امریکہ کی افغانستان سے واپسی اور مشکلات

امریکہ جب افغانستان میں داخل ہوا تھا تو اس کے دو بڑے اہم مقاصد تھے بقول ہنری کسنجر (امریکہ کے سابق وزیرخارجہ (1977ء۔ 1973ء) تھے انہوں نے خارجہ پالیسی اور دیگر اہم امور پر کتابیں لکھی ہیں اور ان کی کتاب (On China) اہم کتاب ہے۔ امریکہ نے بنیادی طور پر افغانستان میں اس لیے قدم رکھا تھا کہ القاعدہ کو تقویت بہم پہنچانے والے طالبان کو سبق سکھایا جائے جس نے اسامہ بن لادن کی قیادت میں نائن الیون کے حملے کیے تھے بعد میں افغانستان کی تعمیر نو کا کام سنبھال لیا۔ مگر اب اندازہ ہو رہا ہے کہ افغان عوام کا خمیر کچھ اس نوعیت کا ہے کہ وہ بیرونی قوتوں کے خلاف مزاحمت کی صورت میں ہی کچھ کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں جب بیرونی قوتیں نکل جاتی ہیں تو افغان قوم آپس میں لڑنے لگتی ہے یہ لڑائی مختلف علاقوں پر قبضہ کے لیے ہوتی ہے۔ ہنری کسنجر نےاپنے مضمون میں دو اہم پہلوئوں کی طرف اشارہ کیا ہے دوسرے حصہ کو صرف نظر کرتے ہوئے پہلے حصہ پر کچھ تجزیہ ضروری ہے۔آج امریکہ افغانستان میں کہاں کھڑا ہے صرف اسامہ بن لادن کو قتل کیا ہے اور وہ بھی افغانستان کی سرزمین پر نہیں اسامہ بن لادن کے حوالے سے ان کا موقف امریکی حکمرانوں سے بہت مختلف ہے وہ کہتے ہیں کہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت آپریشنل اعتبار سے زیادہ اہم نہیں ہے یہ علامتی نوعیت کا واقعہ ہے جس نے افغانستان میں اتحادیوں سے برسرپیکار دھڑوں کو دو گروپوں میں تقسیم کر دیا ہے امریکہ کے سامنے بنیادی کام اب بھی یہ ہے کہ وہ کسی بڑے قبضے کو روکتے ہوئے کسی طور افغانستان سے نکل جائے اور جنگ کو کسی حتمی انجام تک پہنچایا جائے۔ امریکہ نے 11 سال طویل لاحاصل جنگ میں اپنی بین الاقوامی حیثیت کو مجروح کرلیا ہے، نہ القاعدہ ختم ہوئی اور نہ طالبان ختم ہو سکے ہیں بلکہ 9 سال کے بعد امریکہ حکومت طالبان سے مذاکرات کی ٹیبل پر چلی گئی تھی ان مذاکرات کو خفیہ رکھا گیا طالبان اور امریکی حکام کی خفیہ ملاقاتیں جرمنی میں ہوتی ہیں ملاقاتوں میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے سامنے بنیادی مسئلہ یہ تھا کہ اس باعزت طور پر محفوظ انخلا سے متعلق امور پر بات چیت ہوئی ہے(ہنری کسنجر کا مضمون نیوز ویک پاکستان جون 2011ءمیں شائع ہوا تھا) امریکہ اور یورپ کے ممالک کی جدید ٹیکنالوجی اور طاقتور فوج نے جدید اسلحہ کے ساتھ شکست کھائی ہے یہ طالبان اورمجاہدین کا جہاد پر یقین اور اعتماد تھا جس نے دنیا کی 5 بڑی سپرپاوروں کے غرور کو خاک میں ملا دیا ہے امریکہ اور یورپ نے اس عرصے میں جس طرح اسلحہ کے ڈھیر لگائے ہیں اور ہزاروں کنٹینرز پورے افغانستان میں بکھرے پڑے ہیں ان کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہے اب ان کی واپسی کا مسئلہ ہے اور فوج کی واپسی مطلوب ہے ہزاروں ٹن اسلحہ کو واپس لے جانا امریکہ کے لیے بڑی مشکلات پیدا کر رہا ہے 30 ارب ڈالر کا اسلحہ اس وقت افغانستان میں موجود ہے۔ 