اداکار اور دانشور دلیپ کمار سے کسی انٹرویو میں پوچھا گیا کہ عالمِ اسلام کی سب سے بڑی ضرورت کیا ہے؟ انھوں نے جواب دیا Concenses یعنی اتفاقِ رائے۔ اس برجستہ جواب سے شاید ہی کسی کو اختلاف ہوگا کہ آج قومی اور عالمی سطح پر مسلمانانِ عالم کو جتنی اتفاقِ رائے کی ضرورت ہے شاید کسی اور چیز کی نہیں۔ مسلمان اپنے فروعی اور گروہی اختلافات کی وجہ سے ٹکڑیوں میں بٹ گئے ہیں، نتیجے میں عددی اعتبار سے کثرت میں ہونے کے باوجود ان کی حیثیت سمندر کے جھاگ سے زیادہ نہیں۔ مسلمانوں کی کوئی اجتماعی آواز نہیں، ان میں باہمی اتحاد و اخوت نہیں۔ وہ ایک دوسرے کے دشمن نہیں تو دوست بھی نہیں۔ وہ آپس میں محبت اور دوستی کا رشتہ نہیں رکھتے، ایک دوسرے کے دکھ سُکھ میں شریک نہیں۔ عالمی طاقتوں نے دنیا میں جو بندر بانٹ کررکھی ہے، مسلم ممالک اس کا حصہ ہیں۔ وہ کٹھ پتلی کا تماشا بن چکے ہیں۔ ان کی ڈور کہیں اور سے ہلائی جاتی ہے، اور وہ اپنے داخلی اور خارجی معاملات کے فیصلے بھی اکثر صورتوں میں خود نہیں کرتے، ان سے فیصلے کرائے جاتے ہیں۔ اس صورتِ حال کا تدارک کیسے ہو؟ مسلم ملکوں میں Concenses یا اتفاقِ رائے کیسے پیدا کیا جائے؟ یہ ایسا سوال ہے جس پر خود مسلمان ملکون کے سربراہان سنجیدگی سے غور کرنے کے لیے تیار نہیں۔ دوسرے لفظوں میں وہ عالمی طاقتوں کی غلامی پر رضامند ہیں۔ جب تک وہ غیر مرئی غلامی کے جامے کو اتار پھینکنے اور اپنی آزادی اور خودمختاری کے لیے اپنے پائوں پر کھڑے ہونے کو تیار نہ ہوں گے، انھیں اتفاقِ رائے یا Concenses کی ضرورت و اہمیت کا اندازہ بھلا کیسے ہو سکتا ہے! بادشاہتیں اور آمریتیں جو مسلم ملکوں پر مسلط ہیں، اتفاقِ رائے کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ اور یہ بادشاہتیں اور شخصی و فوجی آمریتیں اس لیے مسلط ہیں کیوں کہ ان ملکوں کے عوام کا شعور پست ہے، وہ حریتِ فکر کے جذبوں سے محروم ہیں اور انھوں نے ایک آسودہ حال زندگی پر قناعت کرنا سیکھ لیا ہے اور اپنی غلامی پر رضامند ہیں۔ عرب بہار کی جو ہوا چلی تھی جس سے امیدیں بندھی تھیں، پیوندِ خاک ہوگئیں۔ ترکی، ملائشیا اور ایران جیسے ملکوں نے اپنی آزادی اور معاشی خودمختاری کے لیے جو حالیہ کوشش کی، وہ بھی اسی لیے ناکام ہوگئی کہ عالم اسلام میں اتحاد نہ تھا۔ ہم اور ہمارے ملک کے عوام جو اسلامی دنیا کا سب سے زیادہ درد اپنے اندر رکھتے ہیں، اپنے مفادات سے بلند نہ ہوسکے، یہ جرأت اپنے میں پیدا نہ کرسکے کہ ترکی، ملائشیا اور ایران کی آواز میں اپنی آواز ملا سکیں۔ ایک خارجی اور بیرونی جبر ہے جو ہم پہ تھوپ دیا گیا ہے، جس سے باہر نکلنے کی تاب و توانائی ہم نہیں رکھتے۔ معاشی اور اقتصادی استحکام سے محرومی نے ہمیں سیاسی آزادی سے بے بہرہ بنادیا ہے۔ بظاہر آزاد ہوکر بھی ہم آزاد نہیں۔ ہماری تقدیر کے فیصلے ہم نہیں، دوسرے کرتے ہیں۔ ہمارے داخلی انتشار نے بھی ہمیں کسی قابل نہیں چھوڑا۔ اور جو معاملہ، جو فقدان اتفاقِ رائے کا ہمیں عالمی سطح پر درپیش ہے وہی داخلی اور اندرونی سطح پر ہے کہ ہم آپسی جھگڑوں اور تنازعوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ جب تک اندرونی سطح پہ ہمارے اندر اتحاد و یکجہتی اور اخوت و مساوات کی جڑیں مضبوط نہ ہوں، ہم اسلامی دنیا میں بھی کوئی قابلِ ذکر کردار ادا نہیں کرسکتے۔
