑ کر باقی جہاں بھی اللہ تعالیٰ کے لیے عزیز کا لفظ استعمال کیا گیا ہے وہاں اس کے ساتھ حکیم، علیم، رحیم، غفور، وہاب اور حمید میں سے کوئی لفظ ضرور لایا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر کوئی ہستی ایسی ہو جسے بے پناہ طاقت حاصل ہو مگر اس کے ساتھ وہ نادان ہو، جاہل ہو، بے رحم ہو، درگزر اور معاف کرنا جانتی ہی نہ ہو، بخیل ہو اور بدسیرت ہو تو اس کے اقتدار کا نتیجہ ظلم کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتا۔ دنیا میں جہاں کہیں بھی ظلم ہورہا ہے اس کا بنیادی سبب یہی ہے کہ جس شخص کو دوسروں پر بالاتری حاصل ہے وہ یا تو اپنی طاقت کو نادانی اور جہالت کے ساتھ استعمال کررہا ہے، یا وہ بے رحم اور سنگدل ہے، یا بخیل اور تنگ دل ہے، یا بدخواہ اور بدکردار ہے۔ طاقت کے ساتھ اِن بری صفات کا اجتماع جہاںبھی ہو، وہاں کسی خیر کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ اسی لیے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کی صفت ِ عزیز کے ساتھ اس کے حکیم و علیم اور رحیم و غفور اور حمید و وہاب ہونے کا ذکر لازماً کیا گیا ہے تاکہ انسان یہ جان لے کہ جو خدا اس کائنات پر فرماں روائی کررہا ہے وہ ایک طرف تو ایسا کامل اقتدار رکھتا ہے کہ زمین سے لے کر آسمانوں تک کوئی اس کے فیصلوں کو نافذ ہونے سے روک نہیں سکتا، مگر دوسری طرف وہ حکیم بھی ہے۔ اس کا ہر فیصلہ سراسر دانائی پر مبنی ہوتا ہے۔ علیم بھی ہے، جو فیصلہ بھی کرتا ہے ٹھیک ٹھیک علم کے مطابق کرتا ہے۔ رحیم بھی ہے، اپنے بے پناہ اقتدار کو بے رحمی کے ساتھ استعمال نہیں کرتا۔ غفور بھی ہے، اپنے زیر دستوں کے ساتھ خُردہ گیری کا نہیں بلکہ چشم پوشی و درگزر کا معاملہ کرتا ہے۔ وہاب بھی ہے، اپنی رعیت کے ساتھ بخیلی کا نہیں بلکہ بے انتہا فیاضی کا برتائو کررہا ہے۔ اور حمید بھی ہے، تمام قابلِ تعریف صفات و کمالات اس کی ذات میں جمع ہیں۔
قرآن کے اس بیان کی پوری اہمیت وہ لوگ زیادہ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں جو حاکمیت (Sovereignty) کے مسئلے پر فلسفۂ سیاست اور فلسفۂ قانون کی بحثوں سے واقف ہیں۔ حاکمیت نام ہی اس چیز کا ہے کہ صاحبِ حاکمیت غیر محدود اقتدار کا مالک ہو، کوئی داخلی و خارجی طاقت اس کے حکم اور فیصلے کو نفاذ سے روکنے، یا اس کو بدلنے، یا اس پر نظرثانی کرنے والی نہ ہو، اور کسی کے لیے اس کی اطاعت کے سوا کوئی چارۂ کار نہ ہو۔ اس غیر محدود اقتدار کا تصور کرتے ہی انسانی عقل لازماً یہ مطالبہ کرتی ہے کہ ایسا اقتدار جس کو بھی حاصل ہو اسے بے عیب اور علم و حکمت میں کامل ہونا چاہیے، کیونکہ اگر اس اقتدار کا حامل نادان، جاہل، بے رحم اور بدخو ہو تو اس کی حاکمیت سراسر ظلم و فساد ہوگی۔ اسی لیے جن فلسفیوں نے کسی انسان یا انسانی ادارے یا انسانوں کے مجموعے کو حاکمیت کا حامل قرار دیا ہے ان کو یہ فرض کرنا پڑا ہے کہ وہ غلطی سے مبرا ہوگا۔ مگر ظاہر ہے کہ نہ تو غیر محدود حاکمیت فی الواقع کسی انسانی اقتدار کو حاصل ہوسکتی ہے، اور نہ یہی ممکن ہے کہ کسی بادشاہ، یا پارلیمنٹ، یا قوم، یا پارٹی کو ایک محدود دائرے میں جو حاکمیت حاصل ہو اُسے وہ بے عیب اور بے خطا طریقے سے استعمال کرسکے۔ اس لیے کہ ایسی حکمت جس میں نادانی کا شائبہ نہ ہو، اور ایسا علم جو تمام متعلقہ حقائق پر حاوی ہو، سرے سے پوری نوع انسانی ہی کو حاصل نہیں ہے کجا کہ وہ انسانوں میں سے کسی شخص یا ادارے یا قوم کو نصیب ہوجائے۔ اور اِسی طرح انسان جب تک انسان ہے اُس کا خودغرضی، نفسانیت، خوف، لالچ، خواہشات، تعصب اور جذباتی رضا وغضب اور محبت و نفرت سے بالکل پاک اور بالاتر ہونا بھی ممکن نہیں ہے۔ ان حقائق کو اگر کوئی شخص نگاہ میں رکھ کر غور کرے تو اسے محسوس ہوگا کہ قرآن اپنے اس بیان میں درحقیقت حاکمیت کا بالکل صحیح اور مکمل تصور پیش کررہا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ’’عزیز‘‘ یعنی اقتدارِ مطلق کا حامل اس کائنات میں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں ہے۔ اور اِس غیر محدود اقتدار کے ساتھ وہی ایک ہستی ایسی ہے جو بے عیب ہے، حکیم و علیم ہے، رحیم و غفور ہے اور حمید و وہاب ہے۔