اسلام کے نام پر نعرے بازی ہمارے معاشرے میں ہمیشہ ہوتی رہی ہے، لیکن نہ یہ ہمیں زوال سے بچا سکی، نہ ہماری اسلامیت کو محفوظ رکھ سکی، اور اسلام کے نعروں سے ہم مسلمانوں کے نامسلمان ہونے کا عمل رک نہیں سکا۔ اس دور میں احیائے اسلام کی جو تحریکیں ابھر کر سامنے آئی ہیں، ان کی خصوصیت ہی یہ ہے کہ وہ نسلی اسلام کی نہیں، شعوری اسلام کی قائل ہیں۔ اور شعور سے عاری ہوکر محض نسلی یا آبائی تفاخر کی بنا پر اسلام کو ایک جاہلانہ عصبیت کے نعرے کے طور پر استعمال کرنا اسلامی تحریک کا شعار نہیں ہوسکتا۔ لیکن سامراج نے احیائے اسلام کی تحریک کو ناکام بنانے اور اس تحریک کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی جو منصوبہ بندی کی ہے، اس میں کوشش یہ ہے کہ مسلمان ملکوں میں اسلام کا نعرہ برسراقتدار لوگ لگاتے رہیں اور نفاذِ شریعت کے دعوے بھی کرتے رہیں۔ اس سلسلے میں کچھ نمائشی اقدامات بھی کردیے جائیں۔ لیکن معاشرے میں اسلام کا شعور رکھنے والی کسی حقیقی تحریک کو پنپنے نہ دیا جائے۔
احیائے اسلام کی تحریک کے لیے دو خطرات اور بھی ہیں۔ ایک یہ کہ اس طرح کی تحریکیں صرف نظری اور علمی بن کر رہ جائیں۔ عوام سے ان کا تعلق قائم ہی نہ ہو، اور یہ خواص کے حلقے کی چیز ہوں۔ اس کے ازالے کے لیے خاص طور سے ان تحریکوں سے متعلقہ طلبہ، مزدور اور ادیبوں، صحافیوں کے حلقوں کو پوری طرح منظم اور طاقتور ہونا چاہیے، کیونکہ یہ حلقے عام احساسات اور مسائل کو سمجھتے ہیں اور ان کی ترجمانی کرتے ہیں۔ اس حساس طبقے کے مقابلے میں دوسرے طبقات پر ایک طرح کی بے حسی طاری ہوتی ہے، کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ ان کی حساسیت کم ہوتی جاتی ہے۔ کسی بھی تحریک کے لیے مزدور، طالب علم، ادیب، صحافی معاشرے کے احساسات اور اس کی مشکلات کو سمجھنے کا ذریعہ ہوتے ہیں، اور وہ نہ صرف آج کی دنیا کی عکاسی کرتے ہیں بلکہ مستقبل کی دنیا کے بارے میں بھی سوچنے سمجھنے والوں اور عام لوگوں کی آرزوئوں کا اظہار کرتے ہیں، اس لیے تحریک کو مذکورہ حلقوں سے غذا اور طاقت حاصل ہوتی رہنی چاہیے۔ اسی طرح یہ بات بھی ہرگز احیائے اسلام کے مفاد میں نہیں ہے کہ اسلامی تحریک صرف ایک مختصر سے تعلیم یافتہ متوسط طبقے کے خول میں بند ہوکر رہ جائے۔ اس میں عام آدمیوں، محنت کشوں، کسانوں سے رابطے اور تعلق کو حقیقی ہونا چاہیے، کیونکہ عوامی شرکت کے بغیر کوئی عوامی انقلاب برپا نہیں ہوسکتا۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ احیائے اسلام کی تحریکوں کو عوامی بننے اور سیاسی تقاضوں کی تکمیل کے دوران، یہ بات بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ ان کا اصل مقصد انقلابِ قیادت اور تبدیلیِ نظام ہے۔ اس کے لیے عام سیاسی جماعتوں کے طور طریقوں سے کام نہیں چلے گا، بلکہ سب سے زیادہ علمی و فکری محاذ پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام اگر ترک کردیا جائے اور احیائے اسلام کی تحریک ایک عام سی سیاسی جماعت بن کر رہ جائے، تو اس کے نقصانات جلد ہی سامنے آنے لگیں گے۔ اس لیے ہماری تحریک کے علمی، فکری اور نظریاتی شعبے کو خاصا منظم اور مضبوط ہونا چاہیے۔ اس کے بغیر نہ انقلابِ قیادت ممکن ہے، نہ کسی نظام کو ختم کرکے نیا نظام قائم کیا جاسکتا ہے۔