بظاہر یہ صورتِ حال اسلامی دنیا کی مایوس کن تصویر پیش کرتی ہے، اور کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ راہِ نجات کہیں نہیں، صورتِ حال ہمیشہ ایسی ہی دل گرفتہ اور مایوس کن رہے گی۔ لیکن تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ملکی حالات ہوں یا بین الاقوامی… تبدیلی اور تغیر ہی دنیا کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ ہر عروج کو زوال ہے۔ عظمت و عزت، سرخروئی اور بلندی کسی بھی قوم و ملک کی میراث ہمیشہ کے لیے نہیں رہی۔ مختلف وقتوں میں مختلف قومیں دنیا پر چھائی رہی ہیں اور دنیا کی قیادت کرتی رہی ہیں۔ کبھی یونانیوں اور رومیوں، کبھی ایرانیوں اور مسلمانوں، کبھی انگریزوں اور اب امریکیوں کے ہاتھوں میں دنیا کی زمام اقتدار رہی ہے۔ جس طرح ہر قوم کو دنیا پر چھا جانے کے بعد زوال و انحطاط کا شکار ہونا پڑا، اسی طرح آج کی عالمی طاقت کو بھی پیچھے ہٹنا پڑے گا اور نشست گاہِ قیادت کسی دوسری قوم کے لیے خالی کرنی پڑے گی۔ کورونا وائرس کی وبا کا عالمی پھیلائو اور اس کے اثرات و نتائج بتاتے ہیں کہ دنیا اب ویسی نہیں رہے گی جیسی ہے۔ اس غیر مرئی جرثومے نے دنیا کی بڑی طاقتوں کو جتلا دیا ہے کہ وہ اپنی طاقت کے زعم میں نہ رہیں۔ عالمی بساط پر انھوں نے شطرنج کا جو کھیل شروع کررکھا ہے، اس کے خاتمے کا وقت آپہنچا ہے۔ پیٹرول کی دولت کے نشے میں مست اور غافل مسلم ملکوں کو بھی سبق سکھا دیا گیا ہے کہ جن ذخائر پرانھیں ناز تھا، ان کی حیثیت بھی پانی کے بلبلے سے زیادہ نہیں۔ کورونا وائرس کی وبا کا رخ یورپ اور امریکہ کی طرف خصوصیت سے ہے، لہٰذا اس کے اثراتِ بد بھی ان ہی ملکوں پر گہرے طریقے سے مرتب ہوں گے۔ امکان یہی ہے کہ نائن الیون کے بعد جو شامت مسلم ملکوں پر ٹوٹی تھی، غیر مرئی جرثومہ اس سے زیادہ قیامت امریکہ و یورپ میں بپا کرے گا۔
کورونا وائرس دنیا کے معاملات میں قدرت کی براہِ راست مداخلت ہے۔ اور یہ اس لیے ہے کہ حقیقت پسندانہ طریقے سے عالمی معاملات میں تبدیلی و تغیر کے امکانات مسدود نظر آتے تھے۔ ظلم و جور کا بڑھ جانا، عدل و انصاف کا معدوم ہوجانا، طاقت ہی کا حق بن جانا، طاقتور کے ہاتھوں میں دنیا کی لگام آجانا، کمزوروں اور زیردستوں پر ظلم کے پہاڑ کا ٹوٹنا اور ان کے حق میں کسی کا بھی اٹھ کھڑا نہ ہونا… یہ اور ایسے بہت سے اساب و محرکات اشارہ کرتے ہیں کہ کورونا وائرس کی وبا آئی تو کیوں آئی، اور وہ تبدیلی لائے گی تو اس کی نوعیت کیا ہوگی۔ دنیا میں کروڑوں لوگوں کا بے روزگار ہوجانا، نظام ہائے زندگی کا تلپٹ ہوجانا، خوف، دہشت اور سراسیمگی سے سڑکوں اور بازاروں اور اجتماع گاہوں کا ویران ہوجانا، ساری دنیا میں ایک فاصلاتی نظام قائم کرکے ساری معاشی و اقتصدی سرگرمیوں کو ٹھپ کردینا… کیا یہ ساری صورتِ حال اس حقیقت کی غماز نہیں کہ معاملہ محض ایک جرثومے کا وبا بن جانا نہیں بلکہ ایک ایسی تبدیلی کو عالمِ امکان سے عالمِ وجود میں لانا ہے جس کی دنیا کو ضرورت ہے۔ قدرت کو سب کچھ گوارا ہے لیکن انسان کا انسان پر ظلم گوارا نہیں۔ اور چند انسانوں کا سارے انسانوں پر جبر و تشدد تو اس کے لیے قابلِ نفرت ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ سائنس و ٹیکنالوجی نے دنیا کو محیرالعقول طریقے سے بدل دیا ہے، اور میڈیکل سائنس نے بے شمار بیماریوں کا علاج دریافت کرلیا ہے، لیکن اس معمولی سے غیر مرئی جرثومے نے ساری ایجادات اور ترقی و کامیابیوں کی حیران کن فتوحات کے باوجود انسان کی بے بسی اور بے اختیاری کو اس پہ کھول دیا ہے اور دکھا دیا ہے کہ خلا پہ کمندیں ڈالنے والا اور فطرت پہ قابو پانے والا انسان کتنا ناتواں، کمزور، بے اختیار و بے بس ہے۔ اب اگر انسان اتنے بڑے وقوعے سے بھی سبق نہ لے، اور اسی بحث میں پڑا رہے کہ یہ جرثومہ بھی کسی سازش کا نتیجہ ہے، تو اس سے اس کی حماقت اور غفلت کا ہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے۔