مظلوم گدھا اور نعل بند بھیڑیا

مہدی آذریزدی/مترجم: ڈاکٹر تحسین فراقی
ایک روز ایک دیہاتی نے گدھے پر بار لادا اور اس پر سوار ہوکر شہر کا رخ کیا۔ گدھا بوڑھا اور کمزور تھا اور رستہ دور اور ناہموار تھا۔ اچانک گدھے کا سُم ایک سوراخ میں پھنسا اور وہ زمین پر گر گیا۔ دیہاتی نے بڑی مشکل سے گدھے کو اٹھایا۔ اب اسے معلوم ہوا کہ گدھے کا ایک پائوں ٹوٹ گیا ہے اور اسے راہ چلنا مشکل ہے۔
دیہاتی نے سامان اپنے کندھے پر لادا اور پائوں ٹوٹے گدھے کو صحرا میں چھوڑ کر اپنی راہ لی۔ بدقسمت گدھا صحرا میں حیران و پریشان کھڑا سوچ رہا تھا ’’میں اس ظالم اور بے انصاف دیہاتی کی خاطر کس قدر بوجھ اٹھاتا رہا ہوں۔ اب جب کہ میں بوڑھا اور لاچار ہوں، مجھے صحرائی بھیڑیے کے سپرد کرکے یہ صاحب آگے چل دیے‘‘۔ گدھا غم اور حسرت سے ہر طرف نگاہ دوڑا رہا تھا کہ اچانک دور سے اس کی نظر واقعی ایک بھیڑیے پر پڑی۔
درندہ بھیڑیے نے جونہی گدھے کو صحرا میں پایا، اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی، اس نے خوشی سے آوازیں نکالنا شروع کیں اور آگے بڑھنے لگا تاکہ گدھے کو چیر پھاڑ کر ہڑپ کرلے۔
گدھا سوچ رہا تھا: ’’اگر میں چل سکتا تو ہاتھ پائوں مارتا اور کوشش کرکے صورتِ حال سے نپٹ لیتا۔ خیر اب بھی مایوس نہیں ہونا چاہیے اور خاموشی سے بھیڑیے کا لقمہ نہیں بننا چاہیے۔ پائوں ٹوٹا ہوا ہے تو کیا ہوا۔ جب تک دماغ کام کرتا ہے، ہر مشکل کا حل نکل آتا ہے‘‘۔ اسے ایک خیال سوجھا۔ وہ مشکل سے اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا مگر اسے ایک قدم اٹھانا بھی دوبھر ہورہا تھا۔ جونہی بھیڑیا اس کے نزدیک آیا، گدھے نے کہا ’’اے درندوں کے سردار، سلام‘‘۔
بھیڑیے کو گدھے کی چال عجیب لگی۔ اس نے کہا ’’سلام، تم اس جگہ کیوں سوئے ہوئے تھے؟‘‘ گدھے نے جواب دیا ’’سویا ہوا نہیں تھا، گرگیا تھا۔ میں بیمار اور لاچار ہوں اور اپنی جگہ سے ہل نہیں سکتا۔ میں یہ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ مجھ سے کوئی کام نہیں ہوسکتا۔ نہ میں بھاگ سکتا ہوں، نہ لڑ سکتا ہوں۔ پوری طرح تمہارے اختیار میں ہوں، لیکن مرنے سے پہلے چاہتا ہوں کہ تم سے ایک درخواست کروں‘‘۔
بھیڑیے نے پوچھا ’’کیا؟ کیا چاہتے ہوں؟‘‘
گدھے نے کہا: ’’اے قوی بھیڑیے، یہ بجاکہ میں ایک گدھا ہوں، لیکن گدھے کو بھی جب تک وہ زندہ ہے، اپنی جان پیاری ہے، بالکل ایسے ہی جیسے آدمی کو اپنی جان عزیز ہوتی ہے۔ ہاں مجھے معلوم ہے کہ میری موت سر پر کھڑی ہے اور میرا گوشت تمہاری قسمت میں ہے۔ تم دیکھ رہے ہو کہ اس صحرا میں کوئی متنفس نہیں۔ میں راضی ہوں کہ تم مجھے نوشِ جان کرو۔ مگر میری خواہش ہے کہ ذرا رحم اور ہمدردی سے کام لو اور جب تک میرے ہوش و حواس بجا ہیں اور میں بے ہوش نہیں ہوجاتا، مجھے کھانے میں جلدی نہ کرنا اور خوامخواہ اپنی گردن پر میرے قتل کا گناہ نہ لینا۔ تم دیکھ رہے ہو کہ اب میرے ہاتھ پائوں کانپ رہے ہیں، میں نے بڑی مشکل سے خود کو سنبھال رکھا ہے اور اگلے چند لمحوں میں، میں خود ہی اس دنیا سے رخصت ہونے والا ہوں۔ اس کے عوض میں بھی تمہارے ساتھ ایک نیکی کرنا چاہتا ہوں۔ میں تمہیں ایک ایسی چیز دوں گا جو تمہارے علم میں نہیں مگر جس سے تم ایک کیا، سو گدھے خریدلوگے‘‘۔