20 ارب ڈالر کا اسلحہ نیلام کرنا چاہتا ہے اور اس اسلحہ کی خریداری یورپ تو نہیں کرے گا اس لیے کہ اسے اس کو واپس لے جانے کے لیے طویل فاصلہ اور اخراجات برداشت کرنے پڑیں گے اس لیے اس اسلحہ کے سب سے اچھے خریدار سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر اور کویت ہو سکتے ہیںیہ تمام ممالک اب مکمل امریکہ کی سرپرستی میں اپنی حکومت کو محفوظ بنا رہے ہیں تیل کے ذخائر سے مالا مال ممالک میں سعودی عرب کی تیل کی آمدن 3 کھرب ڈالر ہے اور غریب مسلمان ملکوں کے عوام کے لیے استعمال نہیں ہو رہی ہے بلکہ امریکی سامراج اور یورپ کے سرمایہ دارانہ نظام پر خرچ ہو رہی ہے۔ مصر میں اخوان المسلمون کی حکومت ختم کرنے میں سعودی عرب نے فوجی جنتا کی کھل کر حمایت کی اس عمل نے اس کا امریکہ و اسرائیل نواز شہرہ بے نقاب کر دیا، اس لیے امریکہ کا اسلحہ اب افغانستان میں ان عرب حکمرانوں کی نگاہ میں انتخاب کا منتظر ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ کو اپنا فوجی سازوسامان اور فوجیوں کی واپسی کے لیے 5 ارب 70 کروڑ ڈالر خرچ کرنا پڑیں گے۔
حوالہ (RETUR-To-SEXIDER Time Magazine 18/3/2013)امریکہ نے اس عرصے میں افغانستان کی سرزمین پر بے شمار فوجی اڈے تعمیر کیے ہیں اور بگرام ائیربیس امریکہ کا سب سے بڑا فوجی اڈہ ہے اس اڈے پر چھانٹی کی جاتی ہے کہ کون سا سامان واپس جائے گا اور کون سا چھوڑا جائے گا۔ کون سوچ سکتا تھا اور کس کے وہم گمان میں تھا کہ امریکہ اور نیٹو کو افغانستان کی عظیم مسلمان قوم بدترین شکست دے دوچار کرے گی۔ پاکستان کا سیکولر اور لیفٹ کو امریکی افواج کی واپسی سے بڑا صدمہ ہو گا ایسا ہی صدمہ سوویت یونین کی شکست سے قوم پرستوں اور بائیں بازو کے دانشوروں، شاعروں اور سیاستدانوں کو ہوچکا ہے۔ افغانستان کے حالات کا تجزیہ کرتے ہوں عالمی استعمار اور اس کے پرستاروں کو ہمیشہ دھچکا ہوا ہے اور ان کے تمام تجزیے اور خواہشات نقش برآب ثابت ہوئے ہیں بلوچستان کی ممتاز قوم پرست سیاستدانوں کے ایک اہم انٹرویو کا حوالہ ضرور دوں گا اس سے اندازہ ہو جائے گا کہ کس طرح سوچتے تھے اور حالات نے ان کے سامنے کیا لاکر رکھ دیا جو ان کے خواب و خیال میں بھی نہیں آتا تھا ملاحظہ فرمائیں۔ جناب بزنجو مرحوم ایک سوال کے جواب میں کہتے ہیں ’’سوویت یونین کی فوجیں واپس چلی جائیں، یہ مسئلہ اتنا آسان نہیں ہے جب تک وجوہات موجود ہوں گے اس وقت تک یہ پڑی رہیں گی اس کا انحصار سوویت یونین پر نہیں ہے بلکہ اس کا انحصار مغربی ممالک اور دوسرے ممالک پر ہے۔ میرے نزدیک افغانستان کا باب ختم سمجھو۔ افغانستان کبھی بھی مغربی ممالک کے زیراثر نہیں جائے گا یہ کہانی اب ختم ہو گئی ہے اور مزید کہتے ہیں۔ آپ سوویت یونین کو تخریبی کارروائیوں اور فوجی قوت کے ذریعہ روس کی سرخ فوج کو شکست نہیں دے سکتے ہیں میرے نزدیک اس طرح کی سوچ انتہائی احمقانہ ہے یہ صرف تلخیاں پیدا کریں گے۔
قارئین محترم! سوویت یونین نہ صرف افغانستان سے چلا گیا بلکہ افغانستان کے مجاہدین نے اسے دنیا کے نقشہ ہی سے رخصت کر دیا اور اس کے پیروکار گم گشتہ ایک اور کیمپ میں جا کھڑے ہوئے ہیں ’’عبرت کا مقام ہے‘‘۔