احیائے اسلام کے سلسلے میں یہ حقیقت بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ اس کا ’’شارٹ کٹ‘‘ کوئی نہیں ہے۔ شارٹ کٹ کے لالچ میں آپ راستے سے بھٹک سکتے ہیں۔ اس لیے یہ واضح رہنا چاہیے کہ منزل پر پہنچنے کے لیے ایک بے حد طویل اور تھکا دینے والا سفر طے کرنا ہوگا۔ اس کے بعد بھی اگر ہم منزل پر پہنچ جائیں تو یہ خوش نصیبی ہے، کیونکہ احیائے اسلام کی تحریک، معاشرے کو مکمل طور پر تبدیل کرنے کی تحریک ہے۔ اس میں حاکم اور محکوم، امیر اور غریب، عالم اور جاہل، ہر ایک کے اندر تبدیلی پیدا کرنی ہے، اور اندر کی یا باطن کی اس تبدیلی کے بغیر خارج سے کوئی چیز تھوپی نہیں جاسکتی۔ اس لیے یہ مشکل کام کرنا ہی ہوگا، اور اس دعوت و تبلیغ کی کامیابی کے بغیر نہ اسلام کا احیا ممکن ہے نہ نفاذ۔
ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلامی انقلاب کی منزل اگر بہت کٹھن اور خاصی دور ہے، تو یہ دیکھ کر مایوسی اور بے عملی کا دور دورہ ہوسکتا ہے۔ لیکن اپنے نصب العین کے حصول کے لیے مراحل متعین کرلیے جائیں اور ان مرحلوں کی جانب پیش قدمی جاری رہے تو مایوسی اور بے عملی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
جہاں تک مرحلوں کا تعلق ہے تو مرحلے کئی ہیں۔ پہلا یہ کہ ہم معاشرے کے عام سمجھ دار لوگوں کے تعاون سے جو کسی حقیقی تبدیلی کے خواہش مند ہیں، اُس طبقے کو حکومت سے بے دخل کریں جو سامراج سے ورثے میں ملا ہے، اور اقتدار اس بیورو کریسی سے صرف اسی طرح چھینا جاسکتا ہے کہ ہم جمہوریت کو وجود میں لانے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگائیں۔ ایک مرحلہ یہ بھی ہے کہ اس ملک کو سامراج کی گرفت سے آزاد کرایا جائے، کیونکہ جب تک سامراج کی غلامی سے حقیقی آزادی حاصل نہیں ہوگی، احیائے اسلام اور نفاذِ اسلام ممکن نہیں ہوگا۔ ایک مرحلہ یہ بھی ہے کہ علمی اور فکری طور پر اسلامی نظامِ حیات کی برتری، افادیت اور ان کا آج کے معاشرے میں قابلِ عمل ہونا واضح کیا جائے۔ ایک اور کام یہ ہے کہ ہم معاشرے کے ضمیر کو بیدار کریں اور اسے اخلاقی طور پر زندہ بنائیں۔ غرض اس طرح کے کئی کام ہیں جو انقلاب کی منزل پر پہنچنے سے پہلے کرنے ہیں، اور یہ سب کام ہوتے رہیں تو طویل اور مشکل راستہ بھی آسان ہوتا چلا جائے گا، ورنہ منزل ہمیشہ ایک خواب رہے گی۔
۔(”سیاسی، سماجی تجزیے“…عبدالکریم عابد)۔
بیادِ مجلس اقبال
ہے ترے آثار میں پوشیدہ کس کی داستاں
تیرے ساحل کی خموشی میں ہے اندازِ بیاں
جذبات کا تلاطم اقبال کو صدیوں پہلے کی فضائوں میں لے جاتا ہے اور وہ جزیرہ صقلیہ سے کلام کرکے اسلامی تاریخ کے عروج کے دور کی یاد دلاتے ہیں کہ تیری سرزمین پر آج بھی عظمتوں کے وہ نشان باقی ہیں۔ تیرے ساحل نے ان فاتحینِ عالم کے نظارے دیکھے اور قدم چومے ہیں اور تیری بظاہر خاموشی اصل میں بہت پُرجوش پیغام دے رہی ہے کہ یہاں اہلِ اسلام کی عظمتوں کی داستانیں پوشیدہ ہیں۔