بھیڑیے نے کہا ’’میں تمہاری درخواست قبول کرتا ہوں، لیکن جس چیز کا تم ذکر کررہے ہو، کہاں ہے؟ گدھے پیسوں سے خریدے جاتے ہیں، لفظوں سے نہیں‘‘۔
گدھا بولا ’’تم نے درست کہا۔ میں تمہیں خالص سونا دینا چاہتا ہوں۔ ذرا غور سے سنو۔ میرا مالک ایک دولت مند شخص ہے۔ اُس کے پاس اس قدر سونا چاندی ہے کہ بیان سے باہر، اور چوں کہ میں اس کی نگاہ میں بہت عزیز تھا، اس نے میری زندگی کو بہترین طریقے پر استوار کیا۔ اس نے میرے چارے کے لیے سنگ ِ مرمر کی ناند تیار کی۔ میرے طویلے میں منقش اینٹوں کا فرش بنایا۔ میرا توبڑا ریشم سے تیار کیا اور میرا پالان مخمل اور حریر سے بُنا۔ وہ بجائے گھاس اور جو کے ہمیشہ مجھے مٹھائی اور مصری کھلاتا تھا۔ میرا گوشت بھی بڑا میٹھا ہے۔ ابھی تم خود کھا کر دیکھ لوگے۔ چوں کہ وہ مجھے بہت عزیز رکھتا تھا، اس نے میرے ہاتھ پائوں کے نعل بھی خالص سونے سے تیار کیے تھے۔ میں آج تنہا اس کی اجازت کے بغیر سیر کو نکلا تھا کہ یہ معاملہ پیش آگیا۔ خیر جو ہوا سو ہوا، میں نازوں کا پلا گدھا ہوں اور میرے ہاتھ پائوں کے نعل سونے کے ہیں۔ چوں کہ تم ایک اچھے سمجھ دار بھیڑیے ہو، یہ نعل میرے ہاتھ پائوں سے اتار لو اور ان سے سو گدھے خرید لینا۔ آئو دیکھو، کتنے قیمتی نعل لگے ہیں مجھے!‘‘
جس طرح سب مال و منال کی طمع کرتے ہیں، بھیڑیا بھی لالچ میں آگیا اور اس نے گدھے کے نعل دیکھنے کا ارادہ کیا۔ لیکن جونہی وہ گدھے کے سُموں کے قریب گیا، گدھے نے اس لمحے کو غنیمت جانا اور جس قدر قوت کہ اس کے جسم میں تھی، اس نے کام میں لاکر بھیڑیے کے منہ پر اس زور سے دولتی جھاڑی کہ بھیڑیے کے دانت اکھڑ گئے اور اس کا بازو ٹوٹ گیا۔
بھیڑیا درد اور خوف سے چلّایا اور بولا: ’’تم عجیب گدھے ہو‘‘۔
گدھے نے کہا ’’اس میں تعجب کیا ہے؟ یاد رکھو ہر دیوانہ اپنے مطلب میں ہشیار ہوتا ہے۔ اب تم جب تک زندہ ہو، گدھے کے گوشت کی ہوس نہیں کروگے‘‘۔
شکست خوردہ بھیڑیا لنگڑاتا، آہ و زاری کرتا، وہاں سے بھاگ نکلا۔ رستے میں اسے ایک لومڑی ملی۔ اس نے جب بھیڑیے کے خون آلود منہ اور شکستہ پائوں کو دیکھا تو بولی ’’اے سردارِ عزیز، یہ کیا حال بنا رکھا ہے۔ تمہارے ہاتھ اور چہرے کو کیا ہوا؟ تیر انداز شکاری کہاں تھا؟‘‘
بھیڑیے نے کہا: ’’کوئی تیر انداز شکاری نہیں تھا۔ یہ مصیبت مجھ پر خود میری لائی ہوئی ہے‘‘۔
لومڑی نے کہا: ’’خود تمہاری لائی ہوئی ہے؟ کیسے؟ تم سے کیا غلطی سرزد ہوئی؟‘‘
بھیڑیے نے کہا: ’’کیا بتائوں، میں نے سوچا تھا کہ اپنا پیشہ بدل ڈالوں سو یہ مصیبت پیش آئی۔ میرا کام تو مار ڈالنا اور کھال کھینچنا تھا، میں زرگری اور آہن گری کے فن سے واقف نہ تھا۔ آج میں نے خیر سے نعل بندی کا فیصلہ کیا تھا!‘‘
۔(’’بے زبانوں کی زبانی‘‘… حکمت بھری کہانیاں)